ستائیس سال کا عرصہ تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔
صدیقاں بی بی ستائیس سال انتظار کرتی رہی۔ اس عرصہ کے دوران جو بچے پیدا ہوئے‘ انہوں نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سکولوں میں پہنچے۔ تعلیم مکمل کی۔ ملازمتوں اور کاروبار کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ان کی شادیاں ہو گئیں۔ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ ستائیس برس کے اس عرصہ میں ملک میں اسلام کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ رہا۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی رہیں۔ مدارس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ تبلیغی وفود ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسلسل سفر میں رہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی رہی۔ لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کرتے رہے۔ پوری دنیا کو قائل کیا جاتا رہا کہ پاکستان کفر کی اس دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے! ایک زبردست‘ ناقابلِ تسخیر قلعہ!صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ ایک کچہری سے دوسری کچہری تک۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت تک! ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے وکیل کے دفتر تک! ایک شہر سے دوسرے شہر تک! فیسیں ادا کرتی رہی! کس چیز کے لیے؟ اُس حق کے لیے جو اللہ نے‘ اللہ کے رسول نے‘ اللہ اور رسول کے قرآن نے اسے دیا تھا۔ اسلام کے اس قلعہ میں اپنے حق کے لیے اسے ستائیس سال لڑنا پڑا‘ ستائیس سال انتظار کرنا پڑا!باپ مرا تو اس کے بھائی نے باپ کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد پر‘ ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھائی کو اس کام سے جو سراسر حرام تھا‘ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کے صریح واضح احکام کی نافرمانی نہ کرو! جلد ہی بہن بیوہ ہو گئی۔ اس پر بھی اس کا دل نہ پسیجا! صدیقاں بی بی انصاف کی بھیک مانگنے عدلیہ کے دروازے پر گئی۔ جو مقدمہ ایک ہفتے میں ختم ہو سکتا تھا‘ عدلیہ نے اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں 1400سے زائد ہفتے لگا دیے۔ جو معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹایا جا سکتا تھا‘ وہ 324مہینے لٹکتا رہا۔ صدیقاں بی بی انتظار کرتی رہی۔ عدالتوں‘ کچہریوں‘ وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگاتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ اس اثنا میں سورج 9855بار طلوع ہوا! 9855بار غروب ہوا۔ 9855صبحیں آئیں‘ اتنی ہی شامیں گزریں‘ اتنی ہی دوپہریں بیتیں! صدیقاں بی بی جھولی پھیلائے منتظر رہی! بالآخر ستائیس سال بعد اسے اس کا جائز شرعی اور قانونی حق ملا!یہ صرف ایک صدیقاں بی بی کی سرگزشت نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں صدیقاں بیبیاں اپنے حق کے لیے در بدر رُل رہی ہیں۔ ہر طبقے کے مرد اس کارِخیر میں شامل ہیں۔ وہ بھی جو تھری پیس سوٹ پہن کر‘ پائپ ہونٹوں میں دبا کر‘ نکٹائی کی ناٹ درست کرتے ہوئے گفتگو میں فرنگی زبان کے پیوند لگائے حقوقِ نسواں پر لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں۔ وہ بھی جو پُر پیچ عمامے سروں پر رکھے‘ چُغے زیب تن کیے‘ منبروں پر بیٹھے اس محبت کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے رسول کو سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے تھی۔ وہ بھی جو ''میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے لگاتی کوچہ و بازار میں ہنگامے برپا کرتی نظر آتی ہیں۔ وراثت کی تقسیم کا وقت آئے تو یہ بیبیاں ہمیشہ بیٹوں کی طرفداری کرتی ہیں۔ بہنیں اپنے حق کا مطالبہ کریں تو انہیں ''ڈائن‘‘ کہتی ہیں۔ کتنی ہی لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی صرف اس لیے کہ زمین ''غیروں‘‘ کے ہاتھ میں نہ آجائے۔ اسی ملک میں بیٹیوں کی شادیاں‘ نعوذ باللہ قرآن کے ساتھ کی جاتی ہیں کہ سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ مانگ بیٹھیں۔دردناک تضاد (Paradox) یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم اور ناانصافی میں بہت بڑا کردار خود عورت ہی کا ہے۔ عورت ہی بیٹے کو مجبور کرتی ہے کہ لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ لڑکے کی پیدائش کے لیے دوسری شادی کرے اور پہلی بیوی سے جان چھڑائے۔ ہسپتال میں نرس آکر بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہے تو تھپڑ نرس کے چہرے پر نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ لڑکی جب دسویں یا بارہویں جماعت کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کرتی ہے اور باپ مان بھی جاتا ہے تو ماں ہی اعتراض کرتی ہے کہ کون سی نوکری کرنی ہے اس نے!! سول سروس میں بھی یہی دیکھا کہ جونیئر خواتین افسر سینئر خواتین افسروں سے نالاں ہی رہتی ہیں! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!!پس نوشت۔ دشمن پاکستان پر حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اس پر آر ایس ایس حکومت کر رہی ہے جو نہ صرف بھارت کے اندر غیر ہندوؤں کی جانی دشمن ہے بلکہ پڑوسی ملکوں کو بھی اپنے شاوِنزم کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ مودی سرکار الیکشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی طبلِ جنگ بجاتی رہی ہے اور بجا رہی ہے۔ ہماری کفن پوش مسلح افواج کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہمہ وقت‘ ہر پل‘ ہر گھڑی مستعد کھڑی ہیں! مگر جنگ جیتنے کے لیے صرف فوج اور اسلحہ کافی نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی افواج کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہو۔ اس اعتبار سے حکومت پر‘ اور مقتدرہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نازک وقت میں پی ٹی آئی کو مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت اختلافات بھلانے کا ہے۔ پارٹیوں کے سربراہوں کا اجلاس اگر قومی سلامتی کے ضمن میں منعقد ہوتا ہے تو عمران خان کو اس میں بیٹھنا چاہیے اور مقتدر طبقات کو خود کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان دوسرے سربراہوں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی آرا اور خیالات کے ذریعے اپنا حصہ ڈالیں۔دوسری طرف پی ٹی آئی کو بھی اس نازک لمحے میں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے باہمی لڑائی جھگڑوں کا میدان بعد میں بھی سج سکتا ہے۔ لمحۂ موجود میں اتحاد اور اتفاق از حد ضروری ہے۔ یہ ملک پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ پی ٹی آئی کے وابستگان حب الوطنی میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بیرونِ ملک کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے چند وی لاگروں کو چھوڑکر تمام کی تمام پی ٹی آئی یقینا پاکستان کی وفادار ہے۔ یہ گھڑی نازک ہے۔ اس گھڑی مسلح افواج پر طعن و تشنیع کے تیر نہیں برسانے چاہئیں۔ اختلافات بالائے طاق رکھ کر پی ٹی آئی کو بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے شانہ بشانہ بھارت کو بتانا ہو گا کہ ہم سب ایک ہیں!کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اسے اپنے سائز پر اعتماد ہے نہ اپنے بے پناہ وسائل پر! وہ اس سانپ کی طرح ہے جو چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ یہ احساسِ کمتری آج کا نہیں‘ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ افضل خان اور شیوا جی کی لڑائی ہے جو جاری ہے۔ افضل خان بہادری‘ جرأت اور کھلے مقابلے کا سمبل ہے اور شیوا جی فریب‘ جھوٹ اور دغا بازی کی علامت ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تباہی لائے گی۔ دونوں ملک معاشی اعتبار سے کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ بھوک کا زور پورے خطے میں بڑھ جائے گا۔ کاش دونوں ممالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے اپنی اپنی عینکوں کے شیشے تبدیل کریں! دونوں ملکوں کو چاہیے کہ متحد ہو کر اقتصادی میدان میں پوری دنیا کی قیادت کریں۔ اس اتحاد کے لیے لازم ہے کہ آر ایس ایس اَکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا بند کر دے!!
صدیقاں بی بی ستائیس سال انتظار کرتی رہی۔ اس عرصہ کے دوران جو بچے پیدا ہوئے‘ انہوں نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سکولوں میں پہنچے۔ تعلیم مکمل کی۔ ملازمتوں اور کاروبار کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ان کی شادیاں ہو گئیں۔ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ ستائیس برس کے اس عرصہ میں ملک میں اسلام کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ رہا۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی رہیں۔ مدارس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ تبلیغی وفود ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسلسل سفر میں رہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی رہی۔ لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کرتے رہے۔ پوری دنیا کو قائل کیا جاتا رہا کہ پاکستان کفر کی اس دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے! ایک زبردست‘ ناقابلِ تسخیر قلعہ!
صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ ایک کچہری سے دوسری کچہری تک۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت تک! ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے وکیل کے دفتر تک! ایک شہر سے دوسرے شہر تک! فیسیں ادا کرتی رہی! کس چیز کے لیے؟ اُس حق کے لیے جو اللہ نے‘ اللہ کے رسول نے‘ اللہ اور رسول کے قرآن نے اسے دیا تھا۔ اسلام کے اس قلعہ میں اپنے حق کے لیے اسے ستائیس سال لڑنا پڑا‘ ستائیس سال انتظار کرنا پڑا!
باپ مرا تو اس کے بھائی نے باپ کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد پر‘ ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھائی کو اس کام سے جو سراسر حرام تھا‘ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کے صریح واضح احکام کی نافرمانی نہ کرو! جلد ہی بہن بیوہ ہو گئی۔ اس پر بھی اس کا دل نہ پسیجا! صدیقاں بی بی انصاف کی بھیک مانگنے عدلیہ کے دروازے پر گئی۔ جو مقدمہ ایک ہفتے میں ختم ہو سکتا تھا‘ عدلیہ نے اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں 1400سے زائد ہفتے لگا دیے۔ جو معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹایا جا سکتا تھا‘ وہ 324مہینے لٹکتا رہا۔ صدیقاں بی بی انتظار کرتی رہی۔ عدالتوں‘ کچہریوں‘ وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگاتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ اس اثنا میں سورج 9855بار طلوع ہوا! 9855بار غروب ہوا۔ 9855صبحیں آئیں‘ اتنی ہی شامیں گزریں‘ اتنی ہی دوپہریں بیتیں! صدیقاں بی بی جھولی پھیلائے منتظر رہی! بالآخر ستائیس سال بعد اسے اس کا جائز شرعی اور قانونی حق ملا!
یہ صرف ایک صدیقاں بی بی کی سرگزشت نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں صدیقاں بیبیاں اپنے حق کے لیے در بدر رُل رہی ہیں۔ ہر طبقے کے مرد اس کارِخیر میں شامل ہیں۔ وہ بھی جو تھری پیس سوٹ پہن کر‘ پائپ ہونٹوں میں دبا کر‘ نکٹائی کی ناٹ درست کرتے ہوئے گفتگو میں فرنگی زبان کے پیوند لگائے حقوقِ نسواں پر لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں۔ وہ بھی جو پُر پیچ عمامے سروں پر رکھے‘ چُغے زیب تن کیے‘ منبروں پر بیٹھے اس محبت کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے رسول کو سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے تھی۔ وہ بھی جو ''میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے لگاتی کوچہ و بازار میں ہنگامے برپا کرتی نظر آتی ہیں۔ وراثت کی تقسیم کا وقت آئے تو یہ بیبیاں ہمیشہ بیٹوں کی طرفداری کرتی ہیں۔ بہنیں اپنے حق کا مطالبہ کریں تو انہیں ''ڈائن‘‘ کہتی ہیں۔ کتنی ہی لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی صرف اس لیے کہ زمین ''غیروں‘‘ کے ہاتھ میں نہ آجائے۔ اسی ملک میں بیٹیوں کی شادیاں‘ نعوذ باللہ قرآن کے ساتھ کی جاتی ہیں کہ سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ مانگ بیٹھیں۔
دردناک تضاد
(Paradox)
یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم اور ناانصافی میں بہت بڑا کردار خود عورت ہی کا ہے۔ عورت ہی بیٹے کو مجبور کرتی ہے کہ لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ لڑکے کی پیدائش کے لیے دوسری شادی کرے اور پہلی بیوی سے جان چھڑائے۔ ہسپتال میں نرس آکر بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہے تو تھپڑ نرس کے چہرے پر نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ لڑکی جب دسویں یا بارہویں جماعت کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کرتی ہے اور باپ مان بھی جاتا ہے تو ماں ہی اعتراض کرتی ہے کہ کون سی نوکری کرنی ہے اس نے!! سول سروس میں بھی یہی دیکھا کہ جونیئر خواتین افسر سینئر خواتین افسروں سے نالاں ہی رہتی ہیں! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!!
پس نوشت۔ دشمن پاکستان پر حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اس پر آر ایس ایس حکومت کر رہی ہے جو نہ صرف بھارت کے اندر غیر ہندوؤں کی جانی دشمن ہے بلکہ پڑوسی ملکوں کو بھی اپنے شاوِنزم کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ مودی سرکار الیکشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی طبلِ جنگ بجاتی رہی ہے اور بجا رہی ہے۔ ہماری کفن پوش مسلح افواج کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہمہ وقت‘ ہر پل‘ ہر گھڑی مستعد کھڑی ہیں! مگر جنگ جیتنے کے لیے صرف فوج اور اسلحہ کافی نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی افواج کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہو۔ اس اعتبار سے حکومت پر‘ اور مقتدرہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نازک وقت میں پی ٹی آئی کو مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت اختلافات بھلانے کا ہے۔ پارٹیوں کے سربراہوں کا اجلاس اگر قومی سلامتی کے ضمن میں منعقد ہوتا ہے تو عمران خان کو اس میں بیٹھنا چاہیے اور مقتدر طبقات کو خود کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان دوسرے سربراہوں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی آرا اور خیالات کے ذریعے اپنا حصہ ڈالیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کو بھی اس نازک لمحے میں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے باہمی لڑائی جھگڑوں کا میدان بعد میں بھی سج سکتا ہے۔ لمحۂ موجود میں اتحاد اور اتفاق از حد ضروری ہے۔ یہ ملک پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ پی ٹی آئی کے وابستگان حب الوطنی میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بیرونِ ملک کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے چند وی لاگروں کو چھوڑکر تمام کی تمام پی ٹی آئی یقینا پاکستان کی وفادار ہے۔ یہ گھڑی نازک ہے۔ اس گھڑی مسلح افواج پر طعن و تشنیع کے تیر نہیں برسانے چاہئیں۔ اختلافات بالائے طاق رکھ کر پی ٹی آئی کو بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے شانہ بشانہ بھارت کو بتانا ہو گا کہ ہم سب ایک ہیں!
کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اسے اپنے سائز پر اعتماد ہے نہ اپنے بے پناہ وسائل پر! وہ اس سانپ کی طرح ہے جو چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ یہ احساسِ کمتری آج کا نہیں‘ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ افضل خان اور شیوا جی کی لڑائی ہے جو جاری ہے۔ افضل خان بہادری‘ جرأت اور کھلے مقابلے کا سمبل ہے اور شیوا جی فریب‘ جھوٹ اور دغا بازی کی علامت ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تباہی لائے گی۔ دونوں ملک معاشی اعتبار سے کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ بھوک کا زور پورے خطے میں بڑھ جائے گا۔ کاش دونوں ممالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے اپنی اپنی عینکوں کے شیشے تبدیل کریں! دونوں ملکوں کو چاہیے کہ متحد ہو کر اقتصادی میدان میں پوری دنیا کی قیادت کریں۔ اس اتحاد کے لیے لازم ہے کہ آر ایس ایس اَکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا بند کر دے!!
No comments:
Post a Comment