پرتھ بھی عجیب و غریب شہر ہے۔ اتنا نخرہ کہ کسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ نزدیک ترین شہر ایڈی لیڈ ہے جو دو ہزار سات سو کلو میٹر دور ہے۔ سڈنی سے اس کا فاصلہ تقریباً چار ہزار کلو میٹر ہے۔ میلبورن سے ساڑھے تین ہزار اور برزبن سے سوا چار ہزار کلو میٹر۔
نخرے بلکہ رعونت کے ساتھ‘ سارے شہروں سے دور پرتھ آسٹریلیا کے جنوب مغربی کونے میں تن کر کھڑا ہے۔ کوئی آئے تو خوش آمدید ! نہ آئے تو پرتھ کی اپنی دنیا اتنی بڑی ہے کہ کسی اور کی ضرورت ہی نہیں!
پرتھ کے باشندے اتنے سیدھے سادے بھی نہیں کہ دارالحکومت سے ہزاروں میل دور رہ کر ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہتے۔1933ء میں ایک ریفرنڈم ہوا جس کے نتیجے میں دو تہائی آبادی نے آسٹریلوی وفاق سے علیحدگی کے لئے ووٹ دیا۔ اتفاق سے وہ الیکشن کا موسم تھا۔ الیکشن میں علیحدگی پسند پارٹی ہار گئی۔ تاہم نئی حکومت نے ریفرنڈم کا احترام کرتے ہوئے معاملہ لندن کے آقائوں کو بھیج دیا۔ اس اثنا میں گفت و شنید اور منت سماجت جاری رہی۔ ڈیڑھ سال بعد دارالعوام لندن نے علیحدگی منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ تب سے اب تک ’’خاموشی‘‘ ہے! ویسے اہل پرتھ کو معلوم نہیں کہ ہمارے ہاں پاکستان میں ایک مولانا ہیں جو ان دنوں بے روزگار ہیں اور سخت بے روزگار! اتنے کہ جان کے لالے پڑے ہیں۔ اگر انہیں بلا کر پرتھ کمیٹی کا صدر مقرر کر دیں اور مراعات شان و شوکت بمنزلہ وزیر کے دے دیں تو ایسی پُر شور اور پُر زور تحریک چلائیں گے کہ کینبرا کے ہوش اُڑ جائیں گے۔
پرتھ کی یہ خود اعتمادی اس کی امارت کے سبب ہے۔ سونے کی لوہے کی اور دیگر قیمتی دھاتوں کی کانیں یہاں بہت ہیں۔ ماہرین ارضیات(جیالوجسٹ) پوری دنیا سے کھینچے چلے آتے ہیں۔ اب کے تو نہیں‘ مگر کئی سال پہلے یہاں ایک تقریب میں کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی جو زمین شناسی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اکثر پی ایچ ڈی! اور کان کنی کے شعبے میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے !
گزشتہ برس بھی پرتھ کے دوست تقاضا کرتے رہے کہ حاضری دوں مگر میلبورن سے نکلنا نہ ہوا۔ میلبورن سے سڈنی یا کینبرا جانا آسان ہے۔ ایک گھنٹے سے کم کی پرواز۔ جنوبی جزیرے تسمانیہ کا سفر بھی مختصر ہے۔ ایک بار وہاں بحری جہاز پر بھی جانا ہوا۔ رات کو میلبورن کے ساحل سے جہاز میں بیٹھے۔ صبح کا اجالا پھیلا تو تسمانیہ کادلربا جزیرہ سامنے تھا۔ مگر پرتھ کا سفر اتنا مختصر نہیں!ساڑھے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ٹائم زون بھی الگ ہے۔ مشرقی آسٹریلیا سے یہاں کا وقت دو گھنٹے پیچھے ہے اور پاکستان سے صرف تین گھنٹے آگے!
اس بار پھر تقاضا ہوا معین ارشد اور بلا کے صاحبِ مطالعہ محمود احمد کا اصرار بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ ساڑھے چار گھنٹے کا ہوائی سفر طے کر کے پرتھ نزول کیا۔ ایک دلکش اور باوقار محفل میں پرتھ کے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ تارکین وطن کی بھاری اکثریت تحریک انصاف کی حامی ہے۔ نوجوان وطن کی محبت میں عمران خان سے امیدیں وابستہ کئے محو دعا ہیں۔عامر قریشی‘ عمیر چودھری‘ ملک یاسر اور دیگر دوست بے تاب تھے کہ ملک کے
حالات پر گفتگو کی جائے۔ سوال جواب کی ایک دل آویز نشست ہوئی جس میں سنانے اور سیکھنے کا معاملہ دو طرفہ رہا۔
یہ لوگ زرِ مبادلہ تو بھیجتے ہی ہیں اور پاکستانیوں کو بلا کر ملازمتیں دلوانے میں مدد تو کرتے ہی ہیں مگر ان کی اصل اعانت ان کا کُڑھنا ہے۔ ملک کے حالات پر ان تارکین وطن کا کڑھنا اور ملک کے اندر رہنے والے پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ کڑھنا‘ اس سبب سے ہے کہ آسٹریلیا جیسے ملک میں رہتے ہوئے یہ حضرات اپنے ملک کو بھی اسی سطح پر‘ اسی معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تارکین وطن ہر وقت اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے اپنے آبائی ملک کا موازنہ اپنے نئے ملک سے کرتے ہیںاور پھر اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ہماری ہی طرح دو ٹانگیں ایک دماغ اور دو ہاتھ رکھتے ہیں ! آخر ہم اِن جیسے کیوں نہیں ہو سکتے؟ اگر پرتھ میں وزیر پروٹوکول کے بغیر آتے جاتے ہیں۔ اگر یہاں سفارش اقربا پروری اور کرپشن عنقا ہے۔ اگر انسانی حقوق پر یہاں کوئی سودا بازی کوئی کمپرو مائز نہیں ہوتا‘ اگر انسانی جان کی یہاں حد درجہ حفاظت کی جاتی ہے‘ اگر پولیس یہاں حاکم نہیں خادم ہے اور اگر یہاں وزیر اعلیٰ کی اولاد کو چیف منسٹری کا کوئی حصہ نہیں ملا ہوا تو یہ سب کچھ پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟
تارکین وطن کی عمران خان سے رشتہ داری ہے نہ تحریک انصاف سے! یہ لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ڈاکوئوں‘ لٹیروں‘ چوروں ‘ اٹھائی گیروں اور مکار لومڑیوں سے پاکستان اور اہل پاکستان کو نجات ملے۔ اگر ملک میں انصاف کا نظام ہوتا ‘ اگر رول آف لا ہوتا تو یقینا تارکین وطن کی اکثریت اپنے ملک سے باہر جانا نہ پسند کرتی۔ مگر جب ارب پتی مریوں اور بلاولوں کے وراثتی حقوق دیکھتے ہیں تو یہ تارکین وطن ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک صاحب پوچھ رہے تھے کہ گجرات کے شاہی خاندان کے نوجوان شہزادے بھی‘ جو اسمبلی میں پہنچے ہیں‘ ابھی سے کس طرح ارب پتی ہو گئے ہیں؟ یہ اور بے شمار دوسرے سوالات ان تارکین وطن کو ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں مبتلا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف ان کے لئے امید کا چراغ ہے اور ساری کمزوریوں اور نقائص کے باوجود‘ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ قابلِ قبول ہے!
پرتھ کے پاکستان اپنے ملک کے سفارت خانے سے دل برداشتہ ہیں اور ناراض! اس لئے کہ اس دور افتادہ شہر کے پاکستانیوں سے پاکستانی سفارت خانے کا سلوک وہی ہے جو ماں سوتیلے بیٹے سے کرتی ہے۔ سفارت خانہ‘ بقول ان کے‘ کسی خط‘ کسی ای میل کا جواب نہیں دیتا اور بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ شنوائی ہو! پاسپورٹ کا اجرا ہو یا ویزے کا کوئی مسئلہ‘ اکثر ضرورت مندوں کو سفارت خانے کی مجرمانہ خاموشی کے پیش نظر بنفس نفیس کینبرا جا کر بابوئوں کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے۔اس سفر اور اس منت سماجت کے لئے ہزاروں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ معلوم نہیں‘ ہمارے دوست جناب جاوید حفیظ اور جناب ظفر ہلالی کیا کہیں گے مگر عمومی رویہ ہمارے سفارت خانوں کا حوصلہ شکن ہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آسٹریلیا میں ایک خاتون سفیر تعینات تھیں جو اپنے آپ کو سفیر کم اور وائسرائے زیادہ سمجھتی تھیں ۔ اس کالم نگار کا کام اُن سے آ پڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو پتھر کی دیوار ہے اور ان سے کام کرانا سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ بالآخر جناب نفیس ذکریا نے‘ کہ اُن دنوں وزارت خارجہ کے ترجمان تھے‘ دستگیری کی! وائسرائے صاحبہ کو فون پر پندو نصیحت کی اور پھر کالم نگار کو پلٹ کر بتایا کہ کام ہو جائے گا! نفیس ذکریا آج کل برطانیہ میں سفیر ہیں۔
یہ مسئلہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی پیش کیا جائے گا۔ پاکستانی ہائی کمیشن کینبرا کو چاہیے کہ اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائے اور درخواستوں کا جواب وقت پر دے تاکہ سائلین کو سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے آنا اور سفارت خانے کا دروازہ کھٹکھٹانا نہ پڑے۔
ویسے حیرت یہ ہے کہ پرتھ میں رہنے والے ساڑھے چار ہزار نیپالیوں کی سہولت کے لئے نیپال کی حکومت نے پرتھ میں کونسلیٹ کھول رکھا ہے مگر حکومت پاکستان کو توفیق نہیں ہو رہی کہ سات آٹھ ہزار پاکستانیوں کے لئے کونسلیٹ قائم کرے! ایک افسر اور ایک سٹاف سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے وزارت خارجہ کی خوش نیّتی درکار ہے! ؎
انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
No comments:
Post a Comment