Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, June 30, 2022

بازی بازی‘ با ریش بابا ہم بازی!


اُس عقلمند شخص کا قصہ کم و بیش سبھی نے سنا ہوا ہے جو درخت کی ٹہنی پر بیٹھا‘ اسی ٹہنی کو کاٹ رہا تھا۔
یکی بر سرِ شاخ و بن می برید
اس کا متبادل محاورہ ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ جس تھالی میں کھانا‘ اسی میں چھید کرنا! سیاسی اختلاف کی بنیاد پر عساکر کے پورے ادارے کو جو اپنی بدزبانی کا ہدف بنا رہے ہیں ان پر افسوس اور رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اول تو کسی بھی پاکستانی کو زیب نہیں دیتا کہ افواجِ پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرے۔ اور پھر وہ افراد اور کنبے جو اسی ادارے سے پنشنیں وصول کر رہے ہیں‘ انہیں تو بالکل ایسا نہیں کرنا چاہیے! کیا ہے جو اس ادارے نے آپ کو نہیں دیا؟ عزت‘ نام‘ ایک آرام دہ زندگی! پھر آپ کیوں اس کے درپے ہو رہے ہیں؟ پہلے یہ شکوہ تھا کہ ادارے اپنی حدود و قیود سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اب جب حالات نے کروٹ بدلی ہے اور ادارے عوام کی خواہش کے مطابق‘ اپنی آئینی حدود کے اندر رہنے کا عزم کر چکے ہیں تو آپ دہائی دینے لگ پڑے ہیں!
آرام دہ محلات میں رہ کر تنقید کرنا سہل ہے۔ زبانی جمع خرچ میں جاتا ہی کیا ہے! جان کو ہتھیلی پر رکھنا اور مورچوں میں زندگی گزارنا دوسری بات ہے! برفانی چوٹیوں پر‘ جہاں جسم کا جو حصہ بھی برہنہ ہو‘ فراسٹ بائٹ سے جھڑ جاتا ہے۔ کئی موسم گزارنا آسان نہیں۔ شمالی علاقوں کے پہاڑ جہاں آکسیجن کم ہے‘ سکردو سے کچھ ہی دور شروع ہو جاتے ہیں اور انہی مقامات پر ہمارے عساکر قیام پذیر ہیں۔ سورج کی شعائیں برف پر پڑ کر منعکس ہوں تو بینائی پر ضرب لگاتی ہیں۔ مہینوں تازہ راشن نہیں ملتا۔ بند ڈبوں والی خوراک پر گزر کرنا پڑتا ہے۔ بیوی بچوں‘ ماں باپ کے ساتھ ان برفانی چوٹیوں سے مراسلت اور رابطہ‘ آسان نہیں اور بات چیت تو ناممکن ہے۔ پھر مغربی سرحد کے سفاک‘ بنجر اور سیہ رنگ پہاڑ! جہاں قدم قدم پر دھوکا اور فریب ہے۔ افغان بارڈر اس ملک کے لیے ایک خدائی عذاب سے کم نہیں! دنیا کا دشوار ترین بارڈر! دنیا کے مشکل ترین لوگ! کتنے ہی جسدِ خاکی ہمارے عساکر کے وہاں سے آئے! کتنے بچے یتیم ہوئے۔ کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں! کتنے بوڑھے ماں باپ جیتے جی مر گئے۔ ان قربان گہوں میں صرف جوانوں کا نہیں‘ افسروں کا بھی خون بہا! سب کے جسدِ خاکی آئے۔ سب نے اپنے بازو اور ٹانگیں کھوئیں! چونڈہ کا میدان کون بھول سکتا ہے! مجید امجد کی نظم ''سپاہی‘‘ یاد آ گئی۔
تم اس وقت کیا تھے
تمہارے محلوں‘ تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا
آسائشیں بھی وسیلے بھی
اس کبریائی کی تمکنت بھی
سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا زندگی کا ہر اک آسرا بھی
کڑے بام و در بھی
چمن بھی ثمر بھی
مگر تم خود اس وقت کیا تھے
تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی
جب اڑتی ہلاکت کے شہپر تمہارے سروں پر سے گزرے
اگر اس مقدس زمیں پر
مرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
65ء کی جنگ چھڑی تو میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے گاؤں میں کفش سازوں کا بہت بڑا خاندان تھا۔ ان کے سب مرد‘ ایک کمرے میں بیٹھ کر کفش سازی کرتے۔ والد صاحب اور ان کے بھائی جب اپنی اپنی ملازمتوں سے چھٹیاں گزارنے گاؤں آتے تو اُس کمرے کے سامنے سے گزرنا ہوتا۔ ہمیشہ کہتے کہ ان کفش سازوں پر رشک آتا ہے کہ اپنے گاؤں ہی میں ہیں اور سب بھائی رات دن اکٹھے ہیں! مگر تعلیم حاصل کر کے گاؤں میں کوئی نہیں بیٹھتا۔ ان کفش سازوں کے خاندان کا ایک نوجوان‘ اسلم‘ فوج میں چھاتہ بردار تھا۔ جنگ میں وہ دشمن کے ملک میں اترا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ ایک نہیں‘ کتنے ہی اسلم اس مٹی پر قربان ہوئے۔ اور پھر یہ جو بیلٹ ہے اٹک‘ فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ اور چکوال کی‘ اسے تو انگریز سرکار نے انڈسٹری اور آبپاشی دونوں سے محروم رکھا تاکہ جنگوں کے لیے افرادی قوت یہاں سے ملتی رہے۔ ورنہ اگر جہلم‘ راوی‘ ستلج اور بیاس سے نہریں نکال کر نہروں کا جال بچھایا جا سکتا تھا تو سندھ سے نہریں نکال کر اس نام نہاد مارشل ایریا کو بھی سیراب کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح صنعت سے بھی اس بیلٹ کو محروم رکھا گیا۔ وہ تو بھلا ہو دفاعی پیداوار کے محکموں کا کہ واہ‘ سنجوال‘ کامرہ اور حویلیاں میں سامانِ حرب بنانے کے کارخانے لگے اور مقامی لوگوں کو ملازمتیں ملیں۔ ان فیکٹریوں میں دنیا کا بہترین اسلحہ تیار ہوتا ہے اور اس کا سہرا مقامی آبادیوں کے سر بھی پڑتا ہے!
ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے اگر مارشل لا لگائے تو ان گناہوں کا قلاوہ پورے ادارے کے گلے میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے! یہ ایک طویل بحث ہے اور کالم کا دامن تنگ ہے۔ سیاست دانوں کی بھاری اکثریت مارشل لاؤں کے راستے میں پلکیں نہ بچھاتی تو یہ مارشل لا دو ماہ بھی نہ چل سکتے۔ بہر طور جو کچھ بھی اسباب و علل ہوں‘ افراد کے اعمال کی ذمہ داری اداروں کے سر نہیں تھوپی جا سکتی! یہ بات کوئی نہ بھولے کہ یہ پاکستانی عساکر ہیں جو بھارت کی توسیع پسندی کے آگے بند باندھے ہوئے ہیں۔ ورنہ بھارت شرقِ اوسط تک بہت سی سرزمینیں ہڑپ کر چکا ہوتا۔ اس پورے خطے کو پاکستانی عساکر کا احسان مند ہونا چاہیے۔ آج نیپال‘ سکم‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش بھارت کو جھک کر سلام کرتے ہیں اور ہر معاملے میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ذیلی ریاستیں بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتیں! پاکستان اگر بھارت کے اعصاب پر سوار ہے‘ اور بھارت کی خارجہ اور دیگر پالیسیاں اگر پاکستان کے گرد گھومتی ہیں تو یہ صورت حال پاکستانی عساکر کی وجہ سے ہے۔ بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد جو لب و لہجہ اختیار کیا تھا‘ اس سے ہماری اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے بھی دھماکے کیے اور بھارت نے دھمکیاں دینا بند کیں۔
اس لیے گزارش ہے کہ کسی کو ہیرو سمجھتے ہیں تو بے شک سمجھیے۔ انسان کو دیوتا بناتے ہیں تو شوق سے بنائیے۔ کسی کو تنقید سے اور جائزے سے ماورا سمجھتے ہیں تو اس پرستش کو جاری رکھیے۔ بے شک بت بنا کر گھروں میں رکھ لیجیے۔ مگر بازی بازی با ریش بابا ہم بازی والی بات نہ کیجیے۔ ہر شوق کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہیرو ورشپ کی بھی حد ہونی چاہیے۔ اگر اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سوال اٹھا سکیں‘ کار کردگی کا حساب لے سکیں‘ بد عنوانی‘ دوست نوازی اور منتقم مزاجی پر اعتراض کر سکیں تو کوئی بات نہیں! دنیا میں فین کلبوں کا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے۔ رومان اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان کا حقیقت سے تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ سو‘ جو چاہے‘ کیجیے‘ مگر اداروں کو اپنی ہیرو ورشپ میں نہ گھسیٹئے!

Tuesday, June 28, 2022

کیا عمران خان کا دوسرا عہدِ حکومت پہلے سے مختلف ہو گا ؟؟



نوجوان پڑھا لکھا تھا۔ سنجیدہ‘ متین اور با ادب !�اسی نے وہ موضوع چھیڑا جس سے میں ہر ممکن گریز کرتا ہوں۔ یعنی سیاست! وہ جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا �مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں�فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں�تو ‘اس فارمولے کا اطلاق اب سیاسی بحث پر بھی ہوتا ہے۔ دونوں فریق پانی میں خوب مدھانی چلاتے ہیں۔ اگر نوجوان باادب اور متین نہ ہوتا تو میں طرح دے جاتا مگر اس کے سوال کا جواب دیا۔ یوں بات لمبی ہو گئی۔ ایک مقام پر میں نے مشورہ دیا کہ عمران خان صاحب کو فرح صاحبہ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے اور اس خاتون کو ملک میں واپس آکر قانون کا سامنا کرناچاہیے۔ اس کا جواب اس نوجوان نے یہ دیا کہ آپ مقصود چپڑاسی اور ایان علی کی بات کیوں نہیں کرتے !�یہ ہے المیہ تحریک انصاف کا! وہ فوراً عمران خان کو خود ہی ان سیاست دانوں کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں جنہیں عمران خان رات دن صبح شام اٹھتے بیٹھتے چور کہتے ہیں ! بجائے اس کے کہ وہ فرح صاحبہ والی بات کا جواب دیں ‘ ایان علی اور مقصودچپڑاسی کو آگے کردیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس فرح صاحبہ ہیں تو کیا حرج ہے‘ آخر ان کے ہاں مقصود چپڑاسی اور ایان علی بھی تو ہیں! گویا اس حمام میں سب ننگے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ عمران خان کے ناقدوں کی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان اور دوسرے سیاست دانوں میں کوئی خاص فرق نہیں!�اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے ضمن میں عمران خان صاحب کو اپنی پوزیشن واضح کر کے اپنے حامیوں کی مشکلات آسان کرنی چاہئیں! ان میں سر فہرست طیبہ فاروق کے الزامات ہیں جو اس نے لگائے ہیں کہ داد رسی کے بجائے ‘ وڈیو کو '' دیگر ‘‘ مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ کچھ اور سوالات بھی جواب مانگتے ہیں۔ دواؤں کے سکینڈل میں جس وزیر کو ہٹایا گیا ‘ اسے سزا کیا دی گئی؟ چینی کے معاملے میں وفاقی کابینہ اور پنجاب حکومت میں بیٹھے افراد کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوئی؟ ہیلی کاپٹر کے‘ دن میں دو بار ‘ چار سالہ استعمال کے اخراجات کا کیا ہو گا ؟ القادر یونیورسٹی کی زمین کا معاوضہ دیا گیا یا یہ مفت ملی؟ کل ہی ایک چینی موجودہ وزیر اعظم کو بتا رہا تھا کہ سی پیک کی ایک شاخ کی رپورٹ تین سال سے حکومت کے پاس پڑی ہوئی ہے جبکہ فنڈز موجود ہیں! یہ مجرمانہ تاخیر کیوں برتی گئی؟�حیران کن امر یہ ہے کہ عمران خان صاحب کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ الزامات لگ رہے ہیں۔ ان کا فین کلب تو خیر اتنی ذہنی استعداد ہی نہیں رکھتا کہ ان سے سوال کرے۔ شخصیت پرستی کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہیرو سے سوال نہیں کیا جاتا۔ صرف پرستش کی جاتی ہے اور تائید۔ مگر عمران خان کے کچھ حمایتی ایسے بھی ہیں جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ‘ محض فین نہیں۔ ایسے حمایتی دن بدن زیادہ الجھن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ الزامات ٹھوس ہیں اور جواب ندارد!�کاش عمران خان کوئی ایک آدھ کام ہی ایسا کر جاتے جو ہماری تاریخ میں بڑا لینڈ مارک ہو تا۔ چار سال میں انہوں نے مخالفوں سے انتقام لینے اور ان کی کردار کْشی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ مثلاٍ کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور میں‘ یا ان میں سے کسی ایک شہر ہی میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کا منصوبہ شروع کرا دیتے! بلوچستان سے سرداری نظام ختم کرا جاتے! جس طرح مہاتیر محمد نے جاپانی صنعت کاروں سے ملا ئیشیا میں کارخانے لگوائے تھے‘ اسی طرح عمران خان کوریا اور دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کو پاکستان لے آتے۔ قومی ایئر لائن اور سٹیل مل کو نجی شعبے کے حوالے کر کے قومی خزانے کے سر سے بہت بڑا بوجھ ہٹا دیتے۔ کوئی ایک کارنامہ تو سرانجام دے جاتے! اُلٹا یہ ستم ڈھایا کہ جو منصوبے آغاز ہو چکے تھے ‘ انہیں ہی روک دیا۔ جیسے اسلام آباد کی ایکسپریس وے کی توسیع اور ایئر پورٹ کی میٹرو بس!! شاید ان کا اتنا و ژن ہی نہیں تھا کہ اس حوالے سے کچھ سوچتے۔ منتقم مزاجی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مثبت اور تعمیری پہلؤوں کی طرف آنے ہی نہیں دیتی! تجاوزات کے نام پر جو عمارتیں ان کے دور میں گرائی گئیں وہ بھی ظلم ہی تھا۔ جن غریبوں نے رقم دے کر سر چھپانے کے لیے پلاٹ لیے پھر ان پر گھر بنائے‘ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ جگہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ بیچنے والے نکل گئے اور یہ غریب مارے گئے۔ اپنے تین سو کنال کے گھر کو عمران خان چند لاکھ روپے جرمانہ دے کر بچا گئے۔ دوسری عمارتیں جو ہو بہو اسی نوعیت کی تھیں‘ منہدم کر دی گئیں !�پبلک ورکس یعنی تعمیراتی منصوبے عمران خان کی حکومت کی ترجیحات میں نہیں تھے۔ مسلسل تقریروں اور مخالفین کی سرکوبی کے بعد ان کے پاس وقت ہی کہاں بچتا تھا۔ یہ اور بات کہ عوامی فلاح کے کام وہ کرنا چاہتے تھے۔ صحت کارڈ ایک مثبت قدم تھا جو انہوں نے اٹھایا۔ لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچا۔ مگر یہ کام ملک گیر پیمانے پر نہ ہو سکا۔ جن صوبوں میں ان کی حکومت نہیں تھی ‘ ان کے ساتھ کسی قسم کے روابط رکھنے کے وہ قائل نہ تھے۔ کراچی جاتے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے نہ اسے ان کے پروگرام کا علم ہی ہوتا۔ یوں صحت کارڈ کا کام عملاً بہت محدود پیمانے پر ہو سکا۔ یکساں نظام تعلیم بہت اچھا منصوبہ تھا۔ اس کے لیے ہارورڈ کی تربیت یافتہ سکالر ڈاکٹر مریم چغتائی نے بہت محنت کی۔ وہ اس منصوبے کے لیے موزوں رہنما تھیں۔ مگر اس منصوبے کا آغاز تاخیر سے ہوا۔ پہلے دن سے اس پر کام شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ ان کی حکومت کے خاتمے پر یہ کام تکمیل کے مراحل سے بہت دور تھا۔ بد قسمتی سے حکومتوں کی تبدیلی پر ‘ فلاحی منصوبوں کے تسلسل کی کوئی روایت ہمارے ہاں موجود ہی نہیں۔ شہباز شریف صاحب نے پنجاب میں پرویز الٰہی کے آغاز کردہ منصوبے مکمل نہ کیے۔ خود عمران خان نے اپنی پیشرو حکومت کے شروع کیے ہوئے منصوبے جہاں تھے اور جیسے تھے‘ وہیں روک دیے۔ اس روایت کی روشنی میں ان کے شروع کیے ہوئے منصوبے کون مکمل کرے گا؟ خاص طور پر جب زبان کا کوئی ایسا زخم نہیں جو انہوں نے دوسروں کو نہ لگایا ہو اور ایک ایک کو قید کر کے بھی دکھایا ہو۔�سول سروس کی اصلاحات کے لیے عمران خان نے عشرت حسین صاحب کو چُنا جوپرویز مشرف کے زمانے میں آزمائے جا چکے تھے اور ناکام رہے تھے۔ تین سال وہ وزارت کے مزے لیتے رہے۔ بالآخر ہٹا دیے گئے۔ سول سروس اصلاحات کا کتنا کام ہوا؟ عشرت حسین صاحب نے کیا تجویز کیا؟ کچھ معلوم نہیں!�جو منظر نامہ اس وقت ہے اس کے لحاظ سے عمران خان ایک جنگ جویانہ راہ پر بگٹٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ ان کے ارد گرد جو افراد حصار باندھے ہیں ان میں سوچ کی گہرائی ہے نہ مستقبل بینی۔ پارٹی کی تنظیم پر کوئی توجہ نہیں۔ پہلے کی طرح ہوم ورک اب بھی نہیں کیا جا رہا۔ جو عرصہ حکومت وہ بھگتا چکے اس کا تجزیہ کرنے کا تصور ہی ان کے ہاں مفقود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو کیا ان کا دوسرا عہدِ حکومت ‘ پہلے سے مختلف ہو گا ؟ کیا بہتر ہو گا ؟

Monday, June 27, 2022

گروی قوم رکھی جارہی ہے‘ حکمران نہیں !!!


اس قوم کی قسمت بھی عجیب ہے۔جب بھی گرتی ہے پہلے سے زیادہ اونچے آسمان سے گرتی ہے اور پہلے گاسے زیادہ مشکل کھجور میں اٹکتی ہے۔
مانیکا اور گجر خاندانوں سے جان چھوٹی تو نئے خاندان اس بھوکی ننگی‘ قلاش‘ بے بس‘ بے کس قوم پر حکمرانی کرنے کے لیے آگئے۔ ایک وفاقی وزیر کے ملازموں اور گارڈز نے جو کچھ کیا ہے ‘ اس کی وڈیو تا دم تحریر لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔ایک وزیر کا کھانا لینے کے لیے ایک نہیں کئی گاڑیاں ریستوران کے باہر کھڑی ہیں۔ ان گاڑیوں نے راستہ بلاک کر رکھا ہے۔ دوسرے گاہکوں اور ان کی فیملیوں کے لیے راستہ بند ہے۔ چونکہ یہ ون وے ہے اس لیے ان گاہکوں اور فیملیوں کو ‘ ون وے کی خلاف ور زی کر کے ‘ گھوم کر‘ دوسری طرف سے آنا پڑ رہا ہے۔ ان گاڑیوں سے بندوق بردار گارڈ اتر کر‘ بندوقیں تانے‘ ریستوران کے سامنے مختلف جگہوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں وردیاں پہنے سرکاری سپاہی بھی ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ انہیں کچھ کہے۔ گاڑیاں بھی سرکاری ہیں۔ یہ سب بڑی گاڑیاں ہیں جیسے ڈبل کیبن! مبینہ طور پر آدھ گھنٹے سے ‘ یا جتنی دیر سے اندر کھانا تیار ہو رہا ہے‘ یہ گاڑیاں سٹارٹ ہیں یعنی انجن چل رہے ہیں۔ یہ سارا پروٹوکول‘ وزیر کا نہیں‘ بلکہ ان کے کھانے کا اور کھانا لانے کا ہے۔ یہ سب کچھ ہولناک ہے۔ مگر ہولناک ترین بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر گاڑیوں کے آگے یا پیچھے کوئی نمبر ہے نہ نمبر پلیٹ !
یہ ہیں ہمارے حکمران! پٹرول اور ڈیزل کی صورت حال بدترین ہو چکی ہے۔ بھک منگوں کی طرح ہم ساری دنیا کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں‘ لجا رہے ہیں اور ترلے کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے لے کر چین اور سعودی عرب تک ہماری عزتِ نفس رکوع کی حالت میں ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان قوم سے قربانی در قربانی در قربانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور قوم قربانی دے بھی رہی ہے۔ عوام آخری حد تک گاڑیاں اور موٹر سائیکل کم سے کم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر خود حکومت کا رویہ مطلق العنان بادشاہتوں سے بھی زیادہ بے خوف ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول سفاک بے رحمی سے استعمال کرنے کا! کس منہ سے حکومت عوام کے سامنے پٹرول مہنگا ہونے کا جواز دے سکتی ہے؟ لوگ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر حکومت کو جو ٹیکس دے رہے ہیں‘ یہ اس ٹیکس کے استعمال کی صرف ایک جھلک ہے۔یعنی صرف کھانا لانے کے لیے ایک کے بجائے کئی گاڑیاں جن کے انجن مبینہ طور پر مسلسل چل رہے ہیں ! کوئی ہے جو جواب دے ؟ کیا اس سے زیادہ بے رحمی اور بے دردی ہو سکتی ہے؟
اور قانون کہاں ہے ؟ بغیر نمبر کی گاڑیاں ! راستہ بلاک! خلقت بے بس! بندوقیں تنی ہوئیں! کیا اس ملک پر بادشاہت کا راج ہے ؟ یہ محافظ‘ یہ سپاہی‘ یہ بندوق بردار‘ اگر سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں تو ان کا بد ترین استعمال ہے۔اگر پرائیویٹ گارڈز ہیں تو کس نے انہیں یہ حق دیا ہے کہ پبلک مقام پر آکر بندوقیں تان کر کھڑے ہو جائیں؟ توپھر مان لیا جائے کہ یہ ملک نہیں جنگل ہے! یہ قوم نہیں‘ باجگذار رعایا ہے ! اگر ایک بڑے شہر میں دن دہاڑے یہ حال ہے تو جنوبی پنجاب میں‘ اور اندرون سندھ‘ اور بلوچستان میں اور دوسری جگہوں پر کیا ہو تا ہو گا اور کیا نہیں ہوتا ہو گا !
جناب احسن اقبال نے قوم سے اپیل کی ہے کہ چائے نوشی کم کی جائے۔ اس اپیل کا مذاق اڑایا گیا حالانکہ اس اپیل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اربوں روپے چائے کی درآمد پر صرف ہو رہے ہیں‘ وہ بھی زر مبادلہ کی صورت میں۔ ہر شخص پورے دن میں ایک کپ بھی چھوڑ دے تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔ مگر ہم جناب احسن اقبال کی توجہ خود حکومتی ارکان کے رویّے کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کابینہ کے ارکان بادشاہوں کی طرح رہیں گے تو عوام سے اس نوع کی اپیلیں کرنا ہر گز مناسب نہیں ! پہلے اپنے ارد گرد والوں کو قائل کیجیے۔
کیا پارلیمنٹ میں اتنی جان ہے کہ وہ پوچھے کہ کابینہ کے ارکان کے پاس کتنی کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں؟ ان کے محلات میں کتنی کتنی سرکاری گاڑیاں کھڑی ہیں؟ یہ گاڑیاں کتنے سی سی کی ہیں ؟ فی وزیر سرکاری پٹرول ہر ماہ کتنا اور کتنے کا دیا جا رہا ہے ؟کل کابینہ کا ماہانہ پٹرول کا خرچ کتنا ہے ؟ اور پٹرول کی مقدار کیا ہے ؟ مگر لکھ لیجیے کہ پارلیمنٹ نہیں پوچھے گی! کبھی نہیں پوچھے گی ! بلکہ ماضی کی طرح ‘ مستقبل میں بھی‘ جب بھی موقع آیا‘ اپنی مراعات میں اضافے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان باہم متحد ہو جائیں گے! بے سہارا عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے ‘ کراہتے‘ ہلکان ہوتے رہیں گے جبکہ حکمران گاڑیوں کے بیڑوں کے بیڑے استعمال کریں گے۔ سرکاری خرچ پر پٹرول جلتا رہے گا۔ سرکاری اہلکار ذاتی ملازموں کی طرح استعمال کیے جاتے رہیں گے! پبلک کے راستے بند ہوتے رہیں گے! بندوقیں تنی رہیں گی! کوئی کچھ نہیں کرے گا! کوئی پوچھ گچھ نہیں ! کوئی سوال جواب نہیں ! کوئی جواب طلبی نہیں اس قوم کا کوئی پرسانِ حال نہیں ! نصب العین صرف یہ ہے کہ حکومت بچی رہے۔ اتحادی خوش رہیں ! شاہ خرچیاں جاری رہیں۔ عوام کی جیبوں سے پیسہ‘ رگوں سے خون‘ جسموں سے پسینہ نکلتا رہے تا کہشاہ خرچیوں میں تعطل نہ آئے۔ پروٹوکول میں کمی نہ آئے! تزک و احتشام قائم رہے۔شکوہ و جلال سلامت رہے۔ رہے عوامتو ان کا کام ہی یہ ہے کہ ان کا راستہ بلاک ہو تو بھیڑ بکریوں کی طرح سہم جائیں! بندوقوں کا چمکتا لوہا دیکھیں تو ڈر جائیں!پروٹوکول کا طمطراق جگمگائے تو مرعوب ہوں! احتجاج کریں نہ اونچی آواز نکالیں!
افسوس صد افسوس! ہیہات! ہیہات! کوئی ایسی حکومت نہ آئی جس کے ارکان عوام کے ساتھ بازاروں میں گھر کا سودا سلف خریدتے! جس کے وزیر بسوں ‘ ٹیکسیوں‘ رکشوں میں سفر کرتے! کوئی ہیلی کاپٹر یا چارٹرڈ جہازوں سے کم کسی سواری کو قبول نہیں کرتا۔ کوئی پارلیمنٹ کو گھاس نہیں ڈالتا۔ کوئی اپنی اور اپنے اقربا کی جانوں کو عافیت میں رکھنے کے لیے ترامیم کا انبار لے کر آتا ہے! کسی کی گھڑی کروڑوں کی ہے تو کسی کی شہرت ہاروں اور ہائی قیراط انگوٹھیوں کے حوالے سے ہے !لنکا سے جو بھی نکلا باون گز ہی کا نکلا۔ جس قوم کے حکمران مانگے تانگے کے پیسوں اور ادھار کے پٹرول پر شہنشاہوں جیسی زندگی گزاریں اس قوم کا مستقبل آخر کیا ہو سکتا ہے!
دیوار پر سب صاف لکھا ہے! ہے کوئی ہے جو اسے پڑھے؟ ہے کوئی جو سری لنکا سے عبرت پکڑے! مگر سری لنکا جیسا حال‘ خدا نخواستہ ‘ خدا نخواستہ‘ ہوا بھی تو عذاب عوام ہی بھگتیں گے! حکمرانوں کی زندگیوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا! ان کے محلات‘ ان کی جائدادیں‘ ان کے بچے‘ ان کے داماد سب باہر ہیں۔ یہ جہازوں میں بیٹھیں گے اور اُڑ کر اپنے اپنے پرستانوں ‘ شبستانوں ‘ اور حرم سراؤں میں چلے جائیں گے! جو یہاں رہ بھی گئے‘ ان کے معیارِ زندگی کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا! ان کے اے ٹی ایم سلامت رہیں‘ ان کے ٹھاٹھ باٹھ‘ اسی طرح جاری رہیں گے۔ہم جب حکمران کہتے ہیں تو اس میں سابق حکمران بھی شامل ہیں! سنا ہے اب بھی ان کے لیے رُوٹ لگتا ہے! گروی قوم رکھی جا رہی ہے! حکمران نہیں !!

Thursday, June 23, 2022

گردن بھی ان شاء اللہ ٹوٹ جائے گی


بستی میں داخل ہوتے ہوئے جو گھر سب سے پہلے پڑتا تھا اس کا دروازہ تھا نہ بیرونی دیوار۔ سامنے صحن نظر آتا تھا۔ صحن کے درمیان میں دھریک کے درختوں کا جھنڈ تھا۔ اُن دھریکوں کے نیچے‘ چارپائی پر ایک بابا پڑا رہتا تھا۔ نیم دراز‘ سرہانے سے ٹیک لگائے ہوئے۔ عینک کی دونوں کمانیوں پر دھجیاں لپیٹی ہوئیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک سرسبز شاخ ہوتی تھی جس سے وہ مکھیاں اڑاتا رہتا تھا۔ یاد نہیں کہ کبھی اس کے پاس گاؤں کا کوئی آدمی بیٹھا ہوا ہو۔ نہیں معلوم اس کی عیادت کے لیے کوئی آتا تھا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے جو دائمی طور پر چارپائی کے ساتھ لگ جائے‘ اس کی عیادت کو لوگ نہ آتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے دو تین بار آتے ہوں پھر آنا چھوڑ دیتے ہوں! گاؤں کے ایک اور بابا جی یاد آ رہے ہیں۔ دراز قد۔ اونچا شملہ! اس زمانے میں یونین کونسل کا ممبر ہونا بڑی بات تھی۔ وہ اپنی یونین کونسل کے ممبر تھے یا شاید سربراہ! کئی کئی دن سفر میں رہتے۔ علاقے بھر میں نام تھا۔ قسمت کا پھیر کہ بیمار ہو گئے۔ بیماری بھی فالج کی! اٹھارہ سال بستر پر رہے۔ سوائے گھر والوں کے اتنا عرصہ کون عیادت کرتا!
تیمارداری اور عیادت! یوں کہیے کہ باقاعدہ سائنس ہے! تیماردار کو مریض کے پاس مستقل ہونا ہوتا ہے۔ اسے اٹھانا‘ بٹھانا‘ وقت پر دوا دینا‘ نہلانا‘ لباس تبدیل کرانا‘ اس کے کمرے کی صفائی کا خیال رکھنا! یہ سب تیمارداری کے اجزا ہیں! جن کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک‘ بیمار ہو یا اتنا بوڑھا یا بوڑھی کہ بحالی کا امکان ختم ہو جائے‘ انہیں تیمارداری کرنا ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا تھا کہ بوڑھے والدین جنت کا ٹکٹ ہیں۔ بخت کا ستارہ روشن ہو تو اولاد یہ ٹکٹ کٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تیرہ بختوں سے یہ ٹرین چھوٹ جاتی ہے! اپنے ارد گرد دیکھیے! آپ کو ایسے مرد یا ایسی عورتیں ضرور نظر آجائیں گی جنہوں نے اپنے ماں باپ کی یا ساس سسر کی مثالی خدمت کی! اور ایسے بد قسمت بھی مل جائیں گے جنہوں نے اس معاملے میں غفلت اور بد دلی دکھائی! اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی کو خدمت کا موقع ملا ہو تو وہ ہر گز اس زعم میں نہ پڑے کہ اس نے حق ادا کردیا۔ بس خواہش یہ کرے کہ جو کوتاہیاں اس ضمن میں ہوئیں وہ معاف ہو جائیں اور پکڑ نہ ہو!
رہی عیادت یعنی کسی مریض کے پاس تھوڑی دیر کے لیے جا کر اس کا حال پوچھنا‘ تو یہ ایک الگ باب ہے اور ہم میں سے اکثر نے یہ باب بالکل نہیں پڑھا ہوا۔ مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ بیمار پڑے تو عیادت کرنے کے لیے جو لوگ آئے ان میں سے صرف ایک صاحب ایسے تھے جنہوں نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور فلاں دوا کھاؤ! ہم جب کسی کی عیادت کے لیے جاتے ہیں تو یہ فرض کر کے جاتے ہیں کہ یہ بیمار کسی ڈاکٹر کے پاس گیا نہ کوئی دوا لے رہا ہے نہ یہ تعلیم یافتہ ہے نہ اس کا کوئی تیمار دار ہے! بس اس کی صحت کا سارا انحصار اُن مشوروں پر ہے جو ہم نے دینے ہیں۔ اسے کہیں گے کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جاؤ! پھر اس کے کلینک کا راستہ سمجھائیں گے۔ ارے بھئی! جس ڈاکٹر کا وہ علاج کرا رہا ہے اس ڈاکٹر میں کیا نقص ہے؟ اور آپ کیوں ایک اور ڈاکٹر کا بتا رہے ہیں؟ بعض تو یہ بھی کہیں گے کہ چلیے میں آپ کو فلاں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں! ایسے مواقع پر عقل مند مریض یا اس کے تیماردار شکریہ ادا کر کے بات ختم کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ مریض یا ان کے تیمار دار ایسے مشوروں پر عمل کر کے خوب خراب ہوتے ہیں۔ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے! ایک بزرگ گاؤں سے تشریف لائے۔ ان کو راولپنڈی کے ایک معروف ڈاکٹر کے پاس بھیجا۔ کچھ دیر کے بعد فون کیا تو مرحوم ٹیکسلا میں کسی کلینک کی انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔ سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ پنڈی والے ڈاکٹر کے ہاں ایک مریض ٹیکسلا والے ڈاکٹر کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ سو میں یہاں چلا آیا۔
اور دوا! دوا کے حوالے سے مشورے ہمارے ہاں چھوٹے بڑے‘ عورت مرد‘ جاہل عالم سب دیتے ہیں اور فیاضی سے دیتے ہیں۔ کوئی کہے گا نیم کے پتے چبائیں! کوئی کہے گا فلاں شے کا رس نکال کر اس میں فلاں چیز گھول کر پئیں۔ ہمارا کلچر ایسا ہے کہ ہر خاندان کی الگ گھریلو طب ہوتی ہے جو پڑنانی اور پڑدادی سے نسل در نسل چل رہی ہوتی ہے۔ ہم کسی کی عیادت کرتے ہیں تو اپنے خاندانی نسخوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ مریض کی عمر پوچھتے ہیں۔ کچھ خوفناک مثالیں دیں گے کہ فلاں کو یہی تکلیف تھی‘ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ کچھ ملاقاتی آپس میں گپیں ہانکنے لگتے ہیں جبکہ مریض کو سکون درکار ہوتا ہے۔ کچھ حضرات عیادت کے لیے آئیں تو اٹھنے کا نام نہیں لیتے یہاں تک کہ مریض اور اس کے متعلقین تنگ پڑ جاتے ہیں۔ ہسپتالوں کا عملہ ان عیادت کرنے والوں سے پریشان رہتا ہے۔ قاعدہ اور ضابطہ ہمارے ہاں ایک بیکار شے ہے۔ ملاقات کا وقت مقرر ہوتا ہے مگر ہم میں سے اکثر ان اوقات کی خلاف ورزی کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ بچوں کا لانا ممنوع ہو تو بچے اندر لے جانے کی ضد کریں گے۔ مریض کے آرام کا خیال نہیں کریں گے۔ ایک ہسپتال کے اہلکار کی بات یاد آرہی ہے۔ کسی ملاقاتی سے کہہ رہا تھا کہ آپ لوگ ایک درجن مالٹے اٹھائے آجاتے ہیں اور مریض کو آرام نہیں کرنے دیتے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ کچھ ملاقاتی مریض کے کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کچھ یہ توقع کرتے ہیں کہ چونکہ وہ عیادت کے لیے تشریف لائے ہیں اس لیے ان کی خدمت میں چائے پیش کی جانی چاہیے۔ عیادت کرنے کے حوالے سے کچھ لطیفے اتنے مشہور ہیں کہ کلاسیک کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ملاقاتی نے مریض کا حال پوچھا۔ مریض نے بتایا کہ بخار الحمدللہ ٹوٹ گیا ہے‘ ہاں! گردن میں درد باقی ہے۔ اس پر ملاقاتی نے وفورِ جذبات میں امید ظاہر کی کہ ان شاء اللہ گردن بھی ٹوٹ جائے گی! ایک شخص بہرا تھا۔ عیادت کے لیے گیا تو جانے سے پہلا اپنی طرف سے ذہن میں پورا منظرنامہ تیار کر کے گیا کہ حال پوچھوں گا تو وہ کہے گا: بہتر ہوں۔ اس پر میں کہوں گا: الحمدللہ۔ پھر ڈاکٹر کا پوچھوں گا۔ وہ کسی ڈاکٹر کا نام لے گا۔ اس کا مورال اونچا کرنے کے لیے ڈاکٹر کی تعریف کروں گا۔ پھر خوراک کا پوچھوں گا۔ وہ بتائے گا کہ دلیا یا چاول! تو میں کہوں گا کہ مناسب ہے۔ بد قسمتی سے مریض اس دن اپنی جان سے بیزار تھا اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ملاقاتی نے پوچھا کیسے ہیں۔ مریض نے جواب دیا: بس مر رہا ہوں۔ ملاقاتی نے تیار شدہ مکالمے کی رُو سے الحمدللہ کہا۔ پھر پوچھا علاج کون کر رہا ہے۔ جواب ملا: عزرائیل! اس پر اس نے کہا کہ بہت اچھا معالج ہے۔ علاج جاری رکھیے۔ آخر میں خوراک کا پوچھا تو مریض نے کہا: زہر۔ ملاقاتی نے کہا کہ ہاں! یہ بیماری میں بہت مفید ہے!
جو ہماری عیادت کو آتے ہیں ان پر تو اختیار نہیں! مگر جب ہم کسی کی عیادت کو جائیں تو عیادت کے آداب پر عمل کر سکتے ہیں۔

Tuesday, June 21, 2022

فادرز ڈے


تو پھر ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں ؟
فادرز ڈے آتا ہے تو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ مغربی رسم ہے۔ ہمیں تو اپنے اپنے والد کو ہر روز یاد کرنا چاہیے! برسی مناتے ہیں تو کچھ حضرات بہت خلوص اور دلسوزی سے نصیحت کرتے ہیں کہ یہ جائز نہیں! ہم عقائد اور عقائد کی بنیاد پر اختلافات میں نہیں پڑتے نہ ہم اس کے اہل ہیں! بات صرف اتنی ہے کہ یہ سب یاد کرنے کے بہانے ہیں ! اور رفتگاں کو یاد کرنے کا جو بہانہ ہو ‘ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے! یہ درست ہے کہ ہر روز یاد کرنا چاہیے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟ زندگی کی مصروفیات نے ہر ایک کو باندھ رکھا ہے۔ ہر شخص جکڑا ہوا ہے۔ ہاں وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو ہر نماز کے بعد دعا کرتے ہیں: رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔''اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا‘‘۔ اور نماز کے علاوہ بھی کثرت سے یہ دعا کرتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھ کر کرتے ہیں !
اگر فادرز ڈے پر ایک بیٹا یا بیٹی اپنے باپ کو کوئی تحفہ دے دے ‘ ملبوس‘ یا کوئی کتاب یا اس کی کوئی پسندیدہ شے ‘ تو اس میں کیا حرج ہے ؟ چلیے! مان لیا کہ یہ رواج مغرب سے آیا ہے ! تو جو کیلنڈر ہم استعمال کر رہے ہیں وہ بھی مغربی ہے۔ ڈبل بیڈ کا رواج بھی مغرب سے آیا ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ڈبل روٹی اور کیک بھی نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہاں کا کلچر ہے۔ تو کلچرل تبدیلی اگر ہمارے عقائد سے نہیں ٹکرا رہی اور ہمارے مذہب سے متصادم نہیں تو اس پر کاہے کا جھگڑا! کلچر کبھی جامد نہیں ہو سکتا۔ اس میں تبدیلیاں آتی ہیں اور آتی رہتی ہیں! تین چار سو سال پہلے تک کھانا فرش پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔ لباس مختلف تھا۔ انگرکھا تھا اور سلیم شاہی جوتا! آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ ثقافت ہے جو ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور بدلتی رہے گی! کھانے کے اجزا تک بدل گئے۔ ٹماٹر‘ آلو‘ مالٹا‘ مرچ‘سب کچھ نیا ہے۔ اب جاپانی پھل آگیا ہے! تیس‘ چالیس سال پہلے یہاں لیچی تھی نہ سٹرا بیری نہ چَیری! قومی اسمبلی کے ارکان اور ملازمین اجلاس کے لیے ڈھاکہ جاتے تھے تو واپسی پر کیلا اور چیکو سوغات کے طور پر ضرور لاتے تھے۔
رہی یومِ وفات پر برسی منانا تو اتنا یاد ہے کہ جس عزیز کا یوم ِوفات ہوتا تھا‘ ہماری دادی جان کھانے پر درود پاک پڑھ کر اس کی بخشش کے لیے دعا مانگتی تھیں اور وہ کھانا مسجد بھیج دیتی تھیں۔ اسے ''درود بھیجنا‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ شاید اُس وقت اختلافات نہیں تھے یا اگر تھے بھی تو رواداری اور برداشت کا زمانہ تھا۔ آج کل کی طرح نہیں کہ ہر شخص اختلاف کی تلوار نیام سے نکال کر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے ! بقول احمد ندیم قاسمی :
صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھریاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی
ہمارے ناقص علم کے مطابق ‘ مذاہب ‘ مقامی رواجوں اور تہواروں سے منع نہیں کرتے۔ پنجاب میں بیساکھی اور بسنت ‘ مسلم غیر مسلم سب مناتے ہیں ! تقسیم سے پہلے عید پر مسلمان ‘ ہندو اور سکھ دوستوں کے گھر سویّاں ‘ حلوے اور دوسرے پکوان بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے تہواروں پر ‘ اُن کے ہاں سے بھی مٹھائیاں آتی تھیں۔ یورپ امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں یہ سب کچھ آج ہو رہا ہے۔ ایران‘ تاجکستان افغانستان وغیرہ میں سال کی طویل ترین رات ( شبِ یلدا) باقاعدہ منائی جاتی ہے۔ انار اور تربوز اس جشن کا لازمی حصہ ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی اصل کسی مذہب سے نکلی ہو مگر اب یہ مذہبی نہیں ثقافتی تہوار ہے۔یہی صورتحال نوروز کے جشن کی ہے! جس طرح غیر مسلم ہمیں عید مبارک کہتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ‘ کرسمس پر‘ مسیحی دوستوں کو ہیپی کرسمس کہہ دیتے ہیں؛ تاہم اب اس پر بھی اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ خوف کی فضا زیادہ سے زیادہ پھیل رہی ہے! اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے !!
فادرز ڈے اور مدرز ڈے کی طرف واپس آتے ہیں۔ ہر شخص اتنا خوش قسمت نہیں کہ اس کی اولاد فرمانبردار ہو‘ وفادار ہو اور خدمت کرنے والی ہو۔طبائع مختلف ہیں اور مزاج بھی! بے شمار عوامل اور محرکات بعض اوقات اولاد کو غافل کر دیتے ہیں۔ کچھ کا بخت سیاہ ہوتا ہے اور وہ خدمت نہیں کرتے۔ فادرز ڈے اور مدرز ڈے جیسے مواقع پر ایسے بے خبر اور بے پروا بیٹے بیٹیاں بھی ماں باپ کو یاد کر لیتی ہیں۔ بیٹیاں کیک بنا کر لے آتی ہیں۔ بیٹے کوئی تحفہ لے آتے ہیں۔ اس میں مغرب کا کیا فائدہ ہے اور مغرب کہاں سے آگیا؟ یہ مغرب‘ مشرق‘ شمال‘ جنوب کا مسئلہ نہیں۔ جس طریقے سے بھی اور جس حوالے سے بھی اور جس بہانے سے بھی ماں باپ یاد آتے ہیں‘ یاد آنے دیجیے۔ یاد کرنے دیجیے اور یاد کیجیے۔ کسی کو منع نہ کیجیے نہ حوصلہ شکنی کیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہر روز فادرز ڈے منائیں اور ہر روز مدرز ڈے منائیں اور ہر روز ان کی برسی برپا کریں تب بھی حق نہیں ادا ہو سکتا! ہم میں سے اکثر اطمینان بخش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ یہ آرام اُس والد کی وجہ سے ہے جو دن کو کام کرتا رہا اور رات کو ہمیں پاس سلاتا رہا۔ خود عید پر پرانے کپڑے پہنے۔ ہمیں نئے لے کر دیے۔ ہمارے منہ میں دو اور اپنے منہ میں ایک نوالہ ڈالا اور بعض اوقات وہ ایک بھی نہیں! سکولوں ‘کالجوں ‘ یونیورسٹیوں کی فیسیں بھریں! تعلیم دلوائی۔ پھر شادی کرائی! مغربی کلچر میں بچے کی تعلیم اور بچے کی شادی ہمارے ہاں کی طرح باپ کی کمر نہیں توڑ دیتی! کالج یونیورسٹی کے لیے بچے خود جزوی نوکریاں کرتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں حکومتیں قرض دیتی ہیں جو ملازمت ملنے کے بعد طلبہ اور طالبات قسطوں میں واپس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ جب تک تعلیم مکمل نہیں ہوتی ‘ باپ ہی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ طلبہ اور طالبات کا دورانِ تعلیم خود کمانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے ایسے ایسے نوجوان دیکھے ہیں جنہیں اچھی خاصی مقدار میں سکالر شپ ملتا ہے مگر پھر بھی گھر سے رقم منگواتے ہیں۔ رہی شادی ‘ تو شادی کے موقع پر مظلوم ترین شخص لڑکے یا لڑکی کا باپ ہوتا ہے جس نے بیٹے یا بیٹی کے سسرال کے علاوہ اپنے گھر کی خواتین کو بھی مطمئن کرنا ہوتا ہے جو ایک بے حد مشکل کام ہے۔ مغرب میں جہیز ہے نہ بَری نہ سینکڑوں مہمانوں کے لیے دعوتوں کا التزام ! اس کے باوجود فادرز ڈے کی رِیت اگر اہل مغرب نے ڈالی تو ہمیں تو ایک لحاظ سے یاد دلایا کہ باپ کا خیال کرو اور خیال رکھو! یہ بھی یاد رہے کہ جب ہم ماں باپ کہتے ہیں تو اس میں دادا دادی اور نانا نانی بھی شامل ہیں۔ ان کی دلجوئی‘ خبر گیری اور خدمت بھی ہمارا فرض ہے۔ ان کے حقوق بھی اتنے ہی ہیں جتنے ماں باپ کے ہیں بلکہ کئی لحاظ سے ان سے بھی زیادہ! دادا دادی‘ نانا نانی کے ساتھ بچوں کی دوستی مثالی ہوتی ہے۔ پوتوں‘ پوتیوں اور نواسوں‘ نواسیوں کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے ‘ اس کی مثال دنیامیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی!
تاہم ہمارے جو قارئین فادرز ڈے منانے کے مخالف ہیں ‘ ہم ان کے جذبات کی بھی قدر کرتے ہیں۔ ہم اصرار نہیں کر رہے کہ یہ دن لازماً منایا جائے۔ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ اگر کوئی فادرز ڈے یا مدرز ڈے کے حوالے سے ماں باپ کو اہمیت دے رہا ہے تو اسے ایسا کرنے دیجیے۔

Monday, June 20, 2022

اُس دن کیا ہوا تھا؟


تین دسمبر2019ء بظاہر ایک عام سا دن تھا۔ بہت سے دوسرے دنوں کی طرح! اس دن بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معمول کے کام ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر کھلے تھے۔ نجی شعبہ مصروفِ عمل تھا۔ سکولوں میں بچے پڑھ رہے تھے۔ کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ مزدور کارخانوں میں مشقت کر رہے تھے۔ بظاہر یہ دن ہر گز غیرمعمولی نہیں تھا مگر اس دن ایک ایسا کام ہوا جس نے اس ملک کی قسمت پر مہر لگا دی! اُس دن یہ طے ہو گیا کہ سیاست دان کتنے قابلِ اعتماد ہیں! اُس دن یہ فیصلہ ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور سب کچھ ہوگا‘ مگر جمہوریت نام کی کوئی چڑیا نہیں پائی جاتی۔
اُس دن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ بڑے بڑے بارعب اراکین اس کابینہ کے ممبر تھے۔ ان کے جسموں پر لباسِ ہائے فاخرہ تھے۔ وہ جہازی سائز کی شاندار گاڑیوں سے اترے تھے۔ ان کی قیمتی کاروں پر قومی پرچم لہرا رہے تھے۔ ان گاڑیوں میں پٹرول سرکاری خزانے سے بھرا گیا تھا۔ باوردی ڈرائیور تھے۔ یہ معزز اراکین کابینہ میٹنگ کے دوران منرل واٹر پیتے تھے۔ وہی منرل واٹر جو ملک کی 95فیصد آبادی کی استطاعت سے باہر ہے۔ یہ وزیر کل نہیں پیدا ہوئے تھے‘ ان میں اکثریت ان تجربہ کار وزرا کی تھی جو کئی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت تھی یا (ن) لیگ کی یا پیپلز پارٹی کی‘ ان میں سے بہت سے اراکین ہر کابینہ کے رکن رہے تھے۔ انہوں نے زمانے کا سرد و گرم چکھا تھا۔ یہ سیاست اور حکومت دونوں کی نزاکتوں اور باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ سیاہ اور سفید میں فرق ہوتا ہے۔
کابینہ کے اس اجلاس کی صدارت ملک کے وزیراعظم کر رہے تھے۔ یہ وزیراعظم انگلستان کے پڑھے ہوئے تھے۔ یہ اکثر و بیشتر مثالیں دیتے تھے کہ برطانیہ ‘ کینیڈا ‘ امریکا اور دوسرے ملکوں کی جمہوری روایات کیا ہیں۔ یہ تبدیلی کا وعدہ کر کے حکومت میں آئے تھے۔گزشتہ حکومتوں کی آمریت سے تنگ آئی ہوئے متوسط طبقے نے ان کی آواز پر لبیک کہا تھا اور جوق در جوق اُنہیں ووٹ دیے تھے۔
کابینہ کے اجلاس میں معمول کی کارروائی جاری تھی۔ جس مسئلے پر کابینہ کی رائے لینا ہوتی ہے یا منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے‘ اُس مسئلے پر مشتمل ایک مختصر نوٹ ہر رکن کے سامنے رکھا جاتا ہے‘ اس نوٹ کو سمری کہا جاتا ہے۔ سمری بتاتی ہے کہ مسئلے کی نوعیت کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے۔ وزیر اعظم سب کی آرا سنتے ہیں‘ یوں کابینہ مسئلے کو دلائل کے ساتھ منظور کرتی یا دلائل کے ساتھ رَد کرتی ہے۔ یہی جمہوری روایت ہے۔ یہی بادشاہت اور جمہوریت میں فرق ہے۔ یہی آمریت اور جمہوری نظام کے درمیان حد فاصل ہے۔ یہاں فردِ واحد کی رائے یا حکم نہیں چل سکتا خواہ وہ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو۔ کابینہ کے ہر رکن کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ پیش کیے گئے مسئلے پر بحث کرے۔ متعلقہ ادارے یا محکمے یا وزارت سے سوالات پوچھے۔ اپنی تسلی کرے اور پھر تجویز سے اتفاق کرے۔ اگر اراکین کی اکثریت اس سے اختلاف کرتی ہے یا وزیراعظم اسے دلیل کے ساتھ اوور رُول کرتے ہیں تب بھی اجلاس کی رُوداد ( منٹس) میں اس کا اختلافی نقطۂ نظر ضرور لکھا جاتا ہے۔ یہ تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ ملکی تاریخ کا ایک باب ہوتا ہے۔
اچانک وزیراعظم نے ایک لفافہ نکالا۔ یہ لفافہ بند تھا۔انہوں نے اسے ہوا میں لہرایا اور کابینہ کے اراکین کو مخاطب کر کے کہا کہ اس کی منظوری دیجیے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس میں کیا ہے؟ کون سا ایشو ہے؟ کس وزارت سے متعلق ہے؟ کس ادارے سے یہ بند لفافہ آیا ہے؟ وزیراعظم بند لفافے کے مندرجات کسی کو دکھانے کے لیے تیار نہ تھے مگر منظوری مانگ رہے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا ہوا ہوگا؟ کابینہ کے اراکین کا کیا ردِ عمل تھا؟ آپ یقینا کہیں گے کہ کوئی شخص بغیر جانے کسی مسئلے سے اتفاق یا اختلاف کیسے کر سکتا ہے؟ ایک اَن پڑھ شخص بھی کاغذ پر انگوٹھا لگاتے وقت پوچھتا ہے کہ اس پر لکھا کیا ہے؟ مگر ایسا نہ ہوا! پچاس پچپن اراکینِ کابینہ میں سے صرف ایک رکن نے کہا کہ اس کی سمری تو پیش نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے اس نے کچھ اور بھی کہا ہو۔ یہ ایک خاتون رکن تھی مگر وزیراعظم نے لفافے کے مندرجات بتانے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ اسے منظور کرو۔ سب نے منظور کر دیا۔ وہ تحریر جو انہوں نے پڑھی ہی نہیں‘ نہ اس کے بارے میں کچھ بتایا گیا‘ منظور ہو گئی!
آپ کا کیا خیال ہے‘ برطانیہ یا امریکہ یا کسی بھی جمہوری ملک میں کبھی ایسا ہوا ہوگا؟ غالباًتاریخ میں ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آیا ہوگا! مگر وہ کابینہ کمزور تھی! جو جرأت سے‘ کامن سینس سے‘ احساسِ ذمہ داری سے یکسر محروم تھی۔ جو فردِ واحد کے ہر حکم کی‘ ہر اشارۂ ابرو کی پابند تھی! کیا ہو جاتا اگر دو یا تین یا زیادہ اراکین کہتے کہ حضور! معاف کیجیے گا یہ ممکن نہیں! جب تک میں‘ یا ہم‘ اس کے مندرجات اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتے‘ کیسے منظور کر سکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ وزیراعظم استعفیٰ مانگ لیتے؟ وزارت چلی جاتی! تو کیا وزرات جانے سے ان پر فاقہ کشی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا؟ کیا یہ بے گھر ہو جاتے؟ کیا یہ بغیر سواری کے رہ جاتے؟ نہیں! یہ ارب پتی اور کروڑ پتی لوگ تھے! ان کی ملکیت میں جاگیریں‘ گدیاں‘ کارخانے‘ گاڑیاں‘ بینک بیلنس‘ محلات‘ سب کچھ تھا! ان کا مسئلہ صرف یہ تھا کہ یہ حکمران کے سامنے لب کشائی کی جرأت سے محروم تھے۔ یہ ڈرتے تھے کہ وزارتیں نہ چھن جائیں! یہ موم کے پتلے تھے! یہ پرچھائیاں تھیں! یہ حکم کے غلام تھے! ان کی اپنی کوئی رائے نہ تھی! یہ صرف یس سر کہہ سکتے تھے۔ انہوں نے یس سر کہہ کہہ کر ہر کابینہ میں وزارت حاصل کی! شاید انگریزی عہد کی تاریخ میں بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگا! اُس زمانے میں بھی بڑے بڑے کاسہ لیس اور ٹوڈی تھے۔ بڑے بڑے ضمیر فروش اور غلام ابن غلام تھے! مگر شاید کسی نے انگریز بہادر کے سامنے بھی بند لفافے پر یس سر نہ کہا ہو!
اور معاف کیجیے گا! یہ صرف تحریک انصاف کی بات نہیں! اُس کابینہ میں بہت سی پارٹیوں کی نمائندگی تھی۔ اس میں وہ لوگ بھی تھے جو سالہا سال پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میں رہ کر آئے تھے۔ وہاں کے تربیت یافتہ تھے۔ ان میں سے کچھ آج کی کابینہ میں بھی شامل ہیں! کسی کو برا لگے یا اچھا لگے‘ سچ یہ ہے کہ یہ اس کابینہ یا اُس کابینہ کی بات نہیں۔ یہ اس پارٹی یا اُس پارٹی کا معاملہ نہیں! یہ سب سیاستدان تھے! پس ثابت ہوا کہ ہمارے سیاست دان محض ربڑ کی مہریں ہیں! یہ مہر کبھی ایوب خان کے ہاتھ میں رہی‘ کبھی ضیا الحق کے ہاتھ میں! کبھی پرویز مشرف کے ہاتھ میں! کبھی زرداری صاحب اس مہر کے مالک رہے! کبھی میاں صاحب اور کبھی عمران خان! کسی دور میں بھی اس مہر نے کسی کاغذ پر لگنے سے انکار نہیں کیا!
تین دسمبر2019ء کا دن ہماری جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے!

Tuesday, June 14, 2022

تجھ کو پرائی کیا پڑی

تجھ کو پرائی کیا پڑی 

عامر لیاقت چلے گئے۔ہماری روایت کے اعتبار سے کسی مرحوم کے عیوب اور ذاتی زندگی کے معاملات پر بات نہیں کی جاتی۔ کرنی بھی نہیں چاہیے۔مگر ایسے کام جو معاشرے کو منفی رخ دے دیں‘ زیر بحث لانے ہی پڑتے ہیں اور لانے چاہئیں تاکہ جو زندہ لوگ ایسے کام کر رہے ہیں‘ عبرت پکڑیں اور باز آجائیں۔
عامر لیاقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے رمضان ٹرانسمیشن متعارف کرائی۔ اس خراجِ تحسین پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون! یہ رمضان ٹرانسمیشن نہیں تھی‘ اللہ کے بندو! یہ ریٹنگ کے لیے مذہب کا استعمال تھا۔ وہ دعا جس کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ
ادعواربکم تضرعا وخفیۃ انہ لایحب المعتدین
اپنے رب کو عاجزی اور چپکے سے پکارو‘ اسے حد سے بڑھنے والے پسند نہیں آتے۔ (7:55)
اس دعا کو کیمرے کی نذر کر دیا گیا۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ دعا ختم کرتے ہی جب کیمرہ ہٹا تو موصوف نے‘ پروڈیوسر سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیسی تھی پرفارمنس؟ اس کے بعد تو جیسے پھاٹک کھل گیا۔ ہر پرفارمر‘ ہر اینکر رمضان میں لبادہ پہن کر بازار میں آگیا۔ پاپی پیٹ بھی کیا کیا کراتا ہے! اور انسان کیسے کیسے پینترے بدلتا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا‘ اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ زمانہ دیکھا‘ جب ایک مخصوص گروہ سے وابستہ لوگ گھروں میں ٹی وی نہیں رکھتے تھے۔ اس ایشو پر لڑائیاں ہوئیں‘ گھرانے اجڑے‘ شادیاں ٹوٹیں‘ بچے برباد ہوئے۔ اسلام آباد میں ہمارے ایک مرحوم دوست تھے۔ سی ایس ایس کے افسر۔ اس گروہ سے وابستہ تھے۔ نیک انسان تھے۔ ان کے والد مرحوم نے میرے والد مرحوم سے ذکر کیا تھا کہ بیٹا ٹی وی رکھنے پر جھگڑ ا کرتا ہے۔ پھر ایک گلوکار اس گروہ سے وابستہ ہو گئے۔ گانا چھوٹا تھا سکرین کیسے چھوٹتی؛ چنانچہ ٹی وی حلال ہو گیا۔ اب سوال اٹھا کہ مذہبی پروگرام کا معاوضہ کیسے لیا جائے۔ وہ تو جائز نہیں۔ اللہ اللہ۔ حیلہ گری کی معجز نمائیاں۔ روایت یہ ہے ( یہ روایت ہمیں ثقہ ذرائع سے پہنچی تھی۔ پھر بھی ہم اس کی صحت پر اصرار نہیں کریں گے) کہ معاوضے کی جگہ چینل نے قرض دیا۔ اور پھر وہ قرض معاف کر دیا! بڑا دل گردے کا کام ہے دین سے کھیلنا اور اسے دولت یا شہرت کے لیے زینہ بنانا۔ ہماتڑ تو سوچ کر ہی کانپ اٹھے!
کھنچیں میرؔ تجھ سے ہی یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں
عامر لیاقت کا معاملہ اب ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ خدا ئے قدوس ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور آخری ایام میں جو اذیت اٹھائی وہ غلطیوں کا کفارہ بنے۔ ادھر دبئی سے خبر آرہی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف بہت زیادہ بیمار ہیں۔ہم ان کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔ وہ اپنے زمانے میں ملک کے بادشاہ تھے۔ اسمبلی‘ وزیر اعظم اور کابینہ ایک نمائش کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھے۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا لفظ قانون تھا۔ سرتابی کی کسی کو مجال نہ تھی۔ اس لامحدود‘ بے کنار طاقت کی وجہ سے انہوں نے رعایا کے کچھ افراد کے ساتھ سخت ناانصافیاں کیں‘ یہ نا انصافیاں ظلم کی حد تک پہنچ گئی تھیں۔ انڈونیشیا میں متعین سفیر کی‘ جو ان کے دوست تھے‘ لاقانونیت کی انہوں نے بھرپور مدد کی۔ سفارت خانے کی عمارت غیر قانونی طریقے سے بیچ دی گئی اور فارن سروس کے ایک سینئر افسر مشتاق رضوی کا جینا صرف اس لیے حرام کر دیا گیا کہ اس نے وزارتِ خارجہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا تھا۔ پرویز مشرف نے اسے اس کی ریٹائرمنٹ تک بغیر پوسٹنگ کے رکھا۔ اسی صدمے میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔مشرف صاحب نے اپنے ماتحتوں کی ایک تین رکنی کمیٹی کو انکواری کے لیے بھیجا جنہوں نے حاکم کو خوش کرنے کے لیے غلط رپورٹ دی۔ فارن سروس کا یہ دیانت دار افسر سالہا سال اذیت میں مبتلا رہا۔ کیا مشرف صاحب کو اس بات کا احساس ہے کہ انہیں اس ظلم کا حساب دینا پڑے گا؟
یہ صرف ایک کیس ہے۔ وفاقی ایجوکیشن کے اوپر انہوں نے اپنے ایک دوست کو مسلط کیا جسے پے در پے پانچ بار توسیع دی گئی۔ یہ ایک سو ایک فیصد سول پوسٹ تھی۔ وہ جو اس پوسٹ کے اصل حقدار تھے‘ عدالتوں میں جوتیاں چٹخاتے رہے۔ کبھی دفتروں میں دھکے کھاتے رہے اور آنسو بہاتے‘ بد دعائیں دیتے ریٹائر ہوتے گئے۔ ایک اور دوست کو پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا۔ اس سے بھی کئی حقداروں کا حق مارا گیا۔ یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے! یعنی دیگ سے لیے گئے چند چاول! اگر یہ تحریر مشرف صاحب تک یا ان کے کسی حقیقی خیر اندیش تک پہنچے تو کالم نگار یہ عرض کرنے کی جسارت کرے گا کہ ابھی وقت ہے! وہ ان ظلم رسیدہ مظلوموں سے یا ان کے پسماندگان سے معافی مانگیں۔حقوق العباد کے معاملے میں یہی بتایا گیا ہے کہ مظلوم معاف کرے گا تو جان چھوٹے گی! شوکت عزیز کو‘ جس کا اس ملک سے صرف اتنا تعلق تھا کہ وہ یہاں کی پیدائش تھا‘ وزیر اعظم بنا کرمشرف صاحب نے قوم پر اجتماعی ظلم کیا۔ یہ شخص عہدے سے ہٹا تو توشہ خانے کو لُوٹ کر ملک سے فرار ہو گیا اور پھر اس دھرتی پر اس نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ انہیں چاہیے کہ قوم سے اس غلط بخشی کی معافی مانگیں۔
مشرف صاحب نے یقینا اچھے کام بھی کیے۔ شدید خرابیٔ صحت کی اس صورتحال میں اگر وہ وطن واپس لوٹنا چاہیں تو حکومت کو چاہیے کہ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کرے! یہ ان کا اپنا ملک ہے۔ بڑے میاں صاحب کو انتقام کے بجائے عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ منتقم مزاجی کا انجام ہم حال ہی میں دیکھ بھی چکے ہیں! عمر اور صحت کے جس مرحلے پر سابق صدر اس وقت ہیں‘ مزید جلاوطنی ان کے مصائب میں اضافہ نہ ہی کرے تو بہتر ہے۔ انہیں ایک ایسے مرض نے آگھیرا ہے جو عام ہر گز نہیں۔ اس کا نامAmyloidosisہے۔ ہر دس لاکھ انسانوں میں زیادہ سے زیادہ تیرہ کو یہ بیماری لگ سکتی ہے۔
عامر لیاقت کی وفات اور سابق صدر کی خرابیٔ صحت پر ان کے کسی مخالف کو کوئی سفاک تبصرہ ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس کی ڈھیری کہاں بنے گی؟ یہ تو وہ سرنگ ہے جس میں سے سب کو گزرنا ہے۔ '' نہیں نہیں! جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی۔اور لوگ کہیں گے ہے کوئی جھاڑنے والا ؟اور وہ خیال کرے گا کہ یہ وقت جدائی کا ہے۔اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جائے گی۔تیرے رب کی طرف اس دن چلنا ہوگا‘‘ عقلمند وہ ہے جو اپنی عاقبت کی فکر کرے نہ کہ دوسروں کی عاقبت پر تبصرے کرتا پھرے! ایک چینی کی آخری رسوم میں شرکت کا موقع ملا۔ ان کے ہاں بھی قبر پر مٹی ڈالنے کا رواج ہے۔ اس مقصد کے لیے مصنوعی مٹی لائی گئی تھی تا کہ لواحقین کے ہاتھ گندے نہ ہوں۔ مگر افسوس! دفن ہونے والے کو اسی مٹی میں جانا تھا جو اصلی مٹی ہے۔ ''اسی مٹی سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں لوٹائیں گے اور دوبارہ اِسی سے نکالیں گے‘‘۔
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اُوپر اِک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں

Monday, June 13, 2022

یہ بات مگر کون سنے ؟ لاکھ پکارو


کہنے کو یہ صرف فلُو تھا یا پرانی زبان میں زکام! کہنے کو صرف ناک بند تھی۔ صرف گلے میں خراش تھی۔صرف کھانسی تھی۔ صرف چھینکیں مسلسل آرہی تھیں۔ صرف آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ صرف اُٹھا نہیں جا رہا تھا۔ کہنے کو یہ کوئی خاص بیماری نہیں تھی۔ مگر یوں لگتا تھا کہ اذیت کا ایک کارخانہ چل رہا ہے جس میں جسم پھینک دیا گیا ہے!
یہی تلوّن ہے انسان کا جس کا ذکر کیا گیا گیا ہے کہ تکلیف پہنچتی ہے تو چلااٹھتا ہے۔ جب تندرست ہوتا ہے اور نَین پران نروئے ہوتے ہیں تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔سوچتا بھی نہیں کہ صرف فلو جیسی بظاہر معمولی تکلیف سے جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔لباسِ فاخرہ اتار دے گا۔ سواری اور کوچوان کو بھول جائے گا۔وہ سارے کام جو سر پر سوار کیے ہوئے تھے‘ ترجیحات سے نکل جائیں گے۔اور پھر کمزور دل‘ جذباتی اور شاعرانہ مزاج والا تو بستر پر لیٹ کر کیا کیا سوچتا ہے۔ مینڈا جی دلیلاں دے وات وے! اور ایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ گھر والے تو بہ توبہ کرتے ہیں۔سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے۔ اگر قدرت انسان کو کبھی کبھی بیمار نہ کرے تو پتا نہیں یہ بے وقوف مخلوق اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگے۔ حالت اس کی یہ ہے کہ چلتے چلتے پاؤں میں موچ آجائے تو وہیں بیٹھ جائے!
یہ عفیفہ‘ جس کی بخشش ان شاء اللہ یقینی ہے کہ مجھ جیسے خامیوں کے گٹھر کے ساتھ زندگی گزار دی‘ وہ بھی صبر شکر کے ساتھ ! رات دن دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ڈاکٹری گولیوں کے ساتھ دیسی علاج بھی ہو رہا ہے۔ شربت بزوری لے کر آئیں۔ بھنے ہوئے چنوں کا سفوف‘ مع قند‘ تیار کرایا۔بھاپ کے سامنے بٹھایا جا رہا ہے۔مگر ناک ہے کہ انجماد سے نیچے اتر نہیں رہی اور گلا آواز کو باہر نہیں آنے دے رہا۔ اسلام آباد کی بڑی لیبارٹیوں میں سے ایک کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ ٹیسٹ کے لیے خون کا نمونہ گھر آکر لے جاتے ہیں اور اس کے لیے کوئی اضافی معاوضہ نہیں لے رہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہاں ایسا بھی ممکن ہے‘ وہ بھی نجی شعبے میں! ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پنساری کے ہاں سے بڑے بڑے پُڑے آتے تھے جن میں جوشاندے کے اجزا ہوتے تھے۔ ان کو جوش دے کر خوب کاڑھا جا تا تھا۔ عام زبان میں جوشاندے کو کاڑھا ہی کہتے تھے۔ یہ ایک سخت غیر خوشگوار‘ گھنا‘ محلول ہوتا تھا جسے پینے کے بعد منہ سر لپیٹ کر سو جانا ہوتا تھا کیونکہ گھریلو طب کہتی تھی کہ جوشاندہ پینے کے بعد ہوا نہ لگے۔ اب ہر شے میڈ ایزی ہو گئی ہے۔ جوشاندے کی ٹکیا چائے میں حل کر کے پی لیتے ہیں۔ ویسے سچ یہ ہے کہ فائدہ کبھی جو شاندے سے ہوا نہ اس کی ماڈرن ٹکیا سے۔ فارمولا وہی پرانے والا کار فرما ہے کہ علاج کریں تو سات دن میں افاقہ ہو گا۔ نہیں کریں گے تو ٹھیک ہونے میں ہفتہ لگے گا۔ لعوق سپستان‘ شربت توت سیاہ اور اس قبیل کی دیگر دواؤں سے فائدہ ہوتا ہے مگر دوا ساز کمپنیوں اور دکانداروں کو! ہاں! لعوق سپستان خمیرے کی طرح میٹھی اور خوش ذائقہ ضرور ہے۔ روایتی طب کی نشو و نما میں بادشاہوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ اطبّا ان کے لیے ایسی ادویات تیار کرتے تھے جو خوش ذائقہ تھیں اور دیکھنے میں اچھی لگتی تھیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ چاندی کے ورق کا طبی فائدہ کوئی نہیں‘ فقط خوشنمائی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ بھی اوپن سیکرٹ ہے کہ بادشاہ زیادہ تر ایسی ادویات کی فرمائش کرتے تھے جو مقوّی‘ ہیجان آور اور بر انگیختہ کرنے والی ہوں۔ اطبّا بھی دربار میں بلند سے بلند تر مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ساری مہارت اور تمام علم اسی پہلو پر صرف کرتے تھے۔ کئی بادشاہ تو ان ادویات کے چکر میں جان ہی سے گزر گئے۔
1657ء میں شاہ جہان شدید بیمار ہو گیا۔ اس کا پیشاب رک گیا۔قبض شدید ہو گئی۔ تیز بخار چڑھنے لگا۔ ٹانگیں سوج گئیں۔ایک ہفتہ کچھ کھاپی نہ سکا۔ مشہور فرانسیسی‘ ڈاکٹر برنیئر کے خیال میں‘ جو اُس زمانے میں وہیں تھا‘ مقوّی دوائیں ہی بیماری کا سبب بنیں۔ مغل مؤرخ عنایت خان کی بھی یہی رائے تھی۔ یہی بیماری آخر کار شاہجہان کے زوال کا باعث بنی۔ ادویات کے علاوہ خاص قسم کی کراکری بھی صرف شاہی محلات کے لیے بنا ئی جاتی تھی۔ ترکی میں جو کرسٹل( بلور) ملتا ہے اور اب ہر خاص و عام خرید سکتا ہے‘ پہلے اس کی فیکٹریاں صرف خلفا کے استعمال کے لیے برتن بناتی تھیں۔ چین میں جو پورسلین (Porcelain)کے برتن بنائے جاتے تھے وہ بھی صرف بادشاہوں کے محلات کے لیے ہوتے تھے۔ بادشاہ دوسرے ملکوں کے حکمرانوں کو یہ برتن تحفے میں بھی دیتے تھے۔ اب تو خیر پورسلین کی کراکری اور ڈیکوریشن کی مصنوعات ہر جگہ مل جاتی ہیں۔
علالت کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ مکروہات سے فراغت مل جاتی ہے اور کتابیں پڑھنے کے لیے عام دنوں کی نسبت زیادہ وقت مل جاتا ہے بشرطیکہ آنکھیں مسلسل عرق ریزی نہ کر رہی ہوں اور چھینکیں نہ آ رہی ہوں۔ آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ بندہ کسی آرام دہ ہسپتال میں داخل ہو۔ بیماری ایسی ہو جس میں آنکھیں نہ متاثر ہوں۔ادویات کے ساتھ چائے اور کھانے کا اچھا بند و بست ہو۔ ایسے میں اپنی پسندیدہ کتابیں وافر تعداد میں منگوائی جائیں اور تندرست ہونے کے بعد بھی کوشش کر کے کچھ عرصہ وہیں رہا جائے۔ اس سازش میں اپنے گھر والوں کو شریک نہ کریں تو بہتر ہو گا۔ کتابیں پڑھنے کی جو ترکیب حافظ شیرازی نے بتائی ہے وہ تو بالکل ناقابل عمل ہے
دو یارِ زیرک و از باد کہن دو منی
فراغتی و کتابی و گوشہ چمنی
دو زیرک دوست ہوں‘ دومن شرابِ کہنہ! ساتھ فراغت ہو‘ کتاب ہو اور باغ کا گوشہ !
اس کثیر مقدار میں مے ہو‘ وہ بھی پرانی‘ اور ساتھ دو دوست بھی ہوں تو کتاب کس نے پڑھنی ہے!! شاید یہی وجہ ہے کہ شعر کا دوسرا مصرع ضرب المثل بن گیا اور پہلا مصرع کوسوں پیچھے رہ گیا !
ماں باپ کی بیماری میں ہر بچے کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ تشویش اور فکر سب کو ہوتی ہے مگر اظہار کے اسالیب یکساں نہیں ہوتے۔ جن بچوں کے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں وہ بیمار ماں یا باپ کا حوصلہ اور قوتِ ارادی بڑھاتے ہیں۔ جو میری طرح ڈرپوک اور کمزور دل ہوتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ تیمارداری میری نواسی زینب کرتی ہے۔ بار بار حال پوچھے گی۔ چائے بنا بنا کر دیتی جائے گی۔ دواؤں اور ٹیسٹوں کا پوچھے گی مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی جائے گی کہ نانا ابو! اب ختم کریں یہ ڈرامہ! بیماری کے دوران سب سے زیادہ اذیت ناک لمحے وہ ہوتے ہیں جب مرحوم ماں باپ کی بیماریاں یاد آتی ہیں۔ یہ حشر کا لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنا محاسبہ کرتا ہے کہ کیا خود اُس نے کَل تیمارداری کا حق ادا کیا تھا؟ اس جان لیوا سوال کا جواب بھی ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے۔ جن کے ماں باپ حیات ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں! پہلے نہیں کیا تو آج سے ان کی تیماداری اور دیکھ بھال کو سب معاملات پر فوقیت دیں۔ جو کچھ کر سکتے ہیں‘ اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں ! جن کے والدین چل بسے‘ وہ اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگیں!! اس لیے کہ 
کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے‘ لاکھ پکارو

Tuesday, June 07, 2022

………جو بویا ہے‘ وہی کاٹ رہے ہیں



یہ کئی سال پہلے کی بات ہے! ایک ٹیلیفون آیا: '' میں جہلم سے خبیب مرزا بول رہا ہوں!‘‘
�اس کے بعد خبیب مرزا نے میرے کالموں کے بارے میں گفتگو کی اور ایسی گفتگو جیسے کوئی ماہر نقاد یا تجزیہ کار کرتا ہے۔ صرف میری ہی نہیں‘ اسے بہت سے کالم نگاروں کی تحریریں پڑھنے کی عادت تھی! عادت یا خبط!
�اس کے بعد دن گزرتے رہے۔ وہ کرم فرمائی کرتا اور کبھی کبھی فون کر لیتا۔ ان دنوں مجھے ایک کتاب کی تلاش تھی۔ محمد حسین ہیکل کی مشہور کتاب ''عمر فاروق اعظمؓ‘‘ جس کا ترجمہ حکیم حبیب اشعر دہلوی نے کیا تھا‘ “ مکتبہ   میری لائبریری لاہور “نے 1987ء میں چھاپی تھی۔ اب یہ مکمل طور پر نایاب تھی۔ کسی پبلشر نے اس کے بعد اسے شائع نہیں کیا تھا۔ ایک دن کسی نے ذکر کیا کہ یہ کتاب جہلم سے ایک بار پھر چھپی ہے۔ سن کر تعجب ہوا۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد سے نہیں‘ بلکہ جہلم سے! کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ جہلم میں بھی کتابیں چھپتی ہیں۔ اور وہ بھی ایسی کتابیں! محمد حسین ہیکل اور حبیب اشعر جیسی شخصیات کی! ایک نابغہ! دوسرا عبقری! خبیب مرزا سے پوچھا کہ جہلم میں کس نے چھاپی ہے یہ؟ اس نے اس سوال کا تو جواب نہیں دیا‘ کہنے لگا: آپ کو پہنچ جائے گی۔ تیسرے دن کتاب کا ایک نہیں‘ دو نسخے موصول ہوئے۔ یہ بک کارنر کی پہلی پروڈکشن تھی جو میری نظر سے گزری۔ تصاویر سے مزین‘ طباعت عمدہ۔ جلد دیدہ زیب!
�کچھ عرصہ اور گزر گیا! خبیب مرزا نے کہا کہ آپ لاہور جاتے ہوئے کبھی رک بھی جائیے کہ بقول اس کے ''ہم راستے میں کھڑے ہیں‘‘؛ چنانچہ ایک بار لاہور جاتے ہوئے ہم نے جہلم میں پڑاؤ کیا۔ معلوم نہیں اُس ریستوران کا نام کیا تھا‘ مگر کیا اچھا کھانا تھا وہاں! میرا پرانا ساتھی‘ اللہ بخش‘ جو میری گاڑی چلاتا ہے‘ ساتھ تھا۔ ہم دونوں کو خبیب مرزا نے ایک یادگار لنچ کھلایا۔ پھر کہنے لگا: آپ کو پبلشنگ ہاؤس لے چلتے ہیں! ہم روانہ ہوئے مگر ذہن میں ابھی تک ایک ادھورا عدم اطمینان تھا کہ جہلم میں پبلشنگ ہاؤس! ہوگی کوئی چھوٹی موٹی دکان! اس لیے کہ ناشر حضرات تو بڑے شہروں میں متمکن ہوتے ہیں۔ مگر پہنچے تو معاملہ مختلف تھا۔ ایک بہت بڑا‘ وسیع و عریض ہال‘ کتابوں سے بھرا تھا۔ نفاست‘ صفائی‘ حسنِ ترتیب اور ایک مقناطیسی دلکشی اس ہال پر ایک خوبصورت‘ کڑھی ہوئی‘ چادر کی طرح تنی تھی!
�اس کے بعد پھر کئی سال گزر گئے۔ گردشِ زمانہ نے الجھائے رکھا کہ یہی اس کا کام ہے! کبھی بیرونِ ملک! کبھی وطن کے اندر مکروہاتِ زمانہ کی الجھنیں! کبھی گاؤں میں بزرگوں کی قبروں پر! اور ان راستوں پر جن سے بچپن اور لڑکپن خراماں خراماں شہزادوں کی طرح گھڑ سواری کرتے گزرا۔ کبھی لاہور زینب کے پاس جو اولاد کی پہلی اولاد ہے! انگریزوں کے پاس اس معنی میں ایک جامع لفظ ہے گرینڈ کِڈ‘ Grandkid۔ پوتا ہو یا نواسا‘ پوتی ہو یا نواسی‘ گرینڈ کڈ کہلاتی ہے۔ زینب پہلی گرینڈ کِڈ ہے۔ اس لیے خاص مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔ بس حکم دیتی ہے کہ نانا ابو پہنچ جائیے یا گاڑی بھیج کر مجھے منگوا لیجیے۔ اب تو میرے آئی پیڈ اور آئی فون کے معاملات بھی وہی سلجھاتی ہے! انہی مصروفیات میں وقت گزرتا رہا۔ 

یہ چار دن پہلے کی بات ہے‘ خبیب مرزا کی آواز پھر فون سے برآمد ہوئی ''سر! حد ہو گئی ہے! زمانے ہو گئے آپ جہلم نہیں آئے!‘‘ اس کے بعد ہم دونوں نے موٹر وے کی غیبت کی جو جی ٹی روڈ سے دور لے گئی ہے! رونق ہے یا تاریخ‘ بازار ہیں یا شہر‘ سب کچھ تو جی ٹی روڈ پر ہے۔ اس بار خبیب مرزا کی دعوت براہِ راست دل میں در آئی‘ اس لیے کہ پبلشنگ ہاؤس کی زیارت کے لیے کافی عرصہ سے شدید قسم کیCravingہورہی تھی۔
�خبیب مرزا ایک سینئر بینکار ہیں۔ بیگم ان کی بینکاری میں ان سے بھی بڑے منصب پر فائز ہیں اور چونکہ بٹ کمیونٹی سے ہیں اس لیے کھانا ان کے ہاں اتنا ہی شاہانہ‘ متنوع اور دلچسپ ہوتا ہے جتنا کسی بھی روایتی کاشمیری خاندان میں ہو سکتا ہے۔ مگر اصل دعوت تو کتابوں کی تھی! معدے کی نہیں‘ نظر‘ دل‘ دماغ اور روح کی مہمان نوازی تھی!
�ایک طویل عرصے کے بعد اس بار جب بک کارنر میں داخل ہوا تو منظر نامہ بدل چکا تھا۔ اب یہ کتاب گھر نہیں‘ ایک دیوانِ عام لگ رہا تھا جہاں آراستہ اور مُرَتَّب کتابیں اطراف و اکناف میں جاگزین تھیں! درمیان میں نشست گاہ تھی۔ اس نشست گاہ میں بیٹھ کر ادھر ادھر نظر دوڑانا ایک ایسا تجربہ تھا جو مجھے کم از کم پاکستان میں پہلے نہیں ہوا۔ ایک زمانے میں ایشیا کی سب سے بڑی کتاب فروش چین ''بارڈر‘‘ کی تھی۔ سنگاپور میں بارڈر پر کئی بار جاناہوا۔ وہاں اس فراخی اور کشادگی کا تجربہ ہوا۔ بدقسمتی سے ''بارڈر‘‘ دیوالیہ ہو گئی۔ اس کے زیادہ تر حصص امریکی کتاب فروش چین ''بارنز اینڈ نوبل‘‘ نے خرید لیے۔ بک کارنر کے شاہد برادران نے ملک میں کتابوں کی اشاعت اور ترویج میں ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ کتاب کے شروع کے صفحات تصاویر سے مزین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد خاص اختراع یہ نکالی کہ پبلشر کی طرف سے مصنف کا تفصیلی تعارف دیا جاتا ہے! ایک زمانے میں ایران میں شائع شدہ کتابیں دیکھتے تھے تو رشک آتا تھا۔ خوبصورت‘ مصوَّر اور انتہائی جاذبِ نظر! بک کارنر والوں نے اس رشک سے نجات دلا دی! دیدہ زیب ٹائٹل‘ باعزت کاغذ‘ تقریباً تمام کتابیں مصوَّر! ''غبار خاطر‘‘ جیسی کئی کلاسکس جو نایاب ہو چلی تھیں‘ دوبارہ منظر عام پر آگئی ہیں!

�کتابیں تہذیب کی علامت ہیں! ترقی کی گارنٹی ہیں! ذہنی پختگی کی ضمانت ہیں۔ جو قوم کتابوں سے بے نیاز ہے‘ یوں سمجھیے اس کا آگا ہے نہ پیچھا! جس طرح کچھ لوگ خاندانی ہوتے ہیں‘ اسی طرح کچھ قومیں بھی خاندانی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں لائبریریاں ہوتی ہیں‘ کتاب فروشوں کے بازار کے بازار ہوتے ہیں۔ ہر گھر کی اپنی لائبریری ہوتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہم بھی ایسی ہی خاندانی قوم تھے۔ عام شہری تھے یا بادشاہ یا ان کے عمائدین‘ سب کے گھروں میں کتب خانے تھے۔ خواندگی کا تناسب بلند تھا۔ پھر سفید فام غاصب آئے جنہوں نے انگریزی نافذ کرکے عالموں کو راتوں رات جاہل کر دیا۔ انگریز وں کو گئے پون صدی ہونے کو ہے۔ آج  بھی ہم نشانِ عبرت ہیں! انگریزی کے رہے نہ اردو اور فارسی کے! عام سکول علم سے زیادہ جہالت پھیلا رہے ہیں۔ خاص سکولوں سے نکلے ہوئے امیر زادے زیادہ سے زیادہ انگریزوں کی لوئر کلاس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے! کہاں وہ زمانہ کہ خانِ خاناں جیسے وزیروں کی ذاتی لائبریریوں میں لاکھوں کتابیں تھیں اور کہاں یہ عہد کہ ہمارے وزیر‘ امرا اور حکمران (سوائے ایک قلیل تعداد کے) کتابوں سے یکسر نابلد اور مکمل بے نیاز ہیں۔ یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کی بات نہ کیجیے‘ لاہور اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں پبلک لائبریریاں کتنی ہیں؟ ہاں کھابوں اور ڈھابوں پر بہت زور ہے! ٹنوں کے حساب سے ہر روز گوشت کھایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک فیملی کی بات سنی‘کراچی سے آئے تھے اور ان کے پاس‘ آپ کا کیا خیال ہے‘ کیا تھا ؟ ان کے پاس لاہور کے کھابوں اور ڈھابوں کی فہرست تھی جسے وہ سینے سے لگائے پھر رہے تھے۔ یہی حال لاہور سے کراچی جانے والوں کا ہے۔ حیدر آباد میں جیسے پلہ مچھلی کے سوا کچھ نہیں اور پشاور جانے کا مقصد صرف چپل کباب کھانا ہے! تو پھر رونا کس بات کا! جو بویا ہے وہی تو کاٹ رہے ہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, June 06, 2022

چھلنیوں کے سوراخ تنگ تر ہو رہے ہیں

!

چالیس فیصد کٹوتی؟
نہیں جناب وزیراعظم! نہیں! ایسا نہ کیجیے! اللہ سے ڈریے! چالیس فیصد نہیں‘ سو فیصد کٹوتی کیجیے!
چالیس فیصد کٹوتی کا مطلب ہے کہ جسے تین سو لٹر پٹرول سرکار کی طرف سے مفت مل رہا تھا‘ اب اسے ایک سو اسی لٹر ملے گا جس کی قیمت 37800 روپے بنتی ہے جو صرف ایک مہینے کا خرچ ہے۔ سال کا خرچ ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ ہوگا۔ بہت سوں کو ماہانہ پانچ سو لٹر مفت پٹرول ملتا ہے۔ چالیس فیصد کٹوتی کا مطلب ہے کہ انہیں اب تین سو لٹر مفت ملے گا جس کی سالانہ قیمت ساڑھے سات لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ ہزاروں افراد کو حکومت کی طرف سے پٹرول اعزازی مل رہا ہے۔ وفاق کے افسر‘ صوبوں کے افسر‘ وفاق کے وزیر‘ صوبوں کے وزیر‘ وزرائے اعلیٰ‘ گورنر‘ ان کے سینکڑوں سٹاف افسر‘ جج حضرات‘ عساکرکے افسران‘ سفارت خانوں کے پٹرول کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں! یہ سارا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام بار برداری کے جانور ہیں جن پر مراعات یافتہ طبقہ سواری کر رہا ہے۔ سابق وزیراعظم چار سال سرکاری ہیلی کاپٹر کو تبدیلی کے نام پر رکشے کی طرح استعمال کرتے رہے۔ انہیں اس کا بِل دیا جائے جس کی وہ ادائیگی کریں۔ موجودہ وزیراعظم پٹرول کا خرچ اپنی جیب سے ادا کریں۔ ان کی کابینہ بھی۔ وزیراعظم لاہور والے گھروں کو سرکاری گھر نہ ڈیکلیئر کریں! پچھلے سے پچھلے سال کے جو سرکاری اعدادو شمار تھے ان کے مطابق بزدار صاحب نے اپنے تونسہ اور ملتان والے گھر بھی سی ایم ہاؤس ڈیکلیئر کر یا کرا رکھے تھے۔ ایوانِ صدر‘ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم کے دفتر کے خراجات بھی کم کرنے چاہئیں!
ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔ اللّے تللّے ہمارے امیر قوموں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ دفتروں سے افسر اُٹھ جائیں یا آئے ہی نہ ہوں‘ ایئر کنڈیشنرز چلتے رہتے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں ہر جا و بے جا کام کے لیے بیگار کاٹ رہی ہوتی ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ گریڈ بیس اور بیس سے اوپر کے افسروں کو کہا گیا کہ گاڑیاں اپنی استعمال کرو اور خود چلاؤ۔ اس کے بدلے میں انہیں بھاری الاؤنس ہر مہینے دیا جا رہا ہے۔ کسی کو ستر ہزار‘ کسی کو نوے ہزار مگر عملاً سرکاری گاڑیاں بھی استعمال ہو رہی ہیں اور ڈرائیوروں کی تعداد بھی نہیں گھٹی! ہر اقدام احمقانہ ہے۔ ہر وہ کام جو نجی شعبے میں سیٹھ نہیں کرتا کیونکہ اسے وارا نہیں کھاتا‘ وہ سرکاری شعبے میں ہو رہا ہے۔ کسی کے دل میں درد ہوتا ہے نہ کسی کی ذاتی جیب کو فرق پڑتا ہے۔ اگر بزدار صاحب اتنے ہی نابغہ ہیں تو عمران خان ان کی خدمات اپنی یونیورسٹی اور اپنے ہسپتال کے سپرد کیوں نہیں کر دیتے؟ اگر وہ پنجاب کے لیے موزوں ہیں‘ وہ پنجاب جو یورپ کے کئی ملکوں سے رقبے اور آبادی‘ دونوں اعتبار سے بڑا ہے‘ تو انہیں ہسپتال یا یونیورسٹی کا سربراہ بنانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سرکاری کام میں خلوص عنقا ہے۔ اپنے ذاتی کام میں خلوص‘ نیک نیتی‘ احتیاط‘ عقلمندی‘ مردم شناسی سب کچھ موجود ہے۔
وزیراعظم نے صاحبزادے کو چیف منسٹر بنوا دیا۔ کچھ تو سوچتے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ ایک ہی خاندان وفاق اور پنجاب دونوں پر حکمران ہے! کیا پوری (ن) لیگ میں ایسا کوئی نہ تھا جو چیف منسٹر بنایا جاتا؟ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کسی اور کو بناتے تو سب متفق نہ ہوتے اور پارٹی انتشار کا شکار ہو جاتی! یہ وہی عذر لنگ ہے جو عمران خان عثمان بزدار کے حوالے سے پیش کرتے ہیں! پارٹی کیوں انتشار کا شکار ہو جاتی؟ آپ پارٹی کو قائل کرتے! سمجھاتے! کیا خواجہ آصف‘ سعد رفیق‘ احسن اقبال اور دوسرے (ن) لیگی سیاستدان اس لیے چیف منسٹر نہیں بن سکتے کہ ان کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے؟ پارٹی کی نائب صدارت ہو یا صوبے کی چیف منسٹری‘ سب کچھ خاندان ہی میں رہے! قمر جلالوی نے کہا تھا: 
یہ ایسی بات ہے جو درگزر نہیں ہوتی!
کب تک خاندانی اجارہ داریاں چلیں گی؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہاں ابھی تک تغلق‘ خلجی‘ لودھی اور مغل خاندانوں کی پیروی میں بھٹو اور شریف خاندان حکمران ہیں۔ مفتی محمود صاحب اور باچا خان کے خاندان بھی حکمرانی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ عمران خان پچیس سال سے پارٹی پر قابض ہیں۔ گجرات کا حکمران خاندان بھی نئی نسل لیے سامنے آچکا۔ چوہدری سالک حسین‘ مونس الٰہی اور بلاول زرداری تینوں ماشاء اللہ ارب پتی اراکینِ اسمبلی میں شامل ہیں! علیم خان ہوں یا جہانگیر ترین یا نور عالم خان‘ یہ صرف امارت ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان میں طویل عرصے تک امارت ہی معیار رہے گی اور دولت مند ہی حکمرانی کا حق رکھیں گے! اس رجحان سے تنگ آکر مڈل کلاس عمران خان کی طرف لپکی تھی مگر انہوں نے بھی جسٹس وجیہ الدین جیسے افراد کو پارٹی سے باہر نکال دیا اور دولت مندوں کی منڈلی سجا لی! اب تحریک انصاف زخم چاٹے یا ماتم کرے‘ وہ آزمائی جا چکی۔ اب اس میں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں پرِکاہ کا فرق نہیں! ہماری قسمت اس معاملے میں بھی ''کسمت‘‘ نکلی! تبدیلی لانے کا دعویدار رہنما ہیلی کاپٹر اور چارٹرڈ جہاز سے کم کسی بات پر راضی ہی نہیں! یہ شوق ان کا Obsession بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شہزادے کے جہاز پر امریکہ گئے۔ واپسی پر جو کچھ ہوا‘ پورے ملک کے لیے باعثِ عزت نہ تھا! مگر عزت کس چڑیا کا نام ہے؟
یہ ارب پتی جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور اسمبلیوں سے باہر ہیں اگر اپنی اپنی دولت کا دسواں حصہ بھی دیں تو ملک کے قرضے اتر جائیں گے۔ کاش! کچھ مخلص افراد آگے بڑھیں اور ملک کے قرضے اتارنے کے لیے پیسے جمع کریں! یہ ارب پتی دیں یا نہ دیں‘ مڈل کلاس ضرور دے گی! مفتی صدرالدین آزردہ کا شعر ہے:
کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
کسی سرسیّد کی ضرورت ہے‘ کسی ایدھی کی ضرورت ہے‘ جس پر لوگ اعتبار کریں اور جو جمع شدہ رقم سے واقعی قرضے اتارے‘ چارٹرڈ جہازوں پر اور محلات پرنہ خرچ کر دے۔
آپ ہمارے حکمرانوں کی عزتِ نفس ملاحظہ کیجیے۔ پرویز مشرف نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ فلاں بادشاہ نے انہیں مکان خرید کر دیا۔ عمران خان ایک شہزادے سے جہاز مانگ کر امریکہ گئے۔ میاں صاحب‘ جدہ ہو یا لندن‘ محلات کے سوا رہ ہی نہیں سکتے! فقہ میں قصر نمازوں کے جو احکام ہیں ان میں دو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ وطنِ اقامت! جہاں مسافر آدھی نماز ادا کرتا ہے اور وطنِ اصلی! یعنی جہاں اس کا گھر ہے اور جہاں سفر سے واپسی پر پوری نماز پڑھتا ہے۔ لگتا ہے میاں صاحب کا وطنِ اصلی اب لندن ہی ہے! اگر حکمرانی کے لیے پاکستان آنا بھی پڑے تو یہ وطنِ اقامت ہی ہوگا! ویسے جس طرح ہمارا ستارہ گردش میں آیا ہوا ہے اور جس طرح ہمیں تیرہ بختی نے گھیرا ہوا ہے‘ کسی کے لندن میں رہنے یا پاکستان میں رہنے سے ہمارے ستارے کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا! وہ جو لندن میں نہیں رہتے‘ انہیں بھی ہم آزما چکے! ہماری قسمت کا حال تو صائب کے اس شعر میں ہے
ہر شب کواکب کم کنند از روزئ ما پارہ ای
ہر روز گردد تنگ تر سوراخِ این غربال ہا
رات آتی ہے تو ستارے ہماری روزی سے ایک ٹکڑا کم کردیتے ہیں ! دن آتا ہے تو ان چھلنیوں کے سوراخ زیادہ تنگ ہو جاتے ہیں۔

Thursday, June 02, 2022

اس نے خط بھیجا جو مجھ کو‘ ڈاک پر ڈاکا پڑا


غالب نے بہت کچھ لکھا۔ فارسی میں بھی اُردو میں بھی! مگر شہرت کے آسمان پر ان کے صرف دو کام جگمگائے۔ اُردو کا دیوان اور اُردو میں لکھے ہوئے خطوط! غالب کے خطوط نے اُردو نثر کی جہات ہی بدل ڈالیں! خطوط ادب کی باقاعدہ صنف ہے ! جاں نثار اختر کے نام صفیہ کے خطوط‘ جو ''زیر لب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے‘ ادب کا حصہ ہیں۔ ابوالکلام آزاد کی تصنیف ''غبارِ خاطر‘‘ جو خطوط ہی کا مجموعہ ہے‘معرکہ آرا کتاب ہے اور کلاسکس میں شمار ہوتی ہے! اقبال کے خطوط چار ضخیم جلدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اقبال کی زندگی‘ اقبال کے پیغام اور اقبال کی تصانیف کو سمجھنے کے لیے ان خطوط کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ انگریزی ادب میں خطوط کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔مشہور ناول نگار شیرلٹ برونٹی کے چھ خطوط‘ جو اس نے اپنے محبوب‘ ہیگر‘ کو لکھے‘ ادب اور رومان کا ایسا سنگم ہیں جو دردناک ہے اور دلکش بھی ! ہیگر کی بیوی نے پھاڑے گئے ان خطوط کو سی کر کس طرح انہیں نئی زندگی دی‘ یہ ایک الگ داستان ہے۔ سترہویں صدی کے ڈراما نگار اور شاعر تھامس اَوٹ وے کے غم انگیز عاشقانہ خطوط بھی انگریزی ادب کا حصہ ہیں۔
مقصد اس تمہید کا خطوط کی تاریخ بیان کرنا نہیں! یہ سب کچھ ارتجالاً اس لیے لکھ دیا کہ عطا الحق قاسمی کو جن قابلِ ذکر لوگوں نے خطوط لکھے‘ انہیں معروف سکالر ڈاکٹر عائشہ عظیم نے ایک کتاب کی صورت میں یکجا کردیا اور یہ کتاب اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ان خطوط کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ مختلف مکاتبِ فکر اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف افراد کی طرف سے لکھے گئے ہیں۔ ان میں ملکی تاریخ بھی ہے‘ادبی مسائل بھی ہیں‘ باہمی رشتوں کا رکھ رکھاؤ بھی ہے‘ شخصی تذکرے بھی ہیں اور بحث مباحثہ بھی ہے۔ اس مجموعۂ خطوط میں کس قدر تنوّع ہے اور کس قدر بو قلمونی ہے‘ اس کا اندازہ صرف چند ناموں ہی سے ہو جائے گا جن کے خطوط شامل ہیں۔ ابن انشا‘ ظفر اقبال‘ احمد ندیم قاسمی‘ اکرام چغتائی‘ الطاف گوہر‘ جسٹس جاوید اقبال‘ جمیل الدین عالی‘ حفیظ جاندھری‘ محمد خالد اختر‘ رئیس امروہوی‘ ساقی فاروقی‘ سراج منیر‘ محمد سلیم الرحمان‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘شفیق الرحمن‘ شمس الرحمن فاروقی‘ ضمیر جعفری‘ ڈاکٹر عبد السلام خورشید‘ عبداللہ حسین‘ قدرت اللہ شہاب‘ اور مظفر علی سید تو وہ چند حضرات ہیں جن کا حوالہ ادب ہے۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کے خطوط بھی شامل ہیں۔ مولانا زاہدالراشدی‘ مولانا حامد سعید کاظمی‘ مولانا ساجد نقوی‘ مولانا سمیع الحق‘مولانا ضیا القاسمی‘ مولانا عطا المحسن بخاری‘ علامہ مفتی کفایت حسین نقوی ان میں سے چند نام ہیں۔ سیاست دانوں کے خطوط بھی شامل ہیں اور صحافیوں کے بھی! یوں یہ تالیف‘پاکستان کی تاریخ کے اعتبار سے ایک مستند دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
245معروف شخصیات کے خطوط جہاں عطا کی وسیع المشربی پر دال ہیں وہاں یہ ایک بہت بڑے سپر سٹور کی طرح بھی ہیں جہاں ہر شخص اپنے مطلب کی اور اپنی ضرورت کی شے‘ اپنے ذوق اور اپنے حسنِ انتخاب کے لحاظ سے چُن سکتا ہے۔ میری دلچسپی کے خطوط کئی حضرات کے ہیں مگر یہاں صرف دو کا ذکر کروں گا۔ ایک تو جناب اکرام چغتائی کے خطوط ہیں جو دامنِ دل کھینچتے ہیں۔ اکرام چغتائی بہت بڑے محقق اور بلند پایہ سکالر ہیں۔اور حد سے زیادہ منکسر المزاج ! بیسیوں تحقیقی کتابوں کے مصنف مگر تشہیر سے یکسر بے نیاز۔ جرمن زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ آسٹریا کی حکومت اور وہاں کے علمی اداروں نے چغتائی صاحب کوکئی اعزازات سے نوازا ہے۔ محمد اسد پر وہ اتھارٹی ہیں اور ان کے احوال پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کے خطوط سے‘ جو انہوں نے عطا الحق قاسمی کو لکھے‘ مترشح ہوتاہے کہ ایک محقق اور سکالر جب بیرونِ ملک جاتا ہے تو اس کی دلچسپیاں سیر و تفریح میں نہیں‘ کتب خانوں میں ہو تی ہیں۔ اکرام چغتائی‘ وی آنا ( آسٹریا) سے لکھتے ہیں : ''اس شہر کے کتاب خانوں میں ایسے ایسے نوادرات پوشیدہ ہیں کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی دور افتادہ جگہ پر دستیاب ہوں گے۔ ابتدائی چند روز تو یہاں کے کتب خانے‘ ادارے اور وی آنا یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کی لائبریریوں کو کھنگالنے میں صرف ہو گئے۔ اس جائزے کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ یہاں اگر میرے مطلب کی کوئی چیز ہے تو وہ آسٹریا کی نیشنل لائبریری ہے جو یورپ کی قدیم ترین لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے اور جس کے خزانوں کی دھوم چہار دانگِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے‘‘۔
آسٹریا کی نیشنل لائبریری کے بارے میں چغتائی صاحب مزید لکھتے ہیں اور اسے پڑھتے وقت یہ بھی سوچیے کہ ہم‘ اس میدان میں کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا وجود اس لحاظ سے قابلِ ذکر بھی ہے یا نہیں ! ... ''بھائی ! یہ لائبریری علم و دانش کی ایک دنیا اپنے اندر سمیٹے ہے۔ کسی بھی موضوع پر کام شروع کیجیے‘ اس کے متعلق اتنامواد اس لائبریری میں مل جاتا ہے کہ آدمی اخذ و ترک کے مسئلے میں الجھ جاتا ہے۔ اس کی بہت بڑی عمارت ہے جس کے آٹھ مختلف شعبے ہیں جو مختلف موضوعات کی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں۔ان میں ایک شعبہ قلمی نسخوں کا ہے جس میں عربی‘ فارسی اور ترکی کے ہزاروں مخطوطات انتہائی محفوظ حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔ عربی فارسی اور ترکی کے مخطوطات کی ایک جامع فہرست مشہور مستشرق فلیوگل نے تین جلدوں میں1868ء میں شائع کی تھی۔ اس کے بعد کے حاصل شدہ عربی مخطوطات کی جامع فہرست بھی شائع ہو چکی ہے‘‘۔جس دوسری شخصیت کے خطوط نے متوجہ کیا وہ جگن ناتھ آزاد ہیں۔ ان کے تیس خطوط شاملِ کتاب ہیں۔یہ خطوط 1977ء اور1997ء کے درمیانی عرصہ میں لکھے گئے۔ ان میں جا بجا ایک معروف روزنامہ کے ادبی صفحہ کا ذکر ہے جو عطا ایڈٹ کرتے تھے۔ در حقیقت اخبارات کے ادبی صفحے کی ابتدا عطا ہی نے کی تھی۔ جگن ناتھ آزاد ان خطوط میں ڈاکٹر جاوید اقبال‘ مجید نظامی‘ احمد ندیم قاسمی‘ وقار انبالوی‘ محمد طفیل اور کئی دیگر مشاہیر کا ذکر کرتے ہیں جن سے ان کے تعلقات تھے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ جب جگن ناتھ آزاد اور ان سے تعلق رکھنے والے یہ ممتاز افراد دنیا سے رخصت ہو گئے تو یہ درفطنی چھوڑی گئی کہ پاکستان کا قومی ترانہ قائد اعظم نے جگن ناتھ آزاد سے لکھوایا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ قیام ِپاکستان کے وقت جگن ناتھ آزاد کی عمر انتیس سال تھی اور قائد اعظم کی اکہتر برس! اس وقت نوجوان جگن ناتھ آزاد لاہور کے ایک‘ اینٹی پاکستان‘ ہندو اخبار میں کام کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود پر خدا اپنی رحمتیں برسائے‘ انہوں نے اس جھوٹ کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے۔ ایک ایک متعلقہ شخص سے ملے‘ ایک ایک دستاویز چھانی اور تیرہ ناقابلِ تردید دلائل اس جھوٹ کے رد میں پیش کیے جن کا کوئی جواب آج تک نہ دے سکا! مزے کی بات یہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے اپنی زندگی میں یہ دعویٰ کبھی نہ کیا۔ جگن ناتھ آزاد کے ان تیس خطوط میں بھی‘ جو اس مجموعہ خطوط میں شامل ہیں‘ اس بات کا کوئی ذکر نہیں !
خطوط پر مشتمل یہ کتاب ادب اور سیاست کے قارئین کے لیے تو دلچسپی کی حامل ہے ہی‘ تحقیق کرنے والوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا سورس ہے۔ان خطوط سے کئی جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں اور کئی تنازعے پیدا بھی ہو سکتے ہیں !

 

powered by worldwanders.com