بازار کا نام یاد نہیں‘ مگر کوئٹہ میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں سے صوفی تبسم کی کتاب’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ہاتھ آئ
ان دنوں بچے چھوٹے تھے اور بچوں کا باپ جوان! جہالت اور کم فہمی کے باوجود ایک بات معلوم تھی اور اچھی طرح معلوم تھی کہ جو ماحول آگے نظر آ رہا ہے اس میں بچوں کو وہ کتابیں پڑھنے کو نہیں ملیں گی جو انہیں پڑھنی چاہئیں۔ انہیں سانتا کلاز کا تو بتایا جائے گا‘ اپنے پس منظر سے آگاہ نہیں کیا جائے گا۔
مگر کتابیں ملتی نہیں تھیں۔ اب تو ٹوٹ بٹوٹ‘بازار میں میسر ہے ان دنوں نایاب تھی۔ اب تو حالات ابتر ہیں۔ گزشتہ سال ٹوٹ بٹوٹ کا ایک ایسا ایڈیشن دیکھا جس پر پبلشرز کا نام تھا مگر صوفی تبسم کا نہیں تھا۔ پبلشرز کی اکثریت بددیانتی کرتے کرتے پاگل پن کی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں اگر کوئی حساب کتاب ہوتا‘ کوئی نسبت تناسب ہوتی‘ مصنفین کے ساتھ انصاف ہوتا، درست طریقے سے پروجیکشن ہوتی تو صوفی تبسم کی کتاب’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ بچوں کے عالمی ادب میں سرفہرست ہوتی۔ کیا نظمیں لکھی ہیں۔ صوفی صاحب مرحوم نے!بظاہر سادہ مگر اتنی زبردست کہ ان جیسا ماہر فن ہی لکھ سکتا تھا۔ یہ نظمیں آج کل کے بچوں کے لیے اس پُل کا کام دیتی ہیں جس سے گزر کر وہ اپنی قدروں اور اپنے کلچر کے منتشر گم شدہ اجزا کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان انتہائی آسان اور غنایت اور موسیقی سے بھر پور نظموں میں بے شمار ایسے الفاظ ہیں جن سے آج کل کے بچے صرف اپنی نظموں کے ذریعے شناسا ہو سکتے ہیں۔
دستار‘ سبزی منڈی‘ سوڈا واٹر‘ ڈانگ‘ سیانی‘ کنجڑا‘ اکنی‘ دونی‘ دسترخوان ‘ پنساری ‘ حلوائی‘ یکا‘ ریڑھا‘ چوری‘ تائی‘ اچکن‘ چورن‘ پیسہ دھیلا۔
یہ ساری چیزیں موجود ہیں مگر ان میں سے کچھ کے نام بدل گئے ہیں اور کچھ کے انگریزی میں ہو گئے ہیں۔ ایک آٹھویں جماعت کی بچی سے پوچھا کہ گڈریا کسے کہتے ہیں۔ کہنے لگی معلوم نہیں۔ پوچھا
Shepherd
کیا ہوتا ہے۔ فوراً بتا دیا کہ بھیڑ بکریاں چرانے والا ۔اس لاعلمی کی قصور وار بچی نہیں‘ بچی کے ماں باپ ہیں۔ اسے یاد ہی وہ نظمیں کرائی گئی ہیں جن میں سانتا کلاز ہے اور
Shepherd
۔ یہ بہر طور معلوم تھا کہ کون کون سی کتابیں بچوں نے آغاز میں پڑھنی ہیں۔ ابصار عبدالعلی اور قیوم نظر کی نظمیں لا کر دیں۔ اسماعیل میرٹھی کی چند نظمیں کتابچوں کی شکل میں ملیں مگر تلاش ان کی کلیات کی تھی۔ وہ مل نہیں رہی تھی۔ اب یاد نہیں برادرم ناصر زیدی تھے یا بزرگوارم سرور انبالوی‘ انہی میں سے ایک کے پاس یہ کلیات موجود تھی، لے کر فوٹو کاپی کروائی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسماعیل میرٹھی کو پڑھے بغیر بچوں میں اردو زبان کا ذوق پیدا ہو جائے گا‘ تو وہ اپنی اردو دانی کا علاج کرائے۔
پھر نظیر اکبر آبادی کی ان نظموں کی تلاش شروع کی جو بچوں کے لیے ان کے بھاری بھرکم پانچ سیر وزنی کلیات سے نکالی گئی تھیں۔خوش قسمتی سے وہ مل گئیں۔ پھر یاد آیا کہ حفیظ جالندھری کی نظمیں بچوں کے پاس ضرور ہونی چاہئیں۔ ان کی دستیابی کا سوال ہی نہیں تھا ایک گرم دوپہر تھی۔ پرانی انارکلی کی ایک گلی کی ایک گودام نما دکان میں کتابوں کے انبار دھرے تھے۔ گھنٹوں کیا‘ پہروں وہاں چھانتا رہا۔ بالآخر حفیظ جالندھری کی نظموں کا مجموعہ ہاتھ آ گیا۔ اسی میں ان کی شہرہ آفاق نظم ’’دم دم دڑم‘‘ شامل تھی۔ جس میں گیدڑ ‘ اونٹ کے نچلے ہونٹ کے گرنے کے انتظار میں دن رات ایک کر دیتا ہے۔
بچے ذرا بڑے ہوئے تو نظمیں سنا سنا کر یاد کروانے کا سٹیج بھی گزر گیا اب پڑھانے کا وقت تھا۔ سکول سے انہیں ہوم ورک بھی مل رہا تھا۔ اس کی ذمہ داری بچوں کی ماں نے اٹھائی۔ اس کالم نگار نے بچوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس کے ساتھ والد گرامی مرحوم نے کیا تھا۔ فرماتے تھے میں سکول کے ہوم ورک کا ذمہ دار نہیں۔ میرا اپنا نصاب ہے جو پڑھانا ہے۔ گرما کی وہ طویل‘ پسینے سے بھری رات نہیں بھولتی جو آدھی ہو چکی تھی اور والد صاحب اس کالم نگار کو اور اس کی بڑی بہن کو فارسی پڑھا رہے تھے اور کیا پڑھا رہے تھے؟ ایک نظم جس میں ایک سطر بار بار آتی تھی ع
شبِ کوتاہ و قصّہ طولانی
ہم نے کہا ابا جی!شب کوتاہ وقصّہ طولانی‘ ایک لمحے کو ہنسے اور کہا ہاں۔ جبھی تو پڑھ رہے ہیں۔ تعطیلات میں گائوں گیا تو دادی جان سے شکایت کی کہ اباجی آدھی آدھی رات تک پڑھاتے ہیں اس پر بھی کچھ خاص داد رسی نہ ہوئی!!
بچوں کو سب سے پہلے مسدس حالی کے منتخب حصے پڑھائے۔ صرف ویک اینڈ پر قابو آتے تھے۔ یا جب انہیں سکول سے چھٹیاں ہوتیں‘ پھر بال جبریل اور بانگ درا کی چیدہ چیدہ نظمیں! ابوالعلیٰ معرّی والی نظم اور کچھ اور‘ انہیں زبانی یاد ہو گئیں۔ ڈاکٹر اسرار ان دنوں شاید چوتھی یا پانچویں میں پڑھتے تھے۔ گائوں جانا ہوا‘ ایک بزرگ نے ‘ جو ہمارے عزیز تھے اور استاد رہے تھے، اسرار سے یہ نظم سنی اور مفاجات کا مطلب پوچھا جو اس نے بتا دیا۔ ہمارے قارئین میں سے کتنوں کو اور کتنوں کے بچوں کو مفاجات کا معنی معلوم ہے؟ مرگ مفاجات کے الفاظ سب استعمال کرتے ہیں۔ مطلب کیا ہے؟ ایک دعا کی بھی تو تعلیم دی گئی ہے۔ اللھم انی اعوذ بک من موت الفجأ ۃ!!
پھر گلستان سعدی اوربوستان سعدی کی کچھ حکایتیں پڑھائیں۔ بڑے اور منجھلے بیٹے نے ہمت کی اور کچھ اسباق اپنے دادا جان سے پڑھ لیے۔ یہ نسبت بھی بہت ہے کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ انہیں دنوں ایک لطیفہ ہو گیا۔ معاذ ’’او‘‘ لیول کے طالب علم تھے۔ ایک دن کالم نگار نے انہیں’’ہوم ورک‘‘ دیا کہ والد کو فارسی میں خط لکھو جس کا مدعا یہ ہو۔ سکول میں خالی پیریڈ تھا۔ وہ کلاس روم میں بیٹھ کر لکھنے لگ گئے۔ ان کے ہم جماعت بچوں نے دیکھ لیا اور مشہور کر دیا کہ یہ لڑکا نہ جانے کہاں کا ہے اور کون سی زبان لکھتا رہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب انگریزی جاننا کمال سمجھا جاتا تھا۔ کوئی بی اے بھی کر لیتا تو اپنے نام کے ساتھ بی اے یا بی کام مستقلاً لکھتا۔ اب وہ زمانہ ہے کہ انگریزی مرغوں اورکبوتروں کو بھی آتی ہے اس لیے کہ روزگار اور روٹی کی زبان ہے۔ بچے آغاز ہی سیٹون سن کی
Treasure island
اور
Jonathan swift
کی گلیورز ٹریولز سے کرتے ہیں۔ ہر بچے کے بیگ میں ’’ٹیلز فرام شیکسپئر‘‘
Tales from Shakespear
کا نسخہ رکھا ہوتا ہے۔ اب کمال ماں باپ کا یہ نہیں کہ بچوں کو انگریزی میں طاق کریں۔ وہ تو سکہ رائج الوقت ہے۔ جیب میں موجود ہی ہے۔ اب ہمت ماں باپ کی یہ ہے کہ انہیں ان کتابوں سے روشناس کرائیں جو انہیں اپنے تہذیبی پس منظر اور ثقافتی بنیادوں سے آشنا کریں۔ سب کچھ صرف روزگار نہیں! روٹی کمانے کے علاوہ بھی انسان کے لیے کچھ کرنے کے کام ہیں۔ چارہ تو بکریوں کو بھی مل جاتا ہے۔ زیادہ نہیں تو گزشتہ ڈیڑھ دو سو برس ہی کے نامور مصنفین اور عہد ساز کتابوں سے آشنا ہو جائیں !!
No comments:
Post a Comment