اس رہائش گاہ میں چار کمرے تھے۔ ایک معزول بادشاہ کے استعمال میں تھا۔ دوسرا شہزادے اور اس کی بیگم کے لیے مخصوص کیا گیا۔ تیسرا ملکہ کے لیے تھا اور چوتھے میں چھوٹا شہزادہ اپنی ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔
بالائی منزل پر ایک برآمدہ تھا۔ یہاں معزول بادشاہ اور اس کے دونوں بیٹے بیٹھ جاتے اور سمندر سے آنے والی ہوا سے لطف اندوز ہوتے۔ کبھی جہازوں کو آتا جاتا دیکھتے۔ دن کو دو سنتری پہرے پر ہوتے۔ رات کو ان کی تعداد تین ہو جاتی۔ خدمت گاروں میں ایک چپڑاسی تھا جو سودا سلف لاتا۔ یہ حکمرانوں کا جاسوس بھی تھا۔ اس کے علاوہ ایک بہشتی تھا۔ ایک دھوبی اور ایک خاکروب۔
ملکہ کو ایک غم یہ کھائے جا رہا تھا کہ اس کا ذاتی خزانہ اور زیورات بھی چھین لیے گئے تھے۔ کل مالیت ان کی دو لاکھ روپے بتاتی تھی۔ بہرحال یہ سب کچھ ضبط ہوگیا اور کچھ واپس نہ ملا۔
یہ احوال آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا ہے۔ ملکہ زینت محل تھی۔ شہزادہ جواں بخت تھا۔ اس کی پندرہ سالہ بیگم شاہ زمانی بیگم تھی۔ چھوٹے شہزادے کا نام مرزا شاہ عباس تھا۔ وہ مبارک النساء بیگم کا بیٹا تھا جو رتبے میں ملکہ زینت محل سے کم تر تھی۔
مغل خاندان کے تاجدار کو معزول کرنے والے لندن سے آئے تھے۔ معزول کرنے والوں کا برصغیر سے کوئی تعلق نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ بحری جہازوں پر سوار ہو کر دکانداری کرنے آئے تھے اور حاکم بن بیٹھے۔ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ شریف خاندان کا تاجدار جسے معزول کیا گیا، لندن سے ہے اور اسے معزول کرنے والے، عدلیہ ہے یا دوسرے، مقامی ہیں۔ مماثلت کی کڑیاں عجیب و غریب ہیں۔ یہ تاجدار بنیادی طور پر دکاندار خاندان سے تھا۔ حکمران بنا تو لندن منتقل ہوگیا۔ اب اس کا خاندان اس کی اولاد لندن میں تھی۔ جائیداد، کاروبار، رہائش گاہیں سب کچھ لندن میں تھا۔ حکمرانی کے دوران وہ کتنی بار لندن گیا؟ لاتعداد بار!! جس ملک میں بھی جاتا، آتے جاتے لندن ٹھہرتا۔ لندن اپنا گھر تھا۔ لندن اپنا وطن تھا۔ اپنے وطن کو، اپنی مٹی کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔
مماثلت پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے۔ دوبارہ سوچیے۔ مغل تاجدار کو معزول کرنے والے دکاندار تھے جو بادشاہ بن بیٹھے تھے۔ لندن سے آئے تھے۔ شریف خاندان کا بادشاہ خود دکانداری سے ترقی کرتے کرتے بادشاہ بنا اور لندن چلا گیا۔
بہادر شاہ ظفر سے، اس کی ملکہ سے، شہزادوں سے سب کچھ چھین گیا۔ شریف تاجدار کی دولت اور پراپرٹی محفوظ ہے۔ لال قلعہ چھن گیا۔ زینت محل کا خزانہ اور زیورات لے لیے گئے۔ رہائش گاہ ان کی عبرت ناک تھی۔ وطن سے دور تھے۔ برسوں بعد زینت محل نے عرضی دی کہ واپس وطن جانے دیا جائے۔ نامنظور ہوگئی۔ شریف خاندان کے معزول بادشاہ اور شہزادی کی رہائش گاہ ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ رشتہ دار دوست احباب، سابق ماتحتوں میں سے جو ابھی تک وفادار ہیں، آ کر ملاقات کرتے ہیں، بھائی اور بھتیجے کی سیاسی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں۔ دو شہزادے لندن میں بدستور رہ رہے ہیں۔ اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں۔
مماثلتوں کے ساتھ ساتھ کچھ فرق بھی ہے۔ انگریز حکمرانوں نے جو لندن سے آئے تھے، ہندوستان کو بہت حد تک قبول کرلیا۔ 1800ء تک سفید فام حکمرانوں اور گندمی رنگ کے محکوموں کے درمیان وہ لکیر نہ تھی جو ولزلے نے آ کر کھینچی۔ انگریز مقامی عورتوں سے شادیاں کرتے۔ گھل مل کر رہتے۔ ویلزلے 1798ء میں گورنر جنرل بنا۔ ایک سال بعد مرہٹوں اور نظام دکن کی مدد سے سلطان ٹیپو کا قصہ تمام کیا۔ 1805ء تک رہا اور حکمرانوں کو باور کرا گیا کہ تم سفید فام ہو، حاکم ہو۔ برتر ہو۔ مقامی لوگ محکوم ہیں۔ نیچ ہیں۔ اس کے بعد دونوں طبقے مکمل طور پر الگ الگ ہو گئے۔
