یہ حادثہ یا لطیفہ کچھ برس پہلے ہوا۔ اُن دنوں غالباً پروفیسر فتح محمد ملک مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ تھے۔ دفتر کے باہر '' صدر نشین‘‘کا بورڈ آویزاں تھا۔ ان کے گاؤں سے کچھ لوگ ملنے آئے اور آتے ہی کہا کہ آپ تو کہتے تھے آپ ایک ادارے کے چیئرمین ہیں مگر باہر تو کچھ اور لکھا ہے!
نہیں معلوم یہ واقعہ درست ہے یا محض افسانہ تراشا گیا مگر سچ یہ ہے کہ کچھ حضرات اُردو کی محبت میں غلو کرتے ہوئے ایک حد سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انگریزی کے جو الفاظ اس قدر عام ہو چکے ہیں کہ دیہات میں بھی بولے اور سمجھے جاتے ہیں‘ ان کو بھی اردو کا لباس پہنانے پر تُلے ہیں۔ یہ لباس فِٹ نہیں آرہا۔ تنگ ہو جاتا ہے یا بہت کھلا۔چند دن پہلے ایک صاحب نے فیس بک پر ایک نئی گاڑی کی تصویر شیئر کی۔ اس کے پیچھے ''اپلائیڈ فار‘‘ کی جگہ پنجابی میں لکھا گیا تھا '' درخواست دتی اے‘‘ اس پر وہ ہاہا کار مچی کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دی۔ مسئلہ یہ اٹھایا گیا کہ درخواست پنجابی کا لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ ہر پنجابی درخواست کا لفظ استعمال کر تا ہے۔ یہ اور بات کہ اب '' اپلائیڈ فار‘‘ بھی عام سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ یہ مضمون لکھنے کی تحریک یوں ہوئی کہ ایک صاحب نے ''کتاب چہرہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ کافی دیر سوچتا رہا کہ یہ کتاب چہرہ کیا ہے۔ اچانک خیال آیا کہ موصوف نے فیس بک کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور یوں ڈھالا ہے کہ فیس رہا نہ بُک ہی ہاتھ آئی۔
اردو کی تشکیل لشکروں میں ہوئی۔ ان لشکروں میں ترک تھے‘ تاجک بھی‘ ایرانی بھی‘ مقامی ہندوستانی بھی جن کی کئی زبانیں تھیں۔ بعد میں انگریز بھی آملے؛ چنانچہ اُردو کی سب سے بڑی صفت ہی یہ ہے کہ وہ ہر زبان کے الفاظ اپنے اندر جذب کرتی ہے اور یوں جذب کرتی ہے کہ وہ الفاظ اُردو کے ہو جاتے ہیں۔ مثلاً فارسی سے موازنہ کر کے دیکھ لیجیے جو مزاج اور لغت کے اعتبار سے اُردو کی بہن ہے۔ اُردو نے ریل‘ ریلوے سٹیشن‘پنسل‘ ربڑ‘آئس کریم اور ٹکٹ کے الفاظ اپنے اندر سمو لیے۔ اَن پڑھ بھی یہی الفاظ بولتا ہے۔ فارسی والوں نے بالترتیب ان کے لیے قطار‘ایستگاہِ راہِ آہن‘ مداد‘ مداد پاک کُن‘ بستنی اور بلیط کے الفاظ تراشے۔ لیٹ کا لفظ دیکھیے‘ یعنی تاخیر۔ لوک گیت تک میں یہ لفظ استعمال ہو رہا ہے
سُچی پلیٹ ہووے
اج مرے ماہی آناں‘ گڈی کدے نہ لیٹ ہووے
آج بیکری‘ جنرل سٹور‘ کیش اینڈ کیری‘ ڈرائی کلین‘ بورڈ‘ لیبارٹری‘ پراپرٹی ڈیلر‘رپورٹ اور سینکڑوں دوسرے الفاظ انگریزی سے آکر اس کٹھالی(melting pot)میں حل ہو چکے ہیں۔ کھیلوں کا شعبہ دیکھیے۔ کرکٹ‘ گالف‘ فٹ بال‘ وکٹ‘ گول‘ ٹاس‘ ایل بی ڈبلیو‘ باؤلنگ‘ بیٹنگ‘ فیلڈنگ اُردو میں داخل ہو چکے ہیں۔کمپیوٹر میں فیس بک سب سمجھتے ہیں۔ لائیک‘ ڈیلیٹ‘ وٹس ایپ‘ بلاک‘ اَیڈ کرنا‘ عام سمجھے جاتے ہیں۔ برقی خط نہیں چلا۔ ای میل چل گئی۔ علاج معالجے کی دنیا دیکھ لیجیے۔ طبیب یا حکیم کا لفظ ڈاکٹر کے لیے نہیں چل سکا۔ آپریشن‘ بائی پاس‘ سٹنٹ‘ نرس‘ ڈسپنسر‘ کمپاؤنڈر‘ لیبارٹری‘ ایکس رے‘ ٹی بی‘ فلو‘ ملیریا اُردو کا حصہ بن چکے۔ تعلیم کے شعبے میں سرٹیفکیٹ‘ پاس‘ فیل‘ کالج‘ سکول‘ ڈیٹ شیٹ‘ رول نمبر‘ سپلی‘ ڈویژ ن‘ کاپی‘ پیپر‘ فوٹو کاپی‘ پراکسی‘ کینٹین‘ یونیفارم‘اسمبلی‘ مانیٹر‘ پی ٹی‘ پروفیسر‘ہر خاص و عام کو سمجھ میں آتے ہیں۔ سیاست میں پارلیمنٹ‘ ہارس ٹریڈنگ‘ اپوزیشن‘ ووٹ‘ الیکشن‘ بجٹ‘سینیٹ‘کورم‘ چیمبر‘ چیف وہپ‘ سپیکر‘ اردو اخبارات کا لازمی حصہ ہیں۔ گاؤں میں تھریشر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالی‘ ٹیوب ویل‘ ڈیم‘ روڈ‘ رِگ‘ہوٹل‘ سٹارٹ‘ بریک‘ پنکچر‘ پریشر‘ ٹائل‘ ریل گڈی‘ منی آرڈر‘ پارسل‘ کنکشن‘ بِل‘ مس کال‘ آپریشن‘ پرائمری‘ مڈل‘ ہائی‘ ہر کسان‘ ہر عورت گفتگو میں استعمال کرتی ہے۔ پولیس کا محکمہ دیکھیے۔ انسپکٹر‘ کانسٹیبل ایف آئی آر‘ چالان‘ جیل‘ وارنٹ‘ رجسٹریشن‘ کیس‘ اردو لغت میں داخل ہو چکے ہیں۔ فیشن‘ میک اپ‘ لِپ سٹک‘ کریم‘ پاؤڈر‘ فاؤنڈیشن‘ رِنگ‘مسکارا‘ میک اپ کِٹ‘ یہ الفاظ ہر دکاندار اور ہر عورت ہر روز بولتے ہیں۔ کتنی عورتیں بناؤ سنگھار کا لفظ استعمال کرتی ہیں؟ شائد ہی کوئی کرتی ہو۔ ذرائع آمد و رفت میں انگریزی کے الفاظ پر غور کیجیے جو آج ناخواندہ افراد بھی سمجھتے ہیں اور بولتے ہیں۔ پاسپورٹ‘ ویزا‘ بورڈنگ کارڈ‘ ایئر ہوسٹس‘ پائلٹ‘ ٹرانزٹ‘ سیٹ‘ ریزرویشن‘ لاؤنج۔ ڈرائیور‘ گارڈ‘ بوگی‘ بس‘ ہارن‘ ویگن‘ کار‘ جیپ‘ ٹرک‘ موٹر‘ ٹریلر‘ گیراج‘ ٹیکسی‘ میٹر‘ ٹائر‘ ٹیوب‘ سائیکل‘ کلچ۔ مکینک‘ آئل‘ فلٹر‘ اور بے شمار دوسرے الفاظ!
سوال یہ ہے کہ انگریزی کے سینکڑوں ہزاروں الفاظ جو اردو میں ہر روز‘ ہروقت‘ ہر دم بولے جاتے ہیں ان میں سے کس کس کا اردو متبادل ڈھونڈیں گے اور تراشیں گے؟ کتنی ہی کوششیں ناکام ہو چکیں۔ آلۂ مکبر الصوت نہیں چل سکا‘ لاؤڈ سپیکر چل گیا۔ آلۂ مقیاس الحرارت فیل ہو گیا۔حرارت پیما اور تپش پیما بھی نہیں چلا۔ سب تھرمامیٹر کہتے ہیں۔ شفاخانہ نہیں چل سکا۔ ہسپتال چل گیا۔ جرّاحی کوئی نہیں کہتا۔ سب آپریشن کہتے ہیں۔ تصویر نہیں کہتے‘ فوٹو سب کہتے ہیں:
ہٹی تو لَے سردا
فوٹو تے میں دے جاساں‘
فوٹو گلّاں تے نئیں کردا
ذیابیطس کتنے لوگ کہتے ہیں ؟ سب یہی کہتے ہیں کہ شوگر ہو گئی۔ اب آپ کیا یہ کہیں گے کہ چینی ہو گئی یا کھانڈ ہو گئی یامیٹھا ہو گیا ؟ ٹی وی ڈرامے کو کھیل کوئی نہیں کہتا‘ سب ڈرامہ کہتے ہیں۔ کوریئر سروس کو پیغام رسانی کی خدمت کون کہتا ہے ؟ اے سی کو ہوا کَش یا باد گرداں کیوں نہیں کہتے؟ ہزار کوشش کے باوجود معتمد کا لفظ مقبول نہیں ہو سکا‘ سیکرٹری ہی کہتے ہیں۔ جج کو منصف یا قاضی کوئی نہیں کہہ رہا۔ ہاں شاعری یا ادبی نثر میں لکھتے ہیں مگر عام لوگ‘ گلی محلے کے لوگ‘ جج ہی کہتے ہیں۔ سپروائزر کو نگران کوئی بھی نہیں کہتا۔ خواب گاہ کا لفظ رہ گیا۔ بیڈ روم کا لفظ عام ہو گیا۔ گیٹ کو گاؤں میں بھی پھاٹک کوئی نہیں کہتا۔ یہ لفظ ریلوے کے پھاٹک کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔مال روڈ کو شاہراہ ٔمال کوئی نہیں کہے گا۔ چیک بُک کو کیا کہیں گے؟ آن لائن کا لفظ بچے بچے کو سمجھ میں آنے لگا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کا ترجمہ کر کے زبردستی کریں گے تو کوئی نہیں قبول کرے گا۔ اردو کا دامن وسیع ہو رہا ہے۔ ہو چکا ہے۔ رجعت قہقری ناممکن ہے۔ جو کوشش کرے گا‘ ناکام ہو گا۔ یہی اردو کا وصف ہے جس کی وجہ سے یہ زبان جنوبی ایشیا کے علاوہ بھی پوری دنیا میں بولی‘ سمجھی اور لکھی جا رہی ہے۔ اردو کی اس صفت کا مقابلہ اردو‘ فارسی‘ ترکی یا کوئی اور زبان نہیں کر سکتی۔ ان زبانوں میں اجنبی الفاظ کی بھرمار ہے۔ فارسی میں سٹیشنری کو لوازم التحریر کہتے ہیں یا نوشت افزار ! اردو نے سٹیشنری کا لفظ جذب کر لیا۔
اس لیے اُردو کے نادان دوستوں کی خدمت میں ادب و احترام سے گزارش ہے کہ معاملے کو آمد تک ہی رہنے دیجیے۔ آورد کے تکلف میں نہ پڑیے۔ فیس بک‘ میسنجر‘ بلاگ‘ ای میل‘ فارورڈ‘ ڈیلیٹ‘ سکرین‘لائیک پاس ورڈ‘ لاگ آؤٹ‘ بلاک‘ چَیٹ‘سیٹنگ‘ اکاؤنٹس‘ویب سائٹ‘ پروفائل‘ سٹیٹس‘ ڈاؤن لوڈ‘ اَپ لوڈ‘ وڈیو‘ ڈیٹا‘ یہ الفاظ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ یا تو ہم اتنے لائق فائق ہوں کہ ایسی ایجادات خود کریں۔ایسا کر سکتے تو آج دنیا بھر میں اصطلاحات اُردو کی چلتیں! میخائیل کلاشنکوف نے جو نئی طرز کی گن ایجا د کی اسے آج پوری دنیا میں کلاشنکوف کہتے ہیں۔ اپنا نام بھی زندہ کر گیا اور اپنے ملک کا بھی! کب تک ترجموں کا سہارا لیں گے ؟ جہاں اس وقت تشریف فرما ہیں‘ دفتر میں یا گھر میں یا بازار میں‘ اِدھر اُدھر نظر دوڑائیے۔ کون سی شے ہم نے ایجاد کی ہے ؟ اپنے آپ پر رحم کیجیے اور اردو پر بھی !
بشکریہ روزنامہ دنیتا
No comments:
Post a Comment