سپاہی غلام قاسم‘ نائک شیر زمان‘ سپاہی طیب‘ سپاہی زہیب اور صوبیدار صادق نے اس دن بھی کچے گھروں میں کھیلتے اپنے بچوں کو یاد کیا تھا۔ نماز کے بعد اس دن بھی اپنی فتح کی دعا مانگی تھی۔ اس دن بھی شہادت کی آرزو کی تھی۔
پھر دھماکہ ہوا۔ ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ لوہے کے ٹکڑے ہوا میں اڑ اڑ کر برسنے لگے۔ آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔
صوبیدار صادق کی میت نیلم کے علاقے جورا کو روانہ ہوئی۔ سپاہی طیب کا جسد خاکی خوشاب بھیجا گیا۔ نائک شیر زمان کی لاش ضلع کرک کے گائوں شمہ شکی کی طرف گئی۔ سپاہی زہیب نے ضلع پونچھ میں اپنی مٹی کو گلے لگایا‘ سپاہی غلام قاسم کو شہید حالت میں ساہیوال ضلع سرگودھا کی طرف روانہ کیا گیا۔
پتھر اور مٹی کے بنے ہوئے گہرے مورچوں میں‘ صوبیدار صادق‘ سپاہی طیب‘ نائیک شیر زماں‘ سپاہی زہیب اور سپاہی قاسم جب ڈبوں میں بند چنے اور دال سوکھی روٹیوں کے ساتھ کھاتے تھے اور سارے ایک ہی مگ سے پانی پیتے تھے تو انہوں نے کبھی ایک دوسرے سے بحث نہیں کی تھی کہ تم کس صوبے سے ہو اور میں کہاں کا ہوں۔ اور تمہارا علاقہ ہمیں کھا گیا ہے اور ہم غریب ہیں اور تم امیر ہو! ان سب کا ایک ہی شوق تھا اور ایک ہی مقصد کہ لائن آف کنٹرول کے اس طرف گھات لگائے ہوئے دشمن کو آگے بڑھنے نہ دیا جائے۔ یہ ارب پتی اور کروڑ پتی تو کیا‘ شاید ہزار پتی بھی نہ ہوں۔ ان کے بچوں کے پاس کپڑوں کے دو دو یا زیادہ سے زیادہ چار چار جوڑے ہوں گے۔ ان کے گھروں میں ان کی بیویوں اور بوڑھی مائوں کے پاس الیکٹرک کیٹل تھیں نہ مائیکرو ویو اوون ‘نہ پوری پوری دیوار پر چھائے ہوئے ٹیلی ویژن سیٹ! ان کے اثاثوں کی تفصیل کے لئے لمبے چوڑے گوشواروں کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے نوکر تھے ہی نہیں جن کے نام یہ اپنی زمینیں کرتے۔
جس دن سپاہی طیب‘ سپاہی زہیب‘ نائک شیر زمان‘ سپاہی غلام قاسم اور صوبیدار صادق دھماکے سے اڑے اور جس دن ان کے مقدس جسموں کے بچے کھچے ٹکڑے جمع کر کے خوشاب ‘ کرک‘ سرگودھا‘ نیلم اور پونچھ بھیجے گئے‘ اسی دن اخبارات میں یہ خبر چھپی اور ٹیلی ویژن چینلوں پر فل میک اپ سے ڈھکی نیوز ریڈرز نے قوم کو اطلاع دی کہ ملک کی منتخب اسمبلی میں ارب پتی کون کون ہیں۔ بلاول بھٹو امیر ترین ممبر ہیں۔ ان کے اثاثے ڈیڑھ ارب ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ساٹھ کروڑ کے مالک ہیں۔ مونس الٰہی ایک ارب 33کروڑ 92لاکھ کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں۔ احسان باجوہ کے پاس تین ارب ہیں۔ ارباب عامر ایوب اڑھائی ارب کے مالک ہیں۔ گجرات کے چودھری سالک حسین کی ملکیت میں ایک ارب ساٹھ کروڑ کے اثاثے ہیں۔ سینٹ میں تحریک انصاف کے نمائندے اعظم سواتی نے ایک ارب پچاسی کروڑ کے اثاثے ظاہر کر کے امیر ترین سینیٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پنجاب اسمبلی میں بھی یہ میدان سینٹ کی طرح تحریک انصاف نے مار لیا۔ علیم خان ایک ارب پینسٹھ کروڑ ظاہر کر کے اول آئے۔ گردشِ زمانہ نے جہانگیر ترین ‘ نواز شریف اور مریم صفدر کو منتخب اداروں سے نکال باہر کیا ہے ورنہ ہو سکتا ہے ان کی موجودگی میں بہت سے اول اور دوم آنے والے اپنی قابل رشک پوزیشنیں کھو بیٹھتے۔
جائز کاروبار کر کے ارب پتی بننا کوئی جرم نہیں۔ ووٹ لے کر منتخب اداروں میں بیٹھنا بھی کوئی گناہ نہیں! سوال صرف یہ ہے کہ ان ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں نے منتخب اداروں میں قوم و ملک کے لئے کیا کیا ہے۔ امریکی کانگرس میں بھی ارب پتی موجود ہیں مگر ان میں سے ہر ایک ساتھ ایک ریسرچ سیل بھی چلا رہا ہے۔ جب وہ کانگرس میں آ کر بولتے ہیں تو اعداد و شمار ان کی انگلیوں پر ہوتے ہیں۔ پالیسیوں کا ایک ایک حصہ ان کی تنقید کی زد میں ہوتا ہے اور متبادل پالیسیاں وہ تفصیل سے بتاتے ہیں۔
اعظم سواتی سے لے کر چودھری سالک حسین تک۔ علیم خان سے لے کر چودھری مونس الٰہی اور بلاول زرداری تک۔ کتنے ہیں جو ملک کے زرعی نظام‘ تعلیمی نظام‘ آبادی کے مسائل‘ بین الاقوامی تجارت اور خارجہ امور کے بارے میں آدھا گھنٹہ نہیں‘ پندرہ منٹ ہی ہماری معلومات میں اضافہ کر کے دکھا دیں۔ کوئی نئی سمت بتا دیں۔ انہیں تو ملک اور اپنے صوبے کی شرح خواندگی تک نہیں معلوم!!
سپاہی غلام قاسم ‘سپاہی زہیب‘ سپاہی طیب‘ نائک شیر زمان اور صوبیدار صادق کی میتیں پوچھتی ہیں کہ اس ملک کی سرحدوں پر اپنے خون اور ہڈیوں سے بند باندھ کر کیا دشمن کو انہوں نے اس لئے روکا ہے کہ ہمارے سروں پر ایک ارب پتی کے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی اس لئے مسلط ہو کہ وہ بھی باپ کی طرح اربوں کی مالک ہے؟ جن ملکوں سے جمہوریت کا ماڈل ہم نے لیا وہاں وزراء اعظم‘ اقتدار سے الگ ہو کر ملازمتیں کر کے گھر چلاتے ہیں‘ ٹرینوں میں کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیںاور ڈاکخانوں کی کھڑکیوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ٹیکس خود جمع کرتے ہیں۔بازار سے سودا سلف خود لیتے ہیں۔ کیا ہمارے ان ارب پتی اور کروڑ پتی نمائندوں کو کسی نے کبھی بازار میں دیکھا ہے؟ کسی ٹرین پر؟ کسی بس میں؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہاں دو پاکستان ہیں۔ ایک پاکستان صوبیدار صادق‘ سپاہی قاسم ‘سپاہی طیب ‘سپاہی زہیب اور نائک شیر زمان کا ہے۔ اس پاکستان میں مورچے ہیں اور دھواں‘ آگ ہے اور برستے ہوئے لوہے کے ٹکڑے۔ دال ہے اور روٹی کے سوکھے ٹکڑے۔ ایلومینیم کے گلاسوں میں گرم پانی ہے۔ کچے گھر ہیں۔ دھوئیں سے بھری ہوئی رسوئیاں ہیں۔ لباس کے دو دو تین تین جوڑے ہیں۔ سوزوکیوں سے لٹکتے‘ سائیکلیں چلاتے اور پیدل چلتے راہگیر ہیں ۔ٹاٹوں پر بیٹھتے بچے ہیں اور ہسپتالوں کے برآمدوں میں گھنٹوں بیٹھتے‘ انتظار کرتے‘ بے کس بے بس مریض!
دوسرا پاکستان ارب اور کروڑ پتیوں کا پاکستان ہے۔ اثاثے ہی اثاثے۔ جاگیریں ہی جاگیریں‘ کارخانے ہی کارخانے! ان کی صبحیں لاہور اسلام آباد ‘پشاور ‘کراچی میں تو ان کی شامیں دبئی‘ لندن‘ جرمنی اور امریکہ میں! ان کے کتے اور بلیاں جو کھاتی ہیں ان کا پہلے پاکستان کے باسی تصوّر تک نہیں کر سکتے!
پہلا پاکستان قربانیاں دیتا ہے۔ دوسرا پاکستان کھاتا ہے۔ پہلا پاکستان خون بہاتا ہے۔ دوسرا پاکستان حکومت کرتا ہے۔سوال صرف یہ ہے کہ دوسرا پاکستان پہلے پاکستان کی میتوں پر دسترخوان بچھا کر کب تک دادِ عیش دیتا رہے گا؟ ٭٭٭
No comments:
Post a Comment