مگر اس کے باوجود انگریزوں نے یہاں جینا مرنا قبول کیا۔ کرسمس ایسٹر سب یہاں مناتے۔ شریف خاندان کے بادشاہ نے ایسا نہیں کیا۔ لندن کو بھلا نہ سکا۔ حکمرانی یہاں تھی۔ ہر عید پر خاندان کے ہمراہ لندن جاتا۔ عید کی نماز وہیں پڑھتا۔ وہیں سویاں پکتیں۔ تہوار ختم ہوتا تو خاندان واپس برصغیر کا رخ کرتا۔ آکر حکمرانی کا عصا پھر سنبھال لیتا۔
ایک اور فرق بھی واضح ہے اور دلچسپ بھی۔ بہادر شاہ ظفر نے دہلی کا اقتدار عملاً انگریز کے سپرد کردیا۔ شریف تاجدار نے اقتدار عملاً اپنی صاحبزادی کو سونپ دیا۔ وزیر تھے یا سفیر، سب اس کے حضور حاضری دیتے۔ وزارت اطلاعات اس کی غلام تھی۔ سب سے بڑے صوبے پر برائے نام اقتدار بھائی کا تھا مگر اصل حکمرانی بھتیجے کے ہاتھ میں تھی۔ پروٹوکول بھتیجے کا لارڈ ویلزلے اور لارڈ کارنوالس سے کم نہ تھا۔ درجنوں گاڑیاں بھتیجے کے آگے پیچھے ہوتیں۔ صوبے کے وزیر اس کے سامنے یوں سرنگوں ہوتے جیسے برسات میں بیر بہوٹیاں زمین پر رینگتی ہیں۔ کیا تھانے، کیا تھانیدار۔ کیا افسر شاہی، کیا مرغ و ماہی، سب بھتیجے کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے۔ سرکاری اجلاسوں میں وہ موجود تھا۔ عدالت نے جب بعد میں اس کے والد سے پوچھا کہ چھپن کمپنیوں کے اجلاسوں میں صاحبزادہ کس حیثیت سے شرکت کرتا تھا تو ذہین باپ نے کیا خوبصورت جواب دیا۔ جمہوریت کی تاریخ میں یہ جواب سونے کے پانی سے لکھا جانا چاہیے۔ جواب اس مفہوم کا تھا کہ بیٹا پارٹی کا کارکن تھا، مشورہ دینے اجلاس میں بیٹھ جاتا۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ! پارٹی کے سارے کارکنوں میں اور کسی کا دماغ نہ تھا۔ ہائے ہائے، مغل خاندان کے بعد شریف خاندان کی تاجداری اور تخت شاہی پر بیٹھنے کا فلسفہ و حکمت، بھتیجا صوبائی اسمبلی کا رکن نہ تھا مگر سرکاری اجلاسوں میں تابانی اور درخشندگی اسی کی ہوتی۔ مرزاا جواں بخت اور مرزا شاہ عباس تو لال قلعے میں بھی بھتیجے کے مقابلے میںگھسیاروں سے زیادہ نہ تھے۔
ایک فرق مغل خاندان اور شریف خاندان میں یہ بھی تھا کہ مغل بادشاہ اپنے اخراجات قومی خزانے سے پورا کرتے تھے۔ شریف خاندان کا فرماں رواں سب کچھ اپنی جیب سے ادا کرتا تھا۔ اس فرماں روا کا تعلق فرقہ ملامتیہ سے تھا۔ یعنی لوگوں سے اپنی نیکیاں چھپاتا تھا۔ وزیراعلیٰ روزانہ کا خرچ ذاتی جیب سے ادا کرتا تھا مگر لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھائیس لاکھ روپے روزانہ قومی بجٹ سے نکالے جاتے تھے جس ہیلی کاپٹر میں کھانا مری جاتا تھا اس کا پٹرول کا خرچ جیب سے دیتا۔ جب نواسی کے نکاح کے لیے قومی ایئرلائن کے جہاز کا رخ موڑ کر سعودی عرب کیا گیا تو قومی ایئرلائن کو ادائیگی کی۔ شہزادی اپنے میڈیا سیل کا مالی بوجھ خود اٹھاتی۔ جاتی امرا کے محلات کے گرد حصار کھینچا گیا تو کروڑوں روپے بادشاہ نے ذاتی جیب سے دیئے اور تو اور، کم بارکر کے لیے آئی فون بھی خود خریدا۔
بادشاہ اور شہزادی نے یہ پہلی عید ہے جو وطن سے ہزاروں میل دور، دیار غیر میں منائی ہے۔ موجودہ حکومت کو خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ انگریز حکومت نہ رہی تو اور کون سی حکومت ہمیشہ رہے گی؟ عید بقر عید کے موقع پر شریف خاندان کے تاجدار کو لندن جانے دیا جائے۔ کہیں معزول بادشاہ یہ نہ گنگنانے لگ جائے ع
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment