مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا۔
صرف چار کرسیاں خریدنا تھیں۔عام سی کرسیاں۔ لکڑی کی یا شاید لوہے کی‘ جن کی سیٹ پر نرم فوم لگا ہوتا ہے۔ جس آبادی میں ہم رہتے ہیں‘ اس کے قریب ہی ایک شو روم تھا۔باہر سے کافی شان و شوکت اور تزک و احتشام والا۔ اندر گئے تو فرنیچر سے زیادہ سٹاف تھا۔ کچھ لڑکیاں تھیں جو ادھر ادھر چل پھر رہی تھیں۔ کچھ مرد حضرات تھے جن میں سے کچھ کاؤنٹر پر بیٹھے تھے اور کچھ مختلف مقامات پر کھڑے تھے جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ ہمیں نیچے بیسمنٹ میں لے جایا گیا۔ اپنی استطاعت کے اعتبار سے چار کرسیاں چنیں۔قیمت کی ادائیگی کی۔ پھر ان سے کہا کہ ہمارے گھر بھجوا دیجیے۔ ٹرانسپورٹ کا کرایہ ادا کر دیا جائے گا۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ یہ کرسیاں نہیں دی جا سکتیں۔یہ تو فقط نمائش ( ڈسپلے ) کے لیے ہیں۔ آپ کا آرڈر لاہور جائے گا جہاں فیکٹری ہے۔ وہاں یہ بنائی جائیں گی۔پھر فیکٹری والے براہِ راست آپ کے گھر بھیج دیں گے۔ پوچھا‘ کتنے دن لگ جائیں گے؟ بہت اعتماد سے سیلزمین نے کہا کہ بس ایک ہفتہ!ایک ہفتہ گزر گیا۔دوسرے ہفتے کا نصف بھی بیت گیا۔ اب تھوڑی سی فکر لاحق ہوئی۔ ادائیگی کی رسید پر جو فون نمبر درج تھا اس پر فون کیا۔ جواب ندارد! کئی بار کیا۔ دوسرے دن پھر کیا۔ کئی کوششوں کے بعد ایک خاتون نے فون اٹھایا۔ ساری بات بتائی۔ کہنے لگیں: ہولڈ کیجیے متعلقہ صاحب سے بات کراتی ہوں۔ کافی دیر ہولڈ کیے رکھا۔ متعلقہ صاحب نہ آئے۔ پھر فون خود ہی بند ہو گیا۔ ہم صبر کر کے بیٹھ گئے۔ پورے بیس دن کے بعد ایک بہت بڑا پیکٹ موصول ہوا جس پر فرنیچر والوں کی کمپنی کا نام لکھا تھا۔ہم حیران ہوئے کہ یہ کیسی کرسیاں ہیں۔ جو صاحب‘ لائے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ جوڑنی (اسمبل کرنی) ہیں۔ ہمارا بڑھئی کل آئے گا اور اسمبل کر دے گا۔ دوسرے دن کوئی بڑھئی نہ آیا۔تیسرا دن بھی انتظار میں گزرا۔ چوتھے دن فون کیا تو بتایا گیا کہ آج جمعہ ہے۔ اس کے بعد ہفتہ اور اتوار تعطیل ہے۔ اس لیے پیر کے دن آئے گا۔ پیر کے دن بھی نہ آیا۔ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ منیجر سے بات کرنا چاہی تو اس کا نمبر جو دیا گیا‘ کسی نے نہ اٹھایا۔ مالک کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ کراچی رہتا ہے۔ اس کے بعد ہر ممکن کوشش کی کہ مالک کا فون نمبر یا ای میل ایڈریس مل جائے تو ایک ذمہ دار شہری کا فرض ادا کرتے ہوئے اسے بتایا جائے کہ تمہاری کمپنی میں کیا ہو رہا ہے۔ مگر ہر اہلکار نے ایک ہی بات کہی کہ مالک کا نمبر دینے کی اجازت نہیں۔
یہ صرف ایک نجی کمپنی کا حال نہیں۔ پورا نجی شعبہ غیر ذمہ داری اور نالائقی کا گڑھ بن چکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری ادارے اپنے کارکنوں کو نجی شعبے کی مثال دیا کرتے تھے۔ وعدے کی نجی شعبے میں پابندی کی جاتی تھی۔ جو وقت ڈلیوری کا دیا جاتا تھا‘ اس سے آگے پیچھے ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ مگر آج پاکستان میں نجی شعبہ زوال کا شکار ہے۔ کسی ای میل کا جواب نہیں دیا جاتا۔ فون خال خال ہی اٹھائے جاتے ہیں۔ ہیلپ لائنیں کسی قسم کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں نجی شعبے کے زوال کا سب سے بڑا سبب مالکان تک نارسائی ہے۔ ان لوگوں نے بھی اپنا تنظیمی ڈھانچا بیورو کریٹک بنا لیا ہے۔ نیچے والے مالک تک کوئی شکایت نہیں پہنچنے دیتے۔ کوشش کر کے مالک سے رابطہ ہو جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی شعبے کے مالکان نرم گفتار بھی ہیں اور ایکشن بھی فوری لیتے ہیں مگر سو شکایتوں میں شاید ایک کا بھی انہیں علم نہیں ہوتا۔ اب آن لائن خریداری کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس میں تو نااہلی پورے زور وشور سے ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ آپ جو آرڈر دیں گے‘ چیز اس کے الٹ آئے گی۔ اب اسے واپس کرنا‘ یا دوبارہ منگوانا یا رقم واپس لینا‘ یہ سارا ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔ کتابوں کی سب سے بڑی کمپنی کراچی میں ہے۔اس کی ویب سائٹ پر جائیے تو ایک کالم کتاب درآمد کرنے کا بھی نظر آئے گا۔ اس پر آرڈر دیا۔ہفتے گزر گئے۔ کوئی جواب ندارد۔ ہزار دقت کے ساتھ کسی چیف منیجر ٹائپ صاحب سے بات ہوئی‘ متاسف ہوئے۔ فرمانے لگے‘ ابھی ایک صاحب آپ سے رابطہ کریں گے۔ تین ماہ ہونے کو ہیں‘ کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ امید ختم کر دی۔ خوش قسمتی سے ایک دوست امریکہ سے آرہے تھے۔ انہوں نے کرم فرمائی کی۔ مطلوبہ کتاب لے آئے۔
سوال اُٹھتا ہے کہ اگر نجی شعبہ اتنا ہی نا اہل ہے تو چل کیسے رہا ہے ؟ کمپنیاں بند کیوں نہیں ہو رہیں ؟بہت اہم سوال ہے اور اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں۔ جواب یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت'' مٹی پاؤ‘‘ کے سنہری اصول کی پیروکار ہے۔ تاخیر ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں۔ خریدی ہوئی شے واپس نہیں لے رہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ شے میں نقص نکل آئے تو کم ہی لوگ جا کر بدلوانے کی کوشش کریں گے۔ مالک تک شکایت پہنچانے کی کوشش کوئی نہیں کرتا؛ چنانچہ نجی شعبے نے اپنے آپ کو گاہکوں کے عمومی مزاج کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ جن کمپنیوں یا جن برانڈز کی خریدار صرف خواتین ہیں‘ ان میں دھاندلی کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر خواتین جن سے خریداری کرتی ہیں یا ملبوسات اور زیورات بنواتی ہیں‘ ان کے ہاں وعدہ ایفا کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ پھیرے ڈلواتے رہتے ہیں۔ بیچاری عورتیں پھیرے ڈالتی رہتی ہیں۔
وفاقی دارالحکومت ( جڑواں شہروں) میں اس وقت لاتعداد پاکستانی کمپنیاں اور پاکستانی برانڈز کام کر رہے ہیں۔ ان سب میں سے صرف اور صرف ایک پاکستانی برانڈ یا کمپنی ایسی ہے جو خریدا ہوا مال واپس لے کر رقم واپس کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے ہاں ''ریفنڈ‘‘ کرنے کی اجازت ہے نہ تصور! ایک کمپنی اور بھی ہے جو چیز واپس لے کر رقم واپس کر دیتی ہے مگر وہ پاکستانی نہیں‘ برطانوی ہے۔ نجی شعبہ ایک طرف تو گاہکوں کو اپنی نااہلی‘ نالائقی اور کاہلی کی وجہ سے پریشان کر رہا ہے اور دوسری طرف ہٹ دھرمی اور دھاندلی کا یہ عالم ہے کہ خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو سکتا۔کسی مہذب ملک میں اس سینہ زوری کا وجود ناممکن ہے۔ ان ملکوں میں خریدا ہوا مال واپس کرنا خریدار کا بنیادی حق ہے۔ واپس کرنے کی وجہ بتانا بھی لازم نہیں! اگر شے استعمال نہیں ہوئی اور رسید محفوظ ہے تو چھ ماہ یا سال کے بعد بھی واپس کر لی جاتی ہے۔ صارفین کا یہ مکروہ استحصال صرف پاکستان میں ہورہا ہے۔ اس کی ذمہ داری گاہکوں پر بھی ہے۔ اگر وہ اس شق پر اصرار کریں اور بصورتِ دیگر خریداری کرنے سے انکار کر دیں تو یہ کمپنیاں تیر کی طرح سیدھی ہو جائیں۔ ایک معروف پاکستانی برانڈ سے‘ جو مردانہ ملبوسات فروخت کرتا ہے‘ کالم نگار نے کچھ اشیا خریدیں۔ گھر آکر دیکھا تو ٹھیک نہیں لگیں‘ دوسرے دن واپس کرنے گیا تو بتایا گیا کہ مال تبدیل کرا سکتے ہیں‘ واپس نہیں کر سکتے۔ خاموشی سے واپس آگیا۔ کافی محنت کے بعد‘ بہ ہزار دقت‘ مالک کا ای میل ایڈریس ملا۔ اسے لکھا کہ یہ میرا بنیادی حق ہے۔ نہ ملا تو عدالت جاؤں گا اور سوشل میڈیا میں طوفان کھڑا کر دوں گا۔ تیسرے دن فون آیا کہ واپس کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے ... مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment