نانا کے گھر میں رکھی آبائی زینیں دیکھنے‘ اور بارہا دیکھنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ تین سال کی عمر میں پولو میچ دیکھنے کا شوق‘ وہ بھی جنون کی حد تک! پولو کلب اس کی پسندیدہ جگہ ہے۔ جیسے ہی گاڑی باہر نکالوں‘ جوتے پہن کر آ جاتا ہے کہ چلیں پولو کلب! پولو کلب پہنچنے کے بعد اس کا رویہ عجیب و غریب ہوتا ہے۔ ہم سب گھر والے جہاں بیٹھے ہوتے ہیں اچانک دیکھتے ہیں کہ رستم وہاں سے غائب ہے۔ میں اور اس کی ماں اسے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ پولو گراؤنڈ کے ایک کنارے پر لکڑی کے بہت سے بینچ پڑے ہوتے ہیں۔ پولو کے اصل شائقین یہیں بیٹھتے ہیں۔ ان شائقین کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ بینچ لکڑی کا ہے یا کرسی مخمل کی ہے۔ اور چائے ملے گی یا نہیں۔ یہاں ہم رستم کو تلاش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اجنبی خواتین و حضرات کے درمیان بیٹھا میچ دیکھنے میں محو ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چل کے ہمارے ساتھ بیٹھے اور کچھ کھا پی لے۔ مگر وہ سنی اَن سنی کر دیتا ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے ہم کلب میں گئے تو وہ میچ کا دن نہیں تھا۔ دور پڑے ہوئے لکڑی کے بینچ ویران اور افسردہ پڑے تھے۔ چند ہی لوگ تھے جو کلب کے ریستوران میں بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے نوٹ کیا کہ رستم پھر غائب ہے۔ دیکھا تو دور‘ خالی بینچوں کے ایک کنارے پر یکہ و تنہا بیٹھا تھا۔ میں دبے پاؤں چلتا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ٹانگیں ہلا رہا تھا۔ ذرا آگے ہو کر دیکھا‘ ساتھ مسکرائے جا رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ خوش ہے اور تنہائی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کیا وہ حد درجہ تعجب انگیز تھا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ نانا ابو آگئے ہیں وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا بینچوں کے دوسرے کنارے جا بیٹھا۔ مطلب واضح تھا کہ موصوف کو تخلیہ چاہیے تھا۔ چنانچہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ کُنجِ خلوت اس نے اُس وقت چھوڑا جب ہم گھر جانے کے لیے پولو کلب سے نکلے۔ وہ ہمارے ساتھ آیا مگر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ناخوش تھا۔ صرف پولو میچ سے نہیں اسے گھوڑوں سے بھی دلچسپی ہے اور حد سے زیادہ ہے۔ اس کے کھلونوں کا معتدبہ حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے۔ تین ڈالر کا جو پلاسٹک کا سرخ گھوڑا میں باہر سے اس کے لیے لایا وہ اس کا دن رات کا ساتھی ہے۔ کلب میں جہاں گھوڑوں کے تھان ہیں‘ وہاں بھی جاتا ہے۔ ایک ایک گھوڑے کو دیکھتا ہے۔ ایک دن اپنے پلاسٹک کے سرخ گھوڑے کو اصلی گھوڑے کے چہرے پر رگڑ رہا تھا۔ گھوڑوں کا رکھوالا دوڑتا آیا کہ بچے کو ہٹائیے‘ گھوڑا کاٹ بھی سکتا ہے۔ ہٹایا تو بہت دیر روتا رہا! جہاں گھوڑوں کو نہلایا جاتا ہے وہ بھی اس کا پسندیدہ مقام ہے۔ پائپوں سے جب گھوڑوں پر پانی ڈالا جاتا ہے تو اتنے غور سے دیکھتا ہے جیسے گھوڑوں کو نہلانے کی تربیت لے رہا ہو!
ڈائنو سار‘ گھوڑوں کے بعد اس کا دوسرا جنون ہیں۔ بازار میں کھلونوں کی دکانوں پر جس کثیر مقدار میں ڈائنو سار پڑے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شوق بچوں میں آج کل عام ہے۔ میرے اپنے بچے جب چھوٹے تھے تو اسلام آباد بلیو ایریا میں واقع کھلونوں کی ایک خاص دکان تھی جس میں ہم میاں بیوی جایا کرتے تھے۔ ان صاحب سے جیسے دوستی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔ آج سالہا سال بعد یہ سطور لکھتے وقت وہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جو ہمارا دوست تھا وہ اب دنیا میں نہیں رہا۔ اس کے بیٹے سے تعزیت کی اور وجہ پوچھی کہ ڈائنو سار کیوں بچوں پر چھائے ہوئے ہیں؟ اس خوش اخلاق نوجوان نے دو وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ بچوں کی فلموں میں ڈائنو سار بہت دکھائی دیتے ہیں جیسے جُراسک پارک والی فلم تھی۔ دوسرے اسلام آباد میں ڈائنو سار پارک بھی موجود ہے۔ خیر انٹرنیٹ پر جائیں تو بیسیوں وجوہ ملتی ہیں۔ رستم کا اوڑھنا بچھونا ڈائنو سار ہیں۔ دو ایک ہاتھ میں‘ دو دوسرے ہاتھ میں ہر وقت پکڑے رہتا ہے۔ کبھی کبھی ڈر لگتا ہے کہ اس مسلسل عمل سے اس کے ہاتھ بڑے ہی نہ ہو جائیں۔ دو دن پہلے فرش پر لیٹا رو رہا تھا اور روئے جا رہا تھا۔ پوچھا: کیا بات ہے‘ تو کہنے لگا: جمیل گم ہو گیا ہے۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ جمیل بھائی کون ہیں اور گم کیسے ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا کہ سبز رنگ کے ڈائنو سار کا نام جمیل ہے۔ اور یہ جمیل کم بخت صبح سے غائب ہے۔ ڈُھنڈیا پڑ گئی۔ رستم کی نانو کے پلنگ کے نیچے چھپا بیٹھا تھا۔ رستم نے اسے سینے سے لگا لیا۔ میں نے پیشکش کی کہ اس نے آپ کو تنگ کیا ہے اسے ذرا سزا دیتے ہیں‘ کہنے لگا: نہیں‘ اسے مارنا نہیں ہے۔
اس کے ماں باپ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سکرین کے اوقات کو کنٹرول کرنا ہے۔ یقینا تمام عقلمند والدین اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی مہینے ہوئے ایک بار مجھ سے ضد کر رہا تھا کہ آئی پیڈ پر ڈائنو سار والی یوٹیوب وڈیو لگا دوں۔ میں نے کہا: پہلے اپنی اماں یا ابا سے پوچھو۔ اماں نے صاف انکار کر دیا کہ اس دن کا سکرین کا کوٹہ ختم کر چکا ہے۔ میں نے سفارش کی تو اس کی ماں نے کہا: ٹھیک ہے مگر صرف چھ منٹ دیکھے گا۔ اس بات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں مگر چھ منٹ کی رعایت اس کے ذہن پر چپک کر رہ گئی ہے۔ میں دیر سے اٹھتا ہوں۔ وہ سحر خیز ہے۔ میرے پلنگ پر آجاتا ہے۔ پہلے میرے اوپر چھلانگیں لگاتا ہے۔ پھر مجھے پیار کرتا ہے۔ اپنے رخسار میرے چہرے سے مس کرتا ہے۔ ایسے میں مجھے والد گرامی مرحوم یاد آجاتے ہیں‘ صبح صبح مجھے جگاتے تھے تو اپنے رخسار میرے چہرے کے ساتھ لگاتے تھے جو وضو کی وجہ سے ٹھنڈے ہوتے تھے۔ یہ ٹھنڈک میرے جسم اور میری جان کے اندر اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں اور وریدوں میں دوڑتے لہو کے اندر اُتر جاتی تھی۔ رستم بھی اسی طرح اپنا چہرا میرے چہرے کے ساتھ لگاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے باپ دادا کی روحیں ہمارے بچوں میں آ جاتی ہیں۔ دادی جان مجھے دو بری عادتوں سے منع کرتی تھیں۔ کان میں دیا سلائی مارنے سے اور ہونٹ چھیلنے سے! جیسے ہی ان کا انتقال ہوا‘ یہ فرائض میری چھوٹی بیٹی نے سنبھال لیے۔ نہ کان میں تیلا پھیرنے سے لطف اندوز ہونے دیتی ہے نہ ہونٹ نوچنے دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے دادی جان کی روح اس میں آ گئی ہے۔ رستم میرے چہرے پر اپنا چہرہ رکھ دیتا ہے۔ جیسے ہی میری آنکھ کھلتی ہے کہتا ہے ''صرف چھ منٹ‘ پھر بند کر دوں گا‘‘۔ اس کی ماں سے چوری چوری اسے ڈائنو سار والے کلپ لگا دیتا ہوں مگر پانچ دس منٹ بعد بند کرا دیتا ہوں!!
ڈائنو سار سے یاد آیا کہ اسلام آباد کے پولو کلب میں کچھ ہستیاں سیر کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک سابق قاضی القضات دکھائی دیتے ہیں۔ سیر کرتے وقت ان کے جسمِ مبارک کا سارا جھکاؤ بائیں طرف ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے بائیں طرف صاحبزادہ ہو۔ ورنہ جھکاؤ کے بغیر ڈاکٹری پڑھ کر ایف آئی اے میں کیسے جاتا؟ اور پراپرٹی ٹائیکون ... خیر رہنے دیجیے اس بات کو۔ ایک سابق سینیٹ سربراہ بھی نظر آتے ہیں۔ اقبال کا مصرع یاد آجاتا ہے۔''غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں!‘‘۔ ماشا اللہ بہت لائق اور دانشور! اپنے آپ کو وہ مراعات دے گئے جن کی پوری کرۂ ارض میں مثال نہیں ملتی!! کون کہتا ہے کہ ڈائنو سار زمین سے ناپید ہو چکے ہیں؟؟؟
No comments:
Post a Comment