بہت ملک دیکھے۔
بہت سمندر پار کئے۔
جزیروں سے لطف اٹھایا۔
کیا کیا ولایتیں ہیں جو بحرالکاہل اور اوقیانوس کے کناروں پر آباد ہیں۔
بحیرۂ روم کے ساحلوں پر بہشت کے ٹکڑے یوں پڑے ہیں جیسے شال پر ستارے ٹانکے گئے ہیں۔
اور کیسے کیسے شہر۔
چھلکتے بازار۔
کوچے جیسے الف لیلیٰ کی داستانوں میں پھیلی گلیاں!
کھڑکیوں پر ریشمی پردے۔
پردوں کے پیچھے پریاں۔
مگر جہاں گیا، اجنبی ٹھہرا۔ کہیں پوچھا گیا، پاسپورٹ کہاں ہے؟ کہیں ویزا چیک کیا گیا۔ کہیں سوال کیا گیا، کہاں کے ہو؟ جوتے اتروائے گئے۔ کہیں بازو پھیلانے کو کہا گیا
۔ اس کرۂ ارض پر‘ اس سیارے پر‘صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں میں اجنبی نہیں۔ جہاں میں لاکھوں کروڑوں لوگوں میں الگ الگ، وکھرا وکھرا، نظر نہیں آتا۔ جہاں مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہاں سے آئے ہو، ویزا کب تک ہے؟ جہاں مجھے جیب میں پاسپورٹ نہیں رکھنا پڑتا۔
پاکستان میرا ملک ہے۔ میرا گھر ہے۔ اس کی مٹی میری اپنی مٹی ہے۔ اس کی ہوائوں میں میں نے پرورش پائی ہے۔ اس کی دھوپ اور چاندی نے مجھے نشوونما بخشی ہے ۔اس کے ستاروں کی ضیا نے میرے اندر توانائی بھری ہے۔ اس کی روئیدگی نے مجھے پالا ہے۔ اس کے پانی نے مجھے بڑا کیا ہے۔
شباب کے سبزے نے چہرے پر ہالہ بنایا تو قسم قسم کے خناس ذہن میں جاگزین ہوئے۔ نوجوانی کا غرہ! ہم چوما دیگری نیست !!ایک خناس یہ بھی تھا کہ تاریخ اور فلسفہ تاریخ ہم سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ تقسیم غلط ہوئی۔ متحدہ ہندوستان بہتر تھا۔ مباحثہ کرنے میں جواب نہ تھا۔ کراچی سے ٹرین میں بیٹھے۔ راولپنڈی تک ایک کرنل صاحب سے، جو ڈاکٹر تھے مباحثہ جاری رہا۔ سیالکوٹ کے تھے، ایبٹ آباد میں مقیم تھے۔ پورا اسم گرامی یاد نہیں آرہا، قبیلے کی شناخت ’’پال‘‘ نام کے آخر میں لکھتے تھے۔ ایبٹ آباد جانا ہوا تو انہوں نے دعوت پر بلالیا۔ مباحثہ جاری رہا۔ ماننا انہوں نے کیا تھا، کہنے لگے تمہیں وکالت میں جانا چاہیے تھا۔
مگر زمانے نے ٹھوکروں پر رکھا تو اونچ نیچ سب سمجھ میں آ گئی۔ خناس رفع ہو گئے۔ پتہ چل گیا کہ سو میں بیس کتنے ہوتے ہیں۔ مثالیت کا نشہ ہوا ہوگیا۔ پہلا آئینہ ان پاکستانیوں نے دکھایا جو متحدہ عرب امارات میں رہتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے والے پاکستانیوں نے بتایا کہ تقسیم سے پہلے کا ہندوئوں کا رویہ دیکھنا ہو تو یو اے ای میں آ کر، رہ کر، دیکھو کس طرح ہر جگہ پاکستانیوں کا پتہ کاٹتے ہیں۔
پھر دنیا بھر میں جانا ہوا۔ بھارتی سول سرونٹس سے گفت و شنید ہوئی۔ خود وہاں جا کر سول سروس کا حال دیکھا۔ مسلمان آٹے میں نمک سے بھی کم۔ آبادی کا تناسب بہت زیادہ۔ پھر بیرون ملک قیام رہا۔ بھارتیوں سے ملنا جلنا ہوا۔ ایک ایک کر کے ساری خوش فہمیاں دور ہوگئیں۔ کیا اس سے زیادہ تعصب بھی ہوسکتا ہے کہ کرناٹک کی ریاست نے بھارتی یوم آزادی کے جشن کے دوران ٹیپو سلطان کا مجسمہ جلوس میں رکھا۔ پورا بھارت درد زہ میں مبتلا ہوگیا۔ کراہنے کی آوازیں ہر طرف سے آنے لگیں۔
جس تھالی میں کھاتے ہیں اس میں چھید کرنے والے جان لیں کہ محلات، گاڑیاں، حکمرانیاں، عیاشیاں سب پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ہوتے تو سکینڈ کلاس شہری ہوتے۔ اقلیت کا نشان ماتھے پر کھدا ہوتا۔ جہلم کے لوگ بتا رہے تھے کہ پورے بازار میں صرف ایک دکان مسلمان کی تھی۔ یہی حال ان تمام مقامات پر تھا جہاں مسلمان اقلیت میں نہیں، اکثریت میں تھے۔
پاکستان ایک ہرا بھرا، سبز پتوں سے لدا شجر ہے جس پر ہمارے گھونسلے ہیں۔ پاکستان ہارا مان ہے، ہمارا دل ہے۔ ہماری جان ہے۔ ہمارے جسم کی رگوں اور وریدوں میں جو خون ہے اس کا ایک ایک قطرہ، ہمارے گوشت کے نیچے جو ہڈیاں ہیں اور ہڈیوں میں جوگودا ہے، اس کا ایک ایک ذرہ پاکستان کا مرہون احسان ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے، شناخت کتنی اہم ہے، جائے پناہ کتنی ضروری ہے، اپنا ٹھیا کتنی بڑی دولت ہے۔ روہنگیا کے مہاجروں اور فلسطین کے پناہ گزینوں سے پوچھو۔ آسٹریلیا کے ایبوریجنز
(Aborigines)
سے، امریکہ کے ریڈ انڈینز کو دیکھو۔ پھر اے ناشکرو‘ اے کفران نعمت کا ارتکاب کرنے والو‘ سجدہ شکر ادا کرو۔ مالک نے تم پر احسان کیا۔ تمہیں ایک الگ خطہ خاک سے‘ اس ارض پاک سے نوازا۔
بجا کہ ہم اس سے انصاف نہیں کرسکے۔ ہم وہ فرزند ثابت ہوئے جو ماں کو خورسند نہ رکھ سکے۔ ہم نے اسے لوٹا کھسوٹا۔ اسے ظلم سے بھر دیا ‘یہاں تک کہ ناانصافی چھلک کر پیالے سے باہر گرنے لگی۔ یہاں تک کہ فرشتہ پکار اٹھا ؎
اور اب اسے ایک غیب کا ہاتھ انڈیل دے گا
کہ صبر کی انتہاسے بستی چھلک رہی ہے
مگر شاید ہماے نامہ اعمال میں کوئی بھولی بسری کوئی چھوٹی موٹی نیکی تھی جو کام آ گئی۔ ہماری غار کے منہ سے قدرت نے پتھر سرکا دیا۔ ہم نے لٹیروں، ڈاکوئوں، غاصبوں اٹھائی گیروں کو پہچان لیا، ہمیں ایک ایسا لیڈر مل گیا جس کی ملک سے باہر جائیداد ہے نہ فیکٹریاں، محلات نہ گراں بہا اپارٹمنٹ۔ نہ پینٹ ہائوس، نہ دبئی میں عالی شان قصر۔ نہ دنیا کے اطراف و اکناف میں لوٹی ہوئی ملکی دولت کے انبار۔ خدا کی سنت ہمارے شامل حال ہوئی۔ ہم پر نصرت کے دروازے کھلے۔ یہ دن ہیں جو لوگوں کے درمیان پھیرے جاتے ہیں۔ حافظ ظہورالحق ظہور نے کہا تھا ؎
خدا ہر ایک کو دیتا ہے موقع کام کرنے کا
اسی خاطر زمانے میں ہمیشہ انقلاب آیا
رت بدلتی ہے۔ دن پھرتے ہیں۔ جاڑا آتا ہے۔ پھر بہار۔ کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ شجر نیا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ حجر حمد و ثنا کر کے رت بدلنے والے کو یاد کرتے ہیں۔ پھر تابستان آتا ہے۔ سورج کی کرنیں تیر کی طرح چبھتی ہیں۔ ایسے میں درخت پتوں کو ہلا کر سائے کا قالین بنتے ہیں اور ہمارے لیے فرش خاک پر بچھاتے ہیں۔ پھر خزاں ہر طرف چھا جاتی ہے۔ سدا بہار پودے اس خزاں میں بھی سرسبزو شاداب رہتے ہیں۔
اس ملک نے بھی موسموں کا الٹ پھیر دیکھا۔ ہم نے خزاں کے ایسے ادوار بھگتے جو بہار کے موسموں کو ہڑپ کرتے رہے۔ ہمارے درخت ٹنڈ منڈ رہے، زرد، خشک، کھڑکھڑاتے پتوں سے ہمارے صحن بھر گئے۔ مگر ہم پرامید رہے۔ پھر غالیچے فضا میں اڑتے ہوئے آئے۔ بادلوں نے ہمارے سروں پر رحمت کی شال تان دی ؎
شکر نعمت ہائی تو چندانکہ نعمت ہائی تو
عذر تقصیرات ما چندانکہ تقصیرات ما
جتنے ہمارے گناہ۔ اس سے کہیں زیادہ اس کی نعمتیں اور رحمتیں۔ سبحان اللہ وبحمدہ۔
ہماری نئی قیادت اگر ثابت قدم رہی، اگر اس نے اپنے آپ کو اقتدار کے نشے سے بچائے رکھا، اگر غلطیاں سرزد کرنے والوں کو اپنی صفوں میں وہ پہچانتی رہی، اگر ان سے باز پرس کرتی رہی، اگر بے غرض، بے لوث رہی، اگر مال و زر سے بے نیاز رہی تو یہ ملک اقوام عالم میں یوں ابھرے گا جیسے بادلوں کے پیچھے سے چاند نکلتا ہے جسے پوری دنیا دیکھتی ہے ؎
وادی قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سربکف ہوکے جوانان وطن نکلیں گے
No comments:
Post a Comment