امریکہ اور میکسیکو کے درمیان واقع سرحد تین ہزار ایک سو پچاس کلومیٹر طویل ہے۔ دنیا کے کوئی سے دو ملکوں کے درمیان یہ دسواں طویل ترین بارڈر ہے۔ ہر سال 99 کروڑ افراد اس پر آتے اور جاتے ہیں۔
یہ سرحد جتنی طویل ہے۔ اتنی ہی پراسرار ہے۔ دونوں ملکوں کے جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت سے کم نہیں! دونوں ملکوں کے مافیا یہاں سرگرم ہیں۔ قتل، منی لانڈرنگ، اسلحہ کی سمگلنگ، منشیات کی ٹریفک، اغوا برائے تاوان، دلّالی، دستاویزات کے بغیر آمدورفت، قمار بازی، غرض ہر قسم اور ہر نوعیت کے جرائم یہاں سرزد کیے جاتے ہیں۔
ان جرائم کا ایک دلچسپ شاخسانہ میکسیکو میں دیکھنے میں آیا۔ میکسیکو کی حکومت جب اپنے ملک میں اس مافیا کے سرغنوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو وہ چھپ جاتے اور ہزار کوشش اور تمام حکومتی مشینری کی کاوشوں کے باوجود پکڑے نہ جاتے۔ وجہ یہ تھی کہ اندرون ملک، دیہی علاقوں کے مقامی لوگ ان سرغنوں کی پوری پوری حفاظت کرتے۔ انہیں پناہ گاہیں فراہم کرتے، انہیں حکومتی کارندوں سے پوشیدہ رکھتے اور ان کے رازوں کی حفاظت کرتے۔ وجہ کیا تھی؟ دنیا میں کوئی شے مفت نہیں میسّر آتی۔ احسان کیا جائے تو تبھی بدلے میں احسان ملتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ مافیا ان علاقوں کے لیے وہ تمام فلاحی کام سرانجام دیتے جو حکومت اپنی نا اہلی اور بد انتظامی یا غلط ترجیحات کی وجہ سے نہ کر پاتی۔ مجرموں کا یہ گروہ لوگوں کے لیے شاہراہیں بناتا، ہسپتال اور سکول فراہم کرتا اور ہر مشکل میں ان کی مدد کرتا۔ مقامی لوگ اس قدر احسان مند ہو جاتے کہ انہیں اپنا سمجھ کر، انہیں پناہ گاہیں فراہم کرتے!
یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ عوام سب سے پہلے کیا چاہتے ہیں؟ حکمران کی نیکی اور دیانت داری یا بنیادی ضروریات کی فراہمی؟ یقینا وہ سہولیات کو ترجیح دیں گے جو ان کی زندگیوں کو سہل بناتی ہیں۔ اس مسئلے پر ایک اور زاویے سے غور فرمائیے، ایک گھرانے میں باپ، جو گھرانے کا سربراہ ہے، اہل خانہ کو نیکی کی تلقین کرتا ہے۔ انہیں ہر وقت احساس دلاتا ہے کہ وہ ایک دیانت دار، اصول پسند اور صاحب ایمان شخص ہے۔ اخلاقیات پر درس دیتا ہے۔ نیک ہستیوں کے قصّے سناتا ہے۔ مگر عملاً گھر میں ویرانی کا سماں ہے۔ دیوار خستہ ہے تو باپ اس سے بے نیاز ہے۔ کسی کمرے کی چھت گر پڑی ہے تو مدتوں اسی حالت میں پڑی ہے۔ راشن کئی کئی ہفتے نہیں آتا۔ پانی کا انتظام ناقص ہے۔ افراد خانہ دھکے کھا رہے ہیں مگر صاحب خانہ کو فکر ہے نہ اس میں اتنی قابلیت ہے کہ گھر کے معاشی اور سماجی مسائل حل کر سکے۔
دوسری طرف ایک اور گھرانے میں صاحبِ خانہ اپنی دیانت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے نہ وعظ و نصیحت سے سمع خراشی کرتا ہے۔ وہ نیک بھی نہیں؛ تاہم گھر کے ایک ایک پہلو کا خیال رکھتا ہے۔ دیوار گری تو فوراً دوبارہ کھڑی کروا دی۔ چھت نیچے آن پڑی تو مرمت شروع ہو گئی۔ راشن وقت پر آتا ہے۔ افرادِ خانہ کی جملہ ضروریات کا بطریقِ احسن خیال رکھا جاتا ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کیجیے کہ دونوں میں سے کون اپنے اپنے گھرانے میں مقبول ہے!
تاریخ سے ایک اور مثال دیکھیے! 1930ء کے عشرے میں جب عالمی کساد بازاری نے معیشت پر پنجے گاڑے تو امریکہ ان ممالک میں شامل تھا‘ جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کساد بازاری کا آغاز ہی امریکہ سے ہوا۔ بیروزگاری تیس فیصد تک پہنچ گئی۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے۔ بینکوں کا دیوالیہ نکل گیا۔ امریکی صدر روز ویلٹ نے تعمیر نو کا آغاز کیا۔ بے شمار اقدامات کیے گئے۔ ان اقدامات کی روح یہ تھی کہ تعمیراتی سرگرمیاں شروع کی جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے۔ اہم ترین ادارہ جو بنایا گیا، اس کا نام ''ورکس پراگرس ایڈمنسٹریشن‘‘ تھا۔ یعنی تعمیراتی کام۔ نئی شاہراہیں، ڈیم، پُل اور عمارات تعمیر کی گئیں۔ پہلے سال ہی تیس لاکھ افراد کو روزگار ملا۔
جب آپ شاہراہوں کی تعمیر روک دیتے ہیں۔ پُل نہیں بناتے، ٹرانسپورٹ کے لیے سٹیشن نہیں تعمیر کرتے تو یہ ایک دو دھاری تلوار ہے جو آپ خلقِ خدا پر چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو ذرائع آمد و رفت کا قحط پیدا کر رہے ہیں، دوسری طرف تعمیراتی سرگرمیاں روک کر لاکھوں افراد کو بے روزگاری کی کھائی میں پھینک رہے ہیں!
بدترین صورت حال پنجاب میں ہے۔ جو توانائی، سرگرمی اور تیاریاں ڈینگی سے لڑنے کے لیے ماضی میں دیکھی گئیں، آج کے بحران میں اُس توانائی، اس سرگرمی اور ان تیاریوں کا عشرِ عشیر بھی نظر نہیں آ رہا۔ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں بھی ہیں اور دماغ بھی! اس سونے کا کیا فائدہ جس سے کانوں میں پیپ پڑ جائے۔ لوگوں کا فائدہ اس میں ہے کہ ڈرائیور جو بھی ہے جیسا بھی ہے، گاڑی چلتی رہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ نشہ کرتا ہے یا تہجد پڑھتا ہے۔ ان کا مفاد اس میں ہے کہ سفر جاری رہے! اس نیکو کار ڈرائیور کا کیا فائدہ جس کی ''اہلیت‘‘ کے نتیجے میں گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی ہو اور مسافر فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوں!
اس سب سے بڑے صوبے کو ایک متحرک، توانا، فعال اور انتھک سربراہ کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت! ایسا جس کی جسمانی سکت بھی قابلِ شک ہو، اور ذہنی اعتبار سے بھی اپنے ماتحتوں سے برتر ہو! ہونا یہ چاہئے تھا کہ کورونا وائرس کا شور پڑتے ہی سسٹم بن جاتے۔ صوبے میں داخل ہونے والے ہر شخص کی جانچ پڑتال ہوتی۔ متعدد راستے بند کر کے صرف اتنے راستے کھلے رکھے جاتے جن کی نگرانی ممکن تھی۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں بنا دی جاتیں۔ صوبے کا سربراہ چین کا ہنگامی دورہ کرتا۔ وہاں سے متعلقہ معلومات براہ راست لیتا، کچھ سیکھتا، کچھ، آ کر، اپنے افسروں اور منیجروں کو سکھاتا۔ ہر روز بلا ناغہ اجلاس ہوتے جن میں کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا۔ بحث ہوتی، نئے سے نیا لائحۂ عمل وضع کیا جاتا!
محنتِ شاقہ اور کڑی نگرانی کے نتیجے میں آج ہزاروں متاثرین، ٹائم بم کی صورت نہ اختیار کرتے!
صدیوں کے تجربے کے بعد دنیا نے یہی تو سبق سیکھا ہے کہ ہر کام کے لیے صرف اس فرد کو مامور کیا جائے جو اس کا اہل ہے۔ کبھی کہا گیا کہ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب! کبھی مذہب نے متنبہ کیا کہ امانتیں صرف اہل لوگوں کے سپرد کرو۔ کبھی عوام نے ایک مجموعی فضا سے یہ فیصلہ کیا کہ کون ان کے لیے زیادہ سود مند ہے اور کون محض بوجھ!
اس میں کیا شک ہے کہ سندھ کی انتظامیہ سبقت لے گئی ہے۔ نتائج اس پروردگار کے ہاتھ میں ہیں جس کی مٹھی میں جہانوں اور زمانوں کی طنابیں ہیں۔ مگر جو اقدامات سندھ میں کیے گئے ہیں، جو تیز رفتاری دکھائی گئی ہے اور جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ نہ صرف قابلِ رشک ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی ؎
اب اُس کا کرم ہے گھٹا بھیج دے
کہ ہم نے تو جو بیج تھے، بو دیے
جناب وزیر اعظم نے چالیس افراد تک کے جمع ہونے کی جو اجازت مرحمت کی ہے اس کی منطق سمجھ میں نہیں آ رہی! چالیس کیوں؟ عوام کا کوئی بھی اکٹھ، خواہ بیس افراد ہی کا کیوں نہ ہو، خطرناک ہے۔ سماجی سرگرمیاں ساری کی ساری موقوف کر دینی چاہئیں۔ ایک طرف ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بغیر سخت ضرورت کے گھروں سے نہ نکلا جائے، دوسری طرف چالیس کے اجتماع کی بات ہو رہی ہے۔ جس بلند سطح پر جناب وزیر اعظم تشریف فرما ہیں، اس لیول پر کسی ہندسے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسرے ملکوں میں ''لاک ڈائون‘‘ کی تجاویز زیر غور ہیں، ہم بقیہ دنیا سے الگ تو نہیں! اب تک سارے وسائل مجتمع کر کے وینٹی لیٹر، ماسکس، تشخیصی کٹس اور دیگر طبی سامان، معتدبہ مقدار میں فراہم کر دینا چاہیے تھا۔ مناسب مقامات پر قرنطینوں کا انتظام ہو چکا ہوتا۔ مگر بقول شاعر؎
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے کیا
No comments:
Post a Comment