محترم مفتی منیب الرحمن صاحب! سلام مسنون! معذرت خواہ ہوں کہ جو مکتوب آپ نے ای میل کے ذریعے ارسال فرمایا‘ میں نے اسے کالم میں شائع کیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ آپ کا موقف‘ بلا کم و کاست‘ قارئین تک پہنچ جائے۔
آپ کی شفقت ہے کہ اس بے سواد وکم مایہ کو صاحبِ علم کہا۔ میں فقط طالب علم ہوں! اور آپ جیسے فضلا سے استفادہ کرنے کا متمنی!یہ جو آپ نے فرمایا کہ میری شخصیت کا تضاد ہے کہ اپنا دینی و علمی پس منظر بھی بتاتا ہوں اور لبرل ازم بھی میرے مزاج کا حصہ ہے‘ تو اس سے محظوظ ہوا ہوں۔ لبرل کا لفظ بھی کچھ دوسرے الفاظ کی طرح ایک
CLiche
سے زیاد کچھ نہیں! ایک پیش پا افتادہ‘ فرسودہ طعنہ!! بالکل اسی طرح جیسے کسی توحید پرست کو بلا سوچے سمجھے وہابی یا کسی عاشقِ رسولؐ کو بدعتی کہہ دیا جائے!! اسلام نے جب لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا‘ خواتین کو ان کے حقوق دیے اور آبائو اجداد کی گھسی پٹی راہ پر چلنے کی حوصلہ شکنی کی تو جواب میں لوگوں نے جو طعنے دیے۔ آج کی زبان میں انہیں لبرل ازم کا طعنہ ہی کہا جائے گا۔ خیر‘ یہ ایک اور بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں!
تاہم آپ نے یہ جو میٹھا طعنہ دیا ہے کہ’’ علما سے بھی آپ اکثر ناراض رہتے ہیں‘‘ تو شکیب جلالی یاد آ گئے ع
پھینکا ہے اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے
یہ الزام مبنی برحقیقت نہیں۔ بقول عدمؔ ؎
لوگ کہتے ہیں عدمؔ نے بادہ خواری چھوڑ دی
افترا ہے جھوٹ ہے بہتان ہے الزام ہے
میں تو علماء حق کی خاک پا بھی نہیں! ہاں وہ علماء جو دین کو سیڑییھی کے طور پر استعمال کر کے سیاسی رہنما بنتے ہیں اور اپنے میمنہ اور میسرہ پر کرپٹ سیاست دانوں کو تعینات کرتے ہیں‘ یا دین کو اپنی مالی آسودگی اور سیلف پروجیکشن کے لئے پی آر کے ٹول کے طور پر برتتے ہیں ان کی ہمیشہ مخالفت کی اور کرتا رہوں گا۔ اگر اس بے بضاعت کی تحریریں آپ کی نظر سے گزرتی رہی ہیں تو یاد ہو گا کہ سب سے پہلے اسی حقیر نے مدارس کے اساتذہ کے (جو مدارس کی جان ہیں) حقوق کی طرف توجہ دلائی اور کئی
forums
پر کہا ہے کہ مالکان مدارس انہیں رہائش ‘ علاج اور جی پی فنڈ یا کنٹری بیوٹری فنڈ کی سہولیات اسی طرح دیں جیسے نجی شعبے میں دی جاتی ہیں۔
اصل مسئلے سے آپ صرف نظر کر گئے اور صرف یہ کہہ کر
’’ISNA
نے جو کیلنڈر ترتیب دیا ہے اس کا امکانِ رویت سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔‘‘ معشوقانہ تغافل یاد دلا دیا۔ گویا بقول استاد ذوقؔ ؎
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری‘ سب کے جواب میں
حضرت ! کیلنڈر
ISNA
نہیں بلکہ اس کے تحت جو ٹیکنیکل ادارہ ہے فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ‘ اس نے بنایا ہے اور یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ (المجلس الاوروبی للافتا ء والبحوث) اس کی پشت پر ہے۔ علامہ یوسف قرضاوی جو کسی تعارف کے محتاج نہیں اسی سے وابستہ رہے ہیں۔ فقہ کونسل میں ڈاکٹر مزمل صدیقی‘ ڈاکٹر زینب اور ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ جیسے علماء کے علاوہ بہت سے ملکوں کے ائمہ اور اصحابِ علم شامل ہیں۔ اس کیلنڈر کی ترتیب و تشکیل میں بیس برس کی محنت شاقہ شامل ہے۔ ترکی‘ ابوظہبی‘ دبئی‘ یورپ اور امریکہ میں درجنوں کانفرنسیں اس موضوع پر ہوئیں۔ فقہ کونسل کی طرف سے ڈاکٹر ذوالفقار علی شاہ ان تمام کانفرنسوں میں شریک رہے۔ فقہ کونسل کی ویب سائٹ
(fiqhcouncil.org)
پر اس موضوع سے متعلق تفصیلی مضامین موجود ہیں۔ بنیادی فارمولے کا ذکر میرے کالم میں بھی موجود تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کیلنڈر کے پیرو کار‘ ہر سال زیادہ ہو رہے ہیں۔ آخر پاکستان سے باہر بھی تو مسلمان اور اہل علم و فضل موجود ہیں!!
اپنے کالموں میں یہ کہہ کر کہ ملائشیا اور ترکی وغیرہ‘‘ میں کیلنڈر کے مطابق رمضان کا آغاز ہوتا ہے‘ آپ نے اس موقف کی تصدیق فرما دی کہ کیلنڈر عالم اسلام میں مقبول ہو رہا ہے ساتھ ہی یہ کہہ کر یہ کیلنڈر’’ہمارے ممالک‘‘ میں یہ قابل عمل نہیں‘ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ مسئلہ ’’ہمارے ممالک‘‘ کا ہے ‘ عالم اسلام کا نہیں! رہا آپ کا یہ دعویٰ کہ ملائشیا اور ترکی وغیرہ کا کیلنڈر امکان رویت پر مبنی نہیں‘ تو اس الزام کا کیا ثبوت ہے ؟ کیا ان ملکوں میں علما نہیں؟ کیا ان ملکوں میں مسلمان نہیں بستے؟ ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ان کے کیلنڈر پر یک طرفہ رائے دیں اور یہ نہ دیکھیں کہ ان ملکوں کے علماء اور ماہرین کا اپنا موقف کیا ہے؟
آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ’’جنوبی ایشیا کے مسلمان خواہ اپنے وطن میں رہتے ہوں یا کہیں اور منتقل ہو گئے ہوں وہ رویت بصری کو مدار بناتے ہیں‘‘ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا الگ موقف ہے اور باقی عالم اسلام کا الگ؟ اسلام‘ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں اورجنوبی ایشیا کے علماء کی جاگیر تو نہیں! عالم اسلام کے مسئلے کو آپ جنوبی ایشیا کی عینک سے کیوں دیکھتے ہیں؟
مفتی پوپلزئی صاحب سے اپنے اختلاف کا ذکر شدومد سے کر کے آپ ہمارے اس موقف کی پر زور تائید فرما رہے ہیں کہ کیلنڈر کو رد کر کے اگر صرف علماء پر انحصار کیا جائے تب بھی ایک عید نہیں ہو سکتی۔ آپ کا استدلال سارا یہ ہے کہ رویت ہلال کمیٹی سرکاری ہے اس کی پشت پر ریاست ہے جب کہ پوپلزئی صاحب کو ریاست نے مقرر نہیں کیا۔ مسئلہ تو رویت ہلال کا ہے۔ کیا احادیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ رویت صرف سرکاری کمیٹی کی قبول ہو گی؟ آقائے نامدارؐ مدینہ کی ریاست کے حکمران تھے کیا انہوں نے کوئی کمیٹی ریاستی سطح پر تشکیل فرمائی تھی؟ سوال یہ ہے کہ دو بڑے علماء میں (یا کمیٹی کے علماء اور ایک معروف عالم میں) اختلاف حقیقت نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ مذہب کا معاملہ ہے تو سرکار کیوں مداخلت کر رہی ہے؟
ہم پوپلزئی صاحب کی مخالفت یا تائید نہیں کر رہے‘ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ علماء خود متفق نہیں! رہا پوپلزئی صاحب کے ضمن میں ملا فضل اللہ وغیرہ کی مثال دینا۔ یا انہیں ’’مذہبی دہشت‘‘ سے تعبیر کرنا تو یہ مناسب نہیں! اگر آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ’’ادارے‘‘ پوپلزئی صاحب کو ’’کنٹرول‘‘ کر بھی لیں تو یہ حقیقت تو پھر بھی باقی رہے گی کہ عید کے چاند کی رویت پر علماء میں خود اختلاف ہے پوپلزئی صاحب کے خلاف ایکشن کی تجویز آپ اسی لئے تو دے رہے ہیں کہ وہ اختلاف کر رہے ہیں ۔یہی تو ہم کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ماہرین فلکیات کا ہے۔ جو لوگ یہ بتاتے ہیں کہ غروب اور طلوع آفتاب کتنے بجے ہو گا۔ ہوا کی رفتار کل کیا ہو گی۔ بادل کتنے فیصد ہوں گے۔ ٹمریچر کتنا ہو گا‘ بارش کس وقت ہو گی‘ برف باری کتنی ہو گی‘ ہوا میں نمی کتنے فیصد ہو گی
Dew Point
کیا ہو گا۔
Precipitation
کتنے فیصد ہو گا۔ ہوا کا دبائو کتنا ہو گا۔ وہی رویت یا امکانِ رویت کا بھی فیصلہ کریں گے۔
آپ ہمارے مذہبی رہنما ہیں۔ آپ سے لوگ پیار اور محبت کی توقع کرتے ہیں التماس دست بستہ یہ ہے کہ ایک ایک کالم میں کئی بار لبرل کا طعنہ دینا مناسب نہیں۔ بقول نظیری نیشا پوری ؎
درسِ ادیب گر بود زمزمۂ محبتی
جمعہ بہ مکتب آورد طفل گریز پائی را
آپ کا یہ طنز بھی نامناسب ہے کہ ’’رویت ہلال کے نظام پر بات کرنے والے لبرلز اسی نظریے کے حامی ہیں۔ انہیں روزہ اور عبادات سے چنداں غرض نہیں ہوتی‘‘۔معاف فرمائیے گا۔ اس سے استکبار جھلک رہا ہے۔ دلوں کے بھید پروردگار جانتا ہے۔ سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔ جو آپ کو لبرلز لگتے ہیں ان میں خدا سے ڈرنے والے‘ عبادت کرنے والے اور معاملات میں حد درجے احتیاط کرنے والے بھی ہیں اور بے شمار ہیں ؎
ہرگوشہ گمان مبرکہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد!!
یہ لبرلز یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سحری ختم کرنے کے لئے باہر نکل کر سفید اور سیاہ دھاگے کا امتیاز کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ زوال‘ ظہر اور عصر کے اوقات جاننے کے لئے زمین میں سلاخ کیوں نہیں گاڑی جاتی؟ گھڑی پر اعتماد کیوں کیا جاتا ہے؟
حضرت ! بہت ادب کے ساتھ! اس معاملے کو وقت پر چھوڑ دیجیے۔ چھاپہ خانے‘ تصویر‘ لائوڈ سپیکر فلم اور ٹیلی ویژن کی طرح کیلنڈر بھی ہمارے علماء ایک نہ ایک قبول فرمالیں گے مگر بعداز خرابیٔ بسیار! ؎
تفاوت است میانِ شنیدنِ من وتو
توبستن در و من فتحِ باب می شنوم
کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو دامنِ عاطفت وسیع کر کے درگزر فرما دیجیے ؎
مرا بہ سادہ دلی ہائی من تو ان بخشید
خطا نمودہ ام و چشمِ آفرین دارم!
اس ننگِ اسلاف کا تعلق جس خانوادے سے ہے‘ اس کی تلقین یہ ہے کہ علماء کا احترام واجب ہے! آپ کی دعائوں کا طالب ہوں اور رہنمائی کا محتاج ! اسلام آباد تشریف آوری ہو توغریب خانے پر قدم رنجہ فرمائیے۔ انشاء اللہ فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے تحفۂ خاص مکھڈی حلوے سے تواضع ہو گی! یہ شعر آپ جیسے اساتذہ ہی سے پڑھا ہے کہ
یا ضیفنا لو زرتنا لوجد تنا
نحن الضیوف وانت رب المنزلٖ
No comments:
Post a Comment