قتل ہو گئیں
عید کی خوشیاں قتل ہو گئیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون
اگر معلوم ہوتا کہ عید کی خوشیاں مفتی صاحب اور پوپلزئی صاحب اور فواد چودھری صاحب اور شوکت یوسف زئی صاحب کے درمیان معلق ہو کر بے بسی سے اپنا تماشہ دیکھ رہی ہوں گی تو پوشاک تار تار کر لیتے اور ان جنگلوں کا رُخ کرتے جہاں انسان تو کیا سورج کی کرن تک تلاش نہیں کی جا سکتی ع
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
ہمیں ان دنوں کیا پرواہ تھی کہ عید ایک ہو رہی ہے یا دو! یا اس سے بھی زیادہ! یا قمری کیلنڈر کیا ہے اور رویت سے کیا مراد ہے! ہمیں تو بس یہ معلوم تھا کہ صبح اٹھیں گے، غسل کریں گے، پھر ماں یا دادی یا ماموں نیا لباس پہننے میں ہماری مدد کریں گے۔ بوسکی کی قمیض سفید براق شلوار اور برائون رنگ کی نئی پشاوری چپل‘ جو علاقے کے بہترین کاریگر کی بنی ہوئی ہوتی تھی!
اس زمانے میں جب ’’تہذیب‘‘ ہمارے قریوں میں اپنی لعنتوں اور بے برکتیوں اور نحوستوں اور دیدہ دلیریوں کے ساتھ در نہیں آئی تھی۔ جوتے بنانے والے کو موچی نہیں کاریگر کہا جاتا تھا۔اس کی عزت کی جاتی تھی۔ کاریگر کو اپنی ساکھ عزیز تھی، عزت مطلوب تھی، وہ ہاڑی اور ساونی(ربیع اور خریف) کی اس گندم اور جَو اور مکی اور باجرے اور جوار پر خوش تھا جو اسے شش ماہی دی جاتی تھی۔ اسے دولت سے غرض نہیں تھی۔ اس کا ایک ہی شوق تھا کہ ایبٹ آباد سے لے کر چکوال تک اور میانوالی سے لے کر اٹک تک اور فتح جنگ سے لے کر جنڈ تک اور تلہ گنگ سے لے کر پنڈی تک اس کے فن کی اور اس کے ہاتھ کی صفائی کی‘ اور اس کے سول کی مضبوطی کی اور اس کے چرم کی اصالت کی اور اس کے وعدے کے اعتبار کی شہرت قابل رشک ہو!!
یہ وہ زمانہ تھا جب لالٹین کا شیشہ ٹوٹتا تو اسے جوڑ کر دوبارہ استعمال کیا جاتا اور چائے کی پیالی ٹوٹتی تو پٹھان اسے ٹانکا لگا دیتا اور وضو والا مٹی کا کوزہ ٹوٹتا تو اسے چمڑے سے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا اور ایسے ایسے کاریگر اس دھرتی پر موجود تھے جو آر کی مدد سے دھاگہ کوزے کے اندر لے جاتے تو اندر سے واپس بھی لے آتے درآں حالیکہ کوزے کا منہ اتنا تنگ ہوتا کہ آر کا‘ اس راستے سے اندر جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
بوسکی کی قمیض اور سفید براق شلوار اور اوپر کڑھی ہوئی پشاوری یا بلوچی واسکٹ ! پھر اپنے بڑوں کی انگلی پکڑ کر عید گاہ جاتے‘ جہاں ہر طرف تابناک قمیضیں بہار دکھلا رہی ہوتیں۔ لٹھے کی کھڑ کھڑاتی ہوئی شلواریں فضا میں ایک رنگین سا شور اچھال رہی ہوتیں لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے۔ مبارکیں اور خیر مبارکیں کہتے۔ ہم گھر واپس آتے تو عیدیاں ملنی شروع ہو جاتیں کتنی عیدی ہوتی تھی اس زمانے میں دو یا تین روپے بہت‘ بہت زیادہ کوئی دیتا تو پانچ روپے! مگر سب دیتے گھر والے بھی‘ گھر آنے والے بھی! اس وقت تک گلیاں اورکوچے ان لڑکوں اور لڑکیوں کے قدموں سے گونج رہے ہوتے جو ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے گھروں میں بھاجیاں دے رہے ہوتے۔ کوئی گھر ایسا نہ ہوتا جس میں عزیزوں رشتہ داروں دوستوں پڑوسیوں کے ہاں سے بھاجی نہ آتی اور کوئی گھر ایسا نہ ہوتا جو سب کے ہاں بھاجی نہ بھیجتا۔
گھروں میں پوپھٹے حلوے بن چکے ہوتے اور کھیر بھی‘ جس میں تھوڑا تھوڑا نمک بھی ڈالا جاتا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب حلوے میں خالص گھی اور کھیر میں خالص دودھ ہوتا تھا۔ جب گھی اور دودھ فروخت کرنا بے عزتی کے مترادف تھا جب شادی اور موت والے گھر کو دودھ اورگھی زبردستی دیا جاتا جیسے فرض ہو!
یہ اس زمانے کی بات ہے جب قریہ قریہ گائوں گائوں بستی بستی قصبہ قصبہ عید کے میلے منعقد ہوتے، تب بچے اغوا ہوتے نہ عورتیں غیر محفوظ! یہ کالم نگار بہت چھوٹا تھا‘ اتنا چھوٹا کہ یاد کی پرچھائیں دھندلی ہے اور حافظے پر نقش مدہم! جب اپنے چھوٹے بھائی کی ننھی منی انگلی اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں پکڑے میلے میں جاتا ہم کئی گھنٹے وہاں گزارتے اس بڑے چرخا نما گول چکر میں بیٹھتے جو اوپر جاتا پھر دائرے میں گھومتا نیچے آتا۔ جلیبیاں کھاتے‘ چنے اور لال لوبیا کی چاٹ اڑاتے شربت پیتے۔ آنکھوں کے ساتھ ایک خردبین نما چیز لگا کر اس کے اندر پھول اور پھولوں سے بنے ہوئے جیومیٹری کے مختلف ڈیزائن اور حرم کعبہ اور مسجد نبوی کی تصویریں دیکھتے۔ جب ہم شام ڈھلے واپس آتے تو ابھی ہماری جیبوں میں کچھ پیسے باقی ہوتے!
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ہماری سڑکیں نیم پختہ تھیں اور کچھ تو دھول اڑاتی! جب ہماری بستیوں کے قریب سے سارے دن میں دو بسیں گزرتیں ایک صبح اور ایک شام ! مگر خدا کی قسم ہم خوش تھے!ہم محفوظ تھے۔ ہماری عفت مآب بیبیوں کے ہاتھ سے بیگ نہیں چھینے جاتے تھے ہمارے گھوڑے چوری تو ہو جاتے تھے مگر تاوان کے لئے اغوا نہیں کئے جاتے تھے۔ ہمارے تاجر ایماندار تھے۔ ہماری بجلی لوڈشیڈنگ کا شکار نہیں ہوئی تھی! ہمارے علماء ہل چلاکر یا تجارت کر کے یا کپڑے سی کر‘ یا کتابت کر کے‘ یا کتابیں جلد کر کے‘ اپنا اور اپنے متعلقین کا پیٹ اکلِ حلال سے بھرتے۔ چندا مانگتے نہ ان کے صاحبزادے لاکھوں میں کھیلتے نہ لینڈ کروزروں میں چلتے پھرتے۔
تب ہمارے گھروں میں ریفریجریٹر نہیں تھے۔ مگر گیلی ریت پر رکھے گھڑوں کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا کہ ہمارے حلق اور دل اور جگر ایک خنک لہر سے مالا مال ہو جاتے۔ ہمارے گھروں میں مشکوک دودھ کے منحوس ڈبے نہ آتے مگر ایلومینیم کی پرانی دیگچیوں میں جو گھڑونچی کے نیچے‘ گھڑوں کے درمیان پڑی ہوتیں۔دودھ ایسا ہوتا کہ اس کے اوپر خوشبودار بالائی کی موٹی تہہ ہوتی! ہمارے ناشتوں میں جھاگ جیسی ڈبل روٹی ہوتی نہ جعلی جام اور مارملیڈ کے فراڈ ! ہم دودھ کے ساتھ پراٹھے کھاتے اورہماری مائیں اور دادیاں ہمیں ان مرغیوں کے انڈے ابال کرکھلاتیں جو ہمارے صحنوں میں ہمارے سامنے چرتیں چگتیں!
تب ہمارے گھروں ے باہر پورچ تھے نہ اندر لائونج۔ نہ ڈرائنگ روم نہ اٹیچڈ باتھ۔ مگر ہمارے گھر‘ گرمیوں میں ٹھنڈے اور جاڑوں میں گرم تھے تب سرشام گیٹ مقفل نہ کر دیے جاتے۔ تب تو گھروں کے گیٹ ہوتے ہی نہیں تھے۔ بستیوں کی کچی گلیاں بے چراغ تھیں مگر محفوظ تھیں۔
کبھی عید کے دن ہم قبرستانوں میں جا کر اپنے رفتگاں کو یاد کرتے۔ اب عید کے دن ہمارے رفتگاں ہمیں بلاتے ہیں کہ آجائو یہاں سکون ہے اور جھگڑے نہیں ہیں!
ہماری عیدیں گم ہو گئیں۔ عیدوں کی خوشیاں جھگڑوں کی نذر ہوگئیں۔ ہمارے گھروں میں مہنگے اور بڑے بڑے ٹیلی ویژن نہیں تھے تو کسی مفتی کسی پوپلزئی کسی فواد چودھری اور کسی شوکت یوسف زئی کو ہمارے گھر میں داخل ہونے کی جرأت نہیں تھی۔ مگر افسوس!اب یہ فتنہ ساماں واعظ یہ حشر خیز رہنما ہمارے گھروں کے اندر براجمان ہیں۔ یہ ہمارے کانوں میں صبح سے شام گئے تک پگھلا ہوا سیسہ ڈالتے ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں میں وہ سلائیاں پھیرتے ہیں جو مغل دشمنوں کی آنکھوں میں پھیرتے تھے۔ پوپ اوربادشاہ کی اس لڑائی میں ہم مارے گئے!
ہماری خوشیاں ہمیں کب واپس ملیں گی؟ دلوں پرپڑی ہوئی خراشیں کب موجِ خوں میں تبدیل ہوں گی؟ ان سیاسی رہنمائوں سے ان مذہبی کھڑپینچوں سے ہماری جاں کب چھوٹے گی۔ ہماری جان کون چھڑائے گا؟
No comments:
Post a Comment