Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, June 01, 2019

قمری کیلنڈر اور ذہنوں میں اٹھتے سوالات…



‎گزشتہ نشست میں عرض کیا گیا تھا کہ یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ (المجلس الاروبی للا فتاء والبحوث) کا جس کے بانی سربراہ علامہ یوسف قر ضاوی تھے۔ موقف یہ ہے کہ رویت یعنی چاند کا دیکھنا مطلوب و مقصود نہیں بلکہ ایک ذریعہ ہے نئے مہینے کے آغاز کو جاننے کا! اور اب نیا مہینہ حساب کے ذریعے جانا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر فقہ کونسل آف شمالی امریکہ نے اگلے پچیس برس کا کیلنڈر بنایا۔ 

‎جو گروہ رویت کو لازم قرار دے رہا ہے‘ ہم اس کے خلوص نیت کی قدر کرتے ہیں۔ بہر طور بطور طالب علم ہمارے کچھ سوالات ہیں جو ہم اس گروہ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

‎ پہلی صورت

‎’’حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص سے روایت ہے کہ آپؐ سے نماز کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ فجر کی نماز کا وقت تو اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج کا ابتدائی کنارہ نمودار نہ ہو اور ظہر کا وقت اس وقت ہوتا ہے جب آفتاب بیچ آسمان سے مغرب کی جانب ڈھل جائے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک کے عصر کا وقت نہیں آ جاتا اور عصر کی نماز کا وقت تب تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ پڑ جائے اور سورج کا پہلا کنارہ ڈوبنے لگے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک شفق غائب ہو اور عشا کا وقت آدھی رات تک ہے‘‘ (بخاری و مسلم۔ معارف الحدیث جلد تین تالیف مولانا منظور نعمانی) 

‎دوسری صورت

‎’’ظہر کا وقت جاننے کے لئے چاہیے کہ ایک سیدھی لکڑی یا ایسی ہی کوئی اور شے دوپہر سے پہلے زمین پر سیدھی گاڑ دی جائے۔ قدرتی طور پر اس کا سایہ ہو گا اور وہ سایہ آہستہ آہستہ کم ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ بہت تھوڑا سا سایہ رہ جائے گا۔ اس وقت سایہ ٹھہر جائے گا۔ اب اگر کچھ بھی سایہ باقی ہے تو جہاں تک وہ سایہ ہے اس پر نشان لگا دیا جائے۔ اگر سایہ بالکل نہ ہو تو جہاں لکڑی گڑی ہے۔ وہی نشان ہے۔یہ کیفیت استوائی علاقوں میں ہوتی ہے غرض جہاں پر سایہ ٹھہر جائے اور پھر بڑھنے لگے تو جان لینا چاہیے کہ سورج ڈھلنے لگا یعنی آسمان کے وسط سے جھک گیا۔ یہیں سے ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے۔ جب اس لکڑی کا سایہ لکڑی کی لمبائی کے برابر ہو جائے تو ظہرکا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب سایہ کسی شے کی اپنی لمبائی سے زیادہ ہو جائے۔ بغیر اس کے کہ اس میں اس سایہ کو شامل کیا جائے جو زوال کے وقت تھا تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ۔ عبدالرحمن الجزیری) 

‎تیسری صورت۔

‎’’کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہئ شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے(البقرہ)

‎ ان تین صورتوں  سے ذہن  میں کچھ سوال اٹھتے ہیں
‎۔1

‎۔ فجر کا وقت ختم ہونے کیے تعین کے لئے ہم باہر نکل کر سورج کے ابتدائی کنارے کا نمودار ہونا کیوں نہیں دیکھتے؟ ہم کمروں میں بند ہو کر گھڑی دیکھ کر کیوں فرض کر لیتے ہیں کہ سورج نکل آیا اور اب نماز نہیں ہو سکتی؟ کیا یہ حکم کی مخالفت نہیں؟
2

‎۔ ظہر کے لئے ہم باہر نکل کر کیوں نہیں دیکھتے کہ آسمان مغرب کی طرف ڈھلا کہ نہیں؟ اور عصر کے لئے باہر نکل کر کیوں نہیں دیکھتے کہ سورج زرد پڑ گیا؟ پھر عصر کے وقت کا خاتمہ جاننے کے لئے ہم سورج کا پہلا کنارہ ڈوبتے ہوئے‘ اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھتے؟

 3
‎۔ ظہر اور عصر کا وقت جاننے کے لئے ہم زمین میں لکڑی گاڑ کر اس کا سایہ کیوں نہیں ماپتے؟ کیا یہ فقہی احکام کی خلاف ورزی نہیں؟ قرآن ‘ حدیث اور فقہ میں کہاں لکھا ہے کہ گھڑی دیکھ کر نمازیں پڑھی جائیں؟

 4
‎۔ قرآن پاک میں صریحاً فرمایا گیا ہے کہ افق پر سیاہی کی دھاری سے صبح کی دھاری الگ نظر آئے تو تب سحری کا وقت ختم ہو گا۔ ہم چھتوں پر چڑھ کر افق کو کیوں نہیں دیکھتے؟

 5
‎۔ اگر ہم فرامین شریعت کے مقابلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں تو کیا گھڑی ٹیکنالوجی میں نہیں شمار ہوتی؟ پھر ہم سورج کو دیکھ کر اور لکڑی گاڑ کر وقت کا تعین کیوں نہیں کرتے؟ ٹیکنالوجی کی مدد سے اوقات نمازاور اوقات سحر و افطار کا تعین کر کے قرآنی آیت‘ احادیث اور فقہی احکام کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں۔

 6
‎۔ آپؐ کے عہد مبارک میں نظر کا چشمہ نہیں تھا۔ اس زمانے میں صرف آنکھوں سے چاند دیکھا جاتا تھا۔ نظر کا چشمہ ٹیکنالوجی کا شاخسانہ ہے اس میں 

cylinderical 

spherical

کے متعدد مسائل ہیں۔ نظر کا چشمہ لگا کر ہم اس طریقے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں جس طریقے سے عہد مبارک میں چاند دیکھا جاتا تھا؟

 7
‎۔ شریعت کے احکام ہمیشہ کے لئے ہیں۔ ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ محرم عورت سے نکاح تب بھی حرام تھا۔ اب بھی حرام ہے۔ شیر کا گوشت تب بھی حرام تھا۔ آج بھی حرام ہے۔ نوا قص وضو میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ مگر ہمارے مذہبی رہنما کسی ایک موقف پر نہیں ٹھہرتے۔ پہلے انہوں نے پریس کو حرام کہا۔ پھر جائز قرار دیا لائوڈ سپیکر کو ناجائز کہا۔ پھر جائزکردیا تصویر‘ ٹیلیویژن کو پہلے حرام کہا۔ پھر خود‘ شدومد سے استعمال کرنے لگے۔ کیا یہ فہم دین کی کجی ہے یا یہ اشیا جو پہلے حرام تھیں کسی آسمانی حکم سے حلال ہوئیں؟

‎ جب ہم کہتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو احادیث کے مقابلے میں جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں تو ہم دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اسلام سے متحارب ہے۔ حالانکہ سائنس اور ٹیکنالوجی علم ہے اور علم جہاں بھی ہو۔مومن کی میراث ہے۔آپؐ کی نبوت کا علم پوری کائنات پر محیط ہے۔ یوں سائنس اور ٹیکنالوجی نبوت کے ازلی اورابدی علم کا حصہ ہیں! ہم ان سے کام لینے کے بجائے انہیں حریف کیوں بنا رہے ہیں؟ جب خالق کائنات نے کہہ دیا ’’و یخلق مالا تعلمون‘‘ اور وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے‘‘ تو کیا اب تک کی اور مستقبل کی ساری ایجادات اور دریافتیں اس فرمان الٰہی کے زمرے میں نہیں آ جاتیں؟ 

‎پھر ظلم کی انتہا یہ ہے کہ چاند دیکھنے پر بھی علما ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں اس سوال کا جواب کون دے گا کہ کیا پوپلزئی عالم دین نہیں؟ اس علاقے کے مسلمانوں کی رویت کی گواہیاں کیوں نہیں تسلیم کی جا رہیں؟ پوپلزئی صاحب اور سرکاری رویت ہلال کمیٹی ‘ دونوں میں سے کون جھوٹا ہے اور کون سچا ہے؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ظاہر ہے دونوں سچے ہو سکتے ہیں نہ جھوٹے! آپ فتویٰ لگا کر ہونٹ سی سکتے ہیں مگر ذہنوں میں اٹھتے سوالات کیسے روکیں گے؟ 

‎اسلامی نظریاتی کونسل کا حالیہ رویہ اس ضمن میں ازحد مایوس کن ہے۔ کونسل کی قیادت اس سے پہلے سیاسی بنیادوں پر ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے پاس تھی۔ جس کے بارے میں کچھ نہ کہنا‘ کچھ کہنے سے بہتر ہے۔ نئی قیادت سے علم دوستی اور توازن کی توقع تھی مگر ثابت ہوا کہ قیادت اب بھی اسی مائنڈ سیٹ کے پاس ہے۔ فقط ظاہر کا فرق پڑا ہے۔ ہمارے دوست جناب خورشید ندیم اور ان جیسے دیگر ارکان کی (اگر ہیں تو) صدا نقار خانے میں کوئی نہیں سنے گا! ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ کونسل قمری کیلنڈر پر کام کر رہی ہے اور فیصلہ عید کے بعد ہو گا دوسری طرف اسی سانس میں فیصلہ سنایا جا رہا ہے کہ ’’عید اور روزے کے لئے رویت ضروری ہے‘‘ تو فیصلہ تو آپ نے کر دیا۔پھر نام نہاد تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟ 

‎بے خبری کا یہ عالم ہے کہ کونسل کے مدارالمہام کہہ رہے ہیں’’دنیا میں ابھی تک کہیں بھی عید کا اعلان نہیں ہوا‘‘ انہیں معلوم نہیں کہ اگلے کئی عشروں کی عیدوں اور رمضان کا تعین ہو چکا ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ کیلنڈر کو استعمال کر رہے ہیں۔ مخالفت بھی ہے مگر موافقت روز بروز زیادہ ہو رہی ہے۔ کونسل نے کیلنڈر کے بارے میں وفاق ہائے مدارس کو خطوط ارسال کئے ہیں ماہرین فلکیات کو نہیں ارسال کئے یہ وہی وفاق ہائے مدارس ہیں جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور ایک دوسرے کی تکفیر سینکڑوں کتابوں اور تقریروں میں کر چکے ہیں۔ 

‎اور ہاں! ایک آخری سوال کونسل سے کہ ہر مسجد میں نمازوں کے اوقات کے جو چارٹ لگے ہوئے ہیں وہ کن وفاق ہائے مدارس نے تیار کئے ہیں؟

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com