‘‘
بریگیڈیئر امتیاز بِلّا کی عبرتناک وڈیو کے بارے میں سب سے پہلے جناب عمران شفقت کے وی لاگ کے ذریعے علم ہوا۔ جناب جاوید چودھری کی تحریر نے مزید معلومات فراہم کیں۔ اس سے یاد آ گیا کہ انہی بریگیڈیئر صاحب کے اثاثے جس زمانے میں افشا ہوئے تو اخبارات کے صفحوں کے صفحے ان اثاثوں کی تفصیلات سے بھر گئے تھے۔ انسانوں کی اکثریت کو یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ دولت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب یہ حد پار ہو جائے تو دولت شیرینی سے زہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بریگیڈیئر امتیاز بِلا کے بیٹے اس کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ خدا کی سنت کے مطابق ہے اور منطق کے مطابق بھی!! وہ کہانی ہم سب نے سنی ہوئی ہے جس میں ایک آدمی کو کہا جاتا ہے کہ گھوڑے پر چڑھ کر جتنا بڑا دائرہ لگا سکتے ہو‘ لگاؤ۔ دائرے کے اندر جتنی زمین آئے گی وہ تمہاری ہو گی۔ اس نے بہت بڑا دائرہ لگایا۔ کئی کوس! کئی میل! واپس پہنچا تو تھکاوٹ اتنی تھی کہ مر گیا۔ انسانوں کی اکثریت زندگی بھر دائرے کو بڑا کرنے میں لگی رہتی ہے۔ حرام دیکھتی ہے نہ حلال! ایک اور صاحب بھی تھے‘ اسی قبیلے کے فرد‘ وہ دولت امریکہ بھیجتے رہے۔ پاکستان سے فارغ ہو کر وہاں پہنچے کہ جمع کی گئی دولت سے لطف اندوز ہوں تو صاحبزادے نے سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ وہی صاحب تھے جنہیں ضیاء الحق نے ایک مغربی ملک میں سفیر تعینات کیا تو اُس مغربی ملک نے پہلے کانوں کو ہاتھ لگائے‘ پھر ہاتھ جوڑ کر سفارت قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ پھر شرقِ اوسط کے ایک ملک نے بھی معذرت کر لی۔ ان کی بیگم صاحبہ کی ''ادبی‘‘ تصنیف کی تقریبِ رونمائی بھی ایک عظیم الشان واقعہ تھا۔
اصل سوال اور ہے۔ افسوس! ہم میں سے بہت کم لوگ اس اصل سوال پر غور کرتے ہیں! اس قماش کے آدمی کو‘ جسے اس کے اپنے ادارے نے سزا کے طور پر نکال دیا تھا‘ سب سے بڑے صوبے کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگا دیا گیا۔ یہ تعیناتی کس کے حکم پر ہوئی؟ بعد میں اسی شخص کو ڈائریکٹر جنرل آئی بی لگا دیا گیا؟ یہ کس کا فیصلہ تھا؟ آج جس وڈیو میں بریگیڈیئر امتیاز کو اس کا بیٹا گھر سے نکال رہا ہے اور پولیس کو کہہ رہا ہے کہ اسے یعنی اس کے باپ کو گرفتار کرے‘ اُس وڈیو کو دیکھ کر ہر شخص ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ یہ کیے کا پھل ہے۔ یہ مکافاتِ عمل ہے۔ تو پھر انتظار کرنا چاہیے کہ جس جس حکمران نے امتیاز بِلا کو‘ اس کے جرائم جانتے ہوئے بھی‘ اعلیٰ پوسٹوں پر فائز کیا‘ وہ بھی مکافاتِ عمل کی چکی میں پیسا جائے گا۔ کیے کا پھل وہ بھی کھائے گا اور ضرور کھائے گا۔ یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے جرائم معاف ہو جائیں گے؟ جرائم بھی ایسے جو قومی نوعیت کے ہیں۔ ایک مجرم کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور پھر ڈی جی آئی بی لگا دینا بھیانک قومی جرم نہیں تو کیا ہے؟؟
پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے اور پھر عرض ہے۔ بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ بہت سے جرائم کی سزا دنیا میں اس لیے ملتی ہے کہ عقلمند لوگ اس سے سبق سیکھیں اور اِن جرائم سے اجتناب کریں۔ بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی چاپلوس نیچر دیکھ کر اپنے تئیں بہت چالاکی سے کام لیا اور میرٹ کو پامال کر کے اسے آرمی چیف لگایا کہ جھک کر ملتا ہے۔ فرمانبردار رہے گا۔ اور یہ کہ مولوی آدمی ہے‘ نمازیں پڑھتا رہے گا اور حکومت سے تعَرّض نہیں کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے نیچے سے اٹھایا اور اوپر لے آئے۔ کون جانتا تھا کہ جب بھٹو فائل پر جنرل ضیاء الحق کی پروموشن اور تعیناتی کی منظوری دے رہے تھے اُس وقت اصل میں وہ اپنی پھانسی کے پروانے پر دستخط کر رہے تھے۔ پاکستان کی خود غرض‘ ظالم بیورو کریسی نے وزرائے اعظم کو ایک خاص سبق پڑھایا ہوا ہے کہ یہ آپ کی صوابدید ہے‘ جسے بھی چاہیں چیف بنا دیں۔ مگر یہ ایک دھوکا ہے۔ صوابدیدی اختیار کا بنیادی اصول یہ ہے کہ صوابدیدی اختیار انصاف کے اصولوں کے مطابق استعمال ہو گا اور اگر کسی کو سنیارٹی کے باوجود نظر انداز کیا جائے گا‘ تو اس کی وجوہ فائل پر ریکارڈ کرنا ہوں گی۔ صوابدیدی اختیار کا یہ مطلب نہیں کہ آپ گھوڑے کے کھونٹے پر گدھے کو باندھ دیں اور گدھے کا پالان گھوڑے کی پیٹھ پر ڈال دیں۔ فرنگی زبان میں کہتے ہیں:
Discretion is to be applied judiciously
۔ کہ صوابدیدی اختیار انصاف کے ساتھ برتا جا ئے گا!
اصل سوال کی طرف واپس جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا‘ کیا اس کی ذمہ داری ذوالفقار بھٹو پر بھی عائد ہو گی؟ اس کا جواب تو اسی دن ملے گا جس دن میزان رکھی جائے گی۔
تُلیں گے کس ترازو پر یہ آہیں اور آنسو
اسی خاطر تو میں روزِ جزا کو مانتا ہوں
بہرطور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جو بویا‘ وہ ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ افغانستان کے اندر افغانوں کی مدد اور بات ہے اور اپنے ملک کو غیر ملکی جنگجوؤں سے بھر دینا‘ بارڈر‘ ویزا‘ پاسپورٹ‘ سب کچھ ختم کر دینا اور پورے ملک کو غیر ملکیوں کی چراگاہ بنا دینا ایک بالکل مختلف بات ہے۔ اس وطن کُش کام میں جنرل صاحب کے ساتھ وہ عسکری اور مذہبی طالع آزما بھی شامل تھے جن کے اپنے بیٹے کاروبار میں آسمان کو چھو رہے تھے اور وہ دوسروں کے بیٹوں کو مذہب کے نام پر جنگ کا ایندھن بنا رہے تھے۔
پھر ایکشن ری پلے ہوا۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور اس طرح دہرایا کہ خود تاریخ کو شرم آ گئی۔ بھٹو کے انجام سے کسی نے عبرت پکڑی نہ ضیاء الحق کے انجام سے! بڑے میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو نیچے سے اٹھایا اور ٹاپ پر لے آئے۔ میرٹ کو پسِ پُشت ڈال دیا۔ مشورہ جس کا بھی تھا‘ ذمہ داری وزیراعظم کی تھی! اور وزیراعظم ہی نے اپنے اس فعل کے نتائج بھگتے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ہر شے میں مذہب کو داخل کرتے رہے۔ پرویز مشرف اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے مذہب کو ہر شے سے خارج کرتے رہے۔ دوست نوازی میں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے اور بے شمار بد دعائیں سمیٹے‘ دنیا سے چلے گئے۔
پھر وہی سوال! وہی سوال جو سب سوالوں کی جڑہے۔ قاتل‘ ڈاکو اور دوسرے مجرم اپنے اعمال کی سزا پاتے ہیں۔ کچھ دنیا میں بھی اور تمام کے تمام آخرت میں! مگر جو حکمران ان قاتلوں اور ڈاکوئوں کو اعلیٰ مناصب پر بٹھاتے ہیں‘ انہیں ان قاتلوں اور ڈاکوئوں کے جرائم کے حوالے سے ''شریک مجرم‘‘ کیوں نہ ٹھہرایا جائے؟ اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا اور ہمارے سامنے ہو گا۔ کہ بقول فیض صاحب:
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
پس نوشت: صدر آصف علی زرداری کے دورۂ لاہور کیلئے ایوانِ صدر نے سکیورٹی کیلئے 20 گاڑیاں مانگ لیں۔ 20 گاڑیوں میں پانچ بم پروف گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی سکیورٹی کیلئے 14 سکیورٹی آفیشل بھی لاہور آئیں گے‘ سکیورٹی آفیشل صدر آصف علی زرداری کی لاہور آمد سے دو دن قبل لاہور پہنچیں گے‘ صدرِ مملکت کو پنجاب حکومت کی طرف سے مزید سکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔ (ایک خبر۔ روزنامہ دنیا)
No comments:
Post a Comment