بھارت میں علیحدگی کی سترہ تحریکیں چل رہی ہیں یا سترہ سو ! سترہ ہزار بھی چل رہی ہوتیں تو اس پریشانی کا عشیرِ عشیر
بھی بھارت کو لاحق نہ ہوتا جو پاکستان صرف اس لئے بھگت رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس کی سرحد ملتی ہے!
بازی گر تماشے دکھا رہا تھا۔ وہ تنی ہوئی رسی پر اُلٹا لٹکا ہوا تھا۔ اس کے ساتھی نے زمین سے پوچھا کیا تم تکلیف میں ہو؟ ’’ہاں! میں بہت تکلیف میں ہوں‘‘ ’’کیا تم اذیت میں ہو؟‘‘ ’’ہاں!میں بہت اذیت میں ہوں مگر اب بھی اس مرد سے کم تکلیف اور کم اذیت میں ہوں جس کی دو بیویاں ہیں۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک‘ کون سا دکھ ہے جو پاکستان نے اس سرحد کی وجہ سے نہیں جھیلا۔ کوئی مورخ ایسا ہو جو صرف ان دکھوں کی تاریخ لکھے۔ کوئی جادوگر ایسا ہو جو افغانستان کو اٹھا کر یورپ لے جائے یا امریکہ اور کوئی ایسی سرحد‘ پاکستان کے مغرب میں لے آئے۔ جس سے گولیاں نہ چلیں جیسے کینیڈا کی سرحد امریکہ کے ساتھ ہے، جیسے اٹلی کی سرحد سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ہے، جیسے ہسپانیہ کی سرحد فرانس کے ساتھ ہے!
یہ اس سرحد ہی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ اپنی باڑ سیدھا کرنا پڑ رہی ہے۔ یہ جو نقطہ نظر ہے کہ ہمارا جھکائو اچھا بھلا چین اور روس کی طرف تھا تو پھر امریکہ کے ساتھ محبت کی پینگیں کیوں بڑھا رہے ہیں، اپنی جگہ درست ہے، مگر سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ سرحد پار افغانستان میں چین بیٹھا ہے نہ روس! وہاں امریکہ بیٹھا ہے اور کابل میں عملاً مالک بن کر بیٹھا ہے جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے، کابل میں کٹھ پتلی حکومت سانس لیتی رہے گی اور جب تک یہ کٹھ پتلی حکومت قائم ہے پاکستان کے لئے افغان سرحد ناسور بنی رہے گی۔ اس پار سے گولیاں چلتی رہیں گی۔ چادر پوش دہشت گرد سرحد پار سے آ کر دھماکے کرتے رہیں گے۔ جب تک افغانستان میں قومی حکومت نہیں بنتی، احوال اسی طرح دگرگوں ہی رہے گا۔ قومی حکومت وہ ہو گی جس میں پختون، تاجک، ازبک، ہزارہ سب اپنا اپنا حصہ انصاف کے ساتھ صول کریں گے اور اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس وقت افغانستان کی زمام امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ اس کھائی سے باہر نکلنا چاہتا ہے اسے معلوم ہے کہ باہر نکلنے کے لئے اسے پاکستان کے ہاتھ کی ضرورت ہے، اگر پاکستان امریکہ کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر نکلنے میں مدد نہیں دیتا تو اس میں پاکستان کا بھی نقصان ہے۔
امریکہ کا دورہ کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ چین ناراض ہو جائے گا یا روس اور پاکستان کے درمیان کم ہوتے فاصلے پھر بڑھنے لگیں گے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اگر کوئی اس طرح سوچتا ہے تو اسے عالمی سیاست کی حساسیت(Sensitivity)کا علم ہے نہ حسِ ادراک(sensibility)کا۔ یہ کوئی قصباتی رشتہ داری نہیں ہے کہ پھپھو جان کے گھر جانے سے ممانی دل برداشت ہو جائے گی، اس لئے چھپ کر جانا چاہیے اور بھابھی کو تحفہ دیا تو نند قطع کلامی پر اتر آئے گی۔ چین اور پاکستان کی دوستی مثالی ہے مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ چین بھارت سے تعلقات نہ رکھے؟ 2017ء کے دوران چین اور بھارت کے درمیان چوراسی ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اگلے سال یہ تجارت نوے ارب ڈالر کو چھو رہی تھی۔ چین تائیوان کی الگ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا اور تائیوان کو اپنا حصہ گردانتا ہے مگر دوسری طرف تعلقات نارمل ہیں۔2010ء میں تائیوان نے چین کے ساتھ معاشی تعاون کے فریم ورک کا باقاعدہ معاہدہ کیا۔تائیوان کی تجارت سب سے زیادہ پانچ ممالک کے ساتھ ہے۔ ان میں چین سرفہرست ہے۔ باقی چار جاپان‘ امریکہ‘ یورپی یونین اور ہانگ کانگ ہیں۔
جب ایک بار اس حقیقت کو ہم تسلیم کر لیں کہ امریکہ کے ساتھ لمحۂ موجود میں باڑ کی مرمت کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں تھا تو ضمنی مسائل کو سمجھنا سہل ہو گا۔ایک اور دلیل کا ذکر اس مقام پر نامناسب نہ ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ ضرورت کے وقت منہ پھیر لیتا ہے اور یہ کہ اس کی دوستی قابل اعتبار نہیں! ایسے اعتراضات بھی بین الاقوامی تعلقات (انٹرنیشنل ریلیشنز) کے اصولوں سے ناواقفیت کے سبب اٹھائے جاتے ہیں۔ دو آزاد ملکوں کی دوستی عاشق اور محبوب کی دوستی نہیں ہوتی کہ بے وفائی اور تغافل کا رونا رویا جائے۔ پاکستان نے امریکہ کو خون سے خط لکھ کر بھیجا ہے نہ امریکہ نے کسی درخت کے تنے پر پاکستان کا نام کھود کر درد ناک غزل کہی ہے جس میں ہجر و وصال کے تلازمے استعمال ہوئے ہیں۔ دو ملکوں کے درمیان مستقل صرف ایک شے ہوتی ہے اور وہ ہے اپنا اپنا مفاد۔ جب تک امریکہ کا مفاد تحریک پیدا کرتا رہے گا امریکہ پاکستان کے ساتھ گہری اور ڈونگی دوستی کا دم بھرے گا۔ اسی طرح کل اگر افغانستان کے حالات امریکی انخلا کے بعد‘اطمینان بخش ہو جاتے ہیں تو پاکستان امریکی ٹوکری سے کچھ(یا سارے) انڈے نکال کر چین اور روس کی ٹوکریوں میں بھی رکھ سکتا ہے۔
امریکہ میں عمران خان کی کارکردگی پر جس آفرین آفرین کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اس کا سبب ان کے پیشرو کی نالائقی ہے۔ دنیا کے اکثر جمہوری ملکوں میں جو سیاست دان حکومت یا ریاست کی سربراہی تک پہنچتے ہیں وہ گفتگو کے فن میں طاق ہوتے ہیں۔ خود اعتمادی کے مالک ہوتے ہیں اور بین الاقوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔عمران خان نے قابل تحسین کارکردگی دکھائی ہے تو اس میں کوئی تعجب نہیں۔ انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ تعجب اس لئے ہو رہا ہے کہ ان سے پہلے جو شخص وزیر اعظم کی حیثیت سے امریکہ گیا تھا۔ وہ بات کر سکتا تھا نہ مسائل کا ادراک رکھتاتھا۔ یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ ایک ایسا شخص جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بی اے کے پرچے کسی اور نے دیے تھے اوراس نے کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کسی فائل پر کچھ لکھا‘ نہ صرف وزیر اعظم بنا بلکہ تین بار بنا۔ اوبامہ کے سامنے وہ پرچی دیکھ کر بھی گفتگو کرنے سے قاصر تھا۔کبھی پانی پیتا کبھی تھوک نگلتا۔ اس افسوسناک بلکہ عبرت ناک پس منظر میں عمران خان نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اگر اس کا نصف بھی کرتے تو آفرین ہی کی صدائیں بلند ہونا تھیں۔
اصل امتحان آگے آنا ہے۔ طالبان پاکستان کی بات مانتے ہیں یا نہیں! یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیوں کہ نہ صرف ملا عمر بلکہ پورے کا پورا گروہِ طالبان ایک خاص سٹائل‘ ایک خاص انداز رکھتا ہے پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ فلاں مسئلے پر ان کا ردعمل کیا ہو گا؟کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب وقت کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ کیا طالبان افغان حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کریں گے یا صرف امریکہ کے ساتھ؟ فرض کیجیے امریکہ افغانستان سے رخصت ہو جاتا ہے تو پھر طالبان کارویہ کیا ہو گا؟ کیا وہ نئے سیٹ اپ میں تاجکوں، ازبکوں اور ہزارہ کو ان کا حصہ بطیبِ خاطر دے دیں گے یا اس راستے میں دشوار گزار گھاٹیاں پڑیں گی؟ اگر امریکہ کا انخلا ہو جاتا ہے اور اس کے بعد پرامن طریقے سے ایسی حکومت بن جاتی ہے جس میں افغانستان کے تمام لسانی، سیاسی، نسلی اور مذہبی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھ کر آگے بڑھتے ہیں تو یہ افغان تاریخ کا ایک معجزہ ہو گا۔
No comments:
Post a Comment