جناب عطا الحق قاسمی نے ایک دلچسپ اور بالکل نیا موضوع چھیڑا ہے کہ کون کون سے ادیبوں اور شاعروں کا خاندانی پس منظر مذہبی ہے۔ مجھے اس ضمن میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق یاد آ رہے ہیں۔ وہ 1901ء میں پیدا ہوئے اور 1985ء میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ انہوں نے پہلے مدرسہ میں تعلیم پائی۔ عربی‘ فارسی پر عبور حاصل کیا۔ روایتی معنی میں عالم دین بنے۔ پھر گردشِ زمانہ انہیں جدید تعلیم کی طرف لائی۔ نئے علوم سیکھے۔ کلکتہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور مذہب کی وہ تعبیر کی جو روایتی ڈگر سے ہٹ کر تھی۔ معرکہ آرا کتب لکھیں جن میں ''دو اسلام‘‘ اور ''دو قرآن‘‘ بہت مشہور ہوئیں۔ ان تصانیف نے تہلکہ برپا کر دیا۔ کچھ لوگ ان کتابوں کے بہت گرویدہ ہوئے۔کچھ سخت مخالف!
ڈاکٹر غلام جیلانی برق ہمارے علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بسال نامی بستی میں پیدا ہوئے جو پہلے ضلع اٹک (کیمبلپور) کی تحصیل پنڈی گھیب کا حصہ تھی اور اب تحصیل جنڈ کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب مدرسہ کے زیر اثر تھے تو باریش تھے۔ پھر جب خیالات بدلے تو شیو کرنا شروع کیا۔ ہمارے علاقے میں ان کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہیں جو ہم نے علاقے کے بڑوں سے سنیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب انہوں نے داڑھی صاف کی تو اسے لفافے میں بند کر کے اپنے اُن استاد صاحب کو بھیج دی جو مدرسہ میں انہیں پڑھاتے تھے۔ میں نے یہ سطور لکھتے ہوئے اپنے سینئر اور معروف دانشور پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے اس روایت کے بارے میں استفسار کیا۔ ملک صاحب گورنمنٹ کالج کیمبلپور میں ڈاکٹر برق صاحب کے شاگرد رہے ہیں۔ ملک صاحب نے اس روایت کی تصدیق نہیں کی۔ میرا گمان بھی یہی ہے کہ یہ واقعہ اصلی نہیں‘ گھڑا ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ غالباً درست ہے جو میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔ دیہی ماحول میں جس کا بھی نام جیلانی ہو‘ اسے جانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایک بار ان کے گاؤں کے باہر کھیتوں میں کسان کام کر رہے تھے۔ کسانوں نے نوٹ کیا کہ دور سے ایک شخص کوٹ پتلون میں ملبوس‘ ہَیٹ پہنے گاؤں کی طرف چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی منظر تھا۔ عام طور پر انسپکٹر آف سکولز یا اے ڈی آئی (اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر) قسم کے بابو کوٹ پتلون پہنے آتے تھے۔ کسان اپنے اپنے ہل اور درانتیاں رکھ کر کھڑے ہو گئے کہ آنے والے افسر کی آؤ بھگت کریں گے۔ جب وہ شخص نزدیک آیا تو وہ تو برق صاحب تھے۔ کسان کہنے لگے: اوئے کام دوبارہ شروع کر دو‘ یہ تو اپنا جانی ہے۔ ڈاکٹر برق طویل عرصہ گورنمنٹ کالج کیمبلپور میں پڑھاتے رہے۔ اس کالج کا شمار پنجاب کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک اور منو بھائی جیسے مشاہیر اس کالج میں پڑھتے رہے۔ ڈاکٹر برق صاحب کے ساتھ یہاں مشہور و معروف دانشور پروفیسر اشفاق علی خان بھی استاد اور پرنسپل رہے۔ یہ یقیناً اس کالج کا زریں عہد رہا ہو گا۔ یہ لطیفہ بھی عام ہے کہ ان دونوں میں سے ایک اکثر اس خواہش کا اظہار کرتا کہ وہ ایک صوفہ سیٹ لینا چاہتا ہے۔ دوست کہتے کہ لے لو۔ مگر وہ کہتا کہ یار! میں ایک قالین بھی لینا چاہتا ہوں۔ پھر بات آئی گئی ہو جاتی۔ چند دن کے بعد پھر یہی مکالمہ دہرایا جاتا۔ ایک دن تنگ آکر دوستوں نے کہا کہ یوں کرو‘ پہلے قالین لے لو۔ پھر اسے بیچ کر صوفہ لے لینا۔ پروفیسر اشفاق علی خان گورنمنٹ کالج اصغر مال میں ہمارے بھی پرنسپل رہے۔ وہاں سے وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ہو کر گئے۔ ان کے صاحبزادے کامران علی خان اصغر مال کالج میں میرے کلاس فیلو تھے۔ وہ سی ایس ایس کر کے انفارمیشن سروس میں آ گئے تھے مگر حیرت ہے کہ کالج سے نکلنے کے بعد ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی جو تصنیف ''دو اسلام‘‘ اور ''دو قرآن‘‘ کی طرح مشہور نہ ہو سکی‘ اس کا نام'' حرفِ محرمانہ‘‘ ہے۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے مگر ختم نبوت کے موضوع پر اس سے زیادہ جامع اور ٹھوس کتاب نظر سے نہیں گزری۔ برق صاحب کی اور بھی تصانیف ہیں۔ ایک بار سننے میں آیا تھا کہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن اسلام آباد والے ان کی تصانیف کو از سر نو چھاپنے لگے ہیں۔ نہیں معلوم یہ بیل منڈھے چڑھی یا نہیں! اردو کے نامور محقق ڈاکٹر اسلم قریشی کالج میں ہمارے استاد تھے۔ ان کے صاحبزادے اعجاز قریشی مرحوم ہمارے کلاس فیلو تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج اٹک میں پروفیسر تھے اور ڈاکٹر برق کے داماد۔ چند برس پہلے سڈنی میں اعجاز مرحوم کی بیٹی سے ملاقات ہوئی‘ جو ڈاکٹر ہے۔ وہ برق صاحب کی نواسی ہوئی۔ جو قارئین ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے تفصیلی حالات جاننے کے متمنی ہیں انہیں ایک تو پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی خود نوشت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بد قسمتی سے یہ خود نوشت تادمِ تحریر میری نظر سے نہیں گزری مگر ملک صاحب نے مجھے آج ہی بتایا ہے کہ اس میں انہوں نے اپنے استاد برق صاحب کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ 2015ء کے اپریل اور مئی میں جاوید چودھری صاحب نے بھی برق صاحب پر چار‘ پانچ تفصیلی کالم لکھے تھے۔ ان میں بھی بہت قیمتی معلومات ہیں۔ برق صاحب کی ذاتی لائبریری عظیم الشان تھی۔ نجانے اس پر کیا گزری۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ادھر بندہ گیا‘ اُدھر اس کی لائبریری فُٹ پاتھ پر آ گئی۔
میرے ایک کلاس فیلو اور دوست بھی‘ جو ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے‘ اور شاعر تھے‘ بالکل دوسری طرف نکل گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ پیروں اور مولویوں کے بچے جب مذہب سے بغاوت کریں تو انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دوست بھی ایسے ہی تھے۔ بوجوہ ان کا اسم گرامی نہیں لکھ رہا۔ ہم ہوسٹل میں اکٹھے رہتے تھے۔ ایک بار میں ہوسٹل کے حجام سے بال کٹوا رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ سر کے بال کاٹنے کے بعد وہ میری داڑھی کے درپے ہے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ مگر جب اس نے استرے سے میری داڑھی پر حملہ کرنا چاہا تو میں نے اسے ڈانٹا اور اُٹھ کر بازو سے پکڑ کر پوچھا کہ یہ تم کیا کرنا چاہتے تھے۔ بیچارہ ڈر گیا اور بتا دیا کہ آپ کے فلاں دوست نے کہا ہے کہ آپ کی داڑھی بڑھ گئی ہے اور چونکہ آپ کا ذہنی توازن درست نہیں اس لیے زبردستی آپ کی داڑھی صاف کرنی ہے۔ تاہم میرے یہ مرحوم دوست آخری ایام میں بہت رقیق القلب ہو گئے تھے اور نعت اور منقبت پڑھتے ہوئے اکثر رو پڑتے تھے۔ خدا ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے۔ غالباً یہ شعر احسان دانش کا ہے:
آ جاؤ گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
عدم نے کہا تھا:
انکار کس کا کرتے ہو وہ اگر نہیں
انکار جس کا کرتے ہو تم وہ خدا تو ہے
بہرطور‘ جلد یا بدیر‘ ہر ایک کو خدا یاد آ ہی جاتا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی دس سال الحاد اور تشکیک کے خارزار میں بھٹکتے رہے۔ پھر پلٹے تو انگریزی میں بھی کلام پاک کی تفسیر لکھی اور اُردو میں بھی! یہ مشہورِ عالم رباعی اصل میں نہیں معلوم کس کی ہے مگر ابو سعید ابو الخیر سے منسوب ہے اور ان کی رباعیات میں شامل ہے۔
باز آ‘ باز آ‘ ہر آنچہ ہستی باز آ؍ گر کافر و گبر و بُت پرستی‘ باز آ
این درگہ ما درگہ نومیدی نیست؍ صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جا واپس آ جا۔ تو جو کچھ بھی ہے واپس آ جا۔ کافر ہے یا آتش پرست یا بتوں کا پجاری‘ واپس آ جا۔ ہماری بارگاہ کا مایوسی سے کوئی تعلق نہیں۔ سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے‘ تو کوئی بات نہیں! واپس آ جا۔
No comments:
Post a Comment