ایوب جولاہا مرض کی شدت میں رو پڑا۔ گڑگڑایا۔ یاپروردگار! میں اس امتحان کے لائق نہیں! اے بیماری دینے والے اور اے بیماری کو تندرستی میں بدل دینے والے! میں ایوب جولاہا ہوں‘ ایوب پیغمبر نہیں!
سو ہم تو ایوب جولاہے ہیں! کہاں کی شاعری اور کیا عظمت! جناب ہارون الرشید ہمیشہ سے فیاض ہیں۔ جب بھی آئیں جو بھی شے پاس ہو رُکیں تو یہیں چھوڑ جاتے ہیں، دسترخوان وسیع، دل اس سے زیادہ! تعریف کرتے ہیں تو اس میں غالب عنصر محبت کا ہوتا ہے۔ اگرچہ فیض صاحب ان کے لیے یہ بھی کہہ گئے تھے؎
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی مہرباں نہ تھے
کچھ بھی نہیں! دامن میں کچھ بھی نہیں! سوائے اُن چند ریزوں کے جو دادا اور والد کے دسترخوان سے نیچے گرے اور اُٹھا کر منہ میں ڈال لیے۔ دسترخوان سے گرے ریزے! آہ! شہرۂ آفاق ناول نگار شیرلیٹ برونٹی یاد آرہی ہے۔ ادب اور تاریخ کے طلبہ کو اس کے وہ خطوط ضرور پڑھنے چاہئیں جو اس نے اپنے محبوب ہیگر کو لکھے تھے! ہماری درس گاہوں میں ان دونوں بہنوں کے تذکرے ان کے دو ناولوں تک محدود ہیں۔ جین آئر اور وُد رِنگ ہائیٹس! مگر درد اور کرب کا قصہ دوسرا ہے! یہ 1842ء کی بات ہے جب دونوں بہنیں، شیرلیٹ اور ایمیلی، انگریزی پڑھانے برسلز گئیں۔ بورڈنگ ہاؤس میں رہائش تھی۔ پیچھے خاندان میں ایک قریبی عزیزہ وفات پا گئیں تو دونوں کو لوٹنا پڑا۔ کچھ ماہ بعد شیرلیٹ برونٹی تنہا برسلز واپس گئی۔ سکول اور بورڈنگ ہاؤس کا مالک ہیگر تھا۔ شیرلیٹ کو فرانسیسی زبان و ادب بھی پڑھاتا تھا۔ بس یہاں سے ستارے گردش میں آئے۔ شیرلیٹ کو ہیگر سے محبت ہوئی اور یوں کہ واپس جا کر جو خطوط ہیگر کو لکھے وہ شہکار بن گئے۔ ان خطوط کا سفر اس کے عشق کے سفر سے بھی زیادہ سنسنی خیز ہے۔ شادی شدہ ہیگر نے یہ خطوط پھاڑ کر ٹوکری میں پھینک دیے۔ اس کی وسیع الظرف بیگم نے پرزے، کوڑے دان سے نکالے۔ پھاڑے ہوئے کاغذوں کو سیا۔ یوں یہ محفوظ ہو گئے۔ شیرلیٹ کی وفات کے چالیس برس بعد، ہیگر کی بیٹی نے یہ خطوط اپنے باپ کی ایک اور شاگرد کو دکھائے۔ پھر اس کے مشورے سے یہ خطوط ہیگر کے بچوں نے 1913