Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, July 29, 2024

سہراب سپہری —سرحد پار کا ادبی منظرنامہ


انگریزی ادب کے تراجم اردو میں عام ہیں۔بد قسمتی سے فارسی، عربی اور ترکی زبانوں کے تازہ ترین ادبی شاہکار ہم تک کم ہی پہنچتے ہیں! بہت کم ! فارسی سے ہمارا تاریخی اور تہذیبی  تعلق ہے مگر یہ تعلق  رومی، سعدی، حافظ ، عطار اور دیگر کلاسیکی شعرا تک محدود ہے۔ 


سہراب سپہری ایران کے اُن پانچ شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے  شاعری میں نئے رجحانات سَیٹ کیے اور فارسی شاعری کا پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ باقی چار شعرا    نیما یوشیج، احمد شاملو، مہدی اخوان ثالث اور فروغ فرخ زاد ہیں۔  سہراب سپہری ۱۹۲۸ ء میں کاشان میں پیدا ہوئے۔کاشان وسط ایران میں آجکل اصفہان صوبے کا حصہ ہے۔ ان کے خاندان کا ادب اور آرٹ سے گہرا تعلق تھا۔ سہراب نے بطور مصور بھی شہرت پائی۔کچھ عرصہ ٹیچر رہے۔ یورپ گئے ۔ مالی مشکلات کی وجہ سے وہاں مزدوری بھی کرنا پڑی۔  ۱۹۸۰ ء میں تہران میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر صرف  اکاون برس تھی۔ تدفین کاشان میں ہوئی۔ سہراب زندگی بھر مجرّد ہی رہے۔فارسی کے نامور سکالر اور استاد پروفیسر ڈاکٹر  معین نظامی نے  سہراب سپہری کی نظموں کا ترجمہ کمال مہارت سے کیا ہے اور یوں کیا ہے کہ ترجمے پر طبعزاد ہونے کا گمان ہوتا ہے۔  معین نظامی  پنجاب یونیورسٹی میں  شعبۂ فارسی کے صدر رہے۔ پھر اورینٹل کالج کے پرنسپل رہے۔ وہ خود بھی ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔ سہراب سپہری کی نظموں کے تراجم پر مشتمل یہ کتاب  حال ہی میں “ آئینوں کی جھیل “ کے عنوان سے  شائع ہوئی ہے۔ جدید اردو ادب میں یہ ایک وقیع اضافہ ہے۔  کتاب میں ہر نظم کا فارسی  متن بھی ساتھ  ہے۔  اس میں سے سہراب کی شاہکار طویل نظم “ صدائی پائی آب” ( پانی کے قدموں کی چاپ ) کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ 


میں کاشان کا رہنے والا ہوں  

  میرے احوال بُرے  نہیں ہیں

  ٹکڑا بھر روٹی میسر ہے ، تھوڑی بہت سمجھ بوجھ، سوئی کی نوک جتنا ذوق   ماں ہے جو درختوں کے پتوں سے بھی اچھی ہے

   دوست ہیں جو چلتے ہوئے پانی سے بھی بہتر ہیں 

 میں کاشان کا ہوں 

 میرا پیشہ مصوری ہے

  کبھی کبھار میں رنگوں کا کوئی پنجرہ بناتا ہوں اور اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں

  کہ اس میں قید لالہ کے پھولوں کے گیت سے

  آپ کی تنہائی کا دل کچھ بہل جائے

  میں کاشان کاہوں

  میرا نسب شاید پہنچتا ہے

  ہندوستان میں کسی جڑی بوٹی تک ، کاشانی آثار قدیمہ کے کسی مٹی کے برتن تک

  میرا نسب شاید بخارا کی کسی رقاصہ سے جا ملتا ہے

  میرا باپ ابا بیلوں کے دو بار آنے سے پہلے ، دو برفباریوں سے پہلے

   چاندنی میں دو بار سونے سے پہلے

   زمانوں پہلے مرا ہے

  میرے باپ کی موت کے وقت آسمان نیلا تھا

  میرے باپ کی موت کے وقت سارے  چوکیدار شاعر تھے

  میرا باپ مصوری کرتا تھا

  ستار  بناتا تھا، بجاتا بھی تھا

  اس کا خط بھی بہت اچھا تھا 







ہمارا باغ دانائی کے سائے کی طرف تھا

  ہمارے باغ میں احساس اور  سبزے میں گرہ لگتی تھی

  ہمارا باغ پنجرے، آئنے اور نظروں کے ملاپ کا نقطہ تھا

   ہمارا باغ شاید خوش نصیبی کے سبز دائرے کی ایک قوس تھا

   زندگی کچھ ایسی تھی جیسے عید کی ایک بوچھاڑ، بگلوں بھرا ایک چنار

  بھرپور آزادی تھی  






  زندگی اس دور میں موسیقی کا تالاب تھی

     میں نے اپنا سامان باندھا ، ہلکے پھلکے خیالات کے شہر سے نکل گیا

  میں نے روئے زمین پر کئی چیزیں دیکھیں

    ایک لڑکا دیکھا جو  چاند کو سونگھ رہا تھا  

 ایک پنجرہ دیکھا جس کا کوئی دروازہ نہیں تھا، اس میں روشنی  پھڑپھڑا رہی تھی /  لکڑی کی ایک سیڑھی جس سے عشق ملکوت کی چھت پر جارہا تھا

   میں نے ایک عورت دیکھی جو دوری میں روشنی کوٹ رہی تھی

  دوپہر کو ان کے دسترخوان پر روٹی تھی ، سبزی تھی ، شبنم کا ڈونگا تھا ،محبت کا گرم گرم پیالہ تھا

   میں نے ایک بھکاری دیکھا ، وہ در بہ در جا کر پرندوں کے چہچہوں کی بھیک مانگتا تھا

      میں نے ایک میمنا دیکھا ، پتنگ کھا رہا تھا 

 نصیحت کی چراگاہ میں میں نے ایک بیل دیکھا ، پیٹ بھرا 

  میں نے ایک کتاب دیکھی ، اس کے الفاظ سارے کے سارے بلّور کے 

 میں نے ایک کاغذ دیکھا بہار کی جنس کا

  میں نے ایک عجائب گھر دیکھا سبزے سے دور

    ایک مسجد پانی سے دور  

  ایک مایوس فقیہ کے سرہانے میں نے سوالوں سے بھرا ہؤا ایک کوزہ دیکھا    میں نے ایک خچر دیکھا جس پر انشا پردازی لدی ہوئی تھی

   میں نے ایک اونٹ دیکھا جس پر نصیحتوں اور ضرب الامثال کا خالی ٹوکرا لدا ہؤا تھا

  میں نے ایک صوفی دیکھا جس پر”   تننا ہا یا ہُو “  لدا ہؤا  تھا 

 میں نے ایک ریل گاڑی  دیکھی جو فقہ لادے لیے جاتی تھی اور کتنی بوجھل بوجھل چل رہی تھی

   میں نے ایک ریل گاڑی دیکھی جو سیاست ڈھو رہی تھی اور کتنی خالی جا رہی تھی

   میں نے ایک ریل گاڑی دیکھی کنول کے بیج اور پرندوں کی چہکاریں لے جاتی /

  میری ماں اُدھر کچھ فاصلے پر  

  دریا کی یاد داشت میں  پیالیاں دھو رہی تھی      

  شاعری یونان کی گلی میں جارہی تھی

    درّۂ خیبر میں ہوا تاریخ کی گھانس پھونس کا ایک گٹھا مشرق کی طرف کھسکا رہی تھی  

  کشمیر کی پُر سکون جھیل پر ایک کشتی پھول لیے جاتی تھی  

  بنارس  کے ہر کوچے میں ایک ابدی چراغ جل رہا تھا  








میں کاشان کا ہوں  

  لیکن میرا شہر کاشان نہیں ہے   

  میرا شہر گم ہو گیا ہے

  میں نے رات کے دوسری طرف ایک گھر بنا لیا ہے  

  میں زمین کے آغاز کے قریب ہوں

  میں پھولوں کی نبض محسوس کرتا ہوں  

  میں پانی کے گیلے مقدر اور درختوں کے سبز معمول سے آشنا ہوں

   میری روح کم عمر ہے

   میری روح کو کبھی  شدت شوق میں  کھانسی ہونے لگتی ہے

     میری روح بیکار ہے 

 بارش کے قطروں ، اینٹوں کی درزوں کو گنتی رہتی ہے

    میں نے صنوبر کے دو درختوں کو آپس میں دشمن نہیں دیکھا  

  میں نے نہیں دیکھا کہ بید کا کوئی درخت  زمین کو اپنا سایہ بیچتا ہو

    انار کا درخت کوّے کو اپنی ٹہنی مفت پیش کرتا ہے  

 خشخاش کے ایک پودے نے مجھے ہونے کے بہاؤ میں دھویا ہے  /








 زندگی ایک بھلی رسم ہے

  زندگی کے بال و پر موت کی وسعت جتنے ہیں

   وہ عشق کے برابر جست لگاتی ہے  

  زندگی ایسی چیز نہیں ہے جو معمولات کے طاقچے کے پاس میرے اور تمہارے ذہن سے نکل جائے

  زندگی گرمیوں کے بد ذائقہ  منہ میں کالے انجیر کا پہلا پھل ہے 

  زندگی کسی کیڑے کی آنکھوں  میں درخت کی جسامت ہے

    زندگی اندھیرے میں چمگادڑ کا تجربہ ہے  /  

زندگی کسی مہاجر پرندے کا عجیب و غریب احساس ہے

    زندگی کسی پُل کی نیند میں گونجتی ، ریل گاڑی کی سیٹی ہے  

  زندگی ہوائی جہاز کے بند شیشے سے کسی باغیچے کا نظارہ ہے

   زندگی ایک پلیٹ کا دھونا ہے

   زندگی گلی کی نالی سے دس پیسے کا سکہ مل جانا ہے

    زندگی آئینے کا حاصل  ضرب  ہے

   زندگی  ابدیّت کے حوصلے کا پھول ہے

    زندگی ہمارے دل کی دھڑ کنوں میں زمین کی دھڑکن

   زندگی سانسوں کی سادہ اور یکساں جیو میٹری ہے 






چھتریاں بند کر دینی چاہییں 

  بارش میں چلے جانا چاہیے  

  خیال کو ، یاد کو ، بارش میں لے جانا چاہیے

    شہر کے سب لوگوں کے ساتھ بارش میں جانا چاہیے 

 محبوب کو بار ش میں دیکھنا 

چاہیے 

 عشق کو بارش میں ڈھونڈنا چاہیے

   بارش میں کھیلنا چاہیے

  ہم پردہ ہٹا دیں

  احساس کو کچھ ہوا لگنے دیں

  بلوغت جس بُوٹے تلے بھی سستانا چاہے ، سستانے دیں

   جبلّی ضرورتوں کو کھیل کود کا پیچھا کرنے دیں تاکہ  وہ جوتے اتار پھینکیں اور موسموں کے تعاقب میں پھولوں کو پھلانگتی جائیں

  تنہائی کو گیت گانے دیں 

 اسے کچھ لکھنے دیں  

 اسے سڑک پر جانے دیں

  ہم سادہ رہیں

  سادہ رہیں کسی بنک کے کاؤنٹر پر بھی

 ، درخت کے نیچے بھی

  سرخ گلاب کے بھید تک پہنچنا ہمارا کام نہیں ہے

     ہمارا کام شاید یہ ہے کہ

    ہم سرخ گلاب کے فسوں میں تیرتے رہیں  

 کسی پتّے کے جذبے میں ہاتھ دھوئیں اور دسترخوان پر جا بیٹھیں  

  صبح جب سورج نکلتا ہے ، ہم جنم لیں

  ۔ ہیجانات کو اُڑا دیں 

 فضا ، رنگ، آواز ، کھڑ کی، پھول کے ادراک پر نمی چھڑکیں

  ابابیل کے کندھوں سے علم و دانش کا بوجھ زمین پر رکھ دیں

  بادل سے نام واپس لے لیں  

 بارش کے بھیگتے  قدموں سے  محبت کی اونچائی پر جائیں 

 انسانوں، روشنیوں، نباتات اور کیڑوں مکوڑوں  کے لیے دروازے کھول دیں 




ہمارا کام شاید یہ ہے  کہ کنول کے پھول اور صدی کے  مابین 

 حقیقت کے گیت کے پیچھے دوڑتے رہیں 

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com