تجھ کو پرائی کیا پڑی
عامر لیاقت چلے گئے۔ہماری روایت کے اعتبار سے کسی مرحوم کے عیوب اور ذاتی زندگی کے معاملات پر بات نہیں کی جاتی۔ کرنی بھی نہیں چاہیے۔مگر ایسے کام جو معاشرے کو منفی رخ دے دیں‘ زیر بحث لانے ہی پڑتے ہیں اور لانے چاہئیں تاکہ جو زندہ لوگ ایسے کام کر رہے ہیں‘ عبرت پکڑیں اور باز آجائیں۔
عامر لیاقت کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے رمضان ٹرانسمیشن متعارف کرائی۔ اس خراجِ تحسین پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون! یہ رمضان ٹرانسمیشن نہیں تھی‘ اللہ کے بندو! یہ ریٹنگ کے لیے مذہب کا استعمال تھا۔ وہ دعا جس کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ
ادعواربکم تضرعا وخفیۃ انہ لایحب المعتدین
اپنے رب کو عاجزی اور چپکے سے پکارو‘ اسے حد سے بڑھنے والے پسند نہیں آتے۔ (7:55)
اس دعا کو کیمرے کی نذر کر دیا گیا۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ دعا ختم کرتے ہی جب کیمرہ ہٹا تو موصوف نے‘ پروڈیوسر سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیسی تھی پرفارمنس؟ اس کے بعد تو جیسے پھاٹک کھل گیا۔ ہر پرفارمر‘ ہر اینکر رمضان میں لبادہ پہن کر بازار میں آگیا۔ پاپی پیٹ بھی کیا کیا کراتا ہے! اور انسان کیسے کیسے پینترے بدلتا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا‘ اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ زمانہ دیکھا‘ جب ایک مخصوص گروہ سے وابستہ لوگ گھروں میں ٹی وی نہیں رکھتے تھے۔ اس ایشو پر لڑائیاں ہوئیں‘ گھرانے اجڑے‘ شادیاں ٹوٹیں‘ بچے برباد ہوئے۔ اسلام آباد میں ہمارے ایک مرحوم دوست تھے۔ سی ایس ایس کے افسر۔ اس گروہ سے وابستہ تھے۔ نیک انسان تھے۔ ان کے والد مرحوم نے میرے والد مرحوم سے ذکر کیا تھا کہ بیٹا ٹی وی رکھنے پر جھگڑ ا کرتا ہے۔ پھر ایک گلوکار اس گروہ سے وابستہ ہو گئے۔ گانا چھوٹا تھا سکرین کیسے چھوٹتی؛ چنانچہ ٹی وی حلال ہو گیا۔ اب سوال اٹھا کہ مذہبی پروگرام کا معاوضہ کیسے لیا جائے۔ وہ تو جائز نہیں۔ اللہ اللہ۔ حیلہ گری کی معجز نمائیاں۔ روایت یہ ہے ( یہ روایت ہمیں ثقہ ذرائع سے پہنچی تھی۔ پھر بھی ہم اس کی صحت پر اصرار نہیں کریں گے) کہ معاوضے کی جگہ چینل نے قرض دیا۔ اور پھر وہ قرض معاف کر دیا! بڑا دل گردے کا کام ہے دین سے کھیلنا اور اسے دولت یا شہرت کے لیے زینہ بنانا۔ ہماتڑ تو سوچ کر ہی کانپ اٹھے!
