ہلکی ہلکی بارش تھی۔ مارچ کے ابتدائی دنوں کا گلابی جاڑا بہار کی خبر دے رہا تھا۔ میں اور بیگم لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ٹی وی پر ایک ٹاک شو کی لڑائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے!
اچانک لائونج میں روشنی بھر گئی۔ جیسے دن نکل آیا ہو۔ پھر یہ روشنی‘ دیکھتے دیکھتے‘ ایک بے پناہ قسم کے نور میں بدلنے لگی۔ ایسا نور آج تک جو دیکھا نہ تصوّر میں آیا۔ ایک نورانی مخلوق ہمارے سامنے کھڑی تھی۔ لائونج کے ارد گرد کی دیواریں اپنا وجود کھو چکی تھیں یا ہماری نظریں ان دیواروں سے ماورا دیکھنے لگی تھیں۔ اس مخلوق کے پَر‘ ایک افق سے دوسرے افق تک احاطہ کر رہے تھے۔
ایک پُر سکون‘ پیار بھری آواز‘ اس نورانی ہستی کے منہ سے نکلی:
''اٹھیے! ہمارے ساتھ چلیے‘‘
''میری بیگم چیخی۔ نہیں‘ نہیں! آپ انہیں نہیں لے جا سکتے!‘‘
''نہیں!! بی بی! گھبرائو مت! میں فرشتہ ہوں مگر موت کا فرشتہ نہیں! تمہارے میاں کو غالبؔ اور اقبالؔ نے عالمِ بالا میں بلایا ہے۔ ان سے ملاقات کر کے واپس آ جائیں گے! میں خود چھوڑ جائوں گا!‘‘
ایک غیبی قوت میرے اندر بھر گئی۔ میں فرشتے کے ساتھ‘ اڑنے لگا۔ کیسے؟ نہیں معلوم! ثانیے تھے یا دن! ہفتے تھے یا مہینے! کچھ پتہ نہ چلا۔ وقت ماپنے کا موجودہ پیمانہ‘ ہماری زمین اور ہماری اس عارضی زندگی ہی سے وابستہ ہے؎
بچا کر بھی کہاں لے جا سکیں گے وقت کو ہم
یہیں رہ جائیں گے ہفتے مہینے سال سارے
فضائیں نیچے رہ گئیں۔ خلائوں کو چیرتے ہم آسمانوں میں پہنچے۔ یہ چوتھا آسمان تھا جہاں عظیم الشان پروں والا فرشتہ رکا۔ میں بھی رک گیا کہ مجھے تو اپنے رکنے یا چل پڑنے پر اختیار ہی نہ تھا! ایک بہت بڑا مکان سامنے تھا۔ چار دیواری کا انت‘ کونا‘ نظر نہیں آ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا مکان وسعتِ نظر تک پھیلا ہوا ہے۔ صدر دروازے پر نام کی تختی لگی تھی ''اقبالؔ منزل‘‘ ! فرشتے نے گھنٹی بجائی‘ ایک مخلوق باہر نکلی!
''علّامہ کی خدمت میں حاضر ہونا ہے۔ انہوں نے ایک حکم دیا تھا۔ تعمیل کی رپورٹ دینے حاضر ہوا ہوں!‘‘
اس مخلوق نے جو علامہ کی خدمت گار لگتی تھی بتایا کہ مرزا غالب تشریف لائے تھے۔ علامہ انہیں رخصت کرنے گئے ہیں۔ مگر واپسی تاخیر سے ہو گی۔ فرما رہے تھے کہ آسمانِ پنجم پر اپنے مرشد رومی کی خدمت پر حاضری دینے جائیں گے۔‘‘
''اس شاعر کو اندر بٹھا لو! علامہ نے اسے یاد فرمایا تھا۔ اسے میں زمین سے اٹھا کر لایا ہوں! علامہ جب اسے جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے تو میں آ کر لے جائوں گا! بیوی اس کی رو پیٹ رہی تھی۔‘‘
پیش کار مجھے اندر لے گیا۔ رہائش گاہ تھی یا عجوبہ! بے شمار باغ تھے۔ ایک ایک باغ اتنا وسیع کہ بیان سے باہر! عجیب چیز یہ دیکھی کہ ہر باغ علامہ کی کسی تصنیف کے نام پر تھا۔ ایک باغ کا نام بالِ جبریل تھا۔ ایک کا پیامِ مشرق! جس چمنستان کا نام جاوید نامہ تھا وہ کئی جہانوں پر مشتمل تھا۔ میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا!
اچانک فضا میں خوشبو پھیل گئی۔ ہوا کی لہریں مترنم ہونے لگیں! پیش کار نے سرگوشی کی... ''علامہ تشریف لا رہے ہیں...‘‘ علامہ کشمیری دھسّہ اوڑھے‘ با وقار قدموں سے چلتے آ رہے تھے۔ عالم بالا بھی کیا عالم ہے! جہاں سے علامہ گزرتے‘ درختوں کی شاخیں جھک جاتیں‘ طائر سلامی دیتے! علامہ کو اتنا قریب دیکھ کر آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ ایک ملائمت تھی ان کے ہاتھوں میں۔ میرا ہاتھ یک دم ایک خوشبودار شفافیت سے لبریز ہو گیا۔
علامہ دیوان خانے میں بیٹھے۔ میں ایک طرف دست بستہ کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا۔ فرمایا ... ''میاں! تم شعر خوب کہتے ہو۔ ہمیں پسند آئے۔ ایک کام ہے! سوچا تمہارے ہی ذمے لگائیں۔ یہ آئیڈیا مرزا غالب کا ہے۔ انہی کا حکم ہے جو میں بجا لا رہا ہوں! ہم نے ایک پینل بنایا ہے۔ کچھ موضوعات پر بحث کرنے کے لیے۔ مرزا غالب نے مرشدِ رومی کو راضی کیا ہے کہ وہ اس پینل کی قیادت فرمائیں۔ میں ہوں گا‘ مرزا غالب ہوں گے اور حضرت مولانا روم! یہ بحث ہم کسی ٹی وی چینل پر کرنا چاہتے ہیں تا کہ الیکٹرانک میڈیا کے طفیل پاکستان کے لوگ بالخصوص اور دنیا بھر کے شائقینِ علم و ادب اسے سن سکیں اور اس سے استفادہ کریں۔ یہ کام تم نے کرنا ہے۔ زمین پر واپس جائو۔ اینکر پڑھا لکھا ہو۔ چینل معروف اور درجۂ اوّل کا ہو۔ ریکارڈنگ یہیں ہمارے باغات میں ہو گی!‘‘
ابھی علامہ کا ارشاد ختم ہی ہوا تھا کہ عظیم الشان پروں والا فرشتہ نمودار ہوا مجھے لیا اور بغیر کسی تمہید یا گفتگو کے ہم واپس زمین کی طرف چل دیئے۔ گھر کے باہر چھوڑ کر فرشتہ غائب ہو گیا۔ ہاں جاتے ہوئے اس نے اتنا کہا کہ جیسے ہی چینل اور اینکر کا انتخاب ہو گا‘ وہ لینے آ جائے گا!
بادی النظر میں یہ مہم حد درجہ سہل لگی! کون سا اینکر ہو گا اور کون سا چینل ہو گا جو اس عظیم الشان پینل کی بحث نشر کرنے کے لیے بے تاب نہ ہو گا! واہ ! واہ! سبحان اللہ! رومیؔ‘ غالبؔ اور اقبالؔ ! اللہ دے اور بندہ لے!
مگر یا وحشت! یہ کیا ہو رہا تھا! سب سے پہلے ایک مشہور و مقبول اینکر سے بات کی تو اس نے کسی مسرت یا جوش کا اظہار کیے بغیر‘ صرف یہ کہا کہ ہاں! اس پر سوچا جا سکتا ہے! مجھ پر جیسے اوس پڑ گئی! دوسرے اینکر نے کہا کہ میاں! ریٹنگ کا مسئلہ ہے!
چند دن میں میرا دماغ ٹھکانے آ چکا تھا۔ کوئی اینکر کہتا تھا کہ یار یہ مشاہیر تو ہیں‘ مگر یہ لڑنے والے نہیں! ایک کا اعتراض تھا کہ تینوں مرد ہیں۔ ایک خاتون بھی ہوتی تو پروگرام کر لیتے۔ ایک نے شرط عائد کی کہ دوران گفتگو‘ مرزا غالبؔ اپنا جوتا اتار کر میز پر رکھیں تو پروگرام ہر طرف آگ لگا دے۔ یہ بیہودہ تجویز سن کر میں غصّے سے باہر آ گیا۔ اینکرز کی زیادہ تعداد وہ تھی جنہوں نے رومیؔ‘ غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام کو کبھی ہاتھ تک نہ لگایا تھا! یہ سارے اینکر کروڑ پتی تھے۔
ہفتوں ٹی وی چینل سٹیشنوں کے ارد گرد جوتے چٹخاتا رہا۔ ایک اینکر میرا کلاس فیلو تھا۔ اور بچپن کا دوست! اس کے پاس جا کر پھٹ پڑا۔
''تم لوگوں میں خدا کا خوف نہیں! رومیؔ ‘ غالبؔ اور اقبالؔ کو ایک گھنٹے کا پروگرام نہیں دے سکتے!...‘‘
اس نے چائے منگوائی! کہنے لگا:
''میاں ! سمجھنے کی کوشش کرو! ہم اینکر جو ہیں‘ ہم اصل میں دکان دار ہیں! دکان داروں سے بھی بڑھ کر! ہم یہ نہیں دیکھتے کہ پروگرام میں بلایا جانے والا کتنا بڑا دانش ور ہے یا عالم یا سکالر! ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ جھگڑا کون کرے گا! گالی کون دے گا‘ چیخے گا کون‘ جوتا میز پر کون رکھے گا‘ آواز کس کی بلند ہو گی‘ اعصاب کس کے مضبوط ہوں گے‘ طعنے کون دے گا‘ تیلی کون لگائے گا‘ جلتی پر تیل کون ڈالے گا! جھاگ کس کے منہ سے نکلے گی! گلے کی رگیں کس کی پھولیں گی! یہاں غالب‘ رومی اور اقبال کو کون پوچھے گا میاں! ناظرین کا ذوق تو پست تھا ہی! ہم اینکروں نے اس ذوق کو مزید پستی کی طرف دھکیلا ہے! ریٹنگ کے لیے! محض ریٹنگ کے لیے! یہ ریٹنگ ایک آگ ہے جو ہم اینکر دن رات کھا رہے ہیں۔ ہمارے پیٹ میں روٹی نہیں! ریٹنگ کے شعلے ہیں! ہمیں رومی‘ غالب اور اقبال نہیں! ہمیں ماروی سرمد‘ خلیل الرحمن قمر اور ریشم درکار ہیں۔ یہاں میرا کی انگریزی زیادہ اونچی ریٹنگ لاتی ہے۔ کیا تم نے وہ منافقت بھرا تبسّم کبھی نہیں نوٹ کیا جو ٹاک شو پر ہونے والی لڑائیوں کے دوران ہمارے ہونٹوں پر رقص کرتا ہے؟
No comments:
Post a Comment