رضا ربانی کو مبارک ہو کہ اٹھارھویں ترمیم کی غایتِ اولیٰ پوری ہوئی اور صوبوں نے خود مختاری کی طرف پہلا قدم بڑھا لیا۔ نیک شگون یہ ہوا کہ اس عہد ساز تبدیلی کا آغاز اس صوبے سے ہوا جہاں تحریک انصاف نے سب سے پہلے اقتدار حاصل کیا اور بدستور وہاں حکمران ہے!
صوبے نے وفاق سے کامیاب ٹکر لی اور اپنی عید‘ سرکاری سطح پر الگ منائی۔ صوبے کے وزیر اطلاعات نے اعلان کیا کہ خیبر پختون خواہ نے باقی ملک سے الگ عید‘ وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد کی ہے! تری آواز مکے اور مدینے ! وزیر اعظم نے وفاق میں پانچ جون کو عید منائی اور خیبر پختون خواہ کو اجازت دی کہ چار کو منائیں! اب یہ باقی صوبوں کا بھی حق ہے کہ اپنی اپنی عید الگ الگ منائیں۔ پانچ صوبے ہیں‘ تو عید پانچ مختلف ایام پر منائی جائے۔ صوبوں کے کیلنڈر بھی اپنے اپنے ہوں۔ ٹائم زون بھی صوبوں کے اعتبار سے الگ الگ بنا لیں۔ اگر امریکہ میں چار ٹائم زون اور روس میں گیارہ ٹائم زون ہیں تو پاکستان میں کئی ٹائم زون کیوں نہیں ہو سکتے۔ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ پنجاب‘ خیبر پختونخواہ‘ قبائلی علاقہ جات ‘ سندھ‘ بلوچستان اور وفاق یوں صوبائی خود مختاری کے حوالے سے آٹھ ٹائم زون ہوسکتے ہیں۔
اہم ترین پہلو اس ’’خود مختاری‘‘ کا یہ ہے کہ یہ علماء کے حکم سے وجود میں آئی ہے اسی لئے تو جون ایلیا نے کہا تھا
؎ نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز
اس نے توکارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
ملک میں دو عیدیں ہوئیں۔ دونوں علما کے حکم سے۔ ایک کا حکم مفتی پوپلزئی صاحب نے دیا۔ دوسری کا مفتی منیب الرحمن صاحب نے! دو عیدوں کی ذمہ داری سائنس پر ڈالی جا سکتی ہے نہ ٹیکنالوجی پر‘ نہ ہی کیلنڈر پر۔ نہ ہی اسلام پر۔ اس لئے کہ اسلام نے کہیں نہیں کہا کہ دو دو عیدیں کرو۔ معلوم ہوا کہ وہ جو غالباً چرچل نے کہا تھا کہ جنگ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اسے جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ تو اسی طرح اب یہ بھی ثابت ہو گیا کہ مذہب ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اسے آج کل کے علماء پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ورنہ مذہب کا وہی حشر ہو گا جو علماء کرام نے عید کا کر دیا ہے!
جناب مفتی محمد نعیم۔ جو کراچی میں ایک مدرسہ چلا رہے ہیں اکثر و بیشتر ٹیلی ویژن پر تشریف لاتے ہیں اور اپنے علم و فضل سے ناظرین اور سامعین کو مستفید فرماتے ہیں۔ آپ نے عید کے ضمن میں فواد چودھری کو وزارت سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ چاند دیکھ کر عید کرنے کا حکم ہے فواد چودھری کا پانچ سالہ کیلنڈر نہیں چلے گا اور یہ کہ سائنس شریعت کے تابع ہے۔ اس امر پر مفتی صاحب نے تشویش کا اظہار فرمایا کہ فواد چودھری نے مذہبی معاملات میں مداخلت شروع کر دی ہے۔
جہاں تک فواد چودھری کو ہٹانے کا مطالبہ ہے تو ہم قبلہ مفتی صاحب کی تائید کرتے ہیں بشرطیکہ فواد چودھری کو ہٹانے کے بعد وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کی سربراہی جناب مفتی صاحب قبول فرمائیں۔ سائنس شریعت کے تابع ہے۔ مفتی صاحب شریعت کے ماہر اور رمز شناس ہیں۔ یوں سائنس اور ٹیکنالوجی سیدھی ان کے دائرہ کار میں گر رہی ہے! اس سے کسی کو انکار نہیں کہ چاند دیکھ کر عید کرنے کا حکم ہے! مگر ہم بصد ادب و احترام سر نیاز خم کر کے قبلہ مفتی صاحب سے پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اگر بیک وقت دو علما دو مختلف عیدوں کا حکم اس بنیاد پر دیں کہ دونوں چاند دیکھ کر فیصلہ کر رہے ہیں تو کس کا حکم مانا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک درست ہے اور ایک غلط!
گمان غالب یہ ہے کہ مفتی صاحب اس عاجزانہ سوال سے مکمل اغماض برتیں گے اس لئے کہ ہر شخص کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے سوائے علماء کرام کے! ایسا ہوتا تو جب ماضی قریب میں ایک اور مفتی صاحب متانت ‘ سنجیدگی اور شرافت کی ساری حدیں پار کر رہے تھے تو علماء ضرور ان پر تنقید کرتے اور عوام کو متنبہ کرتے کہ ایسے ٹھٹھے باز شخص کو نماز پڑھانے‘ مفتی کہلوانے اور دینی معاملات میں رہنمائی کرنے کا کوئی حق نہیں!
فواد چودھری کو یا کسی کو بھی دینی معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں یہ اور بات کہ چاند دیکھنے کا تعلق علم فلکیات سے ہے۔ اور علم فلکیات کا تعلق سائنس سے ہے۔ غیر علماء کو دینی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا حق نہیں مگر علماء کرام سائنسی معاملات میں دخل اندازی کر سکتے ہیں!
ایک زمانہ تھا کہ جمال الدین افغانی جیسے لوگ ہمارے علما تھے۔ زندگی بھر شہر شہر ملک ملک جدوجہد کرتے رہے کہ ملت اسلامیہ متحد ہو جائے۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ خود غرض اور زرپرست حکمران انہیں بار بار جلا وطن کرتے رہے۔ افغانی اس امر پر پختہ یقین رکھتے تھے مسلمان ٹیکنالوجی اور سائنس میں ترقی کر کے مغرب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کہاں کہاں کی خاک نہیں چھانی افغانی نے! حیدر آباددکن‘ کابل ‘ تہران‘ قزوین‘ اصفہان‘ قاہرہ‘ استنبول ‘ مکہ ‘ لندن‘ پیرس‘ ماسکو‘ سینٹ پیٹرز برگ‘ میونخ‘ غرض ع مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے آخر استنبول کی مٹی میں قبر بنی۔ تقریباً نصف صدی بعد جسدِخاکی کابل میں منتقل کیا گیا۔
ساری دنیا کے مسلمانوں کا سیاسی اتحاد تو دور کی بات ہے‘ ایک ہی ملک کے مسلمان عید جیسے پر مسرت موقع پر بھی متحد نہیں ہو سکتے۔ مکمل اختیارعلماء کرام کے پاس ہے۔ خیبر پختون خواہ میں ایک دن پہلے عید ہوتی ہے تو ایک عالم دین کے کہنے پر۔ باقی ملک میں ایک دن بعد ہوتی ہے تو وہ بھی علماء دین کے فرمان کی روح سے! گلہ کریں تو کس سے کریں!!
ہمارے دانشور اور پان اسلام ازم کے علم بردار‘ اتحادِ امت پر بات کرتے ہوئے اقبال کا یہ شعر جوش و خروش سے ضرور پڑھتے ہیں ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
حالانکہ اقبال نے اس شعر میں مسلمانوں کے مشروط اتحاد کی بات ہے۔ یہ اتحاد صرف حرم کی پاسبانی کے لئے ہے! دیگر معاملات اس سے باہر ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے مسلمان اکٹھے ہو جاتے ہیں!
ساس ‘ بیٹے کی غلطیاں بہو کے سر تھوپتی ہے۔ مسلمان بھی ہمیشہ اغیار کے سر الزام لگاتے ہیں کہ متحد نہیں ہونے دیتے۔ کبھی مغرب پر کبھی اسرائیل اور کبھی ہنود پر! عذرِ گناہ بدتر ازگناہ! اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان اتنے گائودی‘ بُدھو‘ کانوں کے کچِے ناپختہ اور لائی لگ ہیں کہ کوئی بھی انہیں موم کی ناک کی طرح جدھر چاہے موڑ سکتا ہے! مومن کے بارے میں تو کہا گیا ہے کہ دھوکا نہیں کھاتا! پھر یہود و ہنود اور اہل مغرب سے فریب پر فریب کیوں کھا رہے ہیں؟
بہت سے قارئین نے قنوطیت کو رد کیا ہے اور خوش امیدی کا اظہار کرتے ہوئے تسلی دلی ہے کہ انشاء اللہ چار پانچ سو سال بعد ہم قمری کیلنڈر کو مان لیں گے اور عید ایک ہی دن کیا کریں گے!
No comments:
Post a Comment