کھڑکی سے پردہ ہٹائیے۔
آپ کی کھڑی کے ساتھ درخت ہے۔ سبز پتوں سے بھرا جھومتی شاخوں سے لہلہاتا۔ ایک شاداب ٹہنی پر چڑیا بیٹھی ہے۔ کان لگا کر سنیے کیا ہی میٹھا گیت گا رہی ہے۔ مجید امجد نے کہا تھا ؎
ننھی چونچ پہ چوں چرچوں چرچوں کی چونچل بانی
کرن کرن پر ناچ رہی ہے اس کے من کی کہانی
کیا گاتی ہے کیا کہتی ہے کون اس بھید کو کھولے
جانے دُور کے کس ان دیکھے دیس کی بولی بولے
یہ چڑیا‘ یہ ننھی سی جان‘ کس قدر معصوم ہے! کیا یہ جھوٹ بول سکتی ہے؟ کیا یہ دھوکہ دے سکتی ہے؟ کبھی نہیں! دنیا میں اس سے زیادہ معصوم کون ہو گا؟ آپ یہی کہیں گے ناکہ کوئی نہیں! مگر ایک شخص اس چڑیا سے بھی زیادہ معصوم ہے!
کیا دودھ پیتے بچّے سے بھی زیادہ معصوم کوئی ہو گا؟ سانپ کے سر کو مٹھی میں جکڑ لے۔ دہکتا کوئلہ پکڑ کر منہ میں ڈالنا چاہے! طفلِ شیر خوار!! اقبالؔ نے اس کے بارے میں کہا تھا۔
میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاّتا ہے تو
مہرباں ہوں میں‘ مجھے نامہرباں سمجھا ہے تو
پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم
چھو نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم
آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے
کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے‘ یہ بے آزار ہے
گیند ہے تیری کہاں؟ چینی کی بلّی ہے کدھر
وہ ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر
مگر علامہ کو کیا معلوم تھا کہ ایک مخلوق اس سیارے پر طفلِ شیر خوار سے بھی زیادہ معصوم ہے۔
یہ معصوم ترین مخلوق‘ ایک مٹھی میں سما جانے والی چڑیا سے بھی زیادہ معصوم ہے! اُس بچے سے بھی زیادہ معصوم ہے جس سے چاقو اور پین چھین لیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو زخمی نہ کر بیٹھے! اس وقت زمین کے اوپر فلکِ کج رفتار کے نیچے‘ جنرل پرویز مشرف سے زیادہ معصوم کوئی نہیںٖ پرسوں موصوف ٹیلی ویژن پر انٹرویو دے رہے تھے۔ دعویٰ کیا کہ ان کے عہد میں ایم کیو ایم میں کوئی ایسا ویسا معاملہ نہ تھا! انٹرویو لینے والے نے بتایا کہ آپ ہی کے عہد میں الطاف حسین نے بھارت جا کر تقریر کی تھی کہ پاکستان کا قیام بہت بڑی غلطی تھی۔ جنرل صاحب نے کمال معصومیت سے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا علم ہی نہیں! یہ وہ ساعت تھی کہ غیبی قوتوں نے کرۂ ارض پر موجود تمام معصومیت اِدھر اُدھر سمیٹ کر‘ اکٹھی کر کے‘ جنرل صاحب کے چمکتے چہرے پر یوں مل دی جیسے دیوار پر سیاہی ملی جاتی ہے! سبحان اللہ!تاریخ میں اِس ’’معصومیت‘‘ کی کوئی اور مثال ملنا ممکن ہی نہیں!
دو ہی صورتیں ہیں‘ ایک یہ کہ جنرل پرویز مشرف کو واقعی معلوم نہ ہو سکا کہ الطاف حسین نے بھارت جا کر پاکستان کے خلاف تقریریں کیں اگر یہ درست ہے تو پھر پرویز مشرف صاحب جیسا نااہل حکمران شاید ہی کوئی اور گزرا ہو! آپ کو یہی نہیں معلوم ہوا کہ ایک پاکستانی سیاست دان‘ دشمن ملک میں جا کر پاکستان کے قیام کو چیلنج کر رہا ہے! آپ حکمران بننے کے اہل ہی نہ تھے!
اور اگر یہ بات غلط ہے کہ انہیں معلوم ہو نہ سکا تو اس کا مطلب ہے وہ دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔ حقیقت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں! سارے پاکستان کو معلوم ہے کہ اس پاکستان دشمن تقریر کے بعد دہلی میں واقع پاکستانی سفارت خانے کے ارکان بہت مضطرب اور غم زدہ ہو گئے تھے ۔ ایسے میں اسلام آباد سے سفارت خانے کو ہدایات ملیں کہ الطاف حسین صاحب کے اعزاز میں سفارت خانہ سرکاری ضیافت کا انعقاد کرے!
سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے سابق صدر کو یقیناً بہت سے دیگر حقائق کا علم بھی نہ ہو گا! معصوم جو ٹھہرے! مثلاً انہیں یہ یقیناً معلوم نہ ہو گا کہ ان کی تصنیف دل پذیر میں کسی نے اعتراف کر لیا ہے کہ انسانوں کو فروخت کر کے امریکی سرکار سے ڈالر لیے جاتے رہے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ خالص دوست پروری کی بنیاد پر تعینات کیا گیا سفیر جکارتہ میں سفارت خانے کی عمارت کواونے پونے فروخت کر رہا تھا۔ سفارت خانے کے ایک افسر نے‘ جو سفیر صاحب کا نائب بھی تھا‘ وزارت خارجہ کو متنبہ کیا کہ غلط کام کیا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف صاحب کو تو بوجہ معصومیت علم نہ ہو سکا مگر ان کے فرشتوں نے اُس افسر کو سزا دی۔ اتنی ظالمانہ سزا کہ وہ افسر کئی سال تک بغیر کسی دفتر کے اور بغیر کسی کام کے رہا۔ سال پر سال گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ دیانت دار افسر ریٹائر ہو گیا اور پھر جلد اس صدمے کے باعث جان ہار گیا۔
جنرل پرویز مشرف کو اس ظلم کا علم بھی نہ ہو گا کہ ان کا ایک دوست‘ جس کا وفاقی‘ سول شعبہ تعلیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سالہاسال وفاقی شعبہ تعلیم کا سربراہ بنا رہا اور جن کا حق تھا وہ عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے۔ معصوم ریٹائرڈ جرنیل کو یہ بھی نہ معلوم ہو گا کہ ڈاک کے ادارے پر بھی اپنے ایک ریٹائرڈ فوجی ساتھی کو مسلط کر دیا اور جن کی حق تلفی ہوئی وہ بددعائیں دیتے دیتے ریٹائر ہوتے رہے۔ یہ فقط چند مثالیں ہیں۔ورنہ معصومیت کی داستانیں بے شمار ہیں۔
کوئی پاکستانی‘ بالخصوص کوئی فوجی پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی برداشت نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل پرویز مشرف پہلے جرنیل ہیں جو بھارت میں کی جانے والی پاکستان دشمن زہریلی تقریر پی گئے! چُوں تک نہ کی۔ پھر ’’حب الوطنی‘‘ کی انتہا یہ کہ پاکستان کے خلاف نجاست بھری تقریر کرنے والے کو پاکستانیوں ہی کے خرچ پر ضیافت بھی دی گئی!
پرویز مشرف اس ملک کے پہلے جرنیل ہیں جو عدالتوں میں حاضر ہونے کے بجائے بیمار بنے رہے۔ لوگ خوب ہنسے۔ ساری بہادری کافور ہو گئی۔ پھر ملک سے باہر بھاگ گئے۔ کوئی اور ہوتا تو عزت کی خاطر خاموش ہو کر وقت گزارتا مگر آپ کو اپنی آواز سننے کا شوق حد سے زیادہ ہے۔ موقع بے موقع بولیں گے۔ بیانات جاری کریں گے۔ انٹرویو دیتے پھریں گے۔ ایک سیاسی جماعت بھی بنا رکھی ہے جو تانگہ پارٹی سے زیادہ نہیں! صفر سے بھی کم قدرو قیمت ہے اس جماعت کی مگر جنرل پرویز مشرف صاحب کمال معصومیت سے اس بھاری بھرکم سیاسی جماعت کے باقاعدہ سربراہ ہیں!سنا ہے سادات کی عزت ہوا کرتی تھی جو عاشقی میں جاتی تھی۔ سادات کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عزتِ سادات عاشقی کے بغیر ہی چلی گئی!
کیا سابق صدر کا آئی کیو(iQ)اس قدر کم(Low)ہے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کی اس بات پر ایک فی صد لوگ بھی یقین نہیں کریں گے؟ کیا وہ اس قدر غبی ہیں؟ جب الطاف حسین نے پاکستان دشمنی سے بھری ہوئی یہ تقریر بھارت میں کی تھی اور پاکستان کے وجود کو غلطی اور حماقت قرار دیا تھا‘ تو پورے ملک میں اس پر احتجاج ہوا تھا۔ معصوم صدر صاحب اس پورے ہنگامے سے بے خبر رہے! جس طرح اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آپ نے کرپٹ سیاست دانوں کو وزارتیں دیں‘ اسی طرح حکمرانی کی لالچ میں آپ نے الطاف حسین کی وطن دشمنی بھی قبول کر لی‘ انٹرویو لینے والا بھی عجیب شخص تھا! اتنا ہی پوچھ لیتا کہ کیا آپ کو ایجنسیوں نے بھی آگاہ نہ کیا؟
ریٹائرڈ صدر صاحب کا ایک شعبدہ اور بھی ہے۔ بظاہر میاں نواز شریف کے مخالف ہیں اور ان کی حکومت کے بھی! مگر اپنے وفادار ساتھیوں کی اکثریت کو مسلم لیگ نون میں بھیج دیا ہے تاکہ وہ موجودہ وزیر اعظم کے اقتدار کی حفاظت کریں۔ جناب زاہد حامد سے لے کر جناب دانیال عزیز تک اور جناب امیر مقام سے لے کر محترمہ ماروی میمن تک‘ حکومتِ وقت کے ہم نوا‘ جنرل صاحب ہی کے فرستادہ ہیں! اب یہ تو ممکن نہیں کہ جیب سے رومال نکال کر وردی صاف کرنے والے جاں نثار‘ جنرل صاحب سے پوچھے بغیر‘ جنرل صاحب کی مخالف نمبر ایک جماعت میں گُھس گئے اور بلند مقامات پر فائز ہوئے۔ اتنے وفادار ساتھی بھلا جنرل صاحب کو چھوڑ دیں! ناممکن ! وہ یقیناً کسی مشن پر ہیں۔ یہ مشن جنرل صاحب ہی کا دیا ہوا ہو گا! اگر جناب امیر مقام نے مسلم لیگ میں داخل ہو کر اپنا ریوالور سابق صدر صاحب کو ابھی تک واپس نہیں کیا تو یہ بھی جنرل صاحب کی ایک جنگی چال ہو گی!
کوئی ہے جو جنرل صاحب کو قائل کرے کہ اللہ اللہ نہ سہی‘ طبلہ نوازی ہی کر لیں مگر اپنے آپ کو سامانِ عبرت نہ بناتے پھریں۔
No comments:
Post a Comment