Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 17, 2020

…ڈوب مرنے کا مقام



ٹی پارٹی سے کم و بیش ہر شخص واقف ہے۔ دوست احباباعزہ و اقارب مل بیٹھتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں۔ آج کل ''ہائی ٹی‘‘ کی اصطلاح رائج ہے۔ یعنی چائے کے ساتھ کیکمٹھائیاںسموسےکباب وغیرہ! ایسی ہی کسی پارٹی کے اختتام پر ظفرؔ اقبال نے کہا؎

گھر والی کے واسطےبچی نہ پیالی چائے کی

کتے بلّے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں

جو بادہ نوشی کرتے ہیںوہ اپنے لحاظ سے ڈرنکنگ پارٹیاں مناتے ہیں۔ غالبؔ اپنی مے گساری پر کبھی پردہ نہیں ڈالتے تھے۔

تبھی کہا؎

یہ مسائلِ تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

اور کبھی اپنی توبہ شکنی کا تذکرہ کیا؎

غالبؔ چھُٹی شراب پر اب بھی کبھی بھی

پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہ تاب میں

برِّ صغیر میں مینگو پارٹیاں بھی شروع سے چلی آ رہی ہیں۔ تب سے جب آم کو مینگو کہنے والے انگریز ابھی وارد نہیں ہوئے تھے۔ مغل عہد میں انبہ یعنی آم کی تعریف میں قصیدے لکھے گئے۔ علامہ اقبالؒ کے دوست احباب بھی مینگو پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔ علامہ ان میں باقاعدہ شریک ہوا کرتے۔ بیمار ہوئے تو ڈاکٹروں نے زیادہ سے زیادہ ایک آم کھانے کی اجازت دی۔ کوشش فرماتے کہ وہ ایک آم کلو بھر کا ہو! اکبر الہ آبادی سے علامہ کا دلی تعلق تھا۔ انہوں نے علامہ کے لیے لنگڑا آم بھیجا۔ یاد نہیں آ رہا کہ اس حوالے سےیہ مشہور شعر اکبرؔ کا ہے یا علامہ کا؎

اثر یہ تیرے انفاسِ مسیحائی کا ہے اکبرؔ

الہ آباد سے لنگڑا چلالاہور تک پہنچا

ایک زمانہ تھا کہ ہر آئٹم کی الگ الگ پارٹی ہوتی تھی۔ کبھی صرف حلیم کی! کبھی پارٹی اس لیے منعقد ہوتی کہ پائے کھائے جائیں۔ یا صرف نہاری پارٹی۔ جب تک کھانے میں ایک ایک آئٹم رہامزہ تھا اور برکت بھی! کثرت سے قدر بھی گئی اور مزہ بھی! بیک وقت کئی کئی پکوان سامنے ہونے سے لطف و انبساط کا وہ عالم نہ رہا جو ایک ہی شے دل بھر کر کھانے سے ہوتا تھا۔ سامنے نہاری ہوپائے بھیحلیم بھیمولی بھرے پراٹھے بھیبکرے کے گوشت کا قورمہ بھیتو کیا کھائیں گے اور کیا چھوڑیں گے! ہاں حلیم سے یاد آیا کہ حلیم مذکر تھا۔ پنجاب پہنچا تو جنس بدل گئی اور مونث ہو گئی۔ یوں بھی اہلِ پنجاب سے یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ گندم کو گندم کمے ساتھ کھاتے ہیں یعنی حلیم کے ساتھ روٹیجبکہ گندم حلیم میں پہلے سے موجود ہے! حلیم تو حلیم ہےہم اہلِ پنجاب آم کے ساتھ بھی روٹی کھاتے ہیںخربوزے کے ساتھ بھی اور حلوے اور کھیر کے ساتھ بھی۔ اسے فقیری ہی کہیے کہ لازم نہیںروٹی کھانے کے لیے قورمہ ہی ہو!

انتظار حسین نے اپنی خود نوشت میں بتایا کہ نہاری لاہور میں کیسے وارد ہوئی! ہمارے دوستحضرت شائق الخیری کہ سول سروس سے ریٹائرڈ ہیںکھانے کے دوراننہاری دو تین بار گرم کراتے ہیں - ان کے داداعلامہ راشد الخیری اردو ادب کا ایک قد آور نام ہے! اردو ناول نگاری کے سرخیل تھے۔ نوّے سے زیادہ تصانیف ہیں! صبحِ زندگیشامِ زندگیشبِ زندگیگدڑی کا لال اور بنت الوقت کے علاوہ کئی تصانیف آج کل کے محاورے کی رُو سے ہِٹ ہوئیں۔ ان کا جاری کردہ جریدہ ''عصمت‘‘ بھی اپنے دور میں مقبول رہا۔ ''الزہرا‘‘ کے عنوان سے حضرت بی بی فاطمہ ؓکی سوانح لکھی اور با وضو ہو کر لکھی۔ سُنّی اور شیعہ دونوں طبقوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ علامہ راشد الخیری کی زندگی ہی میں آٹھ ایڈیشن شائع ہوئے۔ 

بات نہاری پارٹی سے چلی تھی۔ علامہ راشد الخیری کی سوانح پڑھ کر شائق الخیری صاحب کی ''نہاری پسندی‘‘ کا راز بھی کھُلا۔ نہاری کی دعوتوں کا شوق راشد الخیری کو بہت تھا۔ جاڑوں میں ایک بار احباب کو ضرور کھلاتے۔ ایک ایسی ہی دعوت میں مولانا محمد علی جوہراپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ شریک تھے۔ آگے کا ذکر سوانح نگار یوں لکھتے ہیں :

''دونوں بھائیوں اور ان کے ساتھیوں نے دلی کی نہاری خوب مزے لے لے کر کھائی۔ مولانا محمد علی نے اپنے ہاتھ سے تین نلیوں کا گودا نکالا۔ تیسری نلی ختم کر رہے تھے کہ مولانا شوکت علی نے کہا ''محمد علی ذرا روٹی اٹھانا‘‘ ان کا ہاتھ روٹی کی طرف بڑھا اور ادھر مولانا شوکت علی نے ہاتھ بڑھا کر گودا جو مولانا محمد علی نے نلی سے جھاڑا تھااٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ مولانا محمد علی نے مسکرا کر کہا: سگ باشبرادرِ خورد مباش!‘‘

لیکن یہ سب کچھ تمہید تھی۔ اصل بات جو کرنی مقصود ہےاور ہے! ٹی پارٹیمینگو پارٹینہاری پارٹیتو آپ نے دیکھی اور سنی ہیں۔ دو دن پہلے اُسی دِلّی میں جہاں نہاری کھائی جاتی تھیایک اور پارٹی منعقد ہوئی۔ یہ کس شے کی پارٹی تھی؟ دل تھام کر سنیے۔ یہ ''گئو موتر‘‘ پارٹی تھی۔ یعنی گائے کا پیشاب پینے کی۔ اس میں دو سو کے قریب انتہا پسندبی جے پی کے پیروکار شامل تھے۔ مرد بھیعورتیں بھی! نئے ملبوسات پہنےگلوں میں ہار ڈالےعورتیں زیورات سے لدی‘ ''گئو موتر‘‘ کے جام کے جام لنڈھائے گئے۔ کہا یہ گیا کہ کورونا وائرس کا علاج ہے۔ اس سے پہلے آر ایس ایس کے ''محقق‘‘ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ گائے کا گوبر اور پیشاب کینسر کا تیر بہدف علاج ہے۔ نہاتے وقت یہ انتہا پسندصابن کی جگہ گوبر استعمال کرتے ہیں!

انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ بھارت کے سائنسدانڈاکٹرپروفیسر خاموش ہیں! یا ان کی سنتا کوئی نہیں! کون سی ریسرچ کا نتیجہ ہے یہ؟ مغربی محقق جب کوئی نتیجہ نکالتے ہیں تو سالہا سال نہیںعشروں پر تحقیق محیط ہوتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں اور دلوں میں جذبۂ انتقام نہیں پالتےان پر ریسرچ کی گئی تو ستّر اسّی سال لگے۔ لوگوں کا ایک بڑا گروپ چُنا گیا۔ انہیں سالہا سال نگرانی میں رکھا گیا۔ تب جا کر ثابت ہوا کہ معاف کرنے والوں کو دل کی بیماریاں کم اور منتقم مزاج مردوںعورتوں کو زیادہ لاحق ہوئیں۔

یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مقصود ہندو مذہب کی تنقیص یا تضحیک نہیں! اگر یہ ہندو مذہب کا حصّہ ہوتا تو ہمارے بزرگ بتاتے کہ تقسیم سے پہلے انہوں نے ہندوئوں کو یہ ''مشروب‘‘ پیتے دیکھا۔ ہندو پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔ وہ یہاں کے با عزت شہری ہیں اور اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے باقی سب ہیں! بی جے پی والے ہندو ایسے ہی ہیںجیسے یہودیوں میں صیہونی! کئی یہودی صیہونیت کے خلاف ہیں۔ یقینا بھارت میں سمجھدار اور ذی شعور عناصر موجود ہیںمگر حکومت ادتیاناتھامیت شاہ اور مودی جیسے متعصّبتنگ نظر اور جنونی ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ غلاظت پینے اور غلاظت جسم پر ملنے والے ان انسان نما جانوروں سے خیر کی توقع عبث ہے! عقل کے اندھوں کو یہ سمجھانا نا ممکن ہے کہ جو ہندو نہیںوہ بھی انسان ہیں۔ انہیں بھی بھارت میں جینے کا حق حاصل ہے

حیرت ہے کہ مغرب کا میڈیاجو مسلمانوں کا مذاق اڑانے میں دیر نہیں لگاتااس غلاظت نوشی کی مذمت کر رہا ہے نہ تضحیک کر رہا ہے۔ کیا عجببی جے پی کے پیروکارامریکہکینیڈا اور یورپ میں بھی ایسی پارٹیاں منعقد کریں! کیا مغربی حکومتیں اس وحشیانہ عمل کی اجازت دیں گی؟ 

انسان ذلّت کے گہرے گڑھوں میں پہلے بھی گرتا رہا ہے۔ کبھی آگ کی پرستش کرتا رہاکبھی انسانی خون بہا کر دیوتائوں کو راضی کرتا رہا۔ کبھی اپنے جیسے انسانوں کو خدا کا درجہ دیتا رہامگر انسانیت اس سطح پر کبھی نہیں اتری تھی جس سطح پر مودیبھارتیوں کو لے آیا ہے! یہ پست ترین سطح ہے! ذلیل ترین! دیکھیے یہ درندےغلاظت نوشی کے بعداگلا ایسا قدم کیا اٹھائیں گےجو انسانیت کے لیے مزید ڈوب مرنے کا مقام ہو!



No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com