آڈرے ٹرشکے (Audrey Truschke) معروف سکالر اور محقق ہیں۔ نیو یارک کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ابتدا ہی سے مشرقی کلچر، مشرق کی ہسٹری اور مشرقی زبانوں سے دلچسپی تھی۔ سنسکرت پر عبور رکھتی ہیں۔ فارسی، اردو اور ہندی بھی جانتی ہیں۔ مغلوں کی تاریخ پر پڑھا بھی بہت اور لکھا بھی بہت!
2017ء میں انہوں نے اورنگ زیب عالم گیر پر ایک کتاب تصنیف کی۔ ایک سو چالیس صفحات کی اس کتاب پر بھارت میں بہت لے دے ہوئی۔ بی جے پی کے ہم نوائوں کو آڈرے ٹرشکے کی صاف گوئی پسند نہ آئی۔ آڈرے نے دلائل اور حوالہ جات سے ثابت کیا تھا کہ جن چند مندروں کو اورنگ زیب نے گرایا تھا، اس کی وجوہ مذہبی نہیں، سیاسی تھیں اور سکیورٹی سے متعلق تھیں۔ اس کے مقابلے میں جن مندروں کی اس نے کفالت کی، جنہیں جاگیریں، زمینیں اور رقوم دیں، ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
پاکستان میں آج کل جو بحث چل رہی ہے، اس کے پیشِ منظر یہ مناسب محسوس ہوا کہ یہ اور کچھ اور معلومات شیئر کی جائیں۔ اس حقیقت کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ برِّ صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت بالعموم، اور مذہبی طبقات بالخصوص اورنگ زیب عالم گیر کو ایک پرہیز گار اور دیانت دار بادشاہ سمجھتے ہیں اور اس کی حکومت کو، باقی مغل بادشاہوں کے اقتدار کے مقابلے میں، اسلامی قرار دیتے ہیں۔ فقہ حنفی کی نمایاں ترین کتاب ''فتاویٰ عالم گیری‘‘ اورنگ زیب ہی نے مرتب کرائی۔ اس کی تالیف میں آٹھ برس لگے۔ درجنوں نامور علما اور فقہا نے اس میں حصّہ لیا، اورنگ زیب نے ہر مرحلے پر نگرانی کی۔ دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وقتاً فوقتاً اس کے مختلف حصے پڑھوا کر سنتا تھا اور اپنی رائے دیتا تھا۔
تخت نشینی کے نویں سال اورنگ زیب نے گوہاٹی (آسام) کے اومانند مندر کے بارے میں ایک فرمان جاری کیا، اس کی رُو سے اُس زمین کی تصدیق کی جو حکومت نے مندر کو پہلے دی تھی۔ ساتھ ہی ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بھی تفویض کیا۔ 1680ء میں اس نے حکم جاری کیا کہ ہندو جوگی بھگونت گوسائیں کو، جو بنارس میں گنگا کے کنارے رہتا تھا، پریشان نہ کیا جائے۔ 1687ء میں اورنگ زیب نے بنارس کے ہندوئوں کو زمین دی تا کہ برہمنوں اور نیک فقیروں کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں۔ 1691ء میں (وفات سے سولہ سال قبل) ہندوئوں کے مقدس مقام چتر کوٹ میں آٹھ دیہات پر مشتمل جاگیر دی تا کہ بالا جی مندر کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ خاندیش (وسطی ہندوستان) میں مقیم ایک برہمن رنگ بھاٹ کو بادشاہ نے 1698ء میں زمین دی جس کے عوض کوئی کرایہ یا ٹیکس نہیں لیا گیا۔ یاد رہے‘ یہ بادشاہ کے زندگی کے آخری آٹھ نو سال تھے۔ پہلے مغل بادشاہوں نے ایک ہندو فرقے ''جنگم‘‘ کو 1564ء میں جاگیر عطا کی تھی‘ وہ ان سے چھین لی گئی۔ ایک مقامی با اثر مسلمان انہیں پریشان کر رہا تھا۔ 1672ء میں اورنگ زیب نے اُس سے بچایا۔ جو ناجائز کرایہ (یا محصول) لیا گیا تھا‘ 1674ء میں وہ بھی واپس کرایا۔
جَین فرقے کے پیروکاروں کو اورنگ زیب نے سرکاری خزانے سے گجرات میں کئی زمینیں دیں۔ وفات سے چار سال پہلے اورنگ زیب نے فرمان جاری کیا کہ جین پنڈت جینا چندر سُوری کو تنگ نہ کیا جائے۔
نوجوان محقق احمد سرفراز چند روز پہلے ایک انتہائی اہم کتاب منظرِ عام پر لے کر آئے ہیں۔ یہ کتاب جس کاعنوان ''ہندو مندر اور اورنگ زیب عالم گیر کے فرامین...‘‘ ہے‘ ڈاکٹر بی این پانڈے کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر پانڈے (وفات 1998ء) کانگرسی تھے۔ نہرو کے قریبی رفقا میں سے تھے۔ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔ الٰہ آباد کے میئر رہے۔ راجیہ سبھا کے دو بار رکن رہے۔ چار سال اوڑیسہ کے گورنر رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں ''اسلام اور انڈین کلچر‘‘ اور ''اورنگ زیب‘‘ بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر پانڈے کی جس تصنیف کا ہم احمد سرفراز صاحب کے حوالے سے ذکر کر رہے ہیں، اس کے مرتب مولانا مفتی عطاالرحمن قاسمی ہیں۔ مولانا آزاد اکیڈمی نئی دہلی نے اسے 2001ء میں شائع کیا۔
احمد سرفراز کہتے ہیں کہ ڈاکٹر پانڈے نے جب 29 جنوری 1977ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں ثابت کیا کہ اورنگ زیب مندروں اور گوردواروں کو جاگیریں اور عطیات دینے والا تھا تو پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہو گیا اور کسی کو مخالف کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اورنگ زیب نے ایک سو ستر بیگھے زمین ستیا کنڈھ کے لیے وقف کی۔ لال قلعہ کے نزدیک واقع جین مندر کو اورنگ زیب وظیفہ دیتا تھا۔ کئی مندروں کے نگران سنتوں کے پاس بادشاہ کے اصل فرامین آج بھی محفوظ ہیں۔ اورنگزیب کی خادمہ مس جولیا عیسائی تھی۔ اس کیلئے چرچ کی تعمیر اور دیگر اخراجات کے ضمن میں شاہی فرمان جاری ہوا جو آج بھی نئی دہلی کے گول ڈاکخانہ چرچ میں آویزاں ہے۔
اجین کے مندر میں ہر وقت دیا جلتا ہے۔ اسے بجھنے نہیں دیا جاتا۔ تمام حکومتیں اس دیے کو روشن رکھنے کے لیے وسائل فراہم کرتی رہیں۔ اورنگ زیب نے اس روایت کو برقرار رکھا اور وسائل مہیا کیے۔ 1685ء میں ایک ہندو ناگر سیٹھ کو اورنگ زیب نے احمد آباد میں مندروں کی تعمیر کے لیے زمین عطا کی۔ آڈرے ٹرشکے اور ڈاکٹر پانڈے کی کتابوں میں بہت سے حوالے مشترک ہیں۔ ڈاکٹر پانڈے ٹیپو سلطان کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جس قلعہ میں سلطان متمکن تھا وہاں مسجد تھی اور قدیم مندر بھی تھا۔ سلطان ٹیپو ہر سال ایک سو چھپن مندروں کو تحائف اور چڑھاوے بھجواتا تھا!
''دی نیو لیم‘‘ دہلی سے شائع ہونے والا معروف جریدہ ہے۔ 15 جنوری 2019ء کی اشاعت میں بھرت ڈوگرا لکھتے ہیں ''انتہا پسند تنظیمیں مسجد، مندر کا تنازعہ اس شدت سے کھڑا کر رہی ہیں کہ بہت سے لوگ مسلم حکمرانوں کو مندروں کے دشمن سمجھنے لگ گئے ہیں، اس سے زیادہ کوئی بات حقیقت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ یقینا کچھ واقعات مندروں کے انہدام کے پیش آئے مگر اس سے کہیں زیادہ مثالیں مسلمان بادشاہوں کی مندر نوازی کی ملتی ہیں۔ مسلمان بادشاہ کئی مندروں کی تعمیر اور نگہداشت کیلئے وسائل فراہم کرتے رہے۔ ان میں ایودھیا، متھرا اور کئی اور اہم مندر شامل ہیں...‘‘
بھرت ڈوگرا لکھتے ہیں کہ اکبر تو مندر نواز تھا ہی، جہانگیر نے بھی مزید اضافے کیے۔ اودھ کے مسلمان نوابوں نے ایودھیا کے مندر کو کئی گرانٹس (رقوم) دیں۔ نواب صفدر گنج کے دیوان نے کئی مندر تعمیر کرائے۔ نواب نے اس مقصد کیلئے زمین دی۔ دستاویزات شاہد ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے چتر کوٹ، بنارس، اجین اور الہ آباد کے مندروں کیلئے سرکاری طور پر فنڈز مہیا کیے۔ دکن کے حکمران ابراہیم عادل شاہ نے کئی ہندو عبادتگاہیں تعمیر کرائیں۔ بہمنی سلطنت کے فرمانروا سلطان علائوالدین ثانی نے اپنے محل کے نزدیک ایک چھوٹا سا خوبصورت مندر تعمیر کرایا۔ پندرھویں صدی کے کشمیری حکمران زین العابدین نے کئی مندر تعمیر کرائے۔
ایودھیا کے سب سے زیادہ مشہور اور اہم مندر کا نام ہنومان گڑھی ہے۔ مہنّت گیان داس اس کا پروہت ہے۔ 1962ء سے وہ اس عہدے پر فائز ہے۔ نومبر 2019ء میں اس نے گلف نیوز کے ایڈیٹر جناب بوبی نقوی کو بتایا کہ یہ مندر 1774ء میں اس 52 بیگھہ زمین پر بنا تھا جو نواب شجاع الدولہ نے مندر کیلئے سرکاری طور پر دی تھی۔ تعمیر بھی نواب ہی نے کرایا۔ ان کے بیٹے منصور علی بھی بہت فیاضی سے مالی امداد دیتے رہے۔ فارسی میں لکھا ہوا اصل فرمان گیان داس کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ وہ اسے فخر سے دکھاتا ہے۔ اسکی تصویر، جس میں وہ مُہر لگا اصل فرمان دکھا رہا ہے، گلف نیوز میں شائع ہوئی۔ مندر کے ساتھ ایک عالی شان مسجد بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment