چین نے آگے بڑھ کر افغانستان کے لیے مثبت اشارے دیے ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو خالص کمرشل اور مالی پہلو ہے۔ ابھی ابتدا میں تو یہ صرف امداد ہے مگر بعد میں صنعتی اور تعمیراتی معاہدے بھی ہو سکتے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ چین افغانستان کو ویکسین کی تیس لاکھ ڈوزز دے گا۔ تین کروڑ ڈالر کی خوراک، ادویات اور سرما کی ضرورت کے آئٹم اس کے علاوہ ہیں۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے‘ جولائی میں طالبان کا اعلیٰ سطحی وفد چین گیا تھا۔ اس وقت چین نے طالبان کو ایک اہم ملٹری اور سیاسی طاقت قرار دیا تھا۔ افغانستان میں معدنی ذخائر ہیں جو تا حال زیر زمین ہیں۔ چین کو امید ہے کہ انہیں نکالنے کے لیے اسے مواقع ملیں گے۔ اس کے علاوہ بھی بزنس کے امکانات، ہر سیکٹر میں، روشن ہیں۔ کوئی ایسا سیکٹر نہیں جس میں افغانستان کو بیرونی سہارے کی ضرورت نہ پڑے۔
دوسرا پہلو چین کے لیے بہت حساس ہے۔ چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ ہے جو چینی ترکستان پر مشتمل ہے۔ یہاں ایغور مسلمان بستے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ چین کا اسّی کلو میٹر مشترکہ بارڈر اسی صوبے کا ہے۔ چترال کے شمال میں جو لمبی پٹی شرقاً غرباً جا رہی ہے، وہ افغانستان کا علاقہ واخان ہے‘ جو بدخشان صوبے کا حصہ ہے۔ واخان کا یہ کوریڈور پاکستان اور تاجکستان کے درمیان حائل ہے۔ واخان کا مشرقی کنارہ ہی چینی بارڈر ہے۔ بظاہر تو یہ بارڈر صرف اسی کلو میٹر ہے مگر سنکیانگ میں جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ مبینہ طور پر ہو رہا ہے یا دوسرے لفظوں میں چینی حکومت اور سنکیانگ کے اصل باشندوں ایغور کے مابین جو کشمکش برپا ہے، اس کے حوالے سے یہ اسّی کلو میٹر کا بارڈر حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں سے ETIM یعنی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اپنے خیالات کی رو سے جدوجہد کر رہی ہے۔ چین کا ٹارگٹ یہ ہے کہ اس تحریک کو افغانستان سے مدد نہ ملے۔ یہ بالکل ویسی ہی تشویش ہے جو پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے ہے۔ اس وقت بھی ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں مقیم ہے۔ جولائی میں جب طالبان کی اعلیٰ قیادت نے چین کا دورہ کیا تو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین چین کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اصل میں یہ دونوں ملکوں کا مشترکہ مفاد ہے۔ بدلے میں چین، افغانستان کے اندر بنیادی انسانی حقوق کے مسائل نہیں اٹھائے گا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ طالبان کو، اپنے پہلے دور کے برعکس، انتہا پسند تحریکوں کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلنا پڑے گی۔ یہ ہے جیو پالیٹکس کا وہ پریشر جو ملکوں کو پالیسیاں بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کا مضمون ایک باقاعدہ سائنس ہے اور طالبان کو اس سائنس پر پورا عبور حاصل ہے۔ افغان، طالبان ہوں یا غیر طالبان، ڈپلومیسی ان کی گُھٹی میں پڑی ہے۔ جبھی تو دنیا کی دو طاقتور سامراجی قوتوں کے مابین ڈیڑھ دو سو سال تک جو گریٹ گیم جاری رہی، اس کے عین درمیان، افغانستان نے اپنا تشخص اور اپنی آزادی برقرار رکھی یہاں تک کہ انگریز، بر صغیر سے رخصت ہو گئے اور سوویت یونین بکھر گئی۔ یہ درست ہے کہ انگریزوں اور افغانوں کے مابین جنگیں ہوئیں اور سوویت یونین ستر کے عشرے میں چڑھ دوڑا اور شکست کھا کر واپس ہوا مگر افغانوں کی سفارت کاری مسلمہ ہے۔ سفارت کاری کا یہی تسلسل ہے جس میں طالبان کُھل کر بات نہیں کر رہے اور کچھ سوالوں کے مبہم جوابات دے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے بارے میں ان کے ترجمان نے کہا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس جواب پر حیرت اور افسوس‘ دونوں جائز ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کی چھتری تلے کام کرتی ہے۔ پاکستان کے قدیم ترین انگریزی روزنامے نے سالِ رواں کی ستائیس جولائی کو، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں ننگر ہار کے مشرقی اضلاع میں بسیرا کرتی ہے۔ اسی طرح کشمیر کے متعلق ایک سوال کے جواب میں طالبان کے ترجمان نے اسے بھارت اور پاکستان کا باہمی تنازعہ قرار دیا۔ اس پر خاتون صحافی نے برملا کہا کہ یہ بین الاقوامی معاملہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ بھارت کے ضمن میں افغان حکومت کچھ پتے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہو۔ یہ اور بات کہ سب سے زیادہ امداد دینے والے دونوں ممالک، چین اور پاکستان کو بھارت اپنا دشمن سمجھتا ہے اور انہیں پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
چین اور پاکستان کے بعد افغانستان کا تیسرا بڑا ہمسایہ ایران ہے۔ بدقسمتی سے طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں ایران اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ رہے۔ اس کے کئی اسباب تھے۔ شمالی اتحاد کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ اگست 1998 میں مزار شریف پر طالبان کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد ایرانی قونصل خانے میں دس یا گیارہ سفارت کار اور صحافی قتل ہو گئے۔ ایران نے الزام طالبان پر لگایا۔ طالبان کا موقف تھا کہ یہ قتل اُن سرکش اور بے مہار افراد نے کیے جو ان کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ ایران نے افغان بارڈر پر فوج کھڑی کر دی مگر اقوام متحدہ نے اس کشیدگی کو کم کرایا اور دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات ہوئے۔
خوش قسمتی سے اس بار دونوں ملک بہتر تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ ایران نے امریکی پسپائی اور انخلا پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی ابھی اقتدار سنبھالنے کے مراحل میں ہیں اور ان امور میں مصروف ہیں جو کسی بھی نئے حکمران کے لیے اہم ہوتے ہیں۔ طالبان بھی وہ پہلے والے طالبان نہیں ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار بار بار کیا ہے کہ وہ تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر حکومت کریں گے؛ تاہم مستقبل کے تعلقات، دو چیزوں پر منحصر ہوں گے۔ اول‘ نئی افغان حکومت کا شیعہ کمیونٹی، بالخصوص ہزارہ، کے ساتھ رویہ۔ دوم، ایران، شام و عراق کے لیے افغانستان سے رضاکار حاصل کرتا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مستقبل میں ایران یہ پالیسی جاری رکھے گا اور اگر جاری رکھتا ہے تو طالبان حکومت کا ردِ عمل کیا ہو گا؟
سیاسیات کے طالب علم دو اصطلاحوں سے بخوبی واقف ہیں: Dove اور Hawk‘ فاختائیں اور عقاب سمجھ لیجیے۔ ہر گروہ، ہر پارٹی، ہر حکومت میں کچھ لوگ سخت پالیسیوں کے حامی ہوتے ہیں اور کچھ معتدل یا نرمی کی طرف مائل۔ طالبان کی حکومت میں بھی لا محالہ کچھ Dove ہوں گے اور کچھ Hawk‘ ابھی آغاز میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان کی پالیسیاں کس کروٹ بیٹھیں گی۔ ترجمانوں کی چند پریس کانفرنسوں کی بنیاد پر مستقبل کی حکومت کے متعلق اندازے لگانا دانش مندی نہیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ عقاب غلبہ پائیں گے یا فاختائیں! مغربی ممالک، بشمول ایران، دور بینیں لگا کر دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی، لسانی اور نسلی اقلیتوں کے حوالے سے نئی حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ مستقبل قریب میں ایک یا دو خواتین کو کچھ وزارتیں یا کچھ صوبوں کی حکومتیں دے دی جائیں۔ کھیل کے میدان سے خواتین کو بالکل باہر نکال دینا مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ صرف چین یا پاکستان کی امداد، طویل المیعاد نقطۂ نظر سے، ہرگز کافی نہیں ہو گی۔ امریکہ کے پاس ایک مضبوط لیور بہر طور موجود ہے۔ افغانستان کے ساڑھے نو ارب ڈالر کے ریزرو امریکہ کے پاس ہیں جو لمحۂ موجود میں اس نے بلاک کر رکھے ہیں۔ یورپی ممالک کا منفی رویہ بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے آنے والے مہینوں میں طالبان حکومت کی پالیسیاں غیر متوقع ہو سکتی ہیں اور حیران کُن بھی!!
No comments:
Post a Comment