Thursday, June 30, 2022
بازی بازی‘ با ریش بابا ہم بازی!
Tuesday, June 28, 2022
کیا عمران خان کا دوسرا عہدِ حکومت پہلے سے مختلف ہو گا ؟؟
نوجوان پڑھا لکھا تھا۔ سنجیدہ‘ متین اور با ادب !�اسی نے وہ موضوع چھیڑا جس سے میں ہر ممکن گریز کرتا ہوں۔ یعنی سیاست! وہ جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا �مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں�فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں�تو ‘اس فارمولے کا اطلاق اب سیاسی بحث پر بھی ہوتا ہے۔ دونوں فریق پانی میں خوب مدھانی چلاتے ہیں۔ اگر نوجوان باادب اور متین نہ ہوتا تو میں طرح دے جاتا مگر اس کے سوال کا جواب دیا۔ یوں بات لمبی ہو گئی۔ ایک مقام پر میں نے مشورہ دیا کہ عمران خان صاحب کو فرح صاحبہ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے اور اس خاتون کو ملک میں واپس آکر قانون کا سامنا کرناچاہیے۔ اس کا جواب اس نوجوان نے یہ دیا کہ آپ مقصود چپڑاسی اور ایان علی کی بات کیوں نہیں کرتے !�یہ ہے المیہ تحریک انصاف کا! وہ فوراً عمران خان کو خود ہی ان سیاست دانوں کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں جنہیں عمران خان رات دن صبح شام اٹھتے بیٹھتے چور کہتے ہیں ! بجائے اس کے کہ وہ فرح صاحبہ والی بات کا جواب دیں ‘ ایان علی اور مقصودچپڑاسی کو آگے کردیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس فرح صاحبہ ہیں تو کیا حرج ہے‘ آخر ان کے ہاں مقصود چپڑاسی اور ایان علی بھی تو ہیں! گویا اس حمام میں سب ننگے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ عمران خان کے ناقدوں کی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان اور دوسرے سیاست دانوں میں کوئی خاص فرق نہیں!�اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے ضمن میں عمران خان صاحب کو اپنی پوزیشن واضح کر کے اپنے حامیوں کی مشکلات آسان کرنی چاہئیں! ان میں سر فہرست طیبہ فاروق کے الزامات ہیں جو اس نے لگائے ہیں کہ داد رسی کے بجائے ‘ وڈیو کو '' دیگر ‘‘ مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ کچھ اور سوالات بھی جواب مانگتے ہیں۔ دواؤں کے سکینڈل میں جس وزیر کو ہٹایا گیا ‘ اسے سزا کیا دی گئی؟ چینی کے معاملے میں وفاقی کابینہ اور پنجاب حکومت میں بیٹھے افراد کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوئی؟ ہیلی کاپٹر کے‘ دن میں دو بار ‘ چار سالہ استعمال کے اخراجات کا کیا ہو گا ؟ القادر یونیورسٹی کی زمین کا معاوضہ دیا گیا یا یہ مفت ملی؟ کل ہی ایک چینی موجودہ وزیر اعظم کو بتا رہا تھا کہ سی پیک کی ایک شاخ کی رپورٹ تین سال سے حکومت کے پاس پڑی ہوئی ہے جبکہ فنڈز موجود ہیں! یہ مجرمانہ تاخیر کیوں برتی گئی؟�حیران کن امر یہ ہے کہ عمران خان صاحب کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ الزامات لگ رہے ہیں۔ ان کا فین کلب تو خیر اتنی ذہنی استعداد ہی نہیں رکھتا کہ ان سے سوال کرے۔ شخصیت پرستی کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہیرو سے سوال نہیں کیا جاتا۔ صرف پرستش کی جاتی ہے اور تائید۔ مگر عمران خان کے کچھ حمایتی ایسے بھی ہیں جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ‘ محض فین نہیں۔ ایسے حمایتی دن بدن زیادہ الجھن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ الزامات ٹھوس ہیں اور جواب ندارد!�کاش عمران خان کوئی ایک آدھ کام ہی ایسا کر جاتے جو ہماری تاریخ میں بڑا لینڈ مارک ہو تا۔ چار سال میں انہوں نے مخالفوں سے انتقام لینے اور ان کی کردار کْشی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ مثلاٍ کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور میں‘ یا ان میں سے کسی ایک شہر ہی میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کا منصوبہ شروع کرا دیتے! بلوچستان سے سرداری نظام ختم کرا جاتے! جس طرح مہاتیر محمد نے جاپانی صنعت کاروں سے ملا ئیشیا میں کارخانے لگوائے تھے‘ اسی طرح عمران خان کوریا اور دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کو پاکستان لے آتے۔ قومی ایئر لائن اور سٹیل مل کو نجی شعبے کے حوالے کر کے قومی خزانے کے سر سے بہت بڑا بوجھ ہٹا دیتے۔ کوئی ایک کارنامہ تو سرانجام دے جاتے! اُلٹا یہ ستم ڈھایا کہ جو منصوبے آغاز ہو چکے تھے ‘ انہیں ہی روک دیا۔ جیسے اسلام آباد کی ایکسپریس وے کی توسیع اور ایئر پورٹ کی میٹرو بس!! شاید ان کا اتنا و ژن ہی نہیں تھا کہ اس حوالے سے کچھ سوچتے۔ منتقم مزاجی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مثبت اور تعمیری پہلؤوں کی طرف آنے ہی نہیں دیتی! تجاوزات کے نام پر جو عمارتیں ان کے دور میں گرائی گئیں وہ بھی ظلم ہی تھا۔ جن غریبوں نے رقم دے کر سر چھپانے کے لیے پلاٹ لیے پھر ان پر گھر بنائے‘ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ جگہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ بیچنے والے نکل گئے اور یہ غریب مارے گئے۔ اپنے تین سو کنال کے گھر کو عمران خان چند لاکھ روپے جرمانہ دے کر بچا گئے۔ دوسری عمارتیں جو ہو بہو اسی نوعیت کی تھیں‘ منہدم کر دی گئیں !�پبلک ورکس یعنی تعمیراتی منصوبے عمران خان کی حکومت کی ترجیحات میں نہیں تھے۔ مسلسل تقریروں اور مخالفین کی سرکوبی کے بعد ان کے پاس وقت ہی کہاں بچتا تھا۔ یہ اور بات کہ عوامی فلاح کے کام وہ کرنا چاہتے تھے۔ صحت کارڈ ایک مثبت قدم تھا جو انہوں نے اٹھایا۔ لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچا۔ مگر یہ کام ملک گیر پیمانے پر نہ ہو سکا۔ جن صوبوں میں ان کی حکومت نہیں تھی ‘ ان کے ساتھ کسی قسم کے روابط رکھنے کے وہ قائل نہ تھے۔ کراچی جاتے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے نہ اسے ان کے پروگرام کا علم ہی ہوتا۔ یوں صحت کارڈ کا کام عملاً بہت محدود پیمانے پر ہو سکا۔ یکساں نظام تعلیم بہت اچھا منصوبہ تھا۔ اس کے لیے ہارورڈ کی تربیت یافتہ سکالر ڈاکٹر مریم چغتائی نے بہت محنت کی۔ وہ اس منصوبے کے لیے موزوں رہنما تھیں۔ مگر اس منصوبے کا آغاز تاخیر سے ہوا۔ پہلے دن سے اس پر کام شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ ان کی حکومت کے خاتمے پر یہ کام تکمیل کے مراحل سے بہت دور تھا۔ بد قسمتی سے حکومتوں کی تبدیلی پر ‘ فلاحی منصوبوں کے تسلسل کی کوئی روایت ہمارے ہاں موجود ہی نہیں۔ شہباز شریف صاحب نے پنجاب میں پرویز الٰہی کے آغاز کردہ منصوبے مکمل نہ کیے۔ خود عمران خان نے اپنی پیشرو حکومت کے شروع کیے ہوئے منصوبے جہاں تھے اور جیسے تھے‘ وہیں روک دیے۔ اس روایت کی روشنی میں ان کے شروع کیے ہوئے منصوبے کون مکمل کرے گا؟ خاص طور پر جب زبان کا کوئی ایسا زخم نہیں جو انہوں نے دوسروں کو نہ لگایا ہو اور ایک ایک کو قید کر کے بھی دکھایا ہو۔�سول سروس کی اصلاحات کے لیے عمران خان نے عشرت حسین صاحب کو چُنا جوپرویز مشرف کے زمانے میں آزمائے جا چکے تھے اور ناکام رہے تھے۔ تین سال وہ وزارت کے مزے لیتے رہے۔ بالآخر ہٹا دیے گئے۔ سول سروس اصلاحات کا کتنا کام ہوا؟ عشرت حسین صاحب نے کیا تجویز کیا؟ کچھ معلوم نہیں!�جو منظر نامہ اس وقت ہے اس کے لحاظ سے عمران خان ایک جنگ جویانہ راہ پر بگٹٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ ان کے ارد گرد جو افراد حصار باندھے ہیں ان میں سوچ کی گہرائی ہے نہ مستقبل بینی۔ پارٹی کی تنظیم پر کوئی توجہ نہیں۔ پہلے کی طرح ہوم ورک اب بھی نہیں کیا جا رہا۔ جو عرصہ حکومت وہ بھگتا چکے اس کا تجزیہ کرنے کا تصور ہی ان کے ہاں مفقود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو کیا ان کا دوسرا عہدِ حکومت ‘ پہلے سے مختلف ہو گا ؟ کیا بہتر ہو گا ؟