زندگی بسر کرنے کا فارمولا
چیف کمشنر دوست بھی تھا اور برخوردار بھی! یہ کالم نگار کسی دوست یا عزیز کے دفتر جانے سے ہر ممکن حد تک گریز کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں باقاعدہ پروگرام بنا کر احباب، کسی دوست کے دفتر جاتے ہیں تاکہ گپ شپ ہو۔ پھر چائے چلتی ہے۔ کھانے منگوائے جاتے ہیں۔ سائل یا مریض باہر انتظار میں سوکھتے رہتے ہیں۔ مدتوں پہلے جب پہلی بار یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو جانا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں دفتری گپ شپ یا دفتری مہمان نوازی کا کوئی تصور نہیں۔ دفتر کے اوقات میں ذاتی کام کرنا بھی قابل اعتراض ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے افسر امیگریشن لے کر کینیڈا گئے۔ وہاں مشہور عالم فورڈ موٹر کمپنی میں نوکری ملی۔ ایک دن دفتر میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں تنبیہ کی گئی کہ اخبار پڑھنا آپ کا ذاتی عمل ہے‘ اس سے گریز کیجیے۔ ایک اور صاحب دفتری اوقات میں ایک ڈرامے کا چھوٹا سا کلپ دیکھنے کی وجہ سے نوکری ہی سے فارغ کر دیے گئے‘ اور دفتر میں کسی کو بٹھا کر چائے پینے پلانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ چیف کمشنر سے ایک کام تھا۔ وہ ابھی ابھی کہیں سے آیا تھا۔ اس نے فون اٹھایا اور اپنے معاون سے کہا کہ جو ٹیلیفون کالیں چیف کمشنر کے ...