کچھ باتیں جو فہم و ادراک سے باہر تھیں‘ سمجھ میں آنے لگی ہیں؎
اقبال تیرے عشق نے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
ایک ذرۂ ناچیز‘ جو نظر بھی نہیں آتا‘ جس کے بارے میں حتمی طور پر یہ بھی نہیں معلوم کہ جاندار ہے یا بے جان! پورے کرۂ ارض کو لے کر بیٹھ گیا ہے! اور کروڑوں ‘ اربوں‘ کھربوں کی تعداد میں! کہ ہر ملک‘ ہر شہر‘ ہر قصبے‘ ہر گائوں‘ ہر گلی میں موجود ہے! جب سنتے تھے کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر سب اللہ ہی کے لیے ہیں‘ تو ذہن میں بلبلہ اٹھتا تھا کہ کون سے لشکر؟ سو ایک لشکر اٹھا ہے اور اس نے انسان کو جکڑ کر رکھ دیا ہے! اور جب پڑھتے تھے کہ زمین پر جتنے درخت ہیں اگر قلم بن جائیں‘ سمندر اگر روشنائی بن جائیں اور پھر سات سمندر اور بھی روشنائی کے آ جائیں‘ تب بھی اللہ کی باتیں نہ ختم ہوں۔ تو کون جانے کہ اللہ کی باتیں کیا ہیں! کس کو خبر کورونا جیسی کتنی زندہ یا بے جان مخلوقات اور بھی اس زمین اور اس کی فضا میں موجود ہیں!
جہاز ائیرپورٹوں پر کھڑے ہیں‘ اُڑ نہیں سکتے‘ گاڑیاں پورچوں میں ہیں‘ بیکار ہیں۔ پارک‘ سیرگاہیں‘ کلب‘ جم خانے ویران پڑے ہیں۔ ریستورانوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ بڑے بڑے مال جو گاہکوں سے چھلک رہے ہوتے تھے‘ قبرستان بنے ہیں۔ دوستوں کی محفلیں خواب و خیال ہو گئیں۔ اعزہ و اقارب کے گیٹ ٹو گیدر ماضی بعید کا قصّہ لگنے لگے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقاریب‘ جنم دنوں کی یاد میں برپا کی جانے والی رونقیں‘ سب ختم ہو گئیں۔ کوئی رخصتی ہے نہ استقبال! کوئی امام ضامن ہے نہ راکھی! جنازہ گاہیں تک پس ماندگان کو ترس گئی ہیں۔ گلی کوچے سُونے پڑے ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں ہُو کا عالم ہے۔ بیگمات جو چائے تک خود نہ بناتی تھیں اور انڈا تک نہ ابالتی تھیں‘ تین وقت کھانے پکا رہی ہیں‘ برتن دھو رہی ہیں‘ جھاڑو دے رہی ہیں‘ اور تو اور چور‘ ڈاکو اور راہزن تک بے روزگار ہو گئے۔ موت کا خوف نقب لگانے دیتا ہے نہ کھڑکی کی جالی کاٹنے دیتا ہے۔
نسوانی ملبوسات کی دکانیں‘ جہاں خریدار خواتین کی لڑائیاں ہوتی تھیں‘ عزاداری کر رہی ہیں۔ برانڈز کی عالی شان دکانیں جو آدھی رات تک قمقموں سے جگمگ جگمگ کرتی تھیں‘ کچھ بند ہیں اور کچھ کھل کر پچھتا رہی ہیں۔صرّاف دمکتے زیورات‘ شیشے کے ڈبوں میں رکھے دروازوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انواع و اقسام کی نان پکانے والے تنور تپش کا ذائقہ تک بھول چکے۔ حجام قینچیوں‘ استروں کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ کہاں انتظار میں بیٹھے‘ اخبار پڑھتے‘ گپ لگاتے گاہک اور کہاں خالی بیمار کرسیاں! وہ جو قرض واپس لینے کے لیے پھیرے پر پھیرے ڈالتے تھے مگر مقروض ہاتھ نہ آتے تھے‘ اب جانتے ہیں کہ مقروض گھر میں موجود ہے مگر اُدھر کا رخ نہیں کرتے! پیروں کے نذرانے‘ بھکاریوں کی بھیک‘ غنڈوں کے بھتّے‘ داداگیروں کے جگّا ٹیکس‘ حرام خوروں کی رشوتیں‘ چاپلوس غرض مندوں کے تحفے تحائف‘ سب اس بے جان وائرس کی نذر ہو چکے ‘ جسے پکڑا جا سکتا ہے نہ مارا جا سکتا ہے؎
اے گروہِ عاشقاں! اس درد کا چارہ کوئی
جس کی صورت ہی نہیں‘ وہ دیکھ پائیں گے کہاں
پیش گوئیاں کرنے والے‘ زائچے کھینچنے والے‘ فال نکالنے والے‘ ستاروں کی چال دیکھ کر تاریخیں طے کرنے والے‘ ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر کے دوڑتے گھوڑے دیکھ لینے والے‘ روزانہ کی بنیاد پر ہاروسکوپ کی دکانیں چمکانے والے۔ سب بے روزگار بیٹھے ہیں۔ قحط سالی کے بغیر ہی عشق کا کاروبار بند ہو چکا ہے‘ ایک ایک لمس کو ترسنے والے‘ کوسوں دور بھاگتے پھرتے ہیں۔ کہاں کے عارض و لب‘ کون سے کاکلِ خمدار! معشوق سے چھ چھ فٹ کے فاصلے ماپے جا رہے ہیں۔ غالب کا شعر متروکاتِ سخن میں شامل ہو چکا؎
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسے کو پوچھتا ہوں میں منّہ سے مجھے بتا کہ یوں
اب بلّی کسی کا راستہ نہیں کاٹتی کیوں کہ راستوں پر چلنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ گھر ہیں یا قبریں جہاں لوگ زندہ و سلامت گویا دفن ہو گئے ہیں اور جسموں میں جان نہیں کہ باہر نکل سکیں۔ تصّور کیجیے‘ الاسکا سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ فن لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحل تک‘ پورے کرۂ ارض پر زندگی ساکت ہے۔ ساکت اور بے حس! صُور نہیں پھُنکا مگر سناٹا ہے‘ ایسا سنّاٹا کہ مکھی اُڑے تو اس کے پروں کی آواز سماعت کو گولی کی طرح لگے۔ انسان کا بس نہیں چل رہا کہ زمین کے مدار سے باہر نکل کر‘ کسی اور سیارے میں پناہ لے۔ ایسا ممکن ہوتا تو صاحبانِ استطاعت مریخ اور زہرہ جا چکے ہوتے۔ نظر نہ آنے والے بے جان ہتھیار نے سب کو یوں بے بس کر رکھا ہے کہ طبقاتی امتیاز ختم ہو چکا ہے۔ ہسپانیہ کی شہزادی ہے یا برطانیہ کا وزیراعظم‘ منسٹر ہے یا ایم این اے‘ کروڑ پتی ہے یا قلاش‘ فقیر ہے یا سخی‘ سب کے اوسان خطا ہیں۔ سب یکساں لاچار ہیں اور خطرے کے سامنے ایک جیسے بے آسرا! بڑے بڑے تیس مار خان قسم کے ملحد پروردگار کو پکارنے لگ گئے؎
آ جائو گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
ایمان والے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دے رہے ہیں اور بے ایمان توبہ تائب ہو رہے ہیں۔ جن کے جگر گوشے سمندر پار ہیں‘ وہاں جا سکتے ہیں نہ انہیں واپس ہی بلا سکتے ہیں‘ یا قسمت! یا نصیب! کب ملاقات ہو!
پھر حالیؔ یاد آتے ہیں۔ نا امیدی کے افق پر آس کی روشنی دکھائی دیتی ہے؎
بس اے نا امیدی! نہ یوں دل بجھا تو
جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو
ذرا نا امیدوں کی ڈھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آ کر بڑھا تو
ترے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی ہیں
جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں
ساری بے بضاعتی کے باوجود‘ انسان سخت جان ہے۔ کئی وبائیں‘ کئی جنگیں‘ کئی سیلاب‘ کئی طوفان دیکھ چکا ہے۔ پیدا کرنے والے نے زمین پر اسے اپنا نائب بنا کر بھیجا تو سخت جانی بھی عطا کی! ہر ابتلا میں بچ نکلتا ہے۔ قدرت ہمت عطا کرتی ہے اور دست گیری کرتی ہے! جس دستِ غیب نے یہ لشکر اتارا ہے‘ وہ اسے واپس بیرکوں میں بھی بھیجے گا۔ امتحان کے یہ دن گزر جائیں گے۔ رسّی کھینچنے والا‘ رسی ڈھیلی کر دے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے؟ یا ویسے کے ویسے کورے؟ جو دولت آج بیکار ہے‘ کیا اُس کی خاطر ہم پھر خون سفید کر لیں گے؟ اب جب ہم نے جان لیا کہ گاڑیاں‘ جاگیریں‘ کارخانے کچھ بھی کام نہیں آنے کے تو انہیں محفوظ کرنے کے لیے اور مزید حاصل کرنے کے لیے کیا ہم پھر رشتے اور تعلقات دائو پر لگانا شروع کر دیں گے؟ کیا فریب دہی‘ دروغ گوئی‘ دھاندلی اور ڈھٹائی کی طرف ہم لوٹ جائیں گے؟
اگر ایسا ہوا تو یہ بھی یاد رہے کہ یہ لشکر‘ خدا کے لشکروں میں آخری لشکر نہیں!!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment