یہ کئی سال پہلے کی بات ہے! ایک ٹیلیفون آیا: '' میں جہلم سے خبیب مرزا بول رہا ہوں!‘‘
�اس کے بعد خبیب مرزا نے میرے کالموں کے بارے میں گفتگو کی اور ایسی گفتگو جیسے کوئی ماہر نقاد یا تجزیہ کار کرتا ہے۔ صرف میری ہی نہیں‘ اسے بہت سے کالم نگاروں کی تحریریں پڑھنے کی عادت تھی! عادت یا خبط!
�اس کے بعد دن گزرتے رہے۔ وہ کرم فرمائی کرتا اور کبھی کبھی فون کر لیتا۔ ان دنوں مجھے ایک کتاب کی تلاش تھی۔ محمد حسین ہیکل کی مشہور کتاب ''عمر فاروق اعظمؓ‘‘ جس کا ترجمہ حکیم حبیب اشعر دہلوی نے کیا تھا‘ “ مکتبہ میری لائبریری لاہور “نے 1987ء میں چھاپی تھی۔ اب یہ مکمل طور پر نایاب تھی۔ کسی پبلشر نے اس کے بعد اسے شائع نہیں کیا تھا۔ ایک دن کسی نے ذکر کیا کہ یہ کتاب جہلم سے ایک بار پھر چھپی ہے۔ سن کر تعجب ہوا۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد سے نہیں‘ بلکہ جہلم سے! کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ جہلم میں بھی کتابیں چھپتی ہیں۔ اور وہ بھی ایسی کتابیں! محمد حسین ہیکل اور حبیب اشعر جیسی شخصیات کی! ایک نابغہ! دوسرا عبقری! خبیب مرزا سے پوچھا کہ جہلم میں کس نے چھاپی ہے یہ؟ اس نے اس سوال کا تو جواب نہیں دیا‘ کہنے لگا: آپ کو پہنچ جائے گی۔ تیسرے دن کتاب کا ایک نہیں‘ دو نسخے موصول ہوئے۔ یہ بک کارنر کی پہلی پروڈکشن تھی جو میری نظر سے گزری۔ تصاویر سے مزین‘ طباعت عمدہ۔ جلد دیدہ زیب!
�کچھ عرصہ اور گزر گیا! خبیب مرزا نے کہا کہ آپ لاہور جاتے ہوئے کبھی رک بھی جائیے کہ بقول اس کے ''ہم راستے میں کھڑے ہیں‘‘؛ چنانچہ ایک بار لاہور جاتے ہوئے ہم نے جہلم میں پڑاؤ کیا۔ معلوم نہیں اُس ریستوران کا نام کیا تھا‘ مگر کیا اچھا کھانا تھا وہاں! میرا پرانا ساتھی‘ اللہ بخش‘ جو میری گاڑی چلاتا ہے‘ ساتھ تھا۔ ہم دونوں کو خبیب مرزا نے ایک یادگار لنچ کھلایا۔ پھر کہنے لگا: آپ کو پبلشنگ ہاؤس لے چلتے ہیں! ہم روانہ ہوئے مگر ذہن میں ابھی تک ایک ادھورا عدم اطمینان تھا کہ جہلم میں پبلشنگ ہاؤس! ہوگی کوئی چھوٹی موٹی دکان! اس لیے کہ ناشر حضرات تو بڑے شہروں میں متمکن ہوتے ہیں۔ مگر پہنچے تو معاملہ مختلف تھا۔ ایک بہت بڑا‘ وسیع و عریض ہال‘ کتابوں سے بھرا تھا۔ نفاست‘ صفائی‘ حسنِ ترتیب اور ایک مقناطیسی دلکشی اس ہال پر ایک خوبصورت‘ کڑھی ہوئی‘ چادر کی طرح تنی تھی!
�اس کے بعد پھر کئی سال گزر گئے۔ گردشِ زمانہ نے الجھائے رکھا کہ یہی اس کا کام ہے! کبھی بیرونِ ملک! کبھی وطن کے اندر مکروہاتِ زمانہ کی الجھنیں! کبھی گاؤں میں بزرگوں کی قبروں پر! اور ان راستوں پر جن سے بچپن اور لڑکپن خراماں خراماں شہزادوں کی طرح گھڑ سواری کرتے گزرا۔ کبھی لاہور زینب کے پاس جو اولاد کی پہلی اولاد ہے! انگریزوں کے پاس اس معنی میں ایک جامع لفظ ہے گرینڈ کِڈ‘ Grandkid۔ پوتا ہو یا نواسا‘ پوتی ہو یا نواسی‘ گرینڈ کڈ کہلاتی ہے۔ زینب پہلی گرینڈ کِڈ ہے۔ اس لیے خاص مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔ بس حکم دیتی ہے کہ نانا ابو پہنچ جائیے یا گاڑی بھیج کر مجھے منگوا لیجیے۔ اب تو میرے آئی پیڈ اور آئی فون کے معاملات بھی وہی سلجھاتی ہے! انہی مصروفیات میں وقت گزرتا رہا۔
یہ چار دن پہلے کی بات ہے‘ خبیب مرزا کی آواز پھر فون سے برآمد ہوئی ''سر! حد ہو گئی ہے! زمانے ہو گئے آپ جہلم نہیں آئے!‘‘ اس کے بعد ہم دونوں نے موٹر وے کی غیبت کی جو جی ٹی روڈ سے دور لے گئی ہے! رونق ہے یا تاریخ‘ بازار ہیں یا شہر‘ سب کچھ تو جی ٹی روڈ پر ہے۔ اس بار خبیب مرزا کی دعوت براہِ راست دل میں در آئی‘ اس لیے کہ پبلشنگ ہاؤس کی زیارت کے لیے کافی عرصہ سے شدید قسم کیCravingہورہی تھی۔
�خبیب مرزا ایک سینئر بینکار ہیں۔ بیگم ان کی بینکاری میں ان سے بھی بڑے منصب پر فائز ہیں اور چونکہ بٹ کمیونٹی سے ہیں اس لیے کھانا ان کے ہاں اتنا ہی شاہانہ‘ متنوع اور دلچسپ ہوتا ہے جتنا کسی بھی روایتی کاشمیری خاندان میں ہو سکتا ہے۔ مگر اصل دعوت تو کتابوں کی تھی! معدے کی نہیں‘ نظر‘ دل‘ دماغ اور روح کی مہمان نوازی تھی!
