Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 28, 2018

چمن تک آ گئی دیوار زنداں!ہم نہ کہتے تھے؟



عزیز گرامی سلیم صافی نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ 

’’فوری طور پر میڈیا کے احتساب کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو میدان صحافت میں موجود کالی بھیڑوں کے چہروں سے نقاب اٹھا دے۔ یہ کمیشن آغاز ہم اینکروں سے کرے اور پہلی فرصت میں میرا معاملہ اس کمیشن کے سپرد کیا جائے۔ یہ کمیشن میرا اور میرے تمام خاندان کے تمام افراد کے اکائونٹس اور اثاثوں کی تحقیقات کرے بلکہ سادہ طریقہ یہ ہے کہ مجھ سے شروع کر کے تمام اینکرز اور معروف صحافیوں کے اثاثے سامنے لائے جائیں۔ اور پھر ہر ایک سے کہا جائے کہ وہ ثابت کرے کہ یہ اثاثے کہاں سے آئے ہیں؟ اس طرح وہ یہ معاملات بھی دیکھے کہ کس صحافی نے کس حکومت‘ پارٹی بزنس یا ٹائیکون سے کس شکل میں کیا فائدہ لیاہے؟ اگر کسی اینکر یا صحافی پر کسی بھی پارٹی‘ کسی بھی حکومت کسی بھی ایجنسی یا کسی بھی اہم فرد سے کسی قسم کا فائدہ لینے کا الزام ثابت ہو جائے یا وہ اپنے اثاثوں کو جسٹی فائی نہ کر سکے تو نہ صرف اس کی صحافت پر پابندی لگا دی جائے بلکہ اسے سخت سے سخت سزا بھی دی جائے۔ یہ حقائق بھی سامنے لائے کہ کون کون سا صحافی غیر ملکی سفارت خانوں میں جا کر ایک بوتل کے عوض اپنے اور ملک کی عزت بیچتا ہے۔‘‘ 

سلیم صافی ایک وضع دار نوجوان ہے۔ اپنے سے بڑوں کا احترام قبائلی روایات کا لازمی جزو ہے اور سلیم اسے التزام سے نبھاتا ہے۔ اس کے سیاسی میلانات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور مجھے بھی ہے مگر پیشہ ورانہ امور میں اکثر و بیشتر وہ کہنہ مشق اور پختہ نظر آیا ہے۔ ذاتی تعلقات کے باوجود کچھ عرصہ پہلے اس نے مولانا فضل الرحمن کا جو انٹرویو لیا، وہ خاصے کی چیز تھا۔ ایسے کڑے اور کھرے سوالات کئے کہ مولانا محترم کے لیے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ تھا۔ 

وزیر اعظم سے مطالبہ بجا۔ مگر میڈیا تو خود سب سے بڑا محتسب ہے! وہ نیب کا احتساب کرتا ہے۔ سیاست دانوں کا کچا چٹھا سامنے لاتا ہے۔ جرنیلوں کو نہیں معاف کرتا۔ بیورو کریسی کو ملنے والی گاڑیوں اور پلاٹوں کی تفصیل‘ مع نام‘ بیان کرتا ہے۔ وکیلوں اور ڈاکٹروں کو پکڑتا ہے تو اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کے بارے میں کیوں صمٌ بکمٌ ہو جاتا ہے؟ اپنے ایک گزشتہ کالم میں اس کالم نگار نے اس حوالے سے مرثیہ خوانی کی جو ظاہر ہے صدا بصحراثابت ہوئی۔ زہرِ مکرّر کے طور پر۔ 

’’افسوس صد افسوس! یہ اینکر پرسن‘ یہ صحافی اپنے پیٹی بند بھائیوں کا احتساب نہیں کرتے۔یہ بھی تو دولت کے انبار اکٹھے کر چکے ہیں۔ یہ انبار کہاں سے آئے ہیں؟ ان کے بھی محلات ہیں۔ بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ اکائونٹس ہیں۔ مگر ان کے سارے گناہوں پر پردہ پڑا ہے اس لیے کہ سب کا احتساب یہ کرتے ہیں۔ اپنا نہیں کرتے۔ 

ایک بڑے ٹائیکون کے حوالے سے ایک فہرست وائرل ہوتی رہی۔ جس میں ایک ایک تفصیل درج تھی۔ کس کو اس ٹائیکون نے کتنی رقم دی کتنے ہوائی ٹکٹ دیے۔ کتنے مکان کتنے پلاٹ دیے۔ کہاں کہاں دیے، گاڑیاں کون کون سی دیں۔ یہاں تک کہ بینک اکائونٹ بھی نمبر وار بتا دیے گئے۔ نام بھی سب کو معلوم ہیں مگر یہ اینکر حضرات یہ فہرست اور ایسی کتنی فہرستیں پی گئے۔ کھا گئے ڈکار تک نہ لیا۔ 

سیاست دانوں کے لیے میڈیا نے لوٹے کی اصطلاح تراشی۔ انہیں گھوڑے کہا گیا۔ یہی کچھ اینکروں اور صحافیوں نے کیا۔ کل جس کے مشیر تھے آج اس کے خلاف زمین و آسمان کی شہادتیں جمع کر کر کے دکھا رہے ہیں۔ کل جس کے دفاع میں دو جمع دو کو پانچ ثابت کر رہے تھے آج اس کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ کل دست سوال جاتی امرا کے سامنے دراز تھا آج بنی گالا کے سامنے پھیلا ہوا ہے ۔ کل جن سے مناصب لیے‘ طشت میں سجی ہوئی سربراہیاں وصول کیں۔ خلعتیں پہنیں‘ آج ان کے بدن سے کپڑے کیا‘ کھال تک اتار رہے ہیں۔ یہی کام سیاست دان کرتے ہیں تو زن بچہ ان کا کولہو میں پس جاتا ہے مگر اینکر حضرات اپنے بہن بھائیوں کا نام تک نہیں لیتے۔ کتنا ظلم ہے، کتنی بڑی ناانصافی ہے، کھلم کھلا طرف داری! کیسی زنجیر ہے جو دوسروں کے معاملے میں تو آپ فریادی بن کر کھینچیں مگر جب آپ کی اپنی باری آئے تو آپ جہانگیر بن بیٹھیں۔‘‘ 

ٹائیکون کی فہرست آج بھی انٹرنیٹ پر چیخ رہی ہے۔ ایک معروف اور معتبر ٹی وی چینل کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ اس ٹائیکون کے ’’کارپوریٹ ہیڈ آفس راولپنڈی اسلام آباد‘‘ کے لیٹر ہیڈ پر تفصیلات درج ہیں۔ جن کے نام درج ہیں وہ کیوں نہیں عدالت میں جاتے؟ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے؟؟ مولانا فضل الرحمن سے انٹرویو میں مشکل ترین سوالات پوچھے جا سکتے ہیں تو ان اینکروں کو بلا کر ان کے انٹرویو کیوں نہیں لیے جاتے؟ ایک معروف انگریزی روزنامے کی ویب سائٹ پر 14جون 2012ء کی چھپی ہوئی شہر یار پوپلزئی کی وہ رپورٹ آج بھی مسکرا رہی ہے جس میں ’’پلانٹڈ شو‘‘ اور ’’ویڈیو لیک‘‘ کے عنوان سے’’پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل‘‘ کی تفصیلات موجود ہیں اور اینکروں کی گفتگو تک درج ہے! کیا اینکر حضرات نے ان لوگوں کو اپنے پروگراموں میں ایکسپوز کیا؟ کیا ان کا بائی کاٹ کیا؟ ایسا کیا جاتا تو آج سلیم صافی جیسے بے گناہوں پر الزام نہ لگتے۔ ع 

چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں ہم نہ کہتے تھے

اگر کوئی اپنی پیشہ ورانہ دیانت بروئے کار لاتے ہوئے جی ایچ کیو کی دی ہوئی زمینوں کی خبر تفصیل سے دے سکتا ہے اور یہودیوں کا ایجنٹ کہلوانے کی قربانی بھی دے سکتا ہے تو اپنے ہم پیشہ اینکروں اور صحافیوں کے بارے میں خبریں دیتے ہوئے اس کی دیانت اس کے قلم کی باگ کھینچ کیوں لیتی ہے؟ 

سرکاری خرچ پر حج کے ضمن میں اینکروں اور صحافیوں نے کسی حکمران‘ کسی وزیر کو معاف نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر سابق وزیر مذہبی امور اعجاز الحق صاحب تک اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف تک اس حوالے سے میڈیا نے سب کو رگیدا اور لتاڑا مگر ہم پیشہ اینکر جب اعتراف بھی کرتی ہے کہ سرکاری خرچ پر اس نے اور اس کے شریک حیات نے حج کیا اور یہ بھی مانتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ بھی فرماتی ہیں کہ وہ افورڈ کر سکتی ہیں تو یہ اینکر‘ یہ صحافی‘ یہ میڈیا کے خدا کیوں نہیں مطالبہ کرتے کہ افورڈ کر سکتی ہیں تو بسم اللہ! رقم قومی خزانے میں جمع کرائیے!مگر کبھی نہیں کہیں گے۔ اپنے بہن بھائیوں کی چیرہ دستیوں پر پروگرام کبھی نہیں کریں گے! احتساب وہ اصل احتساب ہے جو دوسروں کا ہو!! میڈیا کے خداؤں کا کرنا ہو تو وزیر اعظم کریں۔ مولوی صاحب وعظ میں فرما رہے تھے کہ پل صراط تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا اور پار کرنا ہو گا تو ایک کسان اُٹھا اور کہنے لگا میاں جی! پھر صاف کہیں کہ گزرنا ممکن ہی نہیں! کس وزیر اعظم کی ہمت ہے کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے۔ آپ سب کا احتساب کرتے ہیں۔ سب کو برہنہ کرتے ہیں۔ اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو خود سکرین پر لائیے!! 

کون کون کس کس دورے پر حکمرانوں کے ساتھ گیا؟ کتنی بار گیا؟ کہاں کہاں گیا؟ عہدے کس کس کو ملے؟ کن کن بیروزگاروں اور
Career-less
دریوزہ گروں کے کشکول میں بناسپتی قسم کے اداروں کی رکنیت ڈالی گئی۔ اثاثے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اینکر حضرات کو سب معلوم ہے! اللہ کا نام لیجیے۔ دوست نوازی اور کرونی ازم پر لات ماریے۔ ایک ایک پر پروگرام کیجیے۔ ریٹنگ بھی ٹاپ پر جائے گی اور عوام بھی آپ کے شکر گزار ہوں گے!












Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com