سیّدانی کے نام سے آپ کے ذہن میں ایک بی بی صاحبہ کی تصویر اُبھرے گی جو ہاتھ میں تسبیح پکڑے‘ منہ سر لپیٹے‘ ایک تخت پر تشریف فرما ہیں۔ سامنے زمین پر مریدنیاں بیٹھی ہیں جو ایک ایک کر کے ان کے پاس جاتی ہیں۔ پہلے ہاتھ چومتی ہیں۔ پھر عرضِ مدعا کرتی ہیں۔ بی بی صاحبہ کچھ پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ کچھ اوراد و وظائف تجویز کرتی ہیں۔ دم کیا ہوا پانی عنایت کرتی ہیں۔ آخر میں مریدنی نذرانہ پیش کرتی ہے۔ مگر میں جن سّیدانی صاحبہ کا ذکر کر رہا ہوں وہ بالکل مختلف ہیں۔ ان کے ہاتھ میں تسبیح ہے نہ مریدنیوں کی حاضری میں دلچسپی ہے۔ نذرانہ لیتی ہیں نہ منہ سر لپیٹتی ہیں۔ وہ تو ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں‘ وہ بھی سائنس کی! ظاہر سے نہیں معلوم ہوتا مگر گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ پہنچی ہوئی ہیں‘ عقل و دانش کا خزانہ ہیں۔ کسی بھی مسئلے پر ان کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے۔ ایک بار میں کسی مسئلے میں الجھا ہوا تھا! پریشان تھا اور پراگندہ خاطر! ایک دوست کہنے لگا کہ ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں بشرطیکہ وہ حاضر ہونے کی اجازت دے دیں۔ فون کرنے کے لیے وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ واپس آیا تو کہنے لگا: چلیں! میرے ذہن میں یہی تھا کہ کوئی درگاہ ہو گی یا خانقاہ! مگر یہ تو ایک بڑی سی محل نما کوٹھی تھی۔ ملازم نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر میں ایک ادھیڑ عمر خاتون آئیں۔ جدید ترین لباس پہنے اور ظاہر میں غیر مذہبی۔ میرا دوست اٹھ کر کھڑا ہوا اور جھک کر آداب بجا لایا۔ پھر مجھے بتایا کہ یہ سیّدہ ہیں اور یہی وہ بزرگ ہیں جن کی خدمت میں مجھے لایا ہے۔ مسئلہ بتایا تو حیرت ہوئی کہ ایک لمحہ توقف کیے بغیر انہوں نے ایک ایسا نکتہ نکالا جس سے مسئلہ چٹکی بجانے کی دیر میں حل ہو رہا تھا اور یہ نکتہ میرے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی نہیں تھا۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوئی‘ ان کے پاس گیا اور با مراد ہو کر واپس ہوا۔
چند روز سے ایک ذہنی خلفشار میں مبتلا تھا۔ بہت سوچا۔ اچانک حافظ شیرازی یاد آگئے:
مشکلِ خویش برِ پیرِ مغاں بُردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معما می کرد
کہ میں اپنی مشکل پیرِ مغاں کے پاس لے گیا کیونکہ وہ نظر کی طاقت سے مشکل حل کرتا تھا۔
سیّدانی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملازم نے بتایا کہ نماز ادا کر رہی ہیں۔ جب تشریف لائیں میں احتراماً کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے ملازم سے چائے کا کہا اور میرا احوال پوچھا۔ عرض کیا ''پریشان ہوں۔ حالیہ جنگ ہمارے شہیدوں نے لہو دے کر جیتی ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ کیا ہے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر جان دی ہے مگر کچھ برخود غلط قسم کے دانشور‘ جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں عالمِ دین بھی سمجھا جائے‘ پوری قوت سے مہم چلا رہے ہیں کہ یہ معرکہ کفر اور اسلام کا نہیں تھا بلکہ محض دو قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے درمیان لڑائی تھی۔ اس جنگ کے بارے میں یہ حضرات بظاہر پاکستانی ہوتے ہوئے ایک بھارتی مسلمان کے مؤقف کی تشہیر کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مؤقف قابلِ تقلید ہے‘ جبکہ پاکستان کا اپنا مؤقف ہے۔ ان کے اس گمان انگیز اور اذیت ناک
Sadist
مؤقف سے ہم جیسے محب وطن تکلیف میں ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان مسلم سٹیٹ نہیں ہے کیونکہ یہاں غیرمسلم بھی رہ رہے ہیں‘‘۔ سیّدانی میری عرض گزاری کو غور سے سُن رہی تھیں اور مسکرائے جا رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ دیر توقف کیا‘ پھر فرمانے لگیں ''ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے۔ آئین کے آرٹیکل دو کی رو سے اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہو گا! ‘‘ بھارت کے آئین کی رو سے بھارت ''سوشلسٹ سیکولر ڈیموکریٹک ریپبلک‘‘ ہے۔ ریاست مدینہ میں غیرمسلم بھی رہتے تھے مگر وہ اسلامی ریاست تھی۔ خلافت راشدہ کے عہد میں سلطنت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں لاکھوں غیر مسلم رہتے تھے پھر بھی وہ اسلامی اور مسلمان سلطنت تھی۔ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ مسلم ریاست میں کوئی غیرمسلم نہیں رہ سکتا! کوئی ایک حوالہ؟؟ ایران صدیوں سے نیشن سٹیٹ ہے اور آج کل‘ ساتھ ساتھ اسلامی سٹیٹ بھی ہے۔ پھر ہماری فوج کا ماٹو ہے ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ۔ کیا کوئی سٹیٹ جو مسلم سٹیٹ نہ ہو‘ ایسا ماٹو اپنا سکتی ہے؟ بنیانٌ مرصوص والی آیت کا ترجمہ دیکھ لیجیے۔ ''اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ اب جو لوگ جنگ کو بنیانٌ مرصوص کا نام دیں‘ اللہ کی راہ میں لڑیں‘ ان کا سپہ سالار نمازِ فجر خود پڑھا کر دعا مانگے اور حملہ کرنے کا حکم دے‘ وہ اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تو پھر اسلام اور کفر کی جنگ اور کسے کہتے ہیں؟ ملا ضعیف نے بھی یہی کہا ہے کہ اس جنگ کا اسلام سے تعلق نہیں‘ یہ پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے۔ جن لوگوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان کا بھی یہی مؤقف ہے۔ ملا صاحب پنجابیوں اور ہندوؤں کا نام لیتے ہیں تو یہ لوگ دو قوموں کا! دونوں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان افراد کا مؤقف وہی ہے جو پاکستان کے مخالفین کا ہے۔ بھارتی مسلمان بیچارے کا کیا مؤقف ہو گا جو سانس بھی امیت شاہ اور ادتیا ناتھ کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتا۔ وہ تو دار الکفر میں ہے اور زنجیر بپا! یہ لوگ بھارتی شہریوں اور افغان ملاؤں کے مؤقف کی جگالی کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ان کے تار سمندر پار سے ہلائے جا رہے ہیں! ورنہ کوئی پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا کہ افغان یا بھارتی مؤقف کی تائید کرے۔ اگر پاکستان اسلامی یا مسلم سٹیٹ نہیں تو اسلامی نظریاتی کونسل‘ شریعہ کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعہ اپیلٹ بنچ جیسے آئینی ادارے کیوں قائم ہیں؟ ادارۂ تحقیقات اسلامی اور رحمۃ للعالمین اتھارٹی جیسے ادارے کیوں بنے ہیں؟‘‘
سیّدانی نے کمال شفقت سے کھانے کا پوچھا مگر میں نے معذرت کی۔ انہوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا ''تاہم یہ تمام دلائل میں نے تمہارے اطمینان قلب کے لیے بیان کیے ہیں۔ اصل بات جو مجھے بتانی ہے اور تمہارے ذہن نشین کرانی ہے اور ہے‘‘۔ میں چو کنا ہو گیا کہ آخر وہ اور بات کیا ہو سکتی ہے؟ فرمانے لگیں ''ہر انسان کے ذہن کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ بعض میں کجی ہوتی ہے‘ ایسی کجی کہ کوئی اسے سیدھا نہیں کر سکتا۔ پھر ہر انسان کے ضمیر کی آواز بھی مختلف ہے۔ بعض وطن جیسی مقدس شے کو اپنے نظریات کے لیے کھلونا سمجھتے ہیں۔ اور اپنے اکابر کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرنے کی دانشورانہ ہمت نہیں رکھتے! میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے افراد کی باتوں پر مطلق توجہ نہ دی جائے۔ ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں نظر انداز کیا جائے۔ یوں بھی فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست! پاکستان جب سے بنا ہے بہت لوگ اس کے درپے رہے ہیں اور درپے ہیں! کچھ اس کی تاسیس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ کچھ اس کے وجود کی نوعیت پر! کچھ اس کے مستقبل کے حوالے سے اپنے اپنے پسندیدہ خواب دیکھتے رہتے ہیں! مگر بقول ظفر اقبال:
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اُس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
سیّدانی سے رخصت ہو کر باہر نکلا تو اطمینان کا موسم تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ کوئل کوک رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو یہ ملک اُس رسول (ﷺ) کی طرف سے تحفہ ہے جس کی حرمت پر کٹ مرنا ایمان کا حصہ ہے۔