تین دسمبر2019ء بظاہر ایک عام سا دن تھا۔ بہت سے دوسرے دنوں کی طرح! اس دن بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معمول کے کام ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر کھلے تھے۔ نجی شعبہ مصروفِ عمل تھا۔ سکولوں میں بچے پڑھ رہے تھے۔ کسان کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ مزدور کارخانوں میں مشقت کر رہے تھے۔ بظاہر یہ دن ہر گز غیرمعمولی نہیں تھا مگر اس دن ایک ایسا کام ہوا جس نے اس ملک کی قسمت پر مہر لگا دی! اُس دن یہ طے ہو گیا کہ سیاست دان کتنے قابلِ اعتماد ہیں! اُس دن یہ فیصلہ ہو گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور سب کچھ ہوگا‘ مگر جمہوریت نام کی کوئی چڑیا نہیں پائی جاتی۔
اُس دن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ بڑے بڑے بارعب اراکین اس کابینہ کے ممبر تھے۔ ان کے جسموں پر لباسِ ہائے فاخرہ تھے۔ وہ جہازی سائز کی شاندار گاڑیوں سے اترے تھے۔ ان کی قیمتی کاروں پر قومی پرچم لہرا رہے تھے۔ ان گاڑیوں میں پٹرول سرکاری خزانے سے بھرا گیا تھا۔ باوردی ڈرائیور تھے۔ یہ معزز اراکین کابینہ میٹنگ کے دوران منرل واٹر پیتے تھے۔ وہی منرل واٹر جو ملک کی 95فیصد آبادی کی استطاعت سے باہر ہے۔ یہ وزیر کل نہیں پیدا ہوئے تھے‘ ان میں اکثریت ان تجربہ کار وزرا کی تھی جو کئی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت تھی یا (ن) لیگ کی یا پیپلز پارٹی کی‘ ان میں سے بہت سے اراکین ہر کابینہ کے رکن رہے تھے۔ انہوں نے زمانے کا سرد و گرم چکھا تھا۔ یہ سیاست اور حکومت دونوں کی نزاکتوں اور باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ سیاہ اور سفید میں فرق ہوتا ہے۔
کابینہ کے اس اجلاس کی صدارت ملک کے وزیراعظم کر رہے تھے۔ یہ وزیراعظم انگلستان کے پڑھے ہوئے تھے۔ یہ اکثر و بیشتر مثالیں دیتے تھے کہ برطانیہ ‘ کینیڈا ‘ امریکا اور دوسرے ملکوں کی جمہوری روایات کیا ہیں۔ یہ تبدیلی کا وعدہ کر کے حکومت میں آئے تھے۔گزشتہ حکومتوں کی آمریت سے تنگ آئی ہوئے متوسط طبقے نے ان کی آواز پر لبیک کہا تھا اور جوق در جوق اُنہیں ووٹ دیے تھے۔
کابینہ کے اجلاس میں معمول کی کارروائی جاری تھی۔ جس مسئلے پر کابینہ کی رائے لینا ہوتی ہے یا منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے‘ اُس مسئلے پر مشتمل ایک مختصر نوٹ ہر رکن کے سامنے رکھا جاتا ہے‘ اس نوٹ کو سمری کہا جاتا ہے۔ سمری بتاتی ہے کہ مسئلے کی نوعیت کیا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے۔ وزیر اعظم سب کی آرا سنتے ہیں‘ یوں کابینہ مسئلے کو دلائل کے ساتھ منظور کرتی یا دلائل کے ساتھ رَد کرتی ہے۔ یہی جمہوری روایت ہے۔ یہی بادشاہت اور جمہوریت میں فرق ہے۔ یہی آمریت اور جمہوری نظام کے درمیان حد فاصل ہے۔ یہاں فردِ واحد کی رائے یا حکم نہیں چل سکتا خواہ وہ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو۔ کابینہ کے ہر رکن کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ پیش کیے گئے مسئلے پر بحث کرے۔ متعلقہ ادارے یا محکمے یا وزارت سے سوالات پوچھے۔ اپنی تسلی کرے اور پھر تجویز سے اتفاق کرے۔ اگر اراکین کی اکثریت اس سے اختلاف کرتی ہے یا وزیراعظم اسے دلیل کے ساتھ اوور رُول کرتے ہیں تب بھی اجلاس کی رُوداد ( منٹس) میں اس کا اختلافی نقطۂ نظر ضرور لکھا جاتا ہے۔ یہ تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ ملکی تاریخ کا ایک باب ہوتا ہے۔
اچانک وزیراعظم نے ایک لفافہ نکالا۔ یہ لفافہ بند تھا۔انہوں نے اسے ہوا میں لہرایا اور کابینہ کے اراکین کو مخاطب کر کے کہا کہ اس کی منظوری دیجیے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس میں کیا ہے؟ کون سا ایشو ہے؟ کس وزارت سے متعلق ہے؟ کس ادارے سے یہ بند لفافہ آیا ہے؟ وزیراعظم بند لفافے کے مندرجات کسی کو دکھانے کے لیے تیار نہ تھے مگر منظوری مانگ رہے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا ہوا ہوگا؟ کابینہ کے اراکین کا کیا ردِ عمل تھا؟ آپ یقینا کہیں گے کہ کوئی شخص بغیر جانے کسی مسئلے سے اتفاق یا اختلاف کیسے کر سکتا ہے؟ ایک اَن پڑھ شخص بھی کاغذ پر انگوٹھا لگاتے وقت پوچھتا ہے کہ اس پر لکھا کیا ہے؟ مگر ایسا نہ ہوا! پچاس پچپن اراکینِ کابینہ میں سے صرف ایک رکن نے کہا کہ اس کی سمری تو پیش نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے اس نے کچھ اور بھی کہا ہو۔ یہ ایک خاتون رکن تھی مگر وزیراعظم نے لفافے کے مندرجات بتانے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ اسے منظور کرو۔ سب نے منظور کر دیا۔ وہ تحریر جو انہوں نے پڑھی ہی نہیں‘ نہ اس کے بارے میں کچھ بتایا گیا‘ منظور ہو گئی!
آپ کا کیا خیال ہے‘ برطانیہ یا امریکہ یا کسی بھی جمہوری ملک میں کبھی ایسا ہوا ہوگا؟ غالباًتاریخ میں ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آیا ہوگا! مگر وہ کابینہ کمزور تھی! جو جرأت سے‘ کامن سینس سے‘ احساسِ ذمہ داری سے یکسر محروم تھی۔ جو فردِ واحد کے ہر حکم کی‘ ہر اشارۂ ابرو کی پابند تھی! کیا ہو جاتا اگر دو یا تین یا زیادہ اراکین کہتے کہ حضور! معاف کیجیے گا یہ ممکن نہیں! جب تک میں‘ یا ہم‘ اس کے مندرجات اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیتے‘ کیسے منظور کر سکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ وزیراعظم استعفیٰ مانگ لیتے؟ وزارت چلی جاتی! تو کیا وزرات جانے سے ان پر فاقہ کشی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا؟ کیا یہ بے گھر ہو جاتے؟ کیا یہ بغیر سواری کے رہ جاتے؟ نہیں! یہ ارب پتی اور کروڑ پتی لوگ تھے! ان کی ملکیت میں جاگیریں‘ گدیاں‘ کارخانے‘ گاڑیاں‘ بینک بیلنس‘ محلات‘ سب کچھ تھا! ان کا مسئلہ صرف یہ تھا کہ یہ حکمران کے سامنے لب کشائی کی جرأت سے محروم تھے۔ یہ ڈرتے تھے کہ وزارتیں نہ چھن جائیں! یہ موم کے پتلے تھے! یہ پرچھائیاں تھیں! یہ حکم کے غلام تھے! ان کی اپنی کوئی رائے نہ تھی! یہ صرف یس سر کہہ سکتے تھے۔ انہوں نے یس سر کہہ کہہ کر ہر کابینہ میں وزارت حاصل کی! شاید انگریزی عہد کی تاریخ میں بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگا! اُس زمانے میں بھی بڑے بڑے کاسہ لیس اور ٹوڈی تھے۔ بڑے بڑے ضمیر فروش اور غلام ابن غلام تھے! مگر شاید کسی نے انگریز بہادر کے سامنے بھی بند لفافے پر یس سر نہ کہا ہو!
اور معاف کیجیے گا! یہ صرف تحریک انصاف کی بات نہیں! اُس کابینہ میں بہت سی پارٹیوں کی نمائندگی تھی۔ اس میں وہ لوگ بھی تھے جو سالہا سال پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میں رہ کر آئے تھے۔ وہاں کے تربیت یافتہ تھے۔ ان میں سے کچھ آج کی کابینہ میں بھی شامل ہیں! کسی کو برا لگے یا اچھا لگے‘ سچ یہ ہے کہ یہ اس کابینہ یا اُس کابینہ کی بات نہیں۔ یہ اس پارٹی یا اُس پارٹی کا معاملہ نہیں! یہ سب سیاستدان تھے! پس ثابت ہوا کہ ہمارے سیاست دان محض ربڑ کی مہریں ہیں! یہ مہر کبھی ایوب خان کے ہاتھ میں رہی‘ کبھی ضیا الحق کے ہاتھ میں! کبھی پرویز مشرف کے ہاتھ میں! کبھی زرداری صاحب اس مہر کے مالک رہے! کبھی میاں صاحب اور کبھی عمران خان! کسی دور میں بھی اس مہر نے کسی کاغذ پر لگنے سے انکار نہیں کیا!
تین دسمبر2019ء کا دن ہماری جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے!
No comments:
Post a Comment