کھنچیں میرؔ تجھ سے ہی یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں
عامر لیاقت کا معاملہ اب ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ خدا ئے قدوس ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور آخری ایام میں جو اذیت اٹھائی وہ غلطیوں کا کفارہ بنے۔ ادھر دبئی سے خبر آرہی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف بہت زیادہ بیمار ہیں۔ہم ان کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔ وہ اپنے زمانے میں ملک کے بادشاہ تھے۔ اسمبلی‘ وزیر اعظم اور کابینہ ایک نمائش کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھے۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا لفظ قانون تھا۔ سرتابی کی کسی کو مجال نہ تھی۔ اس لامحدود‘ بے کنار طاقت کی وجہ سے انہوں نے رعایا کے کچھ افراد کے ساتھ سخت ناانصافیاں کیں‘ یہ نا انصافیاں ظلم کی حد تک پہنچ گئی تھیں۔ انڈونیشیا میں متعین سفیر کی‘ جو ان کے دوست تھے‘ لاقانونیت کی انہوں نے بھرپور مدد کی۔ سفارت خانے کی عمارت غیر قانونی طریقے سے بیچ دی گئی اور فارن سروس کے ایک سینئر افسر مشتاق رضوی کا جینا صرف اس لیے حرام کر دیا گیا کہ اس نے وزارتِ خارجہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا تھا۔ پرویز مشرف نے اسے اس کی ریٹائرمنٹ تک بغیر پوسٹنگ کے رکھا۔ اسی صدمے میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔مشرف صاحب نے اپنے ماتحتوں کی ایک تین رکنی کمیٹی کو انکواری کے لیے بھیجا جنہوں نے حاکم کو خوش کرنے کے لیے غلط رپورٹ دی۔ فارن سروس کا یہ دیانت دار افسر سالہا سال اذیت میں مبتلا رہا۔ کیا مشرف صاحب کو اس بات کا احساس ہے کہ انہیں اس ظلم کا حساب دینا پڑے گا؟
یہ صرف ایک کیس ہے۔ وفاقی ایجوکیشن کے اوپر انہوں نے اپنے ایک دوست کو مسلط کیا جسے پے در پے پانچ بار توسیع دی گئی۔ یہ ایک سو ایک فیصد سول پوسٹ تھی۔ وہ جو اس پوسٹ کے اصل حقدار تھے‘ عدالتوں میں جوتیاں چٹخاتے رہے۔ کبھی دفتروں میں دھکے کھاتے رہے اور آنسو بہاتے‘ بد دعائیں دیتے ریٹائر ہوتے گئے۔ ایک اور دوست کو پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا۔ اس سے بھی کئی حقداروں کا حق مارا گیا۔ یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے! یعنی دیگ سے لیے گئے چند چاول! اگر یہ تحریر مشرف صاحب تک یا ان کے کسی حقیقی خیر اندیش تک پہنچے تو کالم نگار یہ عرض کرنے کی جسارت کرے گا کہ ابھی وقت ہے! وہ ان ظلم رسیدہ مظلوموں سے یا ان کے پسماندگان سے معافی مانگیں۔حقوق العباد کے معاملے میں یہی بتایا گیا ہے کہ مظلوم معاف کرے گا تو جان چھوٹے گی! شوکت عزیز کو‘ جس کا اس ملک سے صرف اتنا تعلق تھا کہ وہ یہاں کی پیدائش تھا‘ وزیر اعظم بنا کرمشرف صاحب نے قوم پر اجتماعی ظلم کیا۔ یہ شخص عہدے سے ہٹا تو توشہ خانے کو لُوٹ کر ملک سے فرار ہو گیا اور پھر اس دھرتی پر اس نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ انہیں چاہیے کہ قوم سے اس غلط بخشی کی معافی مانگیں۔
مشرف صاحب نے یقینا اچھے کام بھی کیے۔ شدید خرابیٔ صحت کی اس صورتحال میں اگر وہ وطن واپس لوٹنا چاہیں تو حکومت کو چاہیے کہ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کرے! یہ ان کا اپنا ملک ہے۔ بڑے میاں صاحب کو انتقام کے بجائے عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ منتقم مزاجی کا انجام ہم حال ہی میں دیکھ بھی چکے ہیں! عمر اور صحت کے جس مرحلے پر سابق صدر اس وقت ہیں‘ مزید جلاوطنی ان کے مصائب میں اضافہ نہ ہی کرے تو بہتر ہے۔ انہیں ایک ایسے مرض نے آگھیرا ہے جو عام ہر گز نہیں۔ اس کا نامAmyloidosisہے۔ ہر دس لاکھ انسانوں میں زیادہ سے زیادہ تیرہ کو یہ بیماری لگ سکتی ہے۔
عامر لیاقت کی وفات اور سابق صدر کی خرابیٔ صحت پر ان کے کسی مخالف کو کوئی سفاک تبصرہ ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ اس کی ڈھیری کہاں بنے گی؟ یہ تو وہ سرنگ ہے جس میں سے سب کو گزرنا ہے۔ '' نہیں نہیں! جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی۔اور لوگ کہیں گے ہے کوئی جھاڑنے والا ؟اور وہ خیال کرے گا کہ یہ وقت جدائی کا ہے۔اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جائے گی۔تیرے رب کی طرف اس دن چلنا ہوگا‘‘ عقلمند وہ ہے جو اپنی عاقبت کی فکر کرے نہ کہ دوسروں کی عاقبت پر تبصرے کرتا پھرے! ایک چینی کی آخری رسوم میں شرکت کا موقع ملا۔ ان کے ہاں بھی قبر پر مٹی ڈالنے کا رواج ہے۔ اس مقصد کے لیے مصنوعی مٹی لائی گئی تھی تا کہ لواحقین کے ہاتھ گندے نہ ہوں۔ مگر افسوس! دفن ہونے والے کو اسی مٹی میں جانا تھا جو اصلی مٹی ہے۔ ''اسی مٹی سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں لوٹائیں گے اور دوبارہ اِسی سے نکالیں گے‘‘۔
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اُوپر اِک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں
No comments:
Post a Comment