!
نہیں! ہرگز نہیں! دُہری شہریت رکھنے والوں سے ہم وطن کے اندر رہنے والوں کو کوئی کد نہیں، کوئی پرخاش نہیں! بلکہ معاملہ الٹ ہے! ہم تو ان کے مدّاح ہیں!
تارکین وطن، خواہ دُہری شہریت والے ہیں یا سنگل شہریت رکھتے ہیں پاکستان اور اہلِ پاکستان کی جان ہیں! ان کی حب الوطنی میں کیا شک ہو سکتا ہے، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ مسلمہ ہے اور ہمارا اثاثہ ہے! وہ ہمیں رقوم بھیجتے ہیں۔ دیارِ غیر میں جو پاکستانی جائے، اُسے سہارا دیتے ہیں۔ وہ اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سڈنی میں ارشد سعید کے ہاں قیام تھا۔ ان کے صاحبزادے بلال کے کمرے میں گیا۔ پوری دیوار پر پاکستان کا پرچم بنا ہوا تھا۔ کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو تو بلال کی جان پر بنی ہوتی ہے کہ پاکستان ہار نہ جائے۔ اور یہ وہ بلال ہے جس کی پیدائش پاکستان کی ہے نہ اٹھان! تو پھر ان کی کیا کیفیت ہو گی جو یہاں پیدا ہونے کے بعد بیرون ملک گئے! میلبورن میں مقیم راولپنڈی میڈیکل کالج کے سابق طلبہ نے اپنی مادرِ درسگاہ کے لیے آلات اور سامان بھیجا۔ دل میں وطن کے لیے سوز نہ ہو تو یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کالم نگار نے ایک چودہ اگست کو نیویارک کی شاہراہوں پر پاکستانیوں کا جشن دیکھا۔ کیا منظر تھا اور کیا سماں تھا! یہ تارکین وطن ہی ہیں جو پاکستانی سفارت خانوں کی سرد مہری، بے نیازی اور نا اہلی پر بھی (اِلا ماشا اللہ) خاموش رہتے ہیں۔ صبر کرتے ہیں کہ ملک کی بدنامی نہ ہو!
ان کے جسم بیرون ملک مگر دل آخری سانس تک پاکستان میں ر ہتے ہیں۔ پاکستان پر جب بھی افتاد پڑی، جنگ تھی یا سیلاب، تارکین وطن بے چین ہوئے۔ ایک ایک پل کی خبر رکھی۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ پاکستان کے متعلق ہم پاکستان میں رہنے والوں کی نسبت، وہ زیادہ باخبر اور اپ ڈیٹ رہتے ہیں! بے شمار گمنام تارکینِ وطن، پاکستان میں فلاحی کام سرانجام دے رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ہسپتال بنا رہے ہیں۔ طالب علموں کی کفالت کر رہے ہیں! اس ضمن میں دو آراء ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا! تارکین وطن، پاکستان ہی کا حصہ ہیں۔ ہمارے محسن ہیں۔ ہمارے قالب کا جزو ہیں۔ اپنے اپنے دیار میں، جہاں جہاں بھی وہ رہ رہے ہیں، وطن کی توسیع ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر تارکِ وطن، اپنی جگہ پر پاکستان کا سفیر ہے۔ وہ کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا نہ کرتا ہے!
یہاں پاکستان میں جو مسئلہ اٹھا، اُس پر تارکین وطن نے تشویش کا اظہار کیا ہے! ان کی ای میلز آئی ہیں! ٹیلی فون آئے ہیں! کہ دہری شہریت والوں پر انگلیاں کیوں اٹھائی جا رہی ہیں! اُن کی تشویش بجا! اُن کا اضطراب سر آنکھوں پر! مسئلے کی نوعیت، تاہم، مختلف ہے! بالکل مختلف! جب حکومت پاکستان کی کابینہ ڈویژن نے اعلان کیا کہ فلاں فلاں معاونِ خصوصی امریکی شہری ہیں یا دُہری شہریت رکھتے ہیں تو اس پر دو حوالوں سے اعتراض اٹھے!
پہلا اعتراض یہ اٹھا کہ وزیر اعظم، جب اقتدار میں ابھی نہیں آئے تھے، اُس وقت ان کا اِس ضمن میں کیا مؤقف تھا؟ اعتراض تارکین وطن پر نہیں تھا نہ کسی نے یہ کہا کہ دُہری شہریت رکھنا جرم ہے! اعتراض یہ تھا کہ دہری شہریت والوں پر، ایک سے زیادہ پاسپورٹ رکھنے والوں پر، اعتراض خود عمران خان صاحب نے کیا تھا۔ گزشتہ چار پانچ دن سے جو وڈیو کلپ لاکھوں لوگ دیکھ اور سُن رہے ہیں، اُن پر تحریک انصاف کے سربراہ یہ الفاظ کہتے صاف سنائی دیتے ہیں ''آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دُہری شہریت کو پارلیمنٹ میں بھی نہیں آنا چاہیے اور وزارتیں بھی نہیں ملنی چاہئیں‘‘۔
ایک اور بیان میں وہ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں ''جو پاکستان میں الیکشن لڑنا چاہتا ہے، اسمبلی میں آ کر قانون سازی کرنا چاہتا ہے، بڑے بڑے عہدے لینا چاہتا ہے، وہ واحد پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
جب انہوں نے یہ برملا اعلان کیا تھا کہ ''بڑے بڑے عہدے‘‘ صرف پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کو ملیں گے، تو پھر انہیں احتیاط کرنی چاہیے تھی۔ ہوا یہ کہ اقتدار میں آ کر اپنے اعلان کو پسِ پشت ڈالا اور جن کے پاس برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور سنگاپور کے پاسپورٹ تھے، انہیں ''بڑے بڑے عہدے‘‘ دیئے۔ کسی کو پٹرولیم کا مشیر لگایا، کسی کو توانائی کا قلم دان سونپا اور کسی کو آئی ٹی کا مدارالہام بنا دیا۔ یہ وضاحت اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہ قول اور فعل کا تضاد تھا جس پر ہنگامہ برپا ہوا۔ حاشا و کلّا، اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تارکین یا دُہری نیشنیلٹی رکھنے والوں کے بارے میں، مجموعی طور پر، قوم کی رائے منفی ہے! دوسرا اعتراض اس سے بھی زیادہ جینوئن یہ اٹھا کہ دُہری قومیت رکھنے والے جن حضرات کو یہ بڑے بڑے مناصب سونپے گئے، وہ میرٹ پر منتخب نہیں کیے گئے۔ اکثریت دوستوں کی ہے! اس دوست نوازی پر، اس کرونی ازم پر لوگوں کو دُکھ ہے! تارکین وطن میں بڑے بڑے لائق لوگ ہیں۔ اپنے اپنے فیلڈ کے ماہر! کسی ترتیب، کسی نظام، کسی پروسیس کے ذریعے اہلِ کمال کو تلاش کرکے، میرٹ پر، یہ مناصب تفویض کیے جاتے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
قول اور فعل کا ایک اور تکلیف دہ تضاد ٹیلی ویژن کے لیے اُس ''فیس‘‘ کے حوالے سے بھی ریکارڈ پر ہے جو پہلے 35 روپے پر مشتمل تھا، اب سو روپے کیا جا رہا ہے اور فی الحال معاملے کو ایک ہفتے کیلئے مؤخر کیا گیا ہے۔ حکومت سنبھالنے سے پہلے وزیراعظم نے اس ناروا ٹیکس کی بھرپور طریقے سے مذمت کی تھی۔ ان کے الفاظ یہ تھے ''پی ٹی وی جو ہمارے پیسے پر چلتا ہے، آپ کو پتہ ہے پاکستانیو! ہر مہینے آپ کے بل سے پی ٹی وی کے لیے تیس یا چالیس روپے کٹتا ہے، 35 روپے کٹتا ہے اور ہر سال دس ارب روپیہ پی ٹی وی کو آپ دیتے ہیں۔ ہم دیتے ہیں۔ میں پی ٹی وی سے پوچھتا ہوں اور پی ٹی وی کا جو ایم ڈی ہے اس سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ نون لیگ اور نواز شریف کے پُتلے بنے ہوئے ہیں۔ ان کو پروجیکٹ کر رہے ہیں، آپ کو شرم نہیں آتی۔ پیسہ ہمارا ہے...‘‘۔
یہ عوام کے دل کی آواز تھی۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ اس برملا، دو ٹوک اور بھرپور مذمت کے بعد، جب خان صاحب اقتدار میں آئیں گے تو یہ ٹیکس نما بھتہ ختم کر دیں گے۔ چلیے، پہلے یا دوسرے یا تیسرے مہینے نہیں تو ایک سال یا دو سال میں اسے ہٹا دیں گے‘ مگر ختم ہونے کے بجائے اسے بڑھا کر سو روپیہ ماہانہ کر دیا گیا۔ پھر جب سوشل میڈیا پر احتجاج کا طوفان اٹھا اور کابینہ میں چند وزرا نے عوام کا اضطراب پہنچایا تو معاملے کو ختم نہیں کیا گیا، صرف مؤخر کیا گیا ہے۔ یعنی تلوار ابھی عوام کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ جب یہ ٹیکس 35 روپے تھا تو خود وزیراعظم صاحب کے بقول کل رقم دس ارب بن رہی تھی۔ اس حساب سے اگر یہ ماہانہ سو روپے ہو جائے تو کل رقم جو عوام پی ٹی وی کے منہ میں ڈالیں گے وہ اٹھائیس ارب کے لگ بھگ ہو جائے گی!!
پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ جو جو جوہرِ قابل ہمارا بیرون ملک موجود ہے، اسے سنجیدگی سے تلاش کیا جائے! پھر ایک شفاف پروسیس ہو، مقابلہ ہو، تمام خواہش مند تارکین وطن کا انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور بہترین اشخاص کو چنا جائے، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ فلاں دوستی کی سیڑھی پر چڑھ کر معاون خصوصی بنا ہے اور فلاں کسی اور زینے کے ذریعے!
دُہری شہریت رکھنے والوں اور تارکین وطن سے زیادہ میرٹ کی اہمیت کون جان سکتا ہے! یہ میرٹ ہے نہ کہ دوستی جس کی بنیاد پر پاکستانی، دوسرے ملکوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں! ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو!
No comments:
Post a Comment