یہ ''قومی انگریزی لغت‘‘ ہے! مقتدرہ قومی زبان (حکومت پاکستان) نے اسے شائع کیا ہے۔ ایڈیشن چھٹا ہے سالِ اشاعت اس ایڈیشن کا 2006 ہے۔ہم نے اس مستند لغت میں دو انگریزی الفاظ کے معانی دیکھنے ہیں۔ پہلا لفظ
Renounce
ہے۔ حکومت پاکستان کی چھاپی ہوئی اس لغت میں اس لفظ کا معنی ہے: لاتعلق ہونا‘ دست بردار ہونا‘ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا‘ رد کر دینا‘ پھینک دینا یا نا منظور‘ مسترد کر دینا‘طلاق دے دینا‘ انکار کرنا(صفحہ نمبر 1671) ۔دوسرا لفظ جس کا معنی دیکھنا ہے
Abjure
ہے۔ اس کا معنی لکھا ہے: حلفاً دست بردار یا منکر ہونا‘ قسم کھا کر انکار کرنا‘ حلفاً مسترد کرنا‘ باضابطہ انکار کرنا‘ اعترافِ خطا کرنا‘ توبہ کرنا ترک کرنا (صفحہ 4)۔یہ دونوں الفاظ اس لئے اہم ہیں کہ جب کوئی شخص امریکی شہریت لیتا ہے تو وہ ایک حلف اٹھاتا ہے‘ بائبل پر یا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر۔ اپنے اپنے مذہب کے مطابق۔قسم کھا کر مندرجہ ذیل اعلان کرتا ہے:
I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen.
یعنی ''میں حلف اٹھا کر اعلان کرتا ہوں کہ میں اُس تمام اطاعت اور وفاداری کو جو مجھے اس سے پہلے کسی بھی غیر ملکی شہزادے‘ حکمران‘ ریاست یا حاکمیت کے ساتھ‘ رعایا یا شہری کی حیثیت سے رہی ہے‘ کاملاً‘ مکمل اور قطعی طور پر ترک اور مسترد کرتا ہوں اور حلفاً اس سے دستبردار ہوتا ہوں‘‘۔اس پہلے اعلان کے بعد یہ نیا امریکی شہری‘ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے آئین اور قوانین کی مدد اور دفاع کرے گا۔ آئین اور قوانین کا وفادارر ہے گا۔ جب قانون تقاضا کرے گا تو امریکہ کی طرف سے ہتھیار اٹھائے گا‘ وغیرہ!
آپ کا کیا خیال ہے کہ جب کوئی شخص امریکی شہریت کا حلف اٹھاتا ہے تو کیا وہ کسی دوسرے ملک کا وفادار یا شہری رہ سکتا ہے؟ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وہ اپنے پرانے ملک کے ساتھ ہر قسم کی وفاداری اور تعلق کو
Renounce
کرتا ہے اور
Abjure
کرتا ہے اور ان دونوں الفاظ کے معنی آپ لغت میں دیکھ چکے ہیں۔امریکی شہریت حاصل کرنے کے بعد ''دہری‘‘ قومیت کا دعویٰ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں! امریکہ تو حلف کی ابتدا ہی میں پہلی قومیت کو ختم کرا دیتا ہے! اب اس ستم ظریفی‘ بلکہ ظلم پر غور کیجئے کہ پاکستان میں جو صاحب ''نیشنل سکیورٹی‘‘ کے معاون خصوصی ہیں وہ امریکی شہری ہیں اور امریکی شہریت کا حلف اٹھاتے ہوئے وہ پہلی (یعنی پاکستان کے ساتھ) وفاداری اور اطاعت کو قسم اٹھا کر مسترد کر چکے ہیں! پٹرولیم کے ضمن میں جن صاحب کو معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے وہ بھی امریکی شہری ہیں اور یہی حلف اٹھا چکے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ پاور ڈویژن کے معاون خصوصی بھی امریکی شہری ہیں‘ ان تمام صاحبان نے قسم اٹھا کر اعلان کیا ہے کہ پہلے انہیں جس ریاست کے ساتھ (یعنی پاکستان کے ساتھ) رعایا یا شہری کے طور پر اطاعت اور وفاداری تھی‘ اسے وہ ترک اور مسترد کرتے ہیں اور حلفاً اس سے دستبردار ہوتے ہیں!
بھارت کا آئین دہری شہریت کی اجازت نہیں دیتا۔ جب ایک بھارتی‘ دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کر لیتا ہے تو اس کا بھارتی پاسپورٹ ختم ہو جاتا ہے یعنی بیک وقت دو پاسپورٹوں کی اجازت نہیں! ایسے ''غیر ملکی‘‘ بھارتیوں کو ''اوورسیز سٹیزن آف انڈیا‘‘ یعنی OCI کا سٹیٹس دیا جاتا ہے‘ مگر یاد رہے کہ OCI بھارتی شہریت کا متبادل نہیں نہ ہی اس کا مطلب ویزا ہے۔ بھارت میں آنے کیلئے ان سابق بھارتیوں کو ویزا الگ لینا ہوتا ہے یا اب ایسے OCIبھی جاری ہو رہے ہیں جن پر ویزا کی مُہر الگ سے لگی ہوتی ہے۔ ایک بھارتی جب کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کرتا ہے تو اس کی بھارتی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب ایک غیر ملکی کو بھارتی شہریت ملتی ہے تو اس کی پہلی شہریت‘ جس ملک کی بھی ہو‘ ختم ہو جاتی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ‘ پہلی شہریت کی اجازت نہیں دیتا!
صورتحال دلچسپ ہے اور عبرت ناک بھی۔ کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب نہیں معلوم کون دے گا!اوّل: اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ وزیراعظم نے ماضی میں کہا ہے کہ دہری شہریت والے پارلیمان میں نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو کیا دہری شہریت والے کابینہ میں بیٹھ سکتے ہیں؟دوم: کہا گیا ہے کہ غیر منتخب حضرات صرف دعوت پر کابینہ اجلاس میں شریک ہوتے ہیں اور ہر مشیر اور معاون خصوصی کو ہر بار مدعو نہیں کیا جاتا۔ تو کیا یہ کہہ کر اقرار نہیں کیا جا رہا کہ غیر منتخب حضرات جن میں دوسرے ملکوں کے شہری بھی ہیں‘ کابینہ میں۔ دعوت ہی پر سہی‘ شریک تو ہوتے ہیں؟ سوم: حکومت کی طرف سے وضاحت کی جا رہی ہے کہ مشیر یا معاون خصوصی کا کام صرف مشورہ دینا ہے‘ انہیں کسی انتظامی فیصلے پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں! بجا فرمایا! اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ حتمی ذمہ داری سے مبّرا ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ سرکاری رازوں‘ دفاعی معاملات کی تفصیلات اور اہم اطلاعات تک ان غیر ملکی‘ غیر منتخب‘ افراد کو رسائی تو یقینا حاصل ہوتی ہے‘ جبھی تو وہ مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں! کیا یہ بات باعثِ اطمینان ہے؟چہارم: حکومت پاکستان کابینہ ڈویژن کے اعلان کی رُو سے قومی سلامتی کے مشیر امریکی شہری ہیں‘ قومی سلامتی کے مشیر نے وضاحت کی ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی ملک کی شہریت نہیں اور یہ کہ غلط افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں! لیکن اگر یہ ''افواہ‘‘ ہے تو یہ تو حکومت (کابینہ ڈویژن) نے خود پھیلائی ہے۔ اس کا سدِباب کیسے ہو؟پنجم: یہ کہنا کہ اپوزیشن لیڈروں کے پاس بھی تو اقامہ تھا‘ کوئی منطقی بات نہیں! اقامہ رکھنا غلط حرکت تھی! اگر اقامہ رکھنا مستحسن نہیں تھا تو غیر ملکی شہریت رکھ کر ملکی معاملات چلانا قابلِ قبول کیسے ہو سکتا ہے؟ اقامہ کا الزام دینا درست ہو سکتا ہے‘ مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے پاس غیر ملکی شہریت نہیں؟
مسئلے کا ایک پہلو اقامہ‘ ورک پرمٹ‘ گرین کارڈ اور پرماننٹ ریزیڈنسی کی اصطلاحات بھی ہیں! اقامہ اُس ورک پرمٹ کا نام ہے جو مشرق ِوسطیٰ کے ممالک جاری کرتے ہیں۔ اسے مغربی ملکوں میں ورک پرمٹ یا گرین کارڈ کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب ایک ہی نوعیت کی دستاویزات ہیں! رہا گرین کارڈ تو ہم سب جانتے ہیں کہ یہ امریکی شہریت کی طرف پہلا قدم ہے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گرین کارڈ رکھنے والا امریکی مسلح افواج میں بھی شامل ہو سکتا ہے گویا عملاً وہ امریکی شہری ہی ہوا۔
اپوزیشن کو چاہیے کہ اس ضمن میں الزام در الزام کا کھیل کھیلنے کے بجائے قانون سازی کی طرف توجہ دے۔ اگر غیر ملکی شہریوں کو مشیر یا سپیشل اسسٹنٹ بنانا مستحسن امر نہیں تو اس ضمن میں کلیئر اور صاف قانون بننا چاہئے۔ جس میں تمام کیٹیگریز (اقامہ‘ گرین کارڈ‘ ورک پرمٹ پرماننٹ ریزیڈنسی وغیرہ) کے متعلق پارلیمنٹ کے واضح فیصلے ہونے چاہئیں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو مناظرہ چل رہا ہے اس کا عملی نتیجہ سوائے تلخی کے کچھ نہیں نکلے گا! رہے عوام تو وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اگر کوئی الزام لگا رہا ہے یا دفاع کر رہا ہے تو یہ نہ سمجھے کہ عوام متاثر ہوجائیں گے! ان کی اپنی رائے بن رہی ہے ‘جس کا وہ اپنے وقت پر اظہار کریں گے۔ اقاموں والے بھگت رہے ہیں۔ شہریتوں والے بھی بھگتیں گے۔
No comments:
Post a Comment