Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 29, 2025

قومی ائر لائن ، آسٹریلیا اور پاکستان ہائی کمیشن


سری لنکا ایئر لائن کا یہ پہلا تجربہ تھا اور بے حد خوش گوار!! ہماری قومی ایئر لائن کی روایت کے بالکل بر عکس جہاز وقت پر روانہ ہوا! ساڑھی پوش میزبان خواتین نے بے حد خیال رکھا۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کولمبو ایئر پورٹ پر ہوا۔ یہ ایئر پورٹ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ سے کہیں زیادہ بڑا‘ زیادہ منظم اور زیادہ خوبصورت ہے۔ بڑے بڑے بازار ہیں جبکہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر‘ جس کی تعمیر میں گیارہ سال صرف ہوئے‘ صرف ایک کیفے ٹائپ دکان ہے۔ سراندیپ‘ سری لنکا کا پرانا نام ہے۔ یہی نام ایئر پورٹ پر واقع لاؤنج کا تھا جس میں تمام سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں‘ یہاں تک کہ وہ عظیم الجثہ صوفے بھی جن پر نیم دراز ہوا جا سکتا تھا۔ کولمبو سے میلبورن کا نو گھنٹوں کا سفر خاصا آرام دہ تھا مگر ذہنی اذیت ساتھ رہی اور ذہنی اذیت یہ تھی کہ کیا ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں؟ گویا:
انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں 
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں۔ ان سب نے پاکستان آنا ہوتا ہے اور کچھ دن رہ کر واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ لاکھوں وہ ہیں جو ان پاکستانیوں کو ملنے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں! ان تمام پاکستانیوں کی سہولت کے لیے پاکستان کی قومی ایئر لائن نے ایک کام کمال کا کیا ہے۔ قومی ایئر لائن کا کوئی جہاز آسٹریلیا جاتا ہے نہ آسٹریلیا سے پاکستان آتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی دھکے کھا رہے ہیں۔ وہ بھی جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں آباد ہیں اور وہ بھی جو پاکستان سے انہیں ملنے جاتے ہیں۔ کبھی وہ تھائی ایئر لائن پر سوار ہوتے ہیں جو بنکاک میں انہیں بارہ گھنٹے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے اور اگلی فلائٹ بارہ گھنٹوں بعد ملتی ہے۔ کبھی وہ پندرہ گھنٹے کی اذیتناک پرواز گزار کر دبئی‘ ابو ظہبی یا قطر پہنچتے ہیں۔ وہاں ان سے و ہی سلوک ہوتا ہے جو مشر قِ وسطیٰ والے ہم پاکستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بہت سے دوسرے ملکوں کے شہریوں کو یو اے ای یا قطر کے اندر جانے کا ویزا ایئر پورٹ پر مل جاتا ہے‘ پاکستانیوں کو دس دس پندرہ پندرہ گھنٹے ایئر پورٹ کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ بھارت کی آسٹریلیا کے لیے ہفتے میں چودہ پروازیں جانے کی ہیں اور چودہ ہی آنے کی۔ میلبورن سے ہر روز ایک پرواز دہلی جاتی ہے اور ہر روز ایک پرواز سڈ نی سے دہلی! چلئے بھارتیوں کی تعداد آسٹریلیا میں بہت زیادہ ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کی رُو سے بھارتی نژاد آبادی آسٹریلیا میں ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔ مگر سری لنکا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی آبادی تو پاکستانی تارکین وطن کی نسبت بہت زیادہ نہیں۔ 2023ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق سری لنکا سے آئے ہوئے افراد کی تعداد آسٹریلیا میں ایک لاکھ اٹھاون ہزار ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سری لنکا سے ہر روز ایک ہوائی جہاز میلبورن آتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان سے ہفتے میں کم از کم چار پروازیں تو آنی چاہئیں! تو گویا اس لحاظ سے ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔ کیا عجب کل کلاں افغانستان‘ نیپال اور بھوٹان بھی اس میدان میں ہم سے آگے نکل جائیں! 
یہاں ایک سوال ذہن میں یہ اُبھرتا ہے کہ آسٹریلیا میں پاکستانی سفارت خانے کا اس معاملے میں کیا کردار ہے؟ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ خوش گمانی یہی ہے کہ سفیر حضرات کے علم میں بھی آئے ہوں گے! کیا سفارت خانے نے اس حوالے سے پاکستانیوں کے لیے زور لگایا ہے؟ نہیں معلوم آج کل کون صاحب سفیر ہیں۔ تاہم چند برس پہلے کا تجربہ اتنا برا تھا کہ آج تک یاد ہے۔ اُن دنوں ایک خاتون پاکستان کی ہائی کمشنر تھیں۔ اُن آسٹریلوی مردوں اور خواتین کی پاکستانی شہریت کا مسئلہ تھا جنہوں نے پاکستانیوں سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ خاتون ہائی کمشنر بات تک کرنے کی روادار نہ تھیں۔ تب نفیس زکریا صاحب وزارتِ خارجہ کے ترجمان تھے۔ انہوں نے بات سنی اور پوری کوشش بھی کی۔ سیکرٹری خارجہ جتنے گزرے ہیں ان میں اس کالم نگار کے تجربے کی رُو سے صرف جلیل عباس جیلانی ای میل کا جواب دیتے تھے یا واپس ٹیلی فون کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر وضاحت کر دیں کہ اس ضمن میں سفارت خانے نے اب تک کیا کوششیں کی ہیں اور آئندہ کا پلان کیا ہے؟ آخر پاکستان کی قومی ایئر لائن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پاکستانیوں سے کیوں ناراض ہے؟ 
ناراض کیا ہو گی! ناراض ہونے کی سکت ہی کہاں ہے! ہماری قومی ایئر لائن تو سانس لینے کے لیے خود آکسیجن سلنڈر کی محتاج ہے۔ یہ آکسیجن ہم پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے ہر سال حکومت مہیا کر رہی ہے۔ جہاز چلیں یا نہ چلیں‘ قومی ایئر لائن میں کام کرنے والے ملازمین خوب عیش کر رہے ہیں! بڑی بڑی تنخواہیں‘ الاؤنسز‘ گاڑیاں‘ مراعات کے موٹے موٹے پیکیج‘ مفت کے سفر! یہ سفید ہاتھی چلتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ آئے دن خبریں سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ قومی ایئر لائن کے ماتھے پر ''فار سیل‘‘ کا بورڈ لگا ہے مگر بِک نہیں رہی! کیوں نہیں بِک رہی؟ اس لیے کہ حکومت کی نیت درست نہیں۔ حکومت بیچنا چاہتی ہی نہیں! یہ مفادات کا معاملہ ہے۔ (نگران حکومت کے وزیر نجکاری کے بیانات اور سوالات اس ضمن میں قابلِ غور ہیں!) قومی ایئر لائن میں کام کرنے والوں کی اکثریت سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے چہیتے اس میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک اس کی ملازمتیں پچھلے دروازے پر بانٹی جاتی رہیں! ملازموں کی اکثریت کے سر پر طاقتور شخصیات کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ ایئر لائن نے فروخت نہیں ہونا۔ یہ اسی طر ح حکومتی امداد کے سہارے بیساکھیاں گھسیٹتی رہے گی۔ عوام اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں دھو ل جھونکنے کے لیے فروخت کے اشتہار لگتے رہیں گے۔ اس کی یونینیں دندناتی رہیں گی۔ مراعات کے مزے لیے جاتے رہیں گے۔ قومی خزانہ اس کے بوجھ تلے سسکتا‘ دہرا ہوتا رہے گا! پاکستانی مسافر دوسری ایئر لائنوں پر دھکے کھاتے رہیں گے۔ بنکاک‘ ابو ظہبی‘ دوحہ‘ دبئی‘ کولمبو اور استنبول کے ہوائی اڈوں پر رُلتے رہیں گے۔ 
ایک طرف یہ حالت کہ قومی ایئر لائن‘ قومی زیادہ اور ایئر لائن کم‘ دوسری طرف قومی ایئر لائن کو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں مل رہی!! پہلے شہری ہوا بازی کا شعبہ وزارتِ دفاع کا حصہ تھا۔ پھر اس کا الگ ڈویژن اور الگ وزارت بن گئی۔ ہوا بازی کو اپنا الگ وزیر مل گیا۔ ایک وزیر تو ایسا ملا کہ اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دنیا بھر کو بتایا کہ اتنے پاکستانی پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ گویا گھوڑے نے بم کو لات مار دی۔ دنیا بھر میں اس کا ردِ عمل ہوا اور ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے اس بہت بڑی حماقت پر جھرجھری تک لی نہ کسی کو سزا ہی دی گئی۔ اب شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشن) کی الگ وزارت کا ایک بار پھر خاتمہ کر دیا گیا ہے اور شعبے کو دوبارہ وزارتِ دفاع کا حصہ بنا دیا گیا ہے! آفرین ہے پالیسیوں کے تسلسل پر اور مستقل مزاجی پر!! مشرق کی طرف پڑوس کے ملک میں شہری ہوا بازی کا نہ صرف مرکزی وزیر الگ ہے بلکہ وزیر مملکت بھی ہے! دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم ترقیٔ معکوس! آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آباد پاکستانیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ افغان ایئر لائن یا سکم ایئر لائن کے جہازوں کی امید رکھیں مگر اپنی قومی ایئر لائن کے جہازوں کی نہیں!!

Tuesday, May 27, 2025

ہجر ایک شہر کا

تیرہویں جماعت کا طالب علم تھا جب پہلی بار لاہور دیکھا۔

ایک مشاعرہ بورے والا میں تھا اور دوسرا لاہور میں! ہم دو شاعر طالب علموں کو ہماری درسگاہ‘ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی نے اس سفر پر روانہ کیا۔ پہلے بورے والا میں انعام جیتا۔ لاہور اسلامیہ کالج میں ''شمعِ تاثیر‘‘ کا مشاعرہ تھا۔ شنید یہ تھی کہ لاہور سے باہر والا انعام نہیں جیت سکتا۔ مگر تیسری پوزیشن ہم لے اُڑے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ پہلا انعام سرمد صہبائی کو ملا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے انٹرویو بھی لاہور میں ہوا۔ پھر عرصۂ ملازمت میں تو لاہور آنا جانا معمول ہو گیا۔ کئی اداروں کی سربراہی ایسی تھی کہ کیمپ آفس لاہور میں تھا۔ کبھی کبھی تو ہر ماہ ایک ہفتہ لاہور کے دفتر میں بیٹھنا ہوتا۔
پھر بیٹی کی شادی لاہور میں ہو گئی۔ یوں لاہور سے جذباتی وابستگی کا دور شروع ہو گیا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ: یہ جو لاہور سے محبت ہے؍ یہ کسی اور سے محبت ہے۔ لاہور سے بیٹی اور اس کے میاں سمندر پار چلے گئے۔ وہاں آسمان سے پنگھوڑا اترا جس میں زینب لیٹی ہوئی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ چار ماہ کی تھی کہ زینب اپنے بابا اور اماں کے ساتھ لاہور واپس آئی۔ یہاں سے اُس عشق کی کہانی شروع ہوتی ہے جو لاہور سے ہوا اور ایسا ہوا کہ لاہور‘ اتنا بڑا شہر ہونے کے باوجود‘ سمٹ کر دل میں بیٹھ گیا۔ زینب سترہ برس لاہور میں رہی۔ یہ سترہ برس لاہور آتے جاتے گزرے۔ زینب لاہور بن گئی اور لاہور زینب بن گیا۔ وہ بلاتی کہ نانا ابو آ جائیے۔ نانا ابو چل پڑتے۔ کئی کئی دن لاہور میں قیام رہتا۔ جہاں بھی جانا ہوتا‘ زینب ساتھ ہوتی۔ باغوں میں‘ پارکوں میں‘ پھر سکول جانا شروع کیا۔ صبح سکول جاتے ہوئے کہہ کر جاتی کہ چھٹی کے وقت نانو اور نانا ابو لینے آئیں۔ اور بڑی ہو گئی۔ اب ہم نے کتابوں کی دکانوں میں جانا شروع کر دیا۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی‘ ہاشم خان‘ قاسم خان بھی ساتھ ہوتے۔ لاہور کی سب سے بڑی بُک شاپ میں کیفے بھی تھا۔ یہ بچے کتابیں دیکھتے‘ اپنی پسند کی چنتے اور ساتھ ہی کیفے سے جوس اور چپس بھی کھاتے۔ پھر اس سب سے بڑی بُک شاپ کی ایک برانچ‘ ڈیفنس میں زینب کے گھر کے قریب کھل گئی۔ اس چار منزلہ عمارت میں اوپر کی منزل پر ریستوران تھا۔ نانا‘ نواسی اور نواسوں کی عیاشیوں کو چار چاند لگ گئے۔ گھنٹوں ہم سب کتابیں چھانتے‘ کتابیں پڑھتے اور آخر میں ریستوران میں کھاتے پیتے۔ سترہ برس آنکھ جھپکتے گزر گئے۔ زینب یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچ رہی تھی کہ اس کے بابا اور اماں نے پھر بستر باندھا‘ گٹھڑی سر پر رکھی اور تینوں بچوں کی انگلیاں پکڑے‘ واپس اُس نئی دنیا میں چلے گئے جو کولمبس نے دریافت کی تھی۔ اب میں اسلام آباد میں بیٹھا ہوں۔ ایک طرف زینب یاد آ رہی ہے‘ دوسری طرف لاہور! لاہور جاؤں تو کیسے؟ جا کر کروں گا بھی کیا کہ بقول منیر نیازی ع وہ سنگدل تو یہاں سے کہیں چلا بھی گیا۔ زینب کا ہجر اور لاہور کا ہجر‘ دونوں ہجر گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ زینب جاتے جاتے اپنا ہجر بھی دے گئی اور لاہور کا بھی! سترہ برس کم نہیں ہوتے۔ دل میں تھا بھی کیا! ایک ڈیوڑھی اور ایک دالان! ڈیوڑھی میں زینب براجمان ہے۔ دالان پر لاہور نے قبضہ کر لیا۔
لاہور بھی کیا شہر ہے! شہروں میں ایک شہر ہے اور شہروں کا شہر ہے! کوئی اسے باغوں کا شہر کہتا ہے کوئی کالجوں کا! مگر یہ دلداریوں کا شہر ہے۔ اس کے درخت طلسمی ہیں۔ ان پر بیٹھنے والے پرندے کوہ قاف سے آتے ہیں۔ اس کی شاہراہیں دلفریب ہیں۔ اس کے بازاروں کے سامنے قاہرہ‘ دمشق اور حلب کے بازار ماند پڑ جاتے ہیں۔ لندن‘ نیویارک‘ واشنگٹن‘ پیرس‘ ٹورنٹو سب دیکھے‘ مگر لاہور کے مقابلے میں یوں لگے جیسے شہزادیوں کے سامنے خادمائیں! کیا گرفت ہے لاہور کی کہ جسے پکڑے‘ چھوڑتی نہیں! لاہور کی ہوائیں عطر بیز ہیں۔ اس کے جھونکوں میں شہد کا ذائقہ ہے۔ اس کے مکین نرم دل‘ خوش گفتار اور کرم فرما ہیں۔ ہمارے سارے شہروں کی پنجابی میٹھی ہے مگر جو لذت لاہور کی پنجابی میں ہے‘ اس کا سلسلہ ہی الگ ہے۔ لاہور کے لوگ بات کریں تو روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ خاموش رہیں تو یوں لگتا ہے یہ خاموشی پہنچے ہوئے لوگوں کی خاموشی ہے جو گفتگو پر بھاری ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کی پیشانیاں کشادہ اور آنکھیں روشن ہیں۔ مسکراہٹ ان کا طرزِ زندگی ہے۔ اس شہر کے ہجر میں مبتلا ہوں اور یہ شہر ہے کہ معشوق کی طرح وصال کو وعدۂ فردا پر ٹالے جا رہا ہے۔
پس نوشت۔ میری سینئر‘ آپا کشور ناہید ناراض ہیں۔ زہر میں بجھے ہوئے طنزیہ تیر چلا رہی ہیں پھر بھی قابلِ احترام ہیں کہ سال خوردگی میں

 Senility

 آ ہی جاتی ہے۔ غلطی اس سیاہ کار سے یہ ہوئی کہ حالیہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد‘ پاکستان پر اور پاکستانیت پر لکھا‘ خوب لکھا اور ڈٹ کر لکھا۔ اقبال اور قائداعظم کے احسانات کا ذکر کیا۔ کیا کریں! پاکستان ہم جیسوں کی ریڈ لائن ہے اور قائداعظم ہمارے اور ہماری نسلوں کے محسن! اگر کسی کو یہ ذکر ناگوار گزرے تو ہم اظہارِ ہمدردی ہی کر سکتے ہیں! یہ جو میں نے لکھا کہ ''وہ کیا چیز ہے جو ڈھاکہ کے بنگالی کو کولکتہ کے بنگالی سے الگ کر رہی ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو لدھیانہ اور جالندھر کے پنجابی کو لاہور اور سیالکوٹ کے پنجابی سے الگ کر رہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پاکستانی جاٹ‘ پاکستانی راجپوت اور پاکستانی گُجر کو بھارتی جاٹ‘ بھارتی راجپوت اور بھارتی گجر سے الگ کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف نیت کی سچائی درکار ہے! پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں تو ان کا احسان نہیں اُتار سکتے! ذرا سوچئے‘ عمران خان نے جو زبردست تقریر اقوام متحدہ میں کی تھی‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا کوئی برصغیر کا مسلمان ایسی تقریر کر سکتا تھا‘‘۔ اب کچھ لوگ اس قسم کی تحریر سے برافروختہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل ودماغ پر یہ باتیں ٹھاہ لگتی ہیں! ان کی اپنی مجبوری ہے‘ ہماری اپنی مجبوری! یوں بھی اگر بچپن میں کسی کو برقع زبردستی پہنایا جائے تو عمر بھر اس کا ردِعمل کار فرما رہتا ہے اور انسان مذہب کا نام سننا بھی برداشت نہیں کرتا۔ 
کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کلب میں ایک ادبی تقریب تھی۔ شاید میرے ہی نئے شعری مجموعے کی رونمائی۔ نوجوان شاعر اور بیورو کریٹ شکیل جاذب میزبان تھے۔ معروف شاعر اور ذاکر‘ ہمارے دوست‘ شکیل اختر تقریر کر رہے تھے۔ گفتگو میں مذہب کا نام آ گیا یا ذکر ہو گیا۔ آپا بھڑک اٹھیں اور ناگواری کا اظہار فرمایا۔ آپا نے اپنے تازہ کالم میں ڈھکے چھپے الفاظ میں تجویز فرمایا ہے کہ اظہار الحق کو امام مسجد لگا دیجیے۔ زہے نصیب! مجھے امام مسجد بننے میں کوئی اعتراض نہیں بلکہ فخر سے بنوں گا۔ یہ اور بات کہ میں اس قابل نہیں‘ اگرچہ کبھی ضرورت پڑے تو کوٹ پتلون پہنے‘ نماز پڑھا بھی دیتا ہوں! اللہ کا شکر ہے کسی قسم کا احساسِ کمتری نہیں‘ نہ ہی سرحد پار کے حوالے سے مرعوبیت کا عارضہ لاحق ہے۔
یہ سب کچھ لکھتے ہوئے افسوس بھی ہو رہا ہے۔ ان کا احترام لازم ہے۔ اب مجبوری یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ Slums میں تو پروان چڑھے نہیں۔ گاؤں کی کھلی بے خوف فضا میں پلے بڑھے ہیں۔ کوئی تیر چلائے تو ہمارے ترکش سے پھول نہیں نکلیں گے۔ بہت کچھ ہے کہنے کو۔ اللہ نہ کرے کہ کہنا پڑے۔ ظفر اقبال کے الفاظ میں یہی عرض کر سکتے ہیں کہ:
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت

Thursday, May 22, 2025

الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں!


پہلا بیان:

''دونوں ممالک غربت وافلاس کے مسائل پر قابو پانے اور اپنے عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور دونوں ہی نیوکلیائی ممالک ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اور یہاں کی سیاسی وعسکری قیادتیں اب تیزی سے پائیدار امن کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گی۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام بھارتی شہریوں کی ہلاکت کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔ بے قصور شہریوں کو لاحق خطرات ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں۔ ہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تمام ضروری امداد اور تحفظ فراہم کرے۔ سرحد کے اُس پار بھی کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ معصوم شہریوں‘ بالخصوص خواتین اور بچوں کی ہلاکت‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل‘ مذہب‘ زبان‘ قومیت یا طبقے سے ہو‘ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام فریقوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہر حال میں بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ دہشت گردی خطے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی قیمتی اور بے قصور جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں اور پاکستان میں بھی دہشت گردی کے لوگ مسلسل شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر طرح کے تنگ نظر مفادات سے اوپر اٹھ کر اس اصل مسئلے کے پائیدار حل پر توجہ دی جائے‘‘۔
دوسرا بیان: 
''بھارت کی جنونیت اور تکبر کے مقابلے میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی۔ پاکستان نے بہت تدبر سے بھارتی جارحیت کا جواب دیا۔ مذاکرات میں کشمیر ایجنڈا نمبر وَن ہونا چاہیے‘ کشمیر کے بغیر مذاکرات قبول نہیں کریں گے۔ پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی افواج کی پشت پر کھڑی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بھارتی غرور خاک میں مل گیا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ بھارت کا دنیا میں کوئی مددگار تھا تو وہ اسرائیل تھا۔ بھارتی جارحیت نے قوم کو اکٹھا کر کے نوجوانوں میں مایوسی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ہم نے جس راستے کو اختیار کیا ہے یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے‘‘۔
آپ نے حالیہ جنگ کے حوالے سے اوپر کے دونوں بیانات پڑھے۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔ پہلا بیان منمناہٹ ہے‘ دوسرا دھاڑ۔ پہلا بیان امیر جماعت اسلامی بھارت‘ سعادت اللہ حسینی کا ہے۔ دوسرا بیان امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ہے۔ پہلا بیان بھارتی مسلمانوں کی بے بسی‘ اور بیچارگی ظاہر کرتا ہے۔ اس بیان میں کسی جارح کا ذکر نہیں۔ دونوں ملکوں کو یکساں قرار دیا گیا ہے حالانکہ جنگ بھارت نے شروع کی تھی۔ وہ ایک عرصہ سے پاکستان میں دہشت گردی کر اور کرا رہا ہے۔ دوسرا بیان ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے۔ جو مسلمان پاکستان میں رہتے ہیں‘ وہ الحمدللہ آزاد ہیں۔ سچ کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں۔ سچ وہی ہے جو حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے۔ کوئی بھارتی مسلمان اس انداز میں بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا!!
ہمیں بھارتی مسلمانوں سے ہمدردی ہے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارے جسم وجان کا حصہ ہیں۔ 'روزنامہ دنیا‘ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر مسلسل لکھا ہے۔ آسام کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر بھی لکھا ہے۔ ادتیا ناتھ نے یو پی میں جو اندھیر مچایا ہوا ہے اس پر بھی مسلسل احتجاج کیا ہے۔ شاید اس کالم نگار کی آواز تنہا آواز ہے جس نے اُن بھارتی شہرو ں کے نام بدلنے پر بارہا ماتم کیا جن کے نام مسلم تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔ ادتیا ناتھ آگرہ‘ الہ آباد اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں کے نام بدل چکا ہے۔ ادتیا ناتھ مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ حقائق ہیں اور تلخ حقائق! اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خدا نخواستہ پاکستان نہ بنتا تو آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی حالت بھی وہی ہوتی جو بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی تو پاکستان‘ بنگلہ دیش اور موجودہ بھارت کے مسلمان مل کر بہت بڑی قوت بن جاتے۔ مگر یہ ایک مفروضہ ہے جس کا غلط ہونا واضح ہے۔ آج بھارت میں بیس کروڑ مسلمان ہیں۔ وہ اقلیت میں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نہ بنتے تو مسلمانوں کی تعداد اٹھاون کروڑ ہوتی۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں تب بھی وہ اقلیت ہی ہوتے۔ ون مین ون ووٹ کے فارمولے کے سامنے ان کی کیا حیثیت ہوتی! وہی حیثیت ہوتی جو تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی تھی۔ لاہور کا شاہ عالمی تقریباً سارا ہندوؤں کے پاس تھا۔ جہلم جیسے شہر کے بازار میں مسلمانوں کی صرف دو دکا نیں تھیں۔ ہر گاؤں میں تجارت ہندوؤں کے پاس تھی۔ مسلمان کسانوں کی اکثریت مقروض تھی۔ راولپنڈی میں ٹاپ کی جائدادیں ہندوؤں کی ملکیت تھیں۔ جس وسیع وعریض عمارت میں آج فاطمہ جناح خواتین یونیورسٹی ہے‘ اور پہلے ایوانِ صدر تھا‘ وہاں سے لے کر جھنڈا چیچی تک تمام جائداد دو ہندو بھائیوں کی تھی۔ مسلمان ان کے سرونٹ کوارٹرز میں رہتے تھے۔ یہی حالت ان تمام صوبوں کی تھی جہاں مسلمانوں کی نام نہاد اکثریت تھی۔ آج اگر بھارتی پارلیمنٹ سے مسلمان تقریباً غائب ہیں تو متحدہ ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہونا تھا۔ کیا آج بھارتی مسلمانوں کو ملازمتوں میں اور منتخب ایوانوں میں آبادی کے لحاظ سے حصہ مل رہا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! بھارت کی مرکزی حکومت میں کتنے وزیر مسلمان ہیں! کتنے سیکرٹری مسلمان ہیں؟
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں ہیں‘ اقوام متحدہ میں انکی نشستیں ہیں‘ انکے وزرا مسلمان ہیں۔ بیورو کریسی میں مسلمان غالب ہیں‘ انکے طلبہ اور طالبات دنیا بھر میں سکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو مسلمانوں کو زیرہ تک نہ ملتا۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم ریاستیں نہیں‘ قومی ریاستیں ہیں‘ تو بنگالی تو بھارت میں بھی موجود ہیں۔ مغربی بنگال کی آبادی دس کروڑ ہے۔ بنگلہ دیش کی اس سے صرف پانچ کروڑ زیادہ ہے۔ نیشن سٹیٹ ہوتی تو تمام بنگالی اکٹھے ہوتے۔ پنجابی اور سندھی بھارت میں بھی ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو ڈھاکہ کے بنگالی کو کولکتہ کے بنگالی سے الگ کر رہی ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو لدھیانہ اور جالندھر کے پنجابی کو لاہور اور سیالکوٹ کے پنجابی سے الگ کر رہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پاکستانی جاٹ ‘ پاکستانی راجپوت اور پاکستانی گُجر کو بھارتی جاٹ‘ بھارتی راجپوت اور بھارتی گُجر سے الگ کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف نیت کی سچائی درکار ہے!
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں تو ان کا احسان نہیں اتار سکتے! ذرا سوچیے‘ عمران خان نے جو زبردست تقریر اقوام متحدہ میں کی تھی‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا کوئی مسلمان ایسی تقریر کر سکتا تھا؟ میلبورن کے ایک محلے کا نام ہائیڈل برگ ہے۔ میں اُس بھارتی مسلمان کو نہیں بھول سکتا جو وہاں مسجد میں نمازِ جمعہ کے موقع پر مجھے ملا۔ اس سے پوچھا: بھارت کے مسلمانوں کی کیا حالت ہے اور کیا پوزیشن؟ اس کا جواب دو لفظوں میں تھا۔''بس اقلیت میں ہیں‘‘۔
لیکن ہمیں ناشکر گزاروں سے بچنا ہو گا۔ ہم باہر کے مودیوں‘ امیت شاہوں اور ادتیا ناتھوں کو تو نتھ ڈال چکے ہیں‘ اندر کے دشمنوں سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ اُن برخود غلط‘ نام نہاد دانشوروں کو ان کی حیثیت بتانا ہو گی جو مبہم لفظوں اور مغالطہ آمیز اصطلاحوں کی شعبدہ گری سے پاکستان کی جڑوں کے درپے ہیں!

Tuesday, May 20, 2025

سیّدانی


سیّدانی کے نام سے آپ کے ذہن میں ایک بی بی صاحبہ کی تصویر اُبھرے گی جو ہاتھ میں تسبیح پکڑے‘ منہ سر لپیٹے‘ ایک تخت پر تشریف فرما ہیں۔ سامنے زمین پر مریدنیاں بیٹھی ہیں جو ایک ایک کر کے ان کے پاس جاتی ہیں۔ پہلے ہاتھ چومتی ہیں۔ پھر عرضِ مدعا کرتی ہیں۔ بی بی صاحبہ کچھ پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ کچھ اوراد و وظائف تجویز کرتی ہیں۔ دم کیا ہوا پانی عنایت کرتی ہیں۔ آخر میں مریدنی نذرانہ پیش کرتی ہے۔ مگر میں جن سّیدانی صاحبہ کا ذکر کر رہا ہوں وہ بالکل مختلف ہیں۔ ان کے ہاتھ میں تسبیح ہے نہ مریدنیوں کی حاضری میں دلچسپی ہے۔ نذرانہ لیتی ہیں نہ منہ سر لپیٹتی ہیں۔ وہ تو ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں‘ وہ بھی سائنس کی! ظاہر سے نہیں معلوم ہوتا مگر گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ پہنچی ہوئی ہیں‘ عقل و دانش کا خزانہ ہیں۔ کسی بھی مسئلے پر ان کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے۔ ایک بار میں کسی مسئلے میں الجھا ہوا تھا! پریشان تھا اور پراگندہ خاطر! ایک دوست کہنے لگا کہ ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں بشرطیکہ وہ حاضر ہونے کی اجازت دے دیں۔ فون کرنے کے لیے وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ واپس آیا تو کہنے لگا: چلیں! میرے ذہن میں یہی تھا کہ کوئی درگاہ ہو گی یا خانقاہ! مگر یہ تو ایک بڑی سی محل نما کوٹھی تھی۔ ملازم نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر میں ایک ادھیڑ عمر خاتون آئیں۔ جدید ترین لباس پہنے اور ظاہر میں غیر مذہبی۔ میرا دوست اٹھ کر کھڑا ہوا اور جھک کر آداب بجا لایا۔ پھر مجھے بتایا کہ یہ سیّدہ ہیں اور یہی وہ بزرگ ہیں جن کی خدمت میں مجھے لایا ہے۔ مسئلہ بتایا تو حیرت ہوئی کہ ایک لمحہ توقف کیے بغیر انہوں نے ایک ایسا نکتہ نکالا جس سے مسئلہ چٹکی بجانے کی دیر میں حل ہو رہا تھا اور یہ نکتہ میرے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی نہیں تھا۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوئی‘ ان کے پاس گیا اور با مراد ہو کر واپس ہوا۔
چند روز سے ایک ذہنی خلفشار میں مبتلا تھا۔ بہت سوچا۔ اچانک حافظ شیرازی یاد آگئے:
مشکلِ خویش برِ پیرِ مغاں بُردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معما می کرد
کہ میں اپنی مشکل پیرِ مغاں کے پاس لے گیا کیونکہ وہ نظر کی طاقت سے مشکل حل کرتا تھا۔
سیّدانی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملازم نے بتایا کہ نماز ادا کر رہی ہیں۔ جب تشریف لائیں میں احتراماً کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے ملازم سے چائے کا کہا اور میرا احوال پوچھا۔ عرض کیا ''پریشان ہوں۔ حالیہ جنگ ہمارے شہیدوں نے لہو دے کر جیتی ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ کیا ہے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر جان دی ہے مگر کچھ برخود غلط قسم کے دانشور‘ جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں عالمِ دین بھی سمجھا جائے‘ پوری قوت سے مہم چلا رہے ہیں کہ یہ معرکہ کفر اور اسلام کا نہیں تھا بلکہ محض دو قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے درمیان لڑائی تھی۔ اس جنگ کے بارے میں یہ حضرات بظاہر پاکستانی ہوتے ہوئے ایک بھارتی مسلمان کے مؤقف کی تشہیر کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مؤقف قابلِ تقلید ہے‘ جبکہ پاکستان کا اپنا مؤقف ہے۔ ان کے اس گمان انگیز اور اذیت ناک 

Sadist 

مؤقف سے ہم جیسے محب وطن تکلیف میں ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان مسلم سٹیٹ نہیں ہے کیونکہ یہاں غیرمسلم بھی رہ رہے ہیں‘‘۔ سیّدانی میری عرض گزاری کو غور سے سُن رہی تھیں اور مسکرائے جا رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ دیر توقف کیا‘ پھر فرمانے لگیں ''ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے۔ آئین کے آرٹیکل دو کی رو سے اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہو گا! ‘‘ بھارت کے آئین کی رو سے بھارت ''سوشلسٹ سیکولر ڈیموکریٹک ریپبلک‘‘ ہے۔ ریاست مدینہ میں غیرمسلم بھی رہتے تھے مگر وہ اسلامی ریاست تھی۔ خلافت راشدہ کے عہد میں سلطنت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں لاکھوں غیر مسلم رہتے تھے پھر بھی وہ اسلامی اور مسلمان سلطنت تھی۔ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ مسلم ریاست میں کوئی غیرمسلم نہیں رہ سکتا! کوئی ایک حوالہ؟؟ ایران صدیوں سے نیشن سٹیٹ ہے اور آج کل‘ ساتھ ساتھ اسلامی سٹیٹ بھی ہے۔ پھر ہماری فوج کا ماٹو ہے ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ۔ کیا کوئی سٹیٹ جو مسلم سٹیٹ نہ ہو‘ ایسا ماٹو اپنا سکتی ہے؟ بنیانٌ مرصوص والی آیت کا ترجمہ دیکھ لیجیے۔ ''اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ اب جو لوگ جنگ کو بنیانٌ مرصوص کا نام دیں‘ اللہ کی راہ میں لڑیں‘ ان کا سپہ سالار نمازِ فجر خود پڑھا کر دعا مانگے اور حملہ کرنے کا حکم دے‘ وہ اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تو پھر اسلام اور کفر کی جنگ اور کسے کہتے ہیں؟ ملا ضعیف نے بھی یہی کہا ہے کہ اس جنگ کا اسلام سے تعلق نہیں‘ یہ پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے۔ جن لوگوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان کا بھی یہی مؤقف ہے۔ ملا صاحب پنجابیوں اور ہندوؤں کا نام لیتے ہیں تو یہ لوگ دو قوموں کا! دونوں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان افراد کا مؤقف وہی ہے جو پاکستان کے مخالفین کا ہے۔ بھارتی مسلمان بیچارے کا کیا مؤقف ہو گا جو سانس بھی امیت شاہ اور ادتیا ناتھ کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتا۔ وہ تو دار الکفر میں ہے اور زنجیر بپا! یہ لوگ بھارتی شہریوں اور افغان ملاؤں کے مؤقف کی جگالی کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ان کے تار سمندر پار سے ہلائے جا رہے ہیں! ورنہ کوئی پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا کہ افغان یا بھارتی مؤقف کی تائید کرے۔ اگر پاکستان اسلامی یا مسلم سٹیٹ نہیں تو اسلامی نظریاتی کونسل‘ شریعہ کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعہ اپیلٹ بنچ جیسے آئینی ادارے کیوں قائم ہیں؟ ادارۂ تحقیقات اسلامی اور رحمۃ للعالمین اتھارٹی جیسے ادارے کیوں بنے ہیں؟‘‘
سیّدانی نے کمال شفقت سے کھانے کا پوچھا مگر میں نے معذرت کی۔ انہوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا ''تاہم یہ تمام دلائل میں نے تمہارے اطمینان قلب کے لیے بیان کیے ہیں۔ اصل بات جو مجھے بتانی ہے اور تمہارے ذہن نشین کرانی ہے اور ہے‘‘۔ میں چو کنا ہو گیا کہ آخر وہ اور بات کیا ہو سکتی ہے؟ فرمانے لگیں ''ہر انسان کے ذہن کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ بعض میں کجی ہوتی ہے‘ ایسی کجی کہ کوئی اسے سیدھا نہیں کر سکتا۔ پھر ہر انسان کے ضمیر کی آواز بھی مختلف ہے۔ بعض وطن جیسی مقدس شے کو اپنے نظریات کے لیے کھلونا سمجھتے ہیں۔ اور اپنے اکابر کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرنے کی دانشورانہ ہمت نہیں رکھتے! میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے افراد کی باتوں پر مطلق توجہ نہ دی جائے۔ ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں نظر انداز کیا جائے۔ یوں بھی فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست! پاکستان جب سے بنا ہے بہت لوگ اس کے درپے رہے ہیں اور درپے ہیں! کچھ اس کی تاسیس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ کچھ اس کے وجود کی نوعیت پر! کچھ اس کے مستقبل کے حوالے سے اپنے اپنے پسندیدہ خواب دیکھتے رہتے ہیں! مگر بقول ظفر اقبال:
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اُس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
سیّدانی سے رخصت ہو کر باہر نکلا تو اطمینان کا موسم تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ کوئل کوک رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو یہ ملک اُس رسول (ﷺ) کی طرف سے تحفہ ہے جس کی حرمت پر کٹ مرنا ایمان کا حصہ ہے۔

Thursday, May 15, 2025

بھارتی معاشرہ کرچی کرچی ہو رہا ہے


سراج کَورڈ

 (Covered) 

مارکیٹ اسلام آباد شہر کا بہت بڑا لینڈ مارک تھا۔ جس عمارت میں آج کل نادرا کا ہیڈ آفس ہے‘ وہاں پہلے وزیراعظم کا دفتر ہوتا تھا۔ مشہورِ زمانہ میلوڈی مارکیٹ سے اس دفتر کی طرف جائیں تو کَورڈ مارکٹ راستے میں پڑتی تھی۔ اس سڑک کو اب سرفراز اقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ کَورڈ مارکیٹ کے بالکل سامنے بیگم سرفراز اقبال کا گھر تھا جہاں شاعروں ادیبوں کی بیٹھک جمتی تھی۔ فیض صاحب بھی وہاں آتے تھے۔ میں بھی کئی بار مشہور ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس احمد داؤد مرحوم کی معیت میں بیگم صاحبہ کے گھر گیا۔ اب اسی گھر میں ان کے شوہر ملک اقبال صاحب رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ نوے سے اوپر کے ہیں مگر تندرست حالت میں ہیں۔
سراج کَورڈ مارکیٹ بہت بڑا بازار نہیں تھا مگر شہر کی جان تھا۔ اسلام آباد میں رہنے والے تمام غیر ملکی‘ گوشت سبزی اور دیگر سودا سلف یہیں سے خریدتے تھے۔ شہر کا بہترین گوشت‘ پھل اور سبزی یہیں ہوتی تھی۔ اس مارکیٹ کی ایک اور وجۂ شہرت یہ تھی کہ شہر کے مشہور ترین اور بہترین ٹیلر شیخ امین کی دکان بھی یہیں تھی۔ اسلام آباد میں مقیم اکثر سفیر‘ ڈپلومیٹ‘ سیاستدان اور بیورو کریٹ اس کے گاہک تھے۔ شیخ امین مشہور ٹیلر نہیں‘ یوں کہیے کہ آرٹسٹ تھا۔ ادنیٰ قسم کے کپڑے میں بھی جان ڈال دیتا تھا۔ والد گرامی مرحوم کی شیروانیاں اور واسکٹیں میں اسی سے سلواتا تھا۔ زندگی کا پہلا ہیرس ٹویڈ (سکاٹ لینڈ میں ہاتھوں سے بُنا جانے والا اون) کا کوٹ جس کا کپڑا پشاور کی ایک خاص دکان سے لیا تھا‘ اسی سے سلوایا تھا۔ یہ کوٹ 33برس پہنا۔ اب جب توند کے مسائل بڑھ گئے تو گزشتہ برس‘ بادل نخواستہ‘ روتے دل کے ساتھ‘ ایک عزیز کو سونپ دیا۔ یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ لاہور‘ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے دولت کدے پر حاضر تھا۔ ایک بری عادت ہے کہ دونوں بازو صوفے کی بَیک پر پھیلا کر بیٹھتا ہوں۔ تارڑ صاحب کہنے لگے: معلوم ہے تم نے ہیرس پہنا ہوا ہے‘ چوڑے ہو کر نہ بیٹھو۔ تارڑ صاحب ہر بات کو جس طرح ایک لٹریری ٹچ‘ ایک افسانوی رنگ دیتے ہیں‘ وہ انہی کا حصہ ہے۔ ایک بار حاضر ہوا‘ ہاتھ میں کچھ پھل تھے‘ کہنے لگے: لگتا ہے بزرگ سیدھا کیمبل پور سے آ رہے ہیں۔ جب میں نے چترال پر قسطوں میں متعدد کالم لکھے تو ایک جگہ یہ بھی لکھا کہ چترال سے گُجروں کا قافلہ چلتا ہے‘ راستے میں کوئی بکری مر جائے تو وہیں سوگ منانے بیٹھ جاتے ہیں اور تین دن تک سفر موقوف رہتا ہے۔ تارڑ صاحب دیر تک اس فقرے سے لطف اندوز ہو ئے اور تعریف کر کے اس طالب علم کی حوصلہ افزائی کی۔
شیخ امین کی بات ہو رہی تھی۔ اللہ اسے مغفرت اور رحمت سے نوازے۔ دوست تھا مگر پکا شیخ بھی تھا۔ گھنٹوں اس کی دکان پر بیٹھک ہوتی تھی۔ تاہم اس دوران چائے کا جھنجھٹ نہیں پالتا تھا۔ سلائی میں رعایت بھی نہیں کرتا تھا مگر جو ڈیزائننگ اور سلائی کا معیار تھا‘ اس میں کون کافر رعایت مانگتا۔ پھر کَورڈ مارکیٹ منہدم کر دی گئی۔ کوئی جھگڑا تھا ملکیت کے دعویداروں کے درمیان۔ شیخ امین بھی پروردگار کے حضور حاضر ہو گیا۔ یہ سارا قصہ اس لیے سنایا کہ اس کی دکان کا نام ''جالندھر ٹیلر‘‘ تھا۔ جالندھر کے نام سے پاکستان میں یہی ایک دکان نہیں تھی‘ کراچی سے پشاور اور گلگت تک گھوم آئیے‘ سینکڑوں دکانیں جالندھر کے نام سے ہیں۔ دہلی کے نام سے ہیں۔ حیدر آباد (سندھ) کی بمبے بیکری پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کیا کسی نے کبھی ان دکانوں پر حملہ کیا؟ بابری مسجد گرائی گئی‘ بھارت نے پاکستان پر حملے کیے‘ کبھی جالندھر‘ دہلی‘ بمبے‘ لکھنؤ‘ امرتسر یا دوسرے بھارتی شہروں کے ناموں والی کسی دکان‘ کسی دفتر پر حملہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ الحمدللہ پاکستانیوں کی ذہنیت آر ایس ایس اور بی جے پی کے علمبرداروں کی ذہنیت سے یکسر مختلف ہے۔ پرسوں کی خبر ہے اور باتصویر خبر ہے کہ بھارت کے شہر حیدر آباد میں ایک دکان ''کراچی بیکرز‘‘ پر بھارتی شہریوں نے حملہ کیا اور دکان کے سائن بورڈ پر کراچی کا جو لفظ تھا اس پر ڈنڈے برسائے۔ کراچی سے ہجرت کر کے جانے والے ظاہر ہے مسلمان تو نہیں ہوں گے‘ مالکان کے نام راجیش رام نانی اور ہریش رام نانی ہیں۔ اپنی جنم بھومی اور اپنا چھوڑا ہوا وطن سب کو یاد آتا ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے بیکری کا نام کراچی بیکرز رکھا۔ ہمارے شریف برادران نے اپنے محلات والے نئے شہر کا نام جاتی امرا رکھا حالانکہ ان کی تو پیدائش بھی وہاں کی نہیں ہے۔ کسی پاکستانی نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ بے شمار پاکستانیوں کے ناموں کے ساتھ دہلوی‘ لکھنوی‘ بلند شہری‘ بدایونی‘ الہ آبادی‘ اکبر آبادی‘ لدھیانوی اور ہوشیار پوری لگا ہوا ہے۔ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ نام ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ ہمیں ان شہروں پر اور ان کے ساتھ تعلق پر آج بھی فخر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں گیلانی‘ بخاری‘ اصفہانی‘ شیرازی‘ تبریزی‘ غوری‘ بدخشانی اور دیگر ناموں پر فخر ہے۔
ایک عام بھارتی شہری کی آر ایس ایس اور بی جے پی نے جس طرح برین واشنگ کی ہے اس کا نتیجہ آج پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ایک کٹر ہندو کی دکان پر اس لیے حملے ہو رہے ہیں کہ دکان کے نام میں کراچی کا لفظ آتا ہے۔ افسوس ہے اس ذہنیت پر اور اس مائنڈ سیٹ پر! کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ مودی نے اپنے دورِ حکومت میں بھارتیوں کے دماغ سکیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ انہیں شاہ دولہ کے چوہے بنا دیا ہے۔ وہ ساری دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور بھارتی گائے بیچنے والوں کو کچل رہے ہیں۔ مسجدوں پر دھاوے بول رہے ہیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی قبر کے درپے ہو رہے ہیں۔ ایک نہیں‘ بی جے پی نے سینکڑوں جنرل بخشی اور ارنب گو سوامی پیدا کیے ہیں۔ ان کے دہانوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔ ان کے گلوں کی رگیں اتنی سرخ ہو رہی ہیں کہ بس پھٹنے والی ہیں۔ غیظ و غضب سے ان کی اپنی جانیں خطرے میں ہیں۔ کلام پاک میں ہے: مُوتُو بِغَیظِکُم‘ اپنے غصے میں خود ہی مر رہے ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار سے پہلے بھی بھارت میں غیر ہندوؤں کیلئے مسائل تھے مگر یہ اندھیر نہیں تھا۔ بھارت ایک گلدستہ تھا۔ اس میں قسم قسم کے پھول تھے۔ مختلف ثقافتوں‘ مختلف زبانوں اور مختلف رنگوں کے پھول! بی جے پی نے اس گلدستے کی پتی پتی تاراج کر دی۔ پھولوں کی خوشبو کی جگہ لاشوں کی سڑاند نے لے لی ہے۔ کشمیری اور آسامی مسلمانوں کی لاشیں! منی پور کے مسیحیوں کی لاشیں! پنجاب کے سکھوں کی لا شیں! بہت جلد جین مت کے ماننے والوں کی باری بھی آ جائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کے لیے بابا گورو نانک کا نام بھی تیر سے کم نہیں! کرتارپور راہداری کھلنے سے آر ایس ایس کے جنونیوں کو گہرا زخم لگا تھا۔ جو مائنڈ سیٹ بی جے پی کے طویل عرصہ اقتدار نے بھارت میں عام کیا ہے‘ اس کے سبب بھارتیوں پر رحم آتا ہے۔ سمندر کو ایک جوئے کم آب میں بدل دیا ہے۔ باغ کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ نفرت کا زہر ہر طرف پھیلا دیا ہے! معاشرے کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ جنوبی ریاستوں (تامل ناڈو‘ کرناٹک‘ تلنگانہ‘ آندھرا پردیش اور کیرالہ) پر شمال کی زبان‘ ہندی مسلط کرے‘ اس سے بھارت کے اندر افتراق اور انتشار کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ خدا بھارت کے عوام پر رحم کرے اور انہیں کسی ایسے رہنما سے نوازے جو تمام مذہبی‘ ثقافتی‘ نسلی گروہوں کو یکجا کر کے رکھے۔ دلوں میں محبت پیدا کرے۔ اور جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے بجائے خطے میں ترقی کا سوچے تا کہ غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو۔

Tuesday, May 13, 2025

بھارت کے ساتھ امن کا معاملہ


آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ماؤتھ پیس بی جے پی کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ یہ جنگ‘ آخری جنگ نہیں!
جو پاکستانی دانشور بھارتی جارحیت کی مذمت کیے بغیر امن کی اور خطے کی بات کر رہے ہیں‘ ان کے خلوص پر شبہ نہیں مگر یوں لگتا ہے انہوں نے آر ایس ایس کا منشور نہیں پڑھا۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا چاہتے ہیں؟ امن کا نعرہ وہاں جچتا ہے جہاں دونوں فریق امن کی اہمیت کو سمجھیں! جہاں ایک فریق دوسرے فریق کے وجود ہی کو نہیں تسلیم کرتا اور اسے مٹانے کے درپے ہے‘ وہاں امن کی تلقین کرنا غیر منطقی ہے۔ جو تنظیم گاندھی جی کوقتل کروا دے اور قاتل کو آج بھی ہیرو قرار دے‘ کیا وہ پاکستان کو امن کیساتھ رہنے دے گی؟ یہ جنگ آخری جنگ نہیں! پاکستان کو اپنی بقا کیلئے ہمیشہ تیار اور چو کنا رہنا پڑے گا۔ پاکستان کو ہمیشہ ایک مضبوط فوج رکھنا ہو گی۔ اسے ہمیشہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑے گا۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو بھارت کی ''فرمانبردار‘‘ ریاست کبھی نہیں بنا۔ پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے واحد دیوار ہے۔ خدا نخواستہ‘ میرے منہ میں خاک‘ یہ دیوار نہ ہو تو پورا شرقِ اوسط بھارت کے سامنے سر جھکا دے!! پاکستان حملہ کرنے میں پہل نہیں کرے گا مگر دندان شکن جواب دینے کیلئے اسے ہر رات جاگنا ہو گا اور ہر دن پا بہ رکاب رہنا ہو گا۔
اس میں کیا شک ہے کہ پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے۔ دونوں ملکوں کے سائز دیکھیے۔ کوئی نسبت تناسب نہیں! رقبے کے اعتبار سے نہ آبادی کے لحاظ سے! مگر پاکستان بھارت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ بھارت خوف زدہ ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے بھارت پاکستان سے خوف زدہ ہے۔ اس کی وجوہ جاننا اور سمجھنا چنداں مشکل نہیں! اس خوف کی جڑیں قیام پاکستان سے پہلے کی ہیں! مسلمانوں نے ایک قلیل تعداد کے ساتھ برصغیر فتح کیا اور قلیل تعداد کے ساتھ ہی طویل عرصہ حکومت کی۔ ہم آج بھی تعداد میں کم ہیں اور کل بھی کم تھے۔ ترائن سے لے کر سومنات تک اور ہیمو بقال سے لے کر سداشو راؤ بھاؤ تک‘ ہر موقع پر مسلمان تعداد میں کم تھے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور یہ کم تعداد ہندوؤں کیلئے ہمیشہ مصیبت بنی رہی۔ آج ایک چھوٹے سے پاکستان نے بھارت کو خائف کر رکھا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پَر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
مسلسل زہر اُگلنے والے جنرل بخشی کو سب سے زیادہ درد اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک یہاں حکومت کی۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آٹھ صدیاں کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ مسلمان حکمران چاہتے تو اس طویل عرصۂ حکمرانی کے دوران پورے برصغیر کو مسلمان کر سکتے تھے۔ وہ چاہتے تو مقامی مذاہب کا نشان تک مٹا سکتے تھے‘ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جو مقامی لوگ مسلمان ہوئے وہ یا صوفیا کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے یا ذات پات کی اذیتناک پابندیوں سے تنگ آکر۔ معروف غیر مسلم بھارتی مؤرخ ابراہام ایرالی نے اپنی متعدد تصانیف میں لکھا ہے کہ ہندوؤں کی کم تر ذاتوں کے لوگ جب مسلمانوں کو دیکھتے کہ سب مسلمان ایک جیسے ہیں‘ غلام شہزادیوں سے شادیاں بھی کرتے ہیں‘ تخت پر بیٹھ کر حکمرانی بھی کرتے ہیں اور کھانا بھی ساتھ مل کر کھاتے ہیں تو اسلام قبول کر لیتے۔ ہندو دھرم میں اگر شودر کے کان میں برہمن کی آواز چلی جائے تو شودر کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنے کا حکم ہے۔ تمام مسلمان حکمرانوں نے ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے دیے۔ کاروبارِ حکومت میں شامل کیا۔ مسلمان ہو کر بھی ہندو خواتین سے شادیاں کیں۔ ان خواتین نے شاہی محلات کے اندر مندر بنوائے۔ مسلمان حکمرانوں نے مندروں کی نگہداشت اور جملہ اخراجات کیلئے بھاری رقوم دیں اور جائدادیں وقف کیں۔ بھارتی ہندوؤں کو اقتدار ملے ابھی پون صدی ہوئی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ گنجے کو ناخن ملنے والی بات ہے۔ مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔کیا آٹھ سو سالہ حکمرانی کے دوران کسی ایک ہندو سے بھی شہریت کا ثبوت مانگا گیا؟ مسلم دورِ اقتدار میں ہندوؤں کو بڑے بڑے مناصب پر فائز کیا گیا۔ فوج سے لے کر سول سروس تک‘ بندوبستِ اراضی سے لے کر ٹیکس جمع کرنے تک‘ کسی شعبے میں بھی مقامی آبادی کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور ملازمتوں میں کتنے نظر آرہے ہیں؟ شہروں کے نام تبدیل کر کے مسلم کلچر کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ مساجد کو گرایا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کو آزادی ہے مگر مسلمان مسجد سے باہر نماز نہیں ادا کر سکتے۔ مسلمان آبادیوں کو پریشان کرنے کیلئے قسم قسم کے بہانے تراشے جاتے ہیں!
پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر بھارت کا مائنڈ سیٹ اگر یہ ہے کہ وہ بھیڑیا ہے اور ہم بھیڑیں‘ تو امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ موجودہ سیز فائر ایک عارضی انتظام ہے۔ پاکستان ایئر فورس کی برتری دیکھ کر امریکہ بھارت کی مدد کو پہنچا اور سیز فائر کرائی۔ ایک بچہ بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اب امریکہ اور اسرائیل‘ دونوں مسلم دشمن ممالک‘ بھر پور کوشش کریں گے کہ چینی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بھارت کی جو سبکی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ امن کی بات وہاں کی جاتی ہے جہاں امن کا امکان ہو۔ جس طرح بھارت ٹی ٹی پی کو اور بی ایل اے کو اسلحہ اور فنڈز دے رہا ہے‘ کیا قیامِ امن کیلئے دے رہا ہے؟ کیا کلبھوشن امن کا درس دینے آیا تھا؟ بیٹھے بٹھائے سندھ طاس معاہدے پر بھارت نے جو شب خون مارا ہے‘ کیا امن کی تلاش میں مارا ہے؟ پاکستان امن کا دشمن نہیں مگر امن اور خود کُشی میں فرق ہے اور دانشوروں کو یہ فرق نظر آنا چاہیے!راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ بھارتی حکومت نے پاکستان اور چین کو باہم متحد کرکے بھارت کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی پالیسیوں کا ایک اہم حصہ پاکستان اور چین میں دوریاں پیدا کرنا ہے۔ یہ جو پاکستان میں چینیوں پر حملے کیے جاتے ہیں‘ یہ یقینا امریکہ اور بھارت مل کر پلان کرتے ہیں اور پھر طالبان کے ذریعے انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اس جنگ میں طالبان نے پاکستان کی کوئی اخلاقی حمایت نہیں کی۔ ہاں مُلا عبد السلام ضعیف کا ایک زہر آلود بیان ضرور وائرل ہو رہا ہے کہ یہ جنگ ہندوؤں اور پنجابیوں (پاکستانیوں) کے درمیان ہے۔ لگتا ہے کہ مُلا صاحب کا علم بھی ضعیف ہے۔ ارے بھائی! پنجابی تو بھارتی فوج میں بھی ہیں! یہ جنگ ہندوؤں اور پنجابیوں کے درمیان نہیں تھی‘ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تھی۔ ٹھیک ہے مُلا صاحب کے ساتھ جو کچھ مشرف دور میں ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر اونٹ اور انسان میں فرق ہونا چاہیے۔ کینہ اس قدر بھی ٹھیک نہیں کہ پاکستان کے تمام احسانات بھلا کر جنگ کو ہندوؤں اور پنجابیوں کی جنگ قرار دے دو!! ناصر کاظمی نے ٹھیک کہا تھا:
میں نے تیرا ساتھ دیا؍ میرے منہ پر کالک مَل
مانا کہ بھارت بھیڑیا ہے مگر پاکستان بھیڑ کا وہ بچہ نہیں جو پانی کے بہاؤ کے رُخ‘ نشیب میں کھڑا تھا اور بھیڑیا کہہ رہا تھا کہ پانی کو گدلا کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کا واویلا مچاتے وقت بھارت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو آٹھ سو سال حکومت کر سکتے ہیں وہ تمہاری جارحیت کا منہ توڑ جواب بھی دے سکتے ہیں۔

Thursday, May 08, 2025

صدیقاں بی بی سے لے کر میدانِ جنگ تک

ستائیس سال کا عرصہ تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔

صدیقاں بی بی ستائیس سال انتظار کرتی رہی۔ اس عرصہ کے دوران جو بچے پیدا ہوئے‘ انہوں نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سکولوں میں پہنچے۔ تعلیم مکمل کی۔ ملازمتوں اور کاروبار کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ان کی شادیاں ہو گئیں۔ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ ستائیس برس کے اس عرصہ میں ملک میں اسلام کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ رہا۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی رہیں۔ مدارس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ تبلیغی وفود ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسلسل سفر میں رہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی رہی۔ لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کرتے رہے۔ پوری دنیا کو قائل کیا جاتا رہا کہ پاکستان کفر کی اس دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے! ایک زبردست‘ ناقابلِ تسخیر قلعہ!
صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ ایک کچہری سے دوسری کچہری تک۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت تک! ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے وکیل کے دفتر تک! ایک شہر سے دوسرے شہر تک! فیسیں ادا کرتی رہی! کس چیز کے لیے؟ اُس حق کے لیے جو اللہ نے‘ اللہ کے رسول نے‘ اللہ اور رسول کے قرآن نے اسے دیا تھا۔ اسلام کے اس قلعہ میں اپنے حق کے لیے اسے ستائیس سال لڑنا پڑا‘ ستائیس سال انتظار کرنا پڑا!
باپ مرا تو اس کے بھائی نے باپ کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد پر‘ ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھائی کو اس کام سے جو سراسر حرام تھا‘ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کے صریح واضح احکام کی نافرمانی نہ کرو! جلد ہی بہن بیوہ ہو گئی۔ اس پر بھی اس کا دل نہ پسیجا! صدیقاں بی بی انصاف کی بھیک مانگنے عدلیہ کے دروازے پر گئی۔ جو مقدمہ ایک ہفتے میں ختم ہو سکتا تھا‘ عدلیہ نے اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں 1400سے زائد ہفتے لگا دیے۔ جو معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹایا جا سکتا تھا‘ وہ 324مہینے لٹکتا رہا۔ صدیقاں بی بی انتظار کرتی رہی۔ عدالتوں‘ کچہریوں‘ وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگاتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ اس اثنا میں سورج 9855بار طلوع ہوا! 9855بار غروب ہوا۔ 9855صبحیں آئیں‘ اتنی ہی شامیں گزریں‘ اتنی ہی دوپہریں بیتیں! صدیقاں بی بی جھولی پھیلائے منتظر رہی! بالآخر ستائیس سال بعد اسے اس کا جائز شرعی اور قانونی حق ملا!
یہ صرف ایک صدیقاں بی بی کی سرگزشت نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں صدیقاں بیبیاں اپنے حق کے لیے در بدر رُل رہی ہیں۔ ہر طبقے کے مرد اس کارِخیر میں شامل ہیں۔ وہ بھی جو تھری پیس سوٹ پہن کر‘ پائپ ہونٹوں میں دبا کر‘ نکٹائی کی ناٹ درست کرتے ہوئے گفتگو میں فرنگی زبان کے پیوند لگائے حقوقِ نسواں پر لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں۔ وہ بھی جو پُر پیچ عمامے سروں پر رکھے‘ چُغے زیب تن کیے‘ منبروں پر بیٹھے اس محبت کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے رسول کو سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے تھی۔ وہ بھی جو ''میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے لگاتی کوچہ و بازار میں ہنگامے برپا کرتی نظر آتی ہیں۔ وراثت کی تقسیم کا وقت آئے تو یہ بیبیاں ہمیشہ بیٹوں کی طرفداری کرتی ہیں۔ بہنیں اپنے حق کا مطالبہ کریں تو انہیں ''ڈائن‘‘ کہتی ہیں۔ کتنی ہی لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی صرف اس لیے کہ زمین ''غیروں‘‘ کے ہاتھ میں نہ آجائے۔ اسی ملک میں بیٹیوں کی شادیاں‘ نعوذ باللہ قرآن کے ساتھ کی جاتی ہیں کہ سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ مانگ بیٹھیں۔
دردناک تضاد 
(Paradox) 
یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم اور ناانصافی میں بہت بڑا کردار خود عورت ہی کا ہے۔ عورت ہی بیٹے کو مجبور کرتی ہے کہ لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ لڑکے کی پیدائش کے لیے دوسری شادی کرے اور پہلی بیوی سے جان چھڑائے۔ ہسپتال میں نرس آکر بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہے تو تھپڑ نرس کے چہرے پر نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ لڑکی جب دسویں یا بارہویں جماعت کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کرتی ہے اور باپ مان بھی جاتا ہے تو ماں ہی اعتراض کرتی ہے کہ کون سی نوکری کرنی ہے اس نے!! سول سروس میں بھی یہی دیکھا کہ جونیئر خواتین افسر سینئر خواتین افسروں سے نالاں ہی رہتی ہیں! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!!
پس نوشت۔ دشمن پاکستان پر حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اس پر آر ایس ایس حکومت کر رہی ہے جو نہ صرف بھارت کے اندر غیر ہندوؤں کی جانی دشمن ہے بلکہ پڑوسی ملکوں کو بھی اپنے شاوِنزم کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ مودی سرکار الیکشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی طبلِ جنگ بجاتی رہی ہے اور بجا رہی ہے۔ ہماری کفن پوش مسلح افواج کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہمہ وقت‘ ہر پل‘ ہر گھڑی مستعد کھڑی ہیں! مگر جنگ جیتنے کے لیے صرف فوج اور اسلحہ کافی نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی افواج کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہو۔ اس اعتبار سے حکومت پر‘ اور مقتدرہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نازک وقت میں پی ٹی آئی کو مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت اختلافات بھلانے کا ہے۔ پارٹیوں کے سربراہوں کا اجلاس اگر قومی سلامتی کے ضمن میں منعقد ہوتا ہے تو عمران خان کو اس میں بیٹھنا چاہیے اور مقتدر طبقات کو خود کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان دوسرے سربراہوں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی آرا اور خیالات کے ذریعے اپنا حصہ ڈالیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کو بھی اس نازک لمحے میں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے باہمی لڑائی جھگڑوں کا میدان بعد میں بھی سج سکتا ہے۔ لمحۂ موجود میں اتحاد اور اتفاق از حد ضروری ہے۔ یہ ملک پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ پی ٹی آئی کے وابستگان حب الوطنی میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بیرونِ ملک کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے چند وی لاگروں کو چھوڑکر تمام کی تمام پی ٹی آئی یقینا پاکستان کی وفادار ہے۔ یہ گھڑی نازک ہے۔ اس گھڑی مسلح افواج پر طعن و تشنیع کے تیر نہیں برسانے چاہئیں۔ اختلافات بالائے طاق رکھ کر پی ٹی آئی کو بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے شانہ بشانہ بھارت کو بتانا ہو گا کہ ہم سب ایک ہیں!
کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اسے اپنے سائز پر اعتماد ہے نہ اپنے بے پناہ وسائل پر! وہ اس سانپ کی طرح ہے جو چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ یہ احساسِ کمتری آج کا نہیں‘ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ افضل خان اور شیوا جی کی لڑائی ہے جو جاری ہے۔ افضل خان بہادری‘ جرأت اور کھلے مقابلے کا سمبل ہے اور شیوا جی فریب‘ جھوٹ اور دغا بازی کی علامت ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تباہی لائے گی۔ دونوں ملک معاشی اعتبار سے کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ بھوک کا زور پورے خطے میں بڑھ جائے گا۔ کاش دونوں ممالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے اپنی اپنی عینکوں کے شیشے تبدیل کریں! دونوں ملکوں کو چاہیے کہ متحد ہو کر اقتصادی میدان میں پوری دنیا کی قیادت کریں۔ اس اتحاد کے لیے لازم ہے کہ آر ایس ایس اَکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا بند کر دے!!

Tuesday, May 06, 2025

پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے


مسافر چیخ رہے تھے۔ جہاز ہچکولے کھا رہا تھا۔ اب گرا کہ گرا! اچانک ایک آواز ابھری ''گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نیچے دیکھیے‘ سمندر کے صاف شفاف پانی پر چلتی ایک خوبصورت کشتی نظر آئے گی۔ ہم اسی کشتی سے بول رہے ہیں‘‘۔ اس لطیفہ نما حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ بات کہ ایک انسان کیا کہتا ہے اور کس طرح کہتا ہے‘ اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے‘ کہاں سے کہہ رہا ہے؟ بحر اوقیانوس کے پار‘ امریکہ کی مشفق‘ سرپرستانہ‘ نرم‘ مخملیں گود میں بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں بولنا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اور بات ہے اور پاکستان کے اندر رہ کر کچھ کہنا اور بات ہے۔
شعائیں‘ Vibes تو اس شخص سے ہمیشہ منفی اور ناپسندیدہ ہی اٹھتی تھیں مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ بے حسی کی آخری حد بھی پیچھے رہ جائے گی۔ تازہ ترین ہزلیات کی جھلکیاں دیکھیے۔
''اگر اسرائیل غاصب ہے تو اس کو ذرا ڈی کوڈ کریں‘ یہ کیا چیز ہے۔ اسرائیل کو وہاں عالمی قوتوں نے بٹھایا ہے۔ وہی عالمی قوتیں کہ جنہوں نے ستاون اسلامی ممالک کی لکیریں کھینچی ہیں!‘‘۔
''یہی مقدمہ طالبان پیش کرتے ہیں کہ یہ غاصب ہیں پاکستانی۔ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو لائن بنا کر ہمیں تقسیم کر دیا ہے‘‘۔ 
''پھر ہندوؤں کا یہ مقدمہ بھی تسلیم کریں کہ مسلمان غاصب ہیں۔ہندوؤں کے گھر میں ایک ہزار سال تک ہم بیٹھے رہے‘‘۔
اب جب یہ مقدمہ ''قائم‘‘ ہو گیا کہ ''ہم‘‘ بھی غاصب ہیں تو انٹرویو لینے والا پوچھتا ہے کہ ''جب ہم بھی غاصب ہیں اور وہ بھی‘ تو کیا کرنا چاہیے‘ تو یہ بزرجمہر کہتا ہے کہ ''سب سے پہلے اپنی زمین چھوڑیں اور ہندوؤں کے حوالے کریں‘‘۔
ان ''دلائل‘‘ کی صداقت کو تو ہم دیکھیں گے ہی‘ جس تکبر‘ نخوت‘ رعونت اور گھمنڈ کے ساتھ یہ ژاژ خائی اور ہذیان گوئی کی جا رہی ہے اس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رحم بھی!! یوں لگتا ہے کہ بہت اونچے تخت پر بیٹھ کر طاقتور ترین ملک کا کوئی بہت بڑا نمائندہ فیصلے صادر کر رہا ہے!! آخر طاقتور ترین ملک میں رہنے سے یہ احساس تو ہو ہی جاتا ہے کہ ''میں بھی طاقتور ترین ہوں‘‘۔
تقسیمِ ہند سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ کا جلوس تھا یا کانگرس کا۔ دو خاکروب جیمز اور سام‘ شاہراہ کے کنارے‘ اپنے اپنے جھاڑو زمین پر رکھے سستا رہے تھے۔ جلوس پاس سے گزرا تو جیمز نے سام سے پوچھا: یار سام! اے کیہ چاہندے نیں۔ یعنی یہ کیا چاہتے ہیں؟ سام نے جواب دیا: اے آزادی چاہندے نے‘ جیہڑی اسی نئیں دینی۔ یعنی یہ آزادی چاہتے ہیں جو ہم نے دینی نہیں!!
مسلمان ہی نہیں‘ غیر مسلم بھی دہائی دے رہے ہیں کہ اسرائیل غاصب ہے! اس بزرجمہر کی ممدوح عالمی قوتوں نے جب اسرائیل کو جنم دیا تھا تو اس وقت فلسطین کی کتنی زمین تھی یہودیوں کے قبضے میں؟ کالم نگار آصف محمود نے اعداد وشمار دیے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے وقت یہودیوں کے پاس صرف چھ فیصد زمین تھی۔ یروشلم میں دو فیصد اور باقی شہروں میں ان کے پاس ایک فیصد سے بھی کم زمین تھی۔ کیا آج بھی یہودیوں کے پاس اتنی ہی زمین ہے؟ کیا نئی یہودی بستیوں کو دنیا بھر نے ظلم اور ڈاکہ نہیں قرار دیا؟ کون سا ظلم ہے جو اہلِ فلسطین پر نہیں ہوا۔دنیا بھر سے غول در غول یہودی آتے گئے اور فلسطینیوں کو پیچھے دھکیلتے گئے۔ آئے دن ان کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ المناک ترین حصہ اس یاوہ گوئی کا وہ ہے جس میں پاکستان کو بھی لپیٹ میں لیا گیا۔ یعنی بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی! کہ طالبان بھی تو پاکستان کو غاصب کہتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی طالبان رہنما نے پاکستان کو کبھی غاصب نہیں کہا۔ اسرائیل کے ضمن میں پاکستان کا ذکر کہاں سے اور کیسے آ گیا؟ پاکستان ہماری جان ہے اور زندگی! پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ اس ریڈ لائن کو جو کراس کرے گا ہم اس کا تعاقب کریں گے‘ خواہ وہ کسی کی گود ہی میں کیوں نہ بیٹھا ہو۔ پاکستان کا موازنہ اسرائیل سے وہی کر سکتا ہے جو عقل سے عاری ہو اور تاریخ سے مکمل بے بہرہ! کیا پاکستان میں بسنے والے دوسرے ملکوں سے لائے گئے؟ ہم اس خطے میں ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں۔ پاکستان ایک تحریک کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اسے کسی عالمی قوت نے تخلیق نہیں کیا۔ یہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کی بے پناہ ذہانت‘ محنت اور دیانتداری کا ثمر ہے! اس کی تشکیل میں یہودیوں کی دولت کا نہیں‘ مسلمانوں کی کوشش اور دعاؤں کا حصہ ہے۔ یہ اُس مسلم لیگ نے بنوایا جس کی تاسیس 1906ء میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ کیا یہ مسلم لیگ نام نہاد عالمی قوتوں نے بنوائی تھی؟ بنگلہ دیش الگ ہو کر بھی ثابت کر رہا ہے کہ برصغیر کے مسلمان اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کا موازنہ اسرائیل کے ساتھ کوئی محب وطن پاکستانی نہیں کر سکتا! جسے رمق بھر بھی احساس ہو کہ اس نے اس سرزمین سے اُگنے والا اناج کھایا ہے‘ اس کے چشموں کا پانی پیا ہے‘ اس کی دھوپ اور چاندنی نے اس کے جسم کی نشو ونما کی ہے‘ اس کی ہواؤں‘ فضاؤں‘ بہاروں‘ موسموں اور خوشبوؤں سے وہ لطف اندوز ہوا ہے‘ وہ کبھی بھی پاکستان کے بارے میں ایسے فاسد خیالات نہیں رکھ سکتا۔ وہ تو اس کے ذرے ذرے کو مقدس سمجھتا ہے۔ پاکستان کے دفاع میں ہمارے بیٹوں نے اپنا خون دیا ہے اور مسلسل دے رہے ہیں۔ اس کی خاطر ہمارے بچے یتیم ہوئے ہیں۔ ہماری خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔ ہماری ماؤں نے اپنے جگر گوشے قربان کیے ہیں اور جب ان ماؤں کو شہادت کی خبر ملتی ہیں تو الحمدللہ کہتی ہیں۔ ایسی مقدس سرزمین کو اسرائیل کے ساتھ تشبیہ دینے والے کے بارے میں نرم ترین الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کر ڈالا!
ان افسوسناک جملوں سے ایک بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ بیک وقت‘ اور بیک آواز‘ بھارت اور اسرائیل دونوں کی خدمت کی جا رہی ہے۔ یہ بات کہ مسلمان ایک ہزار سال سے ہندوؤں کی زمین پر قابض ہیں اور یہ کہ انہیں یہ زمین ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیے‘ آر ایس ایس اور بی جے پی کا مؤقف ہے۔ یہی کچھ تو مودی‘ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ جیسے اکھنڈ بھارتی کہتے اور چاہتے ہیں! یہی راگ تو بھارتی جنرل گگن دیپ بخشی‘ ارناب گوسوامی اور ان کے ہم نوا رات دن الاپ رہے ہیں! اندازہ لگائیے! کیا کوئی پاکستانی مسلمان‘ کوئی بنگلہ دیشی مسلمان‘ کوئی بھارتی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ ہم ہندوؤں کے گھروں میں ایک ہزار سال سے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ کہ اسرائیل کا کچھ کرنے سے پہلے مسلمانوں کو چاہیے کہ برصغیر خالی کر دیں اور زمین ہندوؤں کے حوالے کر دیں!! انا للہ وانا الیہ راجعون! تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو!!
میر جعفر اور میر صادق کے سروں پر سینگ نہیں تھے۔ وہ بھی انسانی شکل ہی میں تھے۔ وہ بھی سر پر ٹوپی پہنتے تھے اور نئے نئے برانڈڈ ملبوسات! وہ بھی معروف لوگوں کے داماد ہی تھے!
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم‘ جواں ہیں لات ومنات
یہ صرف مذمت کا نہیں‘ ماتم کا بھی مقام ہے! ایک انسان کتنا گر سکتا ہے؟ نہیں معلوم یہ خدمت طویل المیعاد ویزے کے صلے میں سر انجام دی جا رہی ہے یا گرین کارڈ یا پاسپورٹ کے صلے میں! یا کسی اور سلسلے میں! مؤقف یہ ہو بہو‘ حرف بحرف وہی ہے جو امریکہ میں مقیم بھارتی اور اسرائیلی لابیاں رکھتی ہیں! ظفر اقبال یاد آ گئے:
دیکھ حسرت کوئی رہ جائے نہ دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اڑا اور بہت

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved

Thursday, May 01, 2025

رستم‘ گھوڑے اور ڈائنو سار

نانا کے گھر میں رکھی آبائی زینیں دیکھنے‘ اور بارہا دیکھنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ تین سال کی عمر میں پولو میچ دیکھنے کا شوق‘ وہ بھی جنون کی حد تک! پولو کلب اس کی پسندیدہ جگہ ہے۔ جیسے ہی گاڑی باہر نکالوں‘ جوتے پہن کر آ جاتا ہے کہ چلیں پولو کلب! پولو کلب پہنچنے کے بعد اس کا رویہ عجیب و غریب ہوتا ہے۔ ہم سب گھر والے جہاں بیٹھے ہوتے ہیں اچانک دیکھتے ہیں کہ رستم وہاں سے غائب ہے۔ میں اور اس کی ماں اسے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ پولو گراؤنڈ کے ایک کنارے پر لکڑی کے بہت سے بینچ پڑے ہوتے ہیں۔ پولو کے اصل شائقین یہیں بیٹھتے ہیں۔ ان شائقین کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ بینچ لکڑی کا ہے یا کرسی مخمل کی ہے۔ اور چائے ملے گی یا نہیں۔ یہاں ہم رستم کو تلاش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اجنبی خواتین و حضرات کے درمیان بیٹھا میچ دیکھنے میں محو ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چل کے ہمارے ساتھ بیٹھے اور کچھ کھا پی لے۔ مگر وہ سنی اَن سنی کر دیتا ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے ہم کلب میں گئے تو وہ میچ کا دن نہیں تھا۔ دور پڑے ہوئے لکڑی کے بینچ ویران اور افسردہ پڑے تھے۔ چند ہی لوگ تھے جو کلب کے ریستوران میں بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے نوٹ کیا کہ رستم پھر غائب ہے۔ دیکھا تو دور‘ خالی بینچوں کے ایک کنارے پر یکہ و تنہا بیٹھا تھا۔ میں دبے پاؤں چلتا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ٹانگیں ہلا رہا تھا۔ ذرا آگے ہو کر دیکھا‘ ساتھ مسکرائے جا رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ خوش ہے اور تنہائی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کیا وہ حد درجہ تعجب انگیز تھا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ نانا ابو آگئے ہیں وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا بینچوں کے دوسرے کنارے جا بیٹھا۔ مطلب واضح تھا کہ موصوف کو تخلیہ چاہیے تھا۔ چنانچہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ کُنجِ خلوت اس نے اُس وقت چھوڑا جب ہم گھر جانے کے لیے پولو کلب سے نکلے۔ وہ ہمارے ساتھ آیا مگر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ناخوش تھا۔ صرف پولو میچ سے نہیں اسے گھوڑوں سے بھی دلچسپی ہے اور حد سے زیادہ ہے۔ اس کے کھلونوں کا معتدبہ حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے۔ تین ڈالر کا جو پلاسٹک کا سرخ گھوڑا میں باہر سے اس کے لیے لایا وہ اس کا دن رات کا ساتھی ہے۔ کلب میں جہاں گھوڑوں کے تھان ہیں‘ وہاں بھی جاتا ہے۔ ایک ایک گھوڑے کو دیکھتا ہے۔ ایک دن اپنے پلاسٹک کے سرخ گھوڑے کو اصلی گھوڑے کے چہرے پر رگڑ رہا تھا۔ گھوڑوں کا رکھوالا دوڑتا آیا کہ بچے کو ہٹائیے‘ گھوڑا کاٹ بھی سکتا ہے۔ ہٹایا تو بہت دیر روتا رہا! جہاں گھوڑوں کو نہلایا جاتا ہے وہ بھی اس کا پسندیدہ مقام ہے۔ پائپوں سے جب گھوڑوں پر پانی ڈالا جاتا ہے تو اتنے غور سے دیکھتا ہے جیسے گھوڑوں کو نہلانے کی تربیت لے رہا ہو!

ڈائنو سار‘ گھوڑوں کے بعد اس کا دوسرا جنون ہیں۔ بازار میں کھلونوں کی دکانوں پر جس کثیر مقدار میں ڈائنو سار پڑے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شوق بچوں میں آج کل عام ہے۔ میرے اپنے بچے جب چھوٹے تھے تو اسلام آباد بلیو ایریا میں واقع کھلونوں کی ایک خاص دکان تھی جس میں ہم میاں بیوی جایا کرتے تھے۔ ان صاحب سے جیسے دوستی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔ آج سالہا سال بعد یہ سطور لکھتے وقت وہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جو ہمارا دوست تھا وہ اب دنیا میں نہیں رہا۔ اس کے بیٹے سے تعزیت کی اور وجہ پوچھی کہ ڈائنو سار کیوں بچوں پر چھائے ہوئے ہیں؟ اس خوش اخلاق نوجوان نے دو وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ بچوں کی فلموں میں ڈائنو سار بہت دکھائی دیتے ہیں جیسے جُراسک پارک والی فلم تھی۔ دوسرے اسلام آباد میں ڈائنو سار پارک بھی موجود ہے۔ خیر انٹرنیٹ پر جائیں تو بیسیوں وجوہ ملتی ہیں۔ رستم کا اوڑھنا بچھونا ڈائنو سار ہیں۔ دو ایک ہاتھ میں‘ دو دوسرے ہاتھ میں ہر وقت پکڑے رہتا ہے۔ کبھی کبھی ڈر لگتا ہے کہ اس مسلسل عمل سے اس کے ہاتھ بڑے ہی نہ ہو جائیں۔ دو دن پہلے فرش پر لیٹا رو رہا تھا اور روئے جا رہا تھا۔ پوچھا: کیا بات ہے‘ تو کہنے لگا: جمیل گم ہو گیا ہے۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ جمیل بھائی کون ہیں اور گم کیسے ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا کہ سبز رنگ کے ڈائنو سار کا نام جمیل ہے۔ اور یہ جمیل کم بخت صبح سے غائب ہے۔ ڈُھنڈیا پڑ گئی۔ رستم کی نانو کے پلنگ کے نیچے چھپا بیٹھا تھا۔ رستم نے اسے سینے سے لگا لیا۔ میں نے پیشکش کی کہ اس نے آپ کو تنگ کیا ہے اسے ذرا سزا دیتے ہیں‘ کہنے لگا: نہیں‘ اسے مارنا نہیں ہے۔
اس کے ماں باپ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سکرین کے اوقات کو کنٹرول کرنا ہے۔ یقینا تمام عقلمند والدین اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی مہینے ہوئے ایک بار مجھ سے ضد کر رہا تھا کہ آئی پیڈ پر ڈائنو سار والی یوٹیوب وڈیو لگا دوں۔ میں نے کہا: پہلے اپنی اماں یا ابا سے پوچھو۔ اماں نے صاف انکار کر دیا کہ اس دن کا سکرین کا کوٹہ ختم کر چکا ہے۔ میں نے سفارش کی تو اس کی ماں نے کہا: ٹھیک ہے مگر صرف چھ منٹ دیکھے گا۔ اس بات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں مگر چھ منٹ کی رعایت اس کے ذہن پر چپک کر رہ گئی ہے۔ میں دیر سے اٹھتا ہوں۔ وہ سحر خیز ہے۔ میرے پلنگ پر آجاتا ہے۔ پہلے میرے اوپر چھلانگیں لگاتا ہے۔ پھر مجھے پیار کرتا ہے۔ اپنے رخسار میرے چہرے سے مس کرتا ہے۔ ایسے میں مجھے والد گرامی مرحوم یاد آجاتے ہیں‘ صبح صبح مجھے جگاتے تھے تو اپنے رخسار میرے چہرے کے ساتھ لگاتے تھے جو وضو کی وجہ سے ٹھنڈے ہوتے تھے۔ یہ ٹھنڈک میرے جسم اور میری جان کے اندر اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں اور وریدوں میں دوڑتے لہو کے اندر اُتر جاتی تھی۔ رستم بھی اسی طرح اپنا چہرا میرے چہرے کے ساتھ لگاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے باپ دادا کی روحیں ہمارے بچوں میں آ جاتی ہیں۔ دادی جان مجھے دو بری عادتوں سے منع کرتی تھیں۔ کان میں دیا سلائی مارنے سے اور ہونٹ چھیلنے سے! جیسے ہی ان کا انتقال ہوا‘ یہ فرائض میری چھوٹی بیٹی نے سنبھال لیے۔ نہ کان میں تیلا پھیرنے سے لطف اندوز ہونے دیتی ہے نہ ہونٹ نوچنے دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے دادی جان کی روح اس میں آ گئی ہے۔ رستم میرے چہرے پر اپنا چہرہ رکھ دیتا ہے۔ جیسے ہی میری آنکھ کھلتی ہے کہتا ہے ''صرف چھ منٹ‘ پھر بند کر دوں گا‘‘۔ اس کی ماں سے چوری چوری اسے ڈائنو سار والے کلپ لگا دیتا ہوں مگر پانچ دس منٹ بعد بند کرا دیتا ہوں!!
ڈائنو سار سے یاد آیا کہ اسلام آباد کے پولو کلب میں کچھ ہستیاں سیر کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک سابق قاضی القضات دکھائی دیتے ہیں۔ سیر کرتے وقت ان کے جسمِ مبارک کا سارا جھکاؤ بائیں طرف ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے بائیں طرف صاحبزادہ ہو۔ ورنہ جھکاؤ کے بغیر ڈاکٹری پڑھ کر ایف آئی اے میں کیسے جاتا؟ اور پراپرٹی ٹائیکون ... خیر رہنے دیجیے اس بات کو۔ ایک سابق سینیٹ سربراہ بھی نظر آتے ہیں۔ اقبال کا مصرع یاد آجاتا ہے۔''غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں!‘‘۔ ماشا اللہ بہت لائق اور دانشور! اپنے آپ کو وہ مراعات دے گئے جن کی پوری کرۂ ارض میں مثال نہیں ملتی!! کون کہتا ہے کہ ڈائنو سار زمین سے ناپید ہو چکے ہیں؟؟؟

 

powered by worldwanders.com