�ایک طویل عرصے کے بعد اس بار جب بک کارنر میں داخل ہوا تو منظر نامہ بدل چکا تھا۔ اب یہ کتاب گھر نہیں‘ ایک دیوانِ عام لگ رہا تھا جہاں آراستہ اور مُرَتَّب کتابیں اطراف و اکناف میں جاگزین تھیں! درمیان میں نشست گاہ تھی۔ اس نشست گاہ میں بیٹھ کر ادھر ادھر نظر دوڑانا ایک ایسا تجربہ تھا جو مجھے کم از کم پاکستان میں پہلے نہیں ہوا۔ ایک زمانے میں ایشیا کی سب سے بڑی کتاب فروش چین ''بارڈر‘‘ کی تھی۔ سنگاپور میں بارڈر پر کئی بار جاناہوا۔ وہاں اس فراخی اور کشادگی کا تجربہ ہوا۔ بدقسمتی سے ''بارڈر‘‘ دیوالیہ ہو گئی۔ اس کے زیادہ تر حصص امریکی کتاب فروش چین ''بارنز اینڈ نوبل‘‘ نے خرید لیے۔ بک کارنر کے شاہد برادران نے ملک میں کتابوں کی اشاعت اور ترویج میں ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ کتاب کے شروع کے صفحات تصاویر سے مزین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد خاص اختراع یہ نکالی کہ پبلشر کی طرف سے مصنف کا تفصیلی تعارف دیا جاتا ہے! ایک زمانے میں ایران میں شائع شدہ کتابیں دیکھتے تھے تو رشک آتا تھا۔ خوبصورت‘ مصوَّر اور انتہائی جاذبِ نظر! بک کارنر والوں نے اس رشک سے نجات دلا دی! دیدہ زیب ٹائٹل‘ باعزت کاغذ‘ تقریباً تمام کتابیں مصوَّر! ''غبار خاطر‘‘ جیسی کئی کلاسکس جو نایاب ہو چلی تھیں‘ دوبارہ منظر عام پر آگئی ہیں!
�کتابیں تہذیب کی علامت ہیں! ترقی کی گارنٹی ہیں! ذہنی پختگی کی ضمانت ہیں۔ جو قوم کتابوں سے بے نیاز ہے‘ یوں سمجھیے اس کا آگا ہے نہ پیچھا! جس طرح کچھ لوگ خاندانی ہوتے ہیں‘ اسی طرح کچھ قومیں بھی خاندانی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں لائبریریاں ہوتی ہیں‘ کتاب فروشوں کے بازار کے بازار ہوتے ہیں۔ ہر گھر کی اپنی لائبریری ہوتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہم بھی ایسی ہی خاندانی قوم تھے۔ عام شہری تھے یا بادشاہ یا ان کے عمائدین‘ سب کے گھروں میں کتب خانے تھے۔ خواندگی کا تناسب بلند تھا۔ پھر سفید فام غاصب آئے جنہوں نے انگریزی نافذ کرکے عالموں کو راتوں رات جاہل کر دیا۔ انگریز وں کو گئے پون صدی ہونے کو ہے۔ آج بھی ہم نشانِ عبرت ہیں! انگریزی کے رہے نہ اردو اور فارسی کے! عام سکول علم سے زیادہ جہالت پھیلا رہے ہیں۔ خاص سکولوں سے نکلے ہوئے امیر زادے زیادہ سے زیادہ انگریزوں کی لوئر کلاس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے! کہاں وہ زمانہ کہ خانِ خاناں جیسے وزیروں کی ذاتی لائبریریوں میں لاکھوں کتابیں تھیں اور کہاں یہ عہد کہ ہمارے وزیر‘ امرا اور حکمران (سوائے ایک قلیل تعداد کے) کتابوں سے یکسر نابلد اور مکمل بے نیاز ہیں۔ یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کی بات نہ کیجیے‘ لاہور اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں پبلک لائبریریاں کتنی ہیں؟ ہاں کھابوں اور ڈھابوں پر بہت زور ہے! ٹنوں کے حساب سے ہر روز گوشت کھایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک فیملی کی بات سنی‘کراچی سے آئے تھے اور ان کے پاس‘ آپ کا کیا خیال ہے‘ کیا تھا ؟ ان کے پاس لاہور کے کھابوں اور ڈھابوں کی فہرست تھی جسے وہ سینے سے لگائے پھر رہے تھے۔ یہی حال لاہور سے کراچی جانے والوں کا ہے۔ حیدر آباد میں جیسے پلہ مچھلی کے سوا کچھ نہیں اور پشاور جانے کا مقصد صرف چپل کباب کھانا ہے! تو پھر رونا کس بات کا! جو بویا ہے وہی تو کاٹ رہے ہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment