یہ میں ابتدا ہی میں واضح کر دوں کہ میرا دین، ایمان، وطن، قبیلہ، خاندان، زبان، ایک ہے صرف ایک۔ اور وہ ہے پیسہ!
وہ جو لطیفہ مشہور ہے کہ تاجر کو نزع کے وقت سب کلمہ پڑھنے کی تلقین کر رہے تھے اور وہ ایک ہی بات کہے جا رہا تھا کہ دکان کا تالا چیک کرو۔ دکان کا تالا چیک کرو۔ تو وہ محض لطیفہ نہیں‘ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ آئن سٹائن بننے کی!حقیقت یہ ہے کہ میرا اوڑھنا بچھونا پیسہ ہے۔ پیسے ہی سے میرا پیمان وفا ہے۔ میں لاکھ نمازیں پڑھوں، دیگیں تقسیم کروں، عمرے اور حج کروں، پائنچے گھٹنوں تک چڑھا لوں۔ نصب العین میرا صرف اور صرف پیسہ رہے گا!
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس انتہا درجے کی زرپرستی کے باوجود مجھ میں تھوڑی بہت انسانیت موجود ہو گی تو آپ احمق ہیں۔ انسانیت کی رمق تک مجھ میں نہیں پائی جا سکتی۔ آپ مجھ پر دنیا کا ہر الزام لگا سکتے ہیں مگر مجھ پر انسانیت کا الزام نہیں لگا سکتے۔ میرا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں! ایسا ہوتا تو آپ خود سوچیے میں معصوم بچوں کے لئے ناخالص دودھ ڈبوں میں بند کرتا!میں دوائیں جعلی بیچتا؟ میں غذا میں ملاوٹ کرتا؟
یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ میں چھوٹا دکاندار ہوں یا بڑا معروف برانڈ ہوں یا بڑی کمپنی‘ اندر سے میں ایک ہوں میں دکاندار بھی ہوں‘ برانڈ بھی ہوں اور کمپنی بھی! میرا اولین فریضہ گاہک کو ذلیل اور پریشان کرنا ہے۔ دنیا کے سارے مہذب ملکوں میں دکانداروں اور کمپنیوں کی ری فنڈ پالیسی ہے‘ یعنی خریدا ہوا مال رسید دکھا کر واپس کیا جا سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں یہ کام میں نہیں کرتا نہ کرنے دیتا ہوں۔ آپ دارالحکومت کے بڑے بڑے مال دیکھ لیجیے۔ سنتارس ہے یا گیگا مال۔ کفّار کا ایک برانڈ یہاں اپنا بزنس کر رہا ہے۔ ان کا اصول ہے کہ چودہ دن کے اندر اندر خریدار ہوا مال واپس لے لیتے ہیںاور رقم گاہک کے حوالے! مگر پاکستانی برانڈ یہاں جتنے بھی ہیں‘ اگر گاہک ایک گھنٹے بعد بھی واپس کرنے آئے رسید بھی دکھائے‘ تب بھی منہ کی کھاتا ہے۔
مجھ پر الزام ہے کہ ٹیکس نہیں دیتا۔ ہاں!ٖمیں ٹیکس چوری کرتا ہوں!ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ حساب کتاب کے رجسٹر اصل الگ ہیں اور ٹیکس والوں کو دکھانے کے الگ۔ کوئی دیانت دار اہلکار ٹیکس کے محکمے سے آ جائے تو اسے کرپٹ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے کہ جب میں دیگیں پکا کر تقسیم کرتا ہوں‘ مسجدوں، مدرسوں میں چندے دیتا ہوں‘ علماء کرام کی دعوتیں کرتا ہوں، پانچ نمازیں پڑھتا ہوں، رمضان میں تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب کی خدمت کرتا ہوں تو اس سب کچھ کے بعد ٹیکس کیوں دوں؟
رہا حکومت کا حکم کہ شناختی کارڈ دیکھا‘ دکھایا جائے اور نمبر بتایا جائے یا یہ کہ ایف بی آر کے نمائندے میری جائے کاروبار پر آ کر معائنے کرتے پھریں تو اس کی اجازت ہرگزنہیں دوں گا۔ یہ جو خناّس سمایا ہے موجودہ حکومت کے ذہن میں کہ بزنس کو دستاویزی(ڈاکومینٹڈ) کرے گی تو یہ نہیں ہونے دوں گا۔ یہ امریکہ ہے نہ سنگا پور‘ جاپان ہے نہ کینیڈا۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں جیسا ہوتا آیا ہے ویسا ہی ہو گا۔
حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ طاقت ور عناصر سارے میرے ساتھ ہیں۔ ساری حزب اختلاف ! سارے مذہبی عناصر‘ تمام بیرونی قوتیں! حزب اختلاف اس لئے میری حمایت کر رہی ہے کہ میری طرح انہیں بھی حب الوطنی سے کوئی غرض نہیں۔ وہ میرے کندھے پر رکھ کر اپنی بندوق چلا رہے ہیں۔میری ہڑتال کی حمایت کر رہے ہیں۔ معیشت کا پہیہ جام ہو گا تو حکومت ناکام ہو گی۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ حزب اختلاف کا ٹارگٹ بھی یہی ہے۔
ستارے اگر میرے حق میں ہیں تو حکومت کی اپنی بدبختی ہے۔ حزب اختلاف میں قیادت جن عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ وہ خود لوٹ مار کے بادشاہ ہیں۔ پرانے پاپی ہیں۔ دولت کے انبار سے بیرون ملک ان کی تجوریاں چھلک رہی ہیں۔ ان کی جائیدادوں اور کارخانوں کی پشت پر قانونی دستاویزات نہیں ہیں‘وہ میرا ساتھ نہیں دیں گے تو کون دے گا۔
رہے مذہبی عناصر‘ تو انہیں میں نے خوش رکھا ہوا ہے۔یوں بھی جب مذہبی جماعتی پراپرٹی ڈیلروں کے ہاتھ میں ہیں تو مجھے اور کیا چاہیے! اُن کے نزدیک یہ ٹیکس یہ شناختی کارڈ کی پابندی‘ یہ ایف بی آر کے قوانین‘ یہ دستاویزات کا سلسلہ‘ سب حکومتی ہتھکنڈے ہیں جنہیں ہر حال میں ناکام ہونا چاہیے۔
ستر سال سے میں ایک نظام کا عادی ہوں۔ اس نظام میں چور بازاری‘ ذخیرہ اندوزی ،شے کا نقص چھپانا‘ حساب کتاب کی کتابیں دُہری دُہری رکھنا، بازار دن کو ایک بجے کھولنا‘ آدھی رات کو بند کرنا، گاہکوں کے ساتھ وعدہ خلافی کرنا‘ جھوٹ بول کر منافع زیادہ کمانا‘ دکان کے باہر فٹ پاتھ پر قبضہ کرنا‘ سامنے جتنی بھی جگہ ہے‘ یہاں تک کہ سڑک بھی اس پر مال اسباب رکھنا‘ یہ سب کچھ اس نظام کا حصہ ہے۔ میں اس نظام کو بدلنے نہیں دوں گا۔ مجھے یہی راس آتا ہے۔ اس میں محنت کم ہے اور نفع زیادہ!
میں تاجر ہوں،دکاندار ہوں، ہول سیلر ہوں، پرچون فروش ہوں، جو کچھ بھی ہوں اپنی مرضی کروں گا۔ ملک ترقی کرے یا پس ماندہ رہے۔ توانائی بچے یا اس کا ضیاع ہو، پاکستان قوموں کی برادری میں باعزت سمجھا جائے یا بدنام ہو‘ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں! میں تو اتنا غلیظ ہوں کہ بازار گندہ ہو، متعفن ہو ،تب بھی وہیں بیٹھا پیسے کماتا رہتا ہوں۔ سڑک ٹوٹی ہوئی ہو،گڑھوں میں بارش کا پانی رکا ہوا ہو‘ مجھے اس سے کیا؟ میں ان چیزوں پر اپنی حلال کی کمائی سے ایک پائی بھی خرچ کرنے کا روادار نہیں! یہ حکومت کا کام ہے۔ کرے نہ کرے‘ اس کی مرضی! نہ کرے تب بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری کرسی‘ میری گدی‘ اگر غلیظ پانی پر تیر بھی رہی ہو تب بھی مجھے منظور ہے بشرطیکہ تجوری بھرتی رہے!
میں لگے ہاتھوں حکومت کو یہ بھی بتا دوں کہ مجھ سے شرافت کی توقع نہ رکھے۔ضرورت پڑنے پر میں غنڈہ گردی بھی کر سکتا ہوں، بدمعاشی بھی دکھا سکتا ہوں۔میں اپنی ہوسِ زر بجھانے کے لئے آخری حد تک بھی جا سکتا ہوں۔ مجھے اپنی اس شہرت پر فخر ہے کہ گاہک‘ خریدا ہوا مال بدلنے‘ یا شے کا نقص دکھانے میرے پاس واپس آتے ہوئے سو بار سوچتا ہے۔ اسے پتہ ہے میں اس کی بے عزتی کروں گا۔ میں تاجر ہوں! حرام کھائوں گا اور ڈٹ کر کھائوں گا ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکارمجھے
وضاحت: اس ملک میں قلیل تعداد دیانت دار اور محب وطن تاجروں اور دکانداروں کی بھی ہے۔ اس کالم میں اشارہ ان کی طرف نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment