Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 25, 2024

ہم ایسی پہیلی ہیں جسے کوئی سہیلی نہیں بُوجھ سکتی


تین مزدور تھے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے۔ کھانا کیا ہوتا! سوکھی روٹی اور رات کا بچا کھچا سالن! تینوں نے صلاح مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بیویوں کی کھنچائی کریں گے۔ آئندہ پراٹھے پکا کر ساتھ بھیجیں گی۔ مگر اس کھنچائی کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر انہوں نے بیویوں کو فائنل وارننگ دی کہ پراٹھے نہ ساتھ کیے تو خودکشی کر لیں گے۔ ان تینوں مزدوروں میں ایک مزدور سکھ تھا۔ آخری وارننگ کے بعد اگلی دوپہر کھانے کا وقفہ ہوا تو دو کے کھانے میں پراٹھے تھے اور سکھ کے کھانے میں وہی چپاتی! سکھ نے تیسری منزل سے چھلانگ لگائی اور خودکشی کر لی۔ اس کی بیوہ بَین کرتی تھی اور کہتی تھی: ہائے چپاتی اپنے لیے پکائی بھی اس نے خود ہی تھی!
ہم پاکستانیوں کا حال بھی اُس سکھ جیسا ہے۔ رات دن ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ دُکھوں کی پٹاری کھول کر سرِ راہ بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے اور حیران ہو رہی ہے۔ سارے مسائل کا حل ہماری اپنی جیب میں ہے۔ ہم خود کشی کر نے کو تیار ہیں مگر مسائل حل نہیں کریں گے!
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آئی پی پیز کا ہے۔ یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں! یہ کمپنیاں پیداوار کے حساب سے پیسے نہیں لے رہیں بلکہ کپیسٹی کے حساب سے لے رہی ہیں۔ مثلاً ایک کمپنی اگر سو میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے مگر عملاً اس کی پیداوار صفر ہے تو حکومت سے پیسے سو میگاواٹ ہی کے لے رہی ہے۔ یہی رونا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے رویا ہے۔ انہوں نے ہولناک اعداد وشمار دیے ہیں کہ رواں سال کے دوران‘ پہلے تین ماہ میں آئی پی پیز کو چار سو پچاس ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کی پیداوار صفر ہے۔ اس ظلم کا سارا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو بالکل کر سکتی ہے۔ کیا یہ چالیس خاندان‘ جو اِن کمپنیوں کے مالک ہیں‘ غیر ملکی ہیں۔ ارے بھائی! ان میں سے بہت سے تو خود حکومت کا حصہ ہیں! مگر حیرت ہے کہ قیامت کا شور برپا ہے اور اہلِ اختیار اس شور کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ کوئی میٹنگ ان کمپنیوں سے کی جا رہی ہے نہ عوام کے احتجاج کو خاطر میں لایا جا رہا ہے۔ تو پھر یہ مسئلہ کیا اقوام متحدہ حل کرے گی یا سعودی اور چینی حکومتیں؟ نیت ہو تو ان کمپنیوں سے مذاکرات کر کے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ہاں! اگر ''مفادات‘‘ آڑے آ رہے ہیں‘ تو اور بات ہے۔ نیت کی خرابی کا علاج کوئی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں! شاید یہ کہاوت غلط ہے۔ یہ نیت کی خرابی ہے جو لاعلاج ہے۔ علاج کرنے والے مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ سُن رہے ہیں۔ پانی سر سے گزر جائے گا تو جاگیں گے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ حیرت ہے کہ گوہر اعجاز صاحب کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ شورش کاشمیری ایک شعر پڑھا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے۔ معلوم نہیں کس کا ہے تاہم ہمارے حال پر منطبق ہو رہا ہے۔
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
افغان سرحد کا معاملہ بھی ہم نے خود پیچیدہ کیا۔ پالیسیاں اتنی بار تبدیل ہوئیں کہ آج ڈور کا سرا نہیں مل رہا۔ کیا افغانوں نے کہا تھا کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے؟ کیا فاتح جلال آباد جیسے مضحکہ خیز القابات افغانوں نے ایجاد کیے تھے؟ کیا ضیاالحق کے تاریک عہد میں ہماری افغان پالیسی افغانستان نے بنائی تھی؟ سارا کیا کرایا ہمارا اپنا ہے اور ان سیاستدانوں کا ہے جو ضیاالحق کی شوریٰ میں شامل تھے۔ ادھر ادھر دیکھیے‘ ان میں سے کئی چہرے آج کے پیش منظر پر بھی آپ کو دکھائی دیں گے۔ آج ہم شور مچا رہے ہیں کہ جس طرح دوسرے ملکوں کے لوگ ویزا لے کر آتے ہیں‘ افغان بھی اسی طرح آئیں۔ تو ویزے کی شرط بھی تو ہم ہی نے ختم کی تھی۔ اس سرحد کی حرمت ہم نے خود ہی خاک میں ملائی تھی۔ آج ہم دہائی دے رہے ہیں کہ چالیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کر کے تھک چکے ہیں۔ ان چالیس لاکھ کو پورے ملک میں ہم نے خود ہی پھیلایا تھا اور پورے ملک کی ٹرانسپورٹ اور بزنس کو ہم نے خود ہی پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ آج بھی ہم چاہیں تو ویزا کی پابندی نافذ کر سکتے ہیں مگر پالیسیاں ایک ہاتھ میں تو ہوں! جہاں سٹیک ہولڈرز کئی ہوں وہاں پالیسی بنے گی کیا اور نافذ کیا ہو گی؟ سمگلنگ ایرانی تیل کی ہو یا دوسری اشیا کی‘ اشیا غیر قانونی طور پر اندر آ رہی ہیں یا باہر جا رہی ہیں‘ قصور تو پاکستانیوں ہی کا ہے! اگر سختی کرنے سے ڈالر تین سو سے نیچے آ سکتا ہے اور ایرانی تیل کی سمگلنگ کم ہو سکتی ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ سب کچھ ہمارے اپنے اختیار میں ہے! جو سمگلنگ ہمارے اپنے اقدامات سے کم ہو سکتی ہے وہ ختم بھی تو کی جا سکتی ہے۔ اور ہم ختم کرنا نہیں چاہتے تو اس کی ذمہ داری نائیجیریا‘ زیمبیا یا گیمبیا پر تو نہیں ڈالی جا سکتی!
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہماری افغان پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج جن افغانوں کے لیے ہم نے قربانیاں دیں‘ وہ بھی ہم سے ناراض ہیں۔ جن طالبان کے لیے دنیا بھر کو ناراض کیا‘ وہ آج حکومت میں آکر ہمارے ہی نہیں ہو رہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نام نہاد پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہیں نہ اپنا محاسبہ! افغان کیوں ناراض ہیں؟ آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ جرمنی میں انہوں نے ہمارے قونصلیٹ پر حملہ کیا۔ کیوں؟ کیا ہم اس کی وجوہ جاننے کی کوشش کریں گے ؟ یقیناً نہیں! ہماری پالیسیوں کے بارے ہی میں شاید کسی نے کہا ہے: یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا
ہزاروں لاکھوں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ افغانوں کو دیے گئے‘ کیا اس کی ذمہ داری برازیل کی ریاست پر ڈالی جائے گی؟ آج یواے ای نے پاکستانیوں کے لیے اپنی ویزا پالیسی سخت کر دی ہے۔ ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بھکاریوں کی کثیر تعداد پاکستان سے آ رہی ہے۔ تو ہمارے سفیر صاحبان نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے کیا کیا؟ ہماری اپنی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ ذمہ دار نہیں تو کیا ارجنٹائن کی حکومت ذمہ دار ہے؟ کتنے مجرموں کو اس حوالے سے عبرتناک سزا دی گئی ؟ یو اے ای نے مبینہ طور پر یہ شکایت بھی کی کہ جب وہاں پچھلے دنوں سیلاب آیا تو وہاں‘ یعنی یو اے ای میں‘ رہنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر میزبان ملک کی برائیاں کیں۔ اور اس قسم کے فتوے جاری کیے کہ مندر بنانے پر عذاب آیا ہے۔ یہ بھی ہم پاکستانیوں کی ادائے خاص ہے کہ جہاں رہتے ہیں وہاں کی خوب خوب برائیاں کرتے ہیں۔ تمام نہیں‘ مگر ایسا کرنے والوں کی تعداد کم بھی نہیں۔ ایک صاحب میرے جاننے والے میلبورن میں رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ دراز ریش ہیں۔ ہنس ہنس کر بتا رہے تھے کہ داڑھی کے بال ادھر ادھر پھیلا دیتے ہیں جسے دیکھ کر سفید فاموں کے بچے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں! پچیس سال سے وہاں‘ پورے خاندان کے ساتھ‘ رہ رہے ہیں۔ سوشل سکیورٹی بھی لے رہے ہیں۔ مگر ہر نئے آنے والے کو کوستے ہیں کہ کیوں آئے ہو؟ یہ ملک اچھا نہیں ہے!! پتا نہیں ہم کیا چیز ہیں! حکومتی سطح ہو یا قومی یا انفرادی‘ ہمارا رویہ‘ ہمارا مائنڈسیٹ‘ ہماری سوچ‘ ایسی پہیلی ہے جسے کوئی سہیلی نہیں بوجھ سکتی!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com