اشاعتیں

ستمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

زندگی بسر کرنے کا فارمولا

چیف کمشنر دوست بھی تھا اور برخوردار بھی! یہ کالم نگار کسی دوست یا عزیز کے دفتر جانے سے ہر ممکن حد تک گریز کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں باقاعدہ پروگرام بنا کر احباب، کسی دوست کے دفتر جاتے ہیں تاکہ گپ شپ ہو۔ پھر چائے چلتی ہے۔ کھانے منگوائے جاتے ہیں۔ سائل یا مریض باہر انتظار میں سوکھتے رہتے ہیں۔ مدتوں پہلے جب پہلی بار یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو جانا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں دفتری گپ شپ یا دفتری مہمان نوازی کا کوئی تصور نہیں۔ دفتر کے اوقات میں ذاتی کام کرنا بھی قابل اعتراض ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے افسر امیگریشن لے کر کینیڈا گئے۔ وہاں مشہور عالم فورڈ موٹر کمپنی میں نوکری ملی۔ ایک دن دفتر میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں تنبیہ کی گئی کہ اخبار پڑھنا آپ کا ذاتی عمل ہے‘ اس سے گریز کیجیے۔ ایک اور صاحب دفتری اوقات میں ایک ڈرامے کا چھوٹا سا کلپ دیکھنے کی وجہ سے نوکری ہی سے فارغ کر دیے گئے‘ اور دفتر میں کسی کو بٹھا کر چائے پینے پلانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ چیف کمشنر سے ایک کام تھا۔ وہ ابھی ابھی کہیں سے آیا تھا۔ اس نے فون اٹھایا اور اپنے معاون سے کہا کہ جو ٹیلیفون کالیں چیف کمشنر کے ...

————نجی شعبہ… منزل ہے کہاں تیری ؟

مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا۔ صرف چار کرسیاں خریدنا تھیں۔عام سی کرسیاں۔ لکڑی کی یا شاید لوہے کی‘ جن کی سیٹ پر نرم فوم لگا ہوتا ہے۔ جس آبادی میں ہم رہتے ہیں‘ اس کے قریب ہی ایک شو روم تھا۔باہر سے کافی شان و شوکت اور تزک و احتشام والا۔ اندر گئے تو فرنیچر سے زیادہ سٹاف تھا۔ کچھ لڑکیاں تھیں جو ادھر ادھر چل پھر رہی تھیں۔ کچھ مرد حضرات تھے جن میں سے کچھ کاؤنٹر پر بیٹھے تھے اور کچھ مختلف مقامات پر کھڑے تھے جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ ہمیں نیچے بیسمنٹ میں لے جایا گیا۔ اپنی استطاعت کے اعتبار سے چار کرسیاں چنیں۔قیمت کی ادائیگی کی۔ پھر ان سے کہا کہ ہمارے گھر بھجوا دیجیے۔ ٹرانسپورٹ کا کرایہ ادا کر دیا جائے گا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ یہ کرسیاں نہیں دی جا سکتیں۔یہ تو فقط نمائش ( ڈسپلے ) کے لیے ہیں۔ آپ کا آرڈر لاہور جائے گا جہاں فیکٹری ہے۔ وہاں یہ بنائی جائیں گی۔پھر فیکٹری والے براہِ راست آپ کے گھر بھیج دیں گے۔ پوچھا‘ کتنے دن لگ جائیں گے؟ بہت اعتماد سے سیلزمین نے کہا کہ بس ایک ہفتہ!ایک ہفتہ گزر گیا۔دوسرے ہفتے کا نصف بھی بیت گیا۔ اب تھوڑی سی فکر لاحق ہوئی۔ ادائیگی کی رسید پر جو فون نمبر درج تھا اس پر فون کیا۔ جو...

ہمارے شہزادے اور شہزادیاں

عالمی برادری طالبان کے ساتھ بات چیت کرے...دنیا نئی حقیقت کا ادراک کرے۔افغانستان سے رابطہ بڑھانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے...افغانستان مشکلات میں ہے‘دنیا کو اس کی مدد کرنی چاہیے... دنیا کے پاس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سوا کیا آپشن ہے ؟ عالمی برادری طالبان سے رابطے استوار کرے...افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرنا ہوں گے۔طالبان کی نیت پر شک کی کوئی وجہ نہیں...دنیا طالبان کو مزید وقت دے۔ افغانستان کو ماضی کی طرح بھلانے کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ سارے بیانات طالبان کے ہو سکتے ہیں مگر  ایسا نہیں ہے۔ یہ بیانات پاکستانی رہنماؤں کے ہیں جو وہ مسلسل دے رہے ہیں۔ نہیں معلوم طالبان تک یہ بیانات پہنچتے ہیں یا نہیں‘ نہیں معلومات ان پُرآشوب دنوں میں وہاں پاکستانی اخبارات جا رہے ہیں یا نہیں‘یا طالبان رہنما ہمارے ٹی وی چینلوں کو دیکھتے ہیں یا نہیں‘ مگر یہ طے ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو ہاتھ جوڑ کر ہمارے رہنماؤں کی منت کریں کہ بس کیجیے ! حضور ! خدا کے لیے بس کیجیے۔ دنیا کو یہ تاثر نہ دیجیے کہ آپ ہمارے سرپرست ہیں۔ ہم بالغ ہیں۔ اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں۔ ہماری وکالت نہ کیجیے کہ اس ط...

منظرنامہ بدل کر رہتا ہے! …

سب سے پہلے گھر میں نازنین اور شاکرہ آئیں۔ دونوں ہم عمر! صبح صبح اکٹھی باہر نکلتیں۔ گلی میں گھومتیں، پھرتیں! مگر آہ تقدیر ایک بڑا سانحہ ہاتھ میں لیے سامنے کھڑی تھی۔ ایک صبح بیگم فجر کی نماز کے بعد، حسب معمول، سیر کے لیے گھر سے نکلیں۔ چار قدم چلی تھیں کہ پر نظر آئے۔ یوں لگا جیسے کسی نے نوچ کر پھینکے ہوں۔ ان کا دل دہل سا گیا۔ آگے بڑھیں تو گلی کے کنارے نازنین ، زخموں سے چُور تڑپ رہی تھی۔ انہوں نے اٹھایا۔ گھر لا کر اس کے زخم دھو رہی تھیں، ساتھ ساتھ روئے جا رہی تھیں۔ بس یہی عالم تھا کہ ان کے ہاتھوں ہی میں اس مظلوم نے جان دے دی۔ اس کی میت انہوں نے ساتھ والے خالی پلاٹ میں باقاعدہ دفن کرائی۔ میں سوتا ہی دیر سے ہوں۔ پو پھٹنے کے بعد! یونیورسٹی کے زمانے میں بھَیڑی عادت رات کو جاگنے کی پڑی تو پھر چمٹ ہی گئی۔ کافی دیر سے اٹھا تو روہانسی آواز میں بولیں ''بہت بڑا ظلم ہوا ہے‘‘۔ دل ہَول گیا۔ پوچھا: کیا ہوا؟ بتایا کہ نازنین کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔ سب کو پڑوسیوں کے سفید بِلّے پر شک تھا۔ اُسی دن سے اُس سفاک بِلّے کا نام اُس ر سوائے زمانہ قاتل کے نام پر رکھ دیا گیا جس نے دارالحکومت میں ایک ل...

اُردو پر رحم کیجیے

یہ حادثہ یا لطیفہ کچھ برس پہلے ہوا۔ اُن دنوں غالباً پروفیسر فتح محمد ملک مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ تھے۔ دفتر کے باہر '' صدر نشین‘‘کا بورڈ آویزاں تھا۔ ان کے گاؤں سے کچھ لوگ ملنے آئے اور آتے ہی کہا کہ آپ تو کہتے تھے آپ ایک ادارے کے چیئرمین ہیں مگر باہر تو کچھ اور لکھا ہے! نہیں معلوم یہ واقعہ درست ہے یا محض افسانہ تراشا گیا مگر سچ یہ ہے کہ کچھ حضرات اُردو کی محبت میں غلو کرتے ہوئے ایک حد سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انگریزی کے جو الفاظ اس قدر عام ہو چکے ہیں کہ دیہات میں بھی بولے اور سمجھے جاتے ہیں‘ ان کو بھی اردو کا لباس پہنانے پر تُلے ہیں۔ یہ لباس فِٹ نہیں آرہا۔ تنگ ہو جاتا ہے یا بہت کھلا۔چند دن پہلے ایک صاحب نے فیس بک پر ایک نئی گاڑی کی تصویر شیئر کی۔ اس کے پیچھے ''اپلائیڈ فار‘‘ کی جگہ پنجابی میں لکھا گیا تھا '' درخواست دتی اے‘‘ اس پر وہ ہاہا کار مچی کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دی۔ مسئلہ یہ اٹھایا گیا کہ درخواست پنجابی کا لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ ہر پنجابی درخواست کا لفظ استعمال کر تا ہے۔ یہ اور بات کہ اب '' اپلائیڈ فار‘‘ بھی عام سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ یہ مضمون لکھنے ک...

who Bothers!!

وہ تو بھلا ہو رضاربانی کا کہ انہوں نے امریکی ارکان کانگرس کی یاوہ گوئی کا بھرپور جواب دیا۔ جس تکبر سے اور جس لہجے میں ان ارکان کانگرس نے پاکستان کے بارے میں بات کی، اس کا فوری نوٹس وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو لینا چاہیے تھا۔ ان ارکان نے اپنی حکومت سے کہا کہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنائے کیونکہ افغانستان میں، بقول ان کے، پاکستان کا کردار دُہرا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعاون بھی کیا اور طالبان کو، بشمول حقانی نیٹ ورک، پناہ بھی دی۔ اس ہرزہ سرائی کا جواب جناب رضا ربانی نے دیا کہ پاکستان امریکی ریاست نہیں‘ ایک خود مختار ملک ہے۔ انہوں نے امریکہ کو یاد دلایا کہ وہ خود افغانستان میں دوغلا کردار ادا کرتا رہا ہے اور دنیا بھر میں اپنے مفاد کے لیے آمروں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ اُدھر تو یہ سب کچھ ہو رہا تھا اِدھر، ہمارے وزیر خارجہ مریدوں کے سروں پر دست شفقت پھیر رہے تھے اور وزیر اعظم پنجاب کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے۔ اس میٹنگ میں ما شاء اللہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی شامل تھے۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری‘ دونوں وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہیں۔ وزیر اعظم کو صوبے کے افسروں کے ساتھ براہ راست میٹنگ ک...

قائدِ اعظم کا ایک سپاہی رخصت ہو گیا

فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات ہے۔ قائد اعظم کا یہ سپاہی، یہ نظریاتی باڈی گارڈ، تحریک پاکستان کا یہ مجاہد تیرہ ستمبر کو اپنی آبائی بستی ڈنگہ ضلع گجرات میں سپرد خاک ہو گیا۔ تحریک پاکستان کے مجاہد وہ اس طرح تھے کہ اس تحریک پر آج تک برابر حملے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے! عرب شاعر نے کہا تھا: أضاعُونی وأیَّ فَتیً أضاعوا  لیومِ کریہۃٍ وسدادِ ثَغــرِ مجھے کھو دیا! اور جنگ کے دن کے لیے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے کیسا زبردست جوان کھو دیا! ڈاکٹر صاحب کی وفات پر زیادہ زور اس ذکر پر دیا جا رہا ہے کہ وہ وفاقی سیکرٹری رہے اور کالم نگار! اقبال نے دربار رسالت میں فریاد کی تھی کہ انصاف فرمائیے! مجھے لوگ غزل گو سمجھ بیٹھے ہیں! من ای میرِ امم داد از تو خواہم مرا یاران غزل خوانی شمردند وفاقی سیکرٹری ایک اینٹ اکھاڑیے تو نیچے سے تین نکلتے ہیں۔ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔ کالم نگار بھی بہت ہیں! مگر صفدر محمود مؤرخ تھے! چوٹی کے محقق! بیسیوں کتابوں کے مصنف اور کتابیں بھی ایسی کہ عرق ریزی اور مشقت...

نئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تقرری

دو دن پہلے صدر پاکستان نے‘ وزیر اعظم کی تجویز پر‘ محمد اجمل گوندل کو نیا آڈیٹر جنرل آف پاکستان مقرر کیا ہے۔ یہ تقرری دو لحاظ سے خوش آئند ہے۔ ایک اس لیے کہ اس آئینی پوسٹ کے لیے ایسے افسر کو منتخب کیا گیا ہے جو آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے محکمے کے اندر موجود تھا اور باقاعدہ ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ دوسرا اس لیے کہ یہ افسر سب سے زیادہ سینئر تھا۔ اور میرٹ پر اسی کا حق بنتا تھا۔ اس سے پہلے کچھ آڈیٹر جنرل ایسے بھی مقرر کیے گئے جو ریٹائر ہو کر گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ وہ تھے جو محکمے سے باہر تھے۔ اور محکمے کی افرادی قوت سے براہِ راست آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ اگرچہ ان میں منظور حسین اور تنویر آغا مرحوم جیسے مردم شناس اور قابل آڈیٹر جنرل بھی ہو گزرے ہیں جو اگرچہ ایک مدت محکمے سے باہر رہے مگر کارکردگی اور سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ منظور حسین نے اپنے عہد میں بدعنوان افسران کو نکال باہر پھینکا۔ یہ اور بات کہ ان کے جانے کے بعد یہ نکالے گئے لوگ‘ سسٹم کی مہربانی سے‘ ایک ایک کر کے واپس آموجود ہوئے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اجمل گوندل سب سے زیادہ سینئر تھے اس لیے ان کے حق میں جو فیصلہ ہوا ہے...

جیو پالیٹکس اور طالبان حکومت…

چین نے آگے بڑھ کر افغانستان کے لیے مثبت اشارے دیے ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو خالص کمرشل اور مالی پہلو ہے۔ ابھی ابتدا میں تو یہ صرف امداد ہے مگر بعد میں صنعتی اور تعمیراتی معاہدے بھی ہو سکتے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ چین افغانستان کو ویکسین کی تیس لاکھ ڈوزز دے گا۔ تین کروڑ ڈالر کی خوراک، ادویات اور سرما کی ضرورت کے آئٹم اس کے علاوہ ہیں۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے‘ جولائی میں طالبان کا اعلیٰ سطحی وفد چین گیا تھا۔ اس وقت چین نے طالبان کو ایک اہم ملٹری اور سیاسی طاقت قرار دیا تھا۔ افغانستان میں معدنی ذخائر ہیں جو تا حال زیر زمین ہیں۔ چین کو امید ہے کہ انہیں نکالنے کے لیے اسے مواقع ملیں گے۔ اس کے علاوہ بھی بزنس کے امکانات، ہر سیکٹر میں، روشن ہیں۔ کوئی ایسا سیکٹر نہیں جس میں افغانستان کو بیرونی سہارے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسرا پہلو چین کے لیے بہت حساس ہے۔ چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ ہے جو چینی ترکستان پر مشتمل ہے۔ یہاں ایغور مسلمان بستے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ چین کا اسّی کلو میٹر مشترکہ بارڈر اسی صوبے کا ہے۔ چترال کے شمال میں جو لمبی پٹی شرقاً غرباً جا رہی ہے، وہ افغانستان...

چاندنی اور دھوپ کو کبھی کوئی روک پایا ہے؟

عربوں کی کہاوت ہے کہ انسان دو طرح کے ہوتے ہیں: فیاض اور بخیل! ایک کہاوت ہمارے ہاں بھی ہونی چاہیے تھی۔ وہ یہ کہ مجاہد اور غازی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم مجاہدوں اور غازیوں کی وہ ہے جو اپنے اوپر ایک خراش تک نہیں آنے دیتے‘ دوسروں کے جگر گوشوں کو میدانِ وغا میں بھیجتے ہیں اور اپنے لخت ہائے جگر کو ایٹلانٹک کے اُس پار، نئی دنیا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں۔ ( اس اثنا میں مغربی تعلیم کی تنقیص جاری رکھتے ہیں۔) واپس آ کر ان مجاہدوں اور غازیوں کے یہ فرزندانِ کرام بزنس کرتے ہیں‘ پھلتے پھولتے ہیں‘ دھن دولت کماتے ہیں۔ یہ مجاہد اور غازی ہر وہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں جس میں کسی مالی یا جانی قربانی کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو۔ کاروبار کرتے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی ہیں۔ کشمیر کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں۔ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی! انگلی تو انگلی ہے ، ناخن تک شہید نہیں ہونے دیتے۔ پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں رکھتے ہیں۔ مجاہد اور غازی بھی کہلواتے ہیں۔ دوسری قسم ان سر فروشوں کی ہے جن کو دنیا سے اتنی ہی غرض ہوتی ہے جتنی مسافر کو سرائے سے۔ یہ دوسروں کو قربانی کے لیے بھیجنے سے پہلے خود میدان میں اترتے...

اور اس پہ یہ مذاق کہ بس ایک ہی قمیض !!

1920ء کے لگ بھگ ہندوستان میں تحریکِ ہجرت شروع ہوئی۔ کچھ مذہبی رہنماؤں نے فتوی دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اس لیے یہاں سے ہجرت کرو؛ چنانچہ لاکھوں مسلمانوں نے گھر بار بیچا اور افغانستان کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔اس تحریک کا انجام المناک ناکامی تھی۔ رہنماؤں میں سے خود کسی نے ہجرت نہ کی۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! مقصد ایک واقعہ کا بیان ہے جو‘ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو غالباً باری علیگ نے لکھا ہے۔ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے کچھ مسلمان جلال آباد کی مسجد میں بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔کچھ مقامی حضرات آئے اور ان سے بات چیت شروع کی۔ انہوں نے بتایا کہ پشتو نہیں جانتے۔ اس پر وہ حیران ہوئے اور تعجب کا اظہار کیا کہ اگر پشتو نہیں جانتے تو قرآن پاک کیسے پڑھ لیتے ہیں ! یہ واقعہ ایک سادہ سی مثال ہے اس بات کی کہ کس طرح مذہب مقامی ثقافت کے ساتھ خلط ملط ہو جاتا ہے یوں کہ بعض اوقات دونوں کو الگ الگ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو تا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 2014ء میں امریکی ریاست میسوری میں پیش آیا۔ مقامی انتظامیہ نے ٹیکسی ڈرائیوروں کے لیے یونیفارم مقرر کی تھی تا کہ عوام پہچان سکیں۔ سفید قمیض اور سیاہ ...

افغانستان … چند معروضات

اتنا سہل نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ اسلام کے حوالے سے ایک ملک چلانا بہت بڑا کام ہے۔ چیلنج کرنے والا! ساری دنیا کی نظریں آپ پر لگی ہیں! وژن چاہیے۔ ایسا وژن جس کی راہ میں آشوب چشم حائل ہو نہ ککرے! سفید موتیا نہ کالا موتیا! شفاف ‘ صحت مند نظر درکار ہے! ایسی نظر جو مسلکوں کے پار دیکھ سکے اور مکاتب فکر اُسے پار دیکھنے سے روک نہ سکیں! طالبان کی خدا مدد کرے اور انہیں مسلک سے اُوپر ہو کر دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے! اگر وہ مملکت کا کاروبار چلانے میں‘ خدانخواستہ‘ خدانخواستہ‘ کامیاب نہ ہو سکے تو الزام اُن پر نہیں آئے گا! میرے منہ میں خاک! اسلام پر آئے گا! سب سے پہلے انہیں طے کرنا ہو گا کہ انکے ستر اسی ہزار جنگجو باقاعدہ فوج میں ضم ہوں گے یا معاشرے میں پھیل کر اپنے اور اپنے خاندانوں کیلئے معاش کا انتظام کریں گے! بیس سال سے جو چھاپہ مار فوج کاحصہ رہے ہوں ان کیلئے دونوں کام آسان نہ ہوں گے! باقاعدہ فوج کی تربیت ایک الگ سائنس ہے اور اس سے بھی بڑی سائنس یہ ہے کہ زمانۂ امن میں اس فوج کو کس طرح مصروف اور تنظیم کا پابند رکھا جائے۔ رہا معاشرے میں پھیل کر معاشی سرگرمی کا حصہ بننا تو یہ اور بھی مشکل ہے‘ اس لیے کہ...

کہانی ابھی نامکمل ہے

اس کا انجام ساری دنیا نے دیکھ لیا۔ جگر کے جن ٹکڑوں کے لیے اللہ کی مخلوق کی گردن پر پاؤں رکھ کر اللہ کی مخلوق کو نچوڑتا رہا، خون پیتا رہا‘ جگر کے ان ٹکڑوں میں سے کوئی کام نہ آیا۔ وہ سب بحر اوقیانوس پار کر گئے اور ایک عشرت بھری لگژری سے بھرپور زندگی گزارنے میں مصروف ہو گئے۔ جن لوگوں کا خون چوستا رہا، وہ اپنی زندگی بھر کی خون پسینے کی کمائی کے پیچھے بھاگتے رہے، پامال ہوتے رہے، ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان کی حیثیت اُس مٹی کی تھی جو پاؤں کے نیچے آتی رہتی ہے۔ کبھی اس مٹی پر بوٹوں والے چلتے ہیں کبھی ڈھور ڈنگر! کبھی اس مٹی کو پانی بہا لے جاتا ہے اور یہ کسی گہرے گڑھے میں جا گرتی ہے‘ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس مٹی کا کوئی پرسان حال کبھی بھی نہیں ہو گا، تو وہ اندھا ہے یا احمق یا مجنون ! اس نے گھر بنایا تو ایسا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لاٹ صاحب کا کلکتہ والا گھر اس گھر کے سامنے چمار گھر لگتا تھا۔ سالہا سال یہ گھر بنتا رہا۔ لوگ اس گھر کو بنتا، اوپر جاتا، چوڑا ہوتا دیکھتے رہے۔ دیکھنے والوں کو اس گھر کے سامنے اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوتا۔ انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اس قصر کے سامنے زمین پر رینگنے والے...