آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ماؤتھ پیس بی جے پی کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ یہ جنگ‘ آخری جنگ نہیں!
جو پاکستانی دانشور بھارتی جارحیت کی مذمت کیے بغیر امن کی اور خطے کی بات کر رہے ہیں‘ ان کے خلوص پر شبہ نہیں مگر یوں لگتا ہے انہوں نے آر ایس ایس کا منشور نہیں پڑھا۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا چاہتے ہیں؟ امن کا نعرہ وہاں جچتا ہے جہاں دونوں فریق امن کی اہمیت کو سمجھیں! جہاں ایک فریق دوسرے فریق کے وجود ہی کو نہیں تسلیم کرتا اور اسے مٹانے کے درپے ہے‘ وہاں امن کی تلقین کرنا غیر منطقی ہے۔ جو تنظیم گاندھی جی کوقتل کروا دے اور قاتل کو آج بھی ہیرو قرار دے‘ کیا وہ پاکستان کو امن کیساتھ رہنے دے گی؟ یہ جنگ آخری جنگ نہیں! پاکستان کو اپنی بقا کیلئے ہمیشہ تیار اور چو کنا رہنا پڑے گا۔ پاکستان کو ہمیشہ ایک مضبوط فوج رکھنا ہو گی۔ اسے ہمیشہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑے گا۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو بھارت کی ''فرمانبردار‘‘ ریاست کبھی نہیں بنا۔ پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے واحد دیوار ہے۔ خدا نخواستہ‘ میرے منہ میں خاک‘ یہ دیوار نہ ہو تو پورا شرقِ اوسط بھارت کے سامنے سر جھکا دے!! پاکستان حملہ کرنے میں پہل نہیں کرے گا مگر دندان شکن جواب دینے کیلئے اسے ہر رات جاگنا ہو گا اور ہر دن پا بہ رکاب رہنا ہو گا۔
اس میں کیا شک ہے کہ پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے۔ دونوں ملکوں کے سائز دیکھیے۔ کوئی نسبت تناسب نہیں! رقبے کے اعتبار سے نہ آبادی کے لحاظ سے! مگر پاکستان بھارت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ بھارت خوف زدہ ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے بھارت پاکستان سے خوف زدہ ہے۔ اس کی وجوہ جاننا اور سمجھنا چنداں مشکل نہیں! اس خوف کی جڑیں قیام پاکستان سے پہلے کی ہیں! مسلمانوں نے ایک قلیل تعداد کے ساتھ برصغیر فتح کیا اور قلیل تعداد کے ساتھ ہی طویل عرصہ حکومت کی۔ ہم آج بھی تعداد میں کم ہیں اور کل بھی کم تھے۔ ترائن سے لے کر سومنات تک اور ہیمو بقال سے لے کر سداشو راؤ بھاؤ تک‘ ہر موقع پر مسلمان تعداد میں کم تھے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور یہ کم تعداد ہندوؤں کیلئے ہمیشہ مصیبت بنی رہی۔ آج ایک چھوٹے سے پاکستان نے بھارت کو خائف کر رکھا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پَر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
مسلسل زہر اُگلنے والے جنرل بخشی کو سب سے زیادہ درد اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک یہاں حکومت کی۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آٹھ صدیاں کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ مسلمان حکمران چاہتے تو اس طویل عرصۂ حکمرانی کے دوران پورے برصغیر کو مسلمان کر سکتے تھے۔ وہ چاہتے تو مقامی مذاہب کا نشان تک مٹا سکتے تھے‘ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جو مقامی لوگ مسلمان ہوئے وہ یا صوفیا کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے یا ذات پات کی اذیتناک پابندیوں سے تنگ آکر۔ معروف غیر مسلم بھارتی مؤرخ ابراہام ایرالی نے اپنی متعدد تصانیف میں لکھا ہے کہ ہندوؤں کی کم تر ذاتوں کے لوگ جب مسلمانوں کو دیکھتے کہ سب مسلمان ایک جیسے ہیں‘ غلام شہزادیوں سے شادیاں بھی کرتے ہیں‘ تخت پر بیٹھ کر حکمرانی بھی کرتے ہیں اور کھانا بھی ساتھ مل کر کھاتے ہیں تو اسلام قبول کر لیتے۔ ہندو دھرم میں اگر شودر کے کان میں برہمن کی آواز چلی جائے تو شودر کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنے کا حکم ہے۔ تمام مسلمان حکمرانوں نے ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے دیے۔ کاروبارِ حکومت میں شامل کیا۔ مسلمان ہو کر بھی ہندو خواتین سے شادیاں کیں۔ ان خواتین نے شاہی محلات کے اندر مندر بنوائے۔ مسلمان حکمرانوں نے مندروں کی نگہداشت اور جملہ اخراجات کیلئے بھاری رقوم دیں اور جائدادیں وقف کیں۔ بھارتی ہندوؤں کو اقتدار ملے ابھی پون صدی ہوئی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ گنجے کو ناخن ملنے والی بات ہے۔ مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔کیا آٹھ سو سالہ حکمرانی کے دوران کسی ایک ہندو سے بھی شہریت کا ثبوت مانگا گیا؟ مسلم دورِ اقتدار میں ہندوؤں کو بڑے بڑے مناصب پر فائز کیا گیا۔ فوج سے لے کر سول سروس تک‘ بندوبستِ اراضی سے لے کر ٹیکس جمع کرنے تک‘ کسی شعبے میں بھی مقامی آبادی کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور ملازمتوں میں کتنے نظر آرہے ہیں؟ شہروں کے نام تبدیل کر کے مسلم کلچر کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ مساجد کو گرایا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کو آزادی ہے مگر مسلمان مسجد سے باہر نماز نہیں ادا کر سکتے۔ مسلمان آبادیوں کو پریشان کرنے کیلئے قسم قسم کے بہانے تراشے جاتے ہیں!
پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر بھارت کا مائنڈ سیٹ اگر یہ ہے کہ وہ بھیڑیا ہے اور ہم بھیڑیں‘ تو امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ موجودہ سیز فائر ایک عارضی انتظام ہے۔ پاکستان ایئر فورس کی برتری دیکھ کر امریکہ بھارت کی مدد کو پہنچا اور سیز فائر کرائی۔ ایک بچہ بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اب امریکہ اور اسرائیل‘ دونوں مسلم دشمن ممالک‘ بھر پور کوشش کریں گے کہ چینی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بھارت کی جو سبکی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ امن کی بات وہاں کی جاتی ہے جہاں امن کا امکان ہو۔ جس طرح بھارت ٹی ٹی پی کو اور بی ایل اے کو اسلحہ اور فنڈز دے رہا ہے‘ کیا قیامِ امن کیلئے دے رہا ہے؟ کیا کلبھوشن امن کا درس دینے آیا تھا؟ بیٹھے بٹھائے سندھ طاس معاہدے پر بھارت نے جو شب خون مارا ہے‘ کیا امن کی تلاش میں مارا ہے؟ پاکستان امن کا دشمن نہیں مگر امن اور خود کُشی میں فرق ہے اور دانشوروں کو یہ فرق نظر آنا چاہیے!راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ بھارتی حکومت نے پاکستان اور چین کو باہم متحد کرکے بھارت کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی پالیسیوں کا ایک اہم حصہ پاکستان اور چین میں دوریاں پیدا کرنا ہے۔ یہ جو پاکستان میں چینیوں پر حملے کیے جاتے ہیں‘ یہ یقینا امریکہ اور بھارت مل کر پلان کرتے ہیں اور پھر طالبان کے ذریعے انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اس جنگ میں طالبان نے پاکستان کی کوئی اخلاقی حمایت نہیں کی۔ ہاں مُلا عبد السلام ضعیف کا ایک زہر آلود بیان ضرور وائرل ہو رہا ہے کہ یہ جنگ ہندوؤں اور پنجابیوں (پاکستانیوں) کے درمیان ہے۔ لگتا ہے کہ مُلا صاحب کا علم بھی ضعیف ہے۔ ارے بھائی! پنجابی تو بھارتی فوج میں بھی ہیں! یہ جنگ ہندوؤں اور پنجابیوں کے درمیان نہیں تھی‘ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تھی۔ ٹھیک ہے مُلا صاحب کے ساتھ جو کچھ مشرف دور میں ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر اونٹ اور انسان میں فرق ہونا چاہیے۔ کینہ اس قدر بھی ٹھیک نہیں کہ پاکستان کے تمام احسانات بھلا کر جنگ کو ہندوؤں اور پنجابیوں کی جنگ قرار دے دو!! ناصر کاظمی نے ٹھیک کہا تھا:
میں نے تیرا ساتھ دیا؍ میرے منہ پر کالک مَل
مانا کہ بھارت بھیڑیا ہے مگر پاکستان بھیڑ کا وہ بچہ نہیں جو پانی کے بہاؤ کے رُخ‘ نشیب میں کھڑا تھا اور بھیڑیا کہہ رہا تھا کہ پانی کو گدلا کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کا واویلا مچاتے وقت بھارت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو آٹھ سو سال حکومت کر سکتے ہیں وہ تمہاری جارحیت کا منہ توڑ جواب بھی دے سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment