آسمانوں سے مدد اتری ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوئے۔
ایف بی آر کے انٹرنیشنل ٹیکس کے شعبے نے بتایا کہ صرف متحدہ عرب امارات سے 346ارب روپے کے اثاثے ظاہر کئے گئے۔ سوئٹزرلینڈ سے 114ارب روپے، برطانیہ سے 89ارب روپے‘ سنگا پور سے 87ارب روپے اور برٹش ورجن آئی لینڈز سے 48ارب روپے تسلیم کئے گئے۔ غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی (ڈاکومنٹڈ) معیشت میں تبدیل کرنے کی طرف یہ ایک اہم اقدام ہے! اہم اور انقلابی اقدام!
وہ زمانہ لد چکا جب ترقی یافتہ ملک منہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے۔ اب ایسے قانونی اور دو طرفہ انتظامات ہو چکے ہیں کہ اطلاعات خفیہ نہ رہیں اور ان کا تبادلہ کیا جا سکے۔ گزشتہ برس پاکستان کو 28ملکوں سے ایسی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اس سال لگ بھگ 71ملکوں سے مل رہی ہیں۔ اگلے دو تین برسوں میں یہ تعداد ایک سوتک پہنچ جائے گی۔
اقبال دائود دبئی میں پاکستان بزنس کونسل کے صدر ہیں۔ انہوں نے سکیم کے لئے دی گئی آخری تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ دستاویزی دائرے میں داخل ہونا چاہتے ہیں اورمزید وقت مانگ رہے ہیں۔
خالد حسین چودھری شارجہ میں پاکستان سوشل سنٹر کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان پاکستانیوں کے لئے بہت اچھا موقع ہے جو غیر رجسٹرڈ جائیدادیں اور اثاثے قانونی حدود میں لانا چاہتے ہیں تاکہ ملک کو اور ملک کے عوام کو فائدہ ہو!
عمران خان آئیڈیل وزیر اعظم نہ سہی! تحریک انصاف کی حکومت ایسی نہیں کہ اس پر صدقے قربان ہوا جائے مگر جو بھی اس ملک سے دلسوزی کا رشتہ رکھتا ہے‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا اربوں کے اثاثے ظاہر کرانے کی ایسی کوشش نواز شریف ، یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف کر سکتے تھے؟ اور کیا مولانا صاحب نے کبھی اس حوالے سے آج تک ایک لفظ بھی کہا؟
جناب ایاز امیر اور جناب ہارون الرشید کے سارے اعتراضات بجا! مگر انگریز ایک محاورہ استعمال کرتے ہیں
given conditions،
وہ حالات جودرپیش ہیں! وہ حالات جو ہمیں درپیش ہیں ان میں یہی کیا کم غنیمت ہے کہ ایک ایسا سربراہ حکومت ہاتھ آیا ہے جو اپنے کارخانوں، اپنی جائیدادوں اور اپنے اثاثوں کی فکر میں نہیں؟ جس کا بھائی، بھتیجا بہن، بیٹا‘ وزیر اعظم ہائوس میں کھڑپینچ بن کر نہیں بیٹھا ہوا۔ جو یہ نہیں کہہ رہا کہ سعودی عرب میں ٹیکس نہیں ہے تو پاکستان میں کیوں ہو؟ جسے یہ فکر ہے کہ ٹیکس ادا کیا جائے برآمدات بڑھیں‘ قانون اپنا دائرہ وسیع تر کرے اور دلدر دور ہوں! غلطیاں ہوئی ہیں ! اور بھی ہوں گی! مگر غلطیاں بلکہ حماقتیں‘بدنیتی اور بددیانتی سے بہتر ہیں! کئی گنا بہتر!
حضرت مولانا اے پی سی کا انعقاد فرما رہے ہیں۔ اس پیرانہ سالی میں شریف اور زرداری خاندانوں کے بچوں کو بنفس نفیس دعوت دے رہے ہیں۔ بس چلے تو آن کی آن میں حکومت کو بھسم کر دیں اور عمران خان کو پتھر کے بت میں تبدیل کر دیں! مگر مصیبت یہ ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا۔ جنرل مشرف سے لے کر زرداری صاحب تک‘ نواز شریف سے لے کر شہباز شریف تک‘ ہر ایک پر ان کا جادو چلتا رہا۔ وہ حیران ہیں اور اس صدمے سے نکل نہیں پارہے کہ عمران خان میں اتنی جرأت! کہ انہیں دائمی اقتدار کے محل سے باہر پھینک دیا۔
اتنا طویل عرصہ منتخب اداروں میں بیٹھنے کے دوران‘ کیا کسی کو یاد ہے کہ مولانا نے کوئی قرارداد ایسی پیش کی ہو جس میں ملک کی معاشی، سماجی، زرعی یا صنعتی اصلاح کا پہلو ہو؟ کبھی لینڈ ریفارمز کی بات کی ہو؟ کبھی یکساں تعلیمی نظام کی بات کی ہو؟کبھی سرحدوں سے غیر ملکیوں کے آزادانہ آنے جانے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہو؟ کبھی ملک میں رہائشی مکانوں کی قلت کا رونا رویا ہو؟ کبھی بھولے سے پوچھا ہو کہ برآمدات کیوں کم اوردرآمدات کیوں بڑھ رہی ہیں؟ کبھی کہا ہو کہ فلاں علاقے میں‘ کارخانے کم ہیں وہاں صنعت کاری پر توجہ دی جائے؟ کبھی عوام کے معیار زندگی پر کوئی بات کی ہو؟
چلیے وہ اپنے آپ کو مدارس کا واحد خیر خواہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اپنے طویل عہد اقتدار میں انہوں نے مدارس ہی کے موجودہ نظام میں کوئی اصلاح کی ہو! مدارس کے طلبہ کی خوراک اور پوشاک میں بہتری کی کوئی صورت نکالی ہو؟ کبھی یہ بتایا ہو کہ ہر سال مدارس سے اتنے ہزار یا اتنے لاکھ طلبہ فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں‘ ان میں سے اتنوں کو روزگار ملتا ہے‘ اتنے بے روزگارہیں‘ ان کے لئے میں یہ تجویزپیش کرتا ہوں۔ کبھی مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کے لئے انہوں نے کوئی اقدام اٹھایا ہو‘ یا تجویز ہی کیا ہو؟ قلیل تنخواہوں پر قال اللہ اور قال الرسول کہنے والے یہ اساتذہ مالکان مدرسہ کے بدترین استحصال کا شکار ہیں۔ پنشن کا کوئی نظام ہے نہ جی پی فنڈ کا۔ ان کا اور ان کے کنبوں کا علاج! ان کی رہائش کے مسائل ! کیا کسی بھی پہلو کی طرف اس سارے عرصہ میں مولانا نے کوئی توجہ دی ہے؟ وہ اکثر ’’نظریات‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ آج تک ان نظریات کی تشریح کسی نے نہیں سنی۔ انہیں فکر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت مغربی تہذیب کو رائج کرنا چاہتی ہے۔ جنرل مشرف‘ زرداری صاحب اور میاں برادران کی منظور نظر جس مشرقی تہذیب کی خاطر مولانا ان کا ساتھ دیتے رہے اس مشرقی تہذیب کی کوئی جھلک ہی یاد دلا دیں!
دارالحکومت کو لاک ڈائون کرنے کا وہ عزم رکھتے ہیں۔ کیا مدارس کے طلبہ کو وہ اپنی آگ کا ایندھن بنانا چاہتے ہیں؟ ان طلبہ کو ان کے (اکثر غریب) ماں باپ نے مدارس میں اس لئے نہیں چھوڑا ہوا کہ وہ کسی کی طالع آزمائی کے لئے زینے کا کام دیں۔ یہ طلبہ کینچوے نہیں جنہیں کانٹے میں پرو کر پانی میں رکھا جائے کہ اقتدار کی مچھلی پھنسے۔
مولانا کے ہم نفس اور ہمدم جناب اچکزئی پیش منظر سے غائب ہیں۔ یہ سکون کیا کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے یا بلوچی گاندھی کے خلف الرشید کا دل اس لئے ٹوٹ گیا کہ ایم ایم اے کے ہاتھوں وہ اپنی نشست سے محروم ہو گئے؟ نازک وقت میں جب مولانا جگر لخت لخت کو جمع کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اچکزئی صاحب کو چاہیے کہ آ کر درمے‘ دامے‘ نہ سہی‘ سخنے تو مدد کریں ؟ کہ اس صورت حال میں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی غنیمت ہو گا!
یہ سطورلکھتے وقت اطلاع ملی ہے کہ اچکزئی صاحب اے پی سی میں شریک ہو رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت بھی بلاول زرداری خود کر رہے ہیں۔ مریم صفدر اور شہباز شریف بھی شریک ہو رہے ہیں گویا جہاں تک شرکت کا تعلق ہے اے پی سی کا کورم پورا لگ رہا ہے۔
اس کانفرنس سے نہ صرف محروم اقتدار سیاسی رہنمائوں کی امیدیں بلکہ ان صحافتی بزرجمہروں کی مسرتیں بھی وابستہ ہیں جن کے آگے سے دستر خوان لپیٹ دیے گئے۔ جن کی ہیلی کاپٹروں اور ہوائی جہازوں کی وہ سواریاں چھن گئیں جو انہیں شاہ کی قربت مہیا کرتی تھیں اور جو چیتھڑوں کے لئے پرکشش اشتہارات حاصل کرنے میں کامیاب رہتے تھے ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا 0
No comments:
Post a Comment