نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو سندھ حکومت نے ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا۔ سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں کو وقت گزاری کا نیا عنوان ہاتھ آ گیا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
اس میں کیا شک ہے کہ اس تعیناتی کی پشت پر اثر و رسوخ کھڑا تھا! مولانا سیاست اور شہرت کے جس مقام پر ہیں‘ اُس کے تناسب سے‘ ایسے کام کیلئے ان کا اشارہ ہی کافی ہے! مگر اس قضیے میں غور و فکر کا بہت سامان ہے! کیا سندھ حکومت نے مولانا کے بھائی کو کے پی سے اغوا کر کے بزورِ شمشیر ڈپٹی کمشنر لگایا؟ اگر وہ کے پی حکومت کے پاس تھے تو سندھ میں کیسے پہنچ گئے؟ دلچسپ پہلو معاملے کا یہ ہے کہ خود تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں سندھ حکومت کے سپرد کیا۔ اس کیلئے یقینا کوئی آرڈر‘ کوئی نوٹی فیکیشن جاری ہوا ہوگا۔ کوئی افسر بھی‘ اپنے طور پر‘ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں نہیں جا سکتا! لطیفہ اس پر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کسی نمائندے نے عدالت جانے کااعلان کیا ہے!! بقول احمد ندیم قاسمی ؎
ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیازِ دشت و گلشن پر
گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے‘ برستی ہے برہمن پر
سول سروس کے ساتھ یہ زبردستی‘ یہ زور آزمائی‘ یہ اقربا پروری‘ یہ دوست نوازی‘ پہلی بار نہیں ہوئی۔ اور اس ملک کا اندازِ حکمرانی ظاہر کرتا ہے کہ آخری بار بھی نہیں ہوئی۔ سول سروس تو وہ ڈیرہ دارن ہے جو کبھی مغلانی تھی مگرعرصۂ دراز سے اُس کی حرمت کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ ہر حکومت نے اسے کنیز سمجھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوتا رہا‘ اس کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی کی تعیناتی ایک معمولی کیس ہے۔ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ ہم اس تعیناتی کا جواز پیش کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سفارش کا ایک واضح شاخسانہ ہے۔
غالباً یہ جنرل ضیاء الحق تھے جنہوں نے سول سروس کے تین گروپوں (ضلعی انتظامیہ‘ فارن سروس اور پولیس) میں پچھلے دروازے سے داخلے کا راستہ کھولا۔ عساکر سے آمد ہوئی۔ پھر سیاست دانوں نے وہ ہولی کھیلی کہ الامان الحفیظ ! ضیا ء الحق سے پہلے بھٹو دور میں سول سروس کے کان کاٹے جا چکے تھے۔ لیٹرل (Lateral) انٹری کے نام پر اُن لوگوں کو بھی بلند و بالا مناصب دیے گئے جو مقابلے کے امتحان میں فیل ہوچکے تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ ظلم فارن سروس کے ساتھ ہوا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ضیاء الحق کے بعد پیپلز پارٹی اور (ن )لیگ نے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے۔ ایک صاحب کو کینیڈا کا سفیر لگایا گیا توکینیڈا والوں نے بتایا کہ یہ تو کینیڈین شہریت کے امیدوار ہیں۔ ایک صاحب! شمالی علاقوں میں‘ مشہورِ عام روایت کے مطابق‘ گندم کی کٹائی میں مصروف تھے کہ بطور سفیر تعیناتی کا پروانہ پہنچ گیا۔ ہمارے دوست جاوید حفیظ برما میں سفیر لگے ہی تھے کہ بادشاہِ وقت کے ایک عزیز کو ‘جن کا فارن سروس تو کیا‘ کسی بھی سروس سے کوئی تعلق نہ تھا‘ وہاں سفیر متعین کردیا گیا۔ شاید کوئی ''تجارتی‘‘ مشن تھا!! جنرل مشرف نے اپنے ایک دوست کو انڈونیشیا میں سفیر لگایا۔ انہوں نے پاکستان کی ملکیت میں جو عمارت تھی اسے غلط طریقے سے بیچنے کی کوشش کی۔ وہاں فارن سروس کے مشتاق رضوی بھی تعینات تھے‘ انہوں نے اس دھاندلی کی اطلاع وزارت ِخارجہ کو دی۔انہیں جنرل مشرف نے اس ''گستاخی‘‘ کی عبرت ناک سزا دی۔ انہیں کئی سال بغیر تعیناتی کے رکھا گیا یہاں تک کہ اسی عالم میں وہ ریٹائر ہوئے اور وفات پا گئے۔ بہت سینئر افسر تھے اور اچھی شہرت کے مالک تھے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اس سارے معاملے پر بہت شور مچا مگر یہ واویلا بعد از مرگ تھا۔ یہ ایسا ظلم تھا‘ ایسا صریح ظلم تھا جو جنرل پرویزمشرف کے دامن کو کبھی صاف نہ ہونے دے گا۔
جنرل پرویز مشرف کا ذکر چھڑا ہے تو اُن کے زمانے کی دوسری دھاندلیاں اور دوست نوازیاں بھی یاد آنے لگی ہیں۔
موصوف نے پوسٹل سروس پر (جو سی ایس ایس ہی کا گروپ ہے) ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کو بٹھا دیا۔ یوں جو افسران‘ ساری زندگی کی سروس کے آخری موڑپر اس پوسٹ کے حقدار تھے‘ محروم ہوتے گئے۔ ایک اور دوست کو انہوں نے وفاقی محکمۂ تعلیم کا سربراہ بنایا۔ انہیں پانچ بار توسیع ملی۔ جو اصل حقدار تھے وہ جوتیاں چٹخاتے ریٹائر ہوتے گئے۔ اقتدار کے تخت پر انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اُسے یہ گمان‘ یقین کی صورت لگتا ہے کہ یہ طاقت ہمیشہ رہے گی۔ یہاں تک کہ کھڑکی کے راستے موت کا فرشتہ اس کے خوبصورت بیڈ روم میں داخل ہوتا ہے اور کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ جنہیں نوازنے کیلئے حقداروں کی بد دعائیں لی تھیں‘ وہ بد دعائیں رنگ لاتی ہیں۔ ''صوابدیدی‘‘ اختیارات کا ڈھونگ ختم ہو جاتا ہے۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ ''صوابدیدی‘‘ اختیارات کو تم نے انصاف سے استعمال کیا تھا یا ذاتی‘ خاندانی‘ گروہی اور سیاسی مفادات کیلئے استعمال کیا تھا؟
اور یہ تو ابھی ماضی قریب کا واقعہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن 14قتل کیس کے حوالے سے ایک مشہور بیوروکریٹ کو شریف برادران نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگا دیا حالانکہ ان کا فارن سروس سے تعلق تھا نہ تجارت سے۔ بعد میں سپریم کورٹ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ سنا ہے کہ شریف برادران مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ ان کے فرزندِ گرامی کی تلاوت کی تعریف بھی سننے میں آئی ہے۔ اسی کتابِ مقدس میں کہا گیا ہے کہ امانتیں ان کے سپرد کرو جو اہل ہوں۔ اس کی تفسیر میں مفسرین نے جو احادیث نقل کی ہیں‘ انہیں جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ کوئی ایک بار نہیں ہوا‘ ایسی غلط بخشی کی مثالوں سے ساری حکومتوں کے ادواربھرے پڑے ہیں -صدر یا وزیراعظم اپنے جس اے ڈی سی کو نوازنا چاہتے اسے سول سروس میں داخل کردیتے۔ یہی جنرل ضیاء الحق نے کیا۔ یہی نواز شریف نے کیا۔
فارن سروس کے علاوہ‘ جو بیرون ملک تعیناتیاں ہیں‘ جیسے کمرشل اتاشی یا قونصلر‘ اُن کے حوالے سے تو دھاندلیوں کا ریکارڈ ہے! بہت سے ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران اس قبیل کی پوسٹوں پر اس لئے لگائے جاتے رہے کہ حکمران ِاعلیٰ کا وہ ایئر پورٹوں پر‘ ڈیوٹی کے طور پر‘ استقبال کرتے تھے یا انہیں رخصت کرتے تھے۔ ان تعیناتیوں کیلئے سیاست دانوں نے خوب خوب سفارشیں کیں۔ ایک سیاسی پارٹی کے معروف رہنما کی‘ جو مرحوم ہو گئے‘ قریبی عزیزہ کو بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانے میں لگایا گیا۔ راولپنڈی کے ایک میئر تھے جو ہر رمضان میں جنرل ضیاء ا لحق کیلئے دعوتِ افطار کا اہتمام کرتے تھے۔ انہیں بھی نوازا گیا۔
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے صاحبزادے کی مثال بھی نمایاں ہے۔ میڈیکل کالج میں ان کا داخلہ کس طرح ہوا‘ پھر وہ ایف آئی اے میں کیسے افسر بنے۔ پھر اے ایس پی کیسے ہو گئے۔ یہ ساری داستان عبرت ناک ہے اور اقربا پروری اور زور آوری کی مثال بھی!
مولانا فضل الرحمن کے بھائی کے معاملے میں تحریک انصاف کو عدالت میں ضرور جانا چاہئے۔ وہاں اگر تحریک انصاف یہ بھی پوچھ لے کہ حکمران صرف اپنی دوستی کی بنیاد پر کسی غیر منتخب شخص کو حکومت کے نمایاں شعبے سونپ دے تو اس ضمن میں عدالت کی کیا رائے ہے؟
پسِ نوشت: تازہ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے مولانا کے بھائی کوسندھ سے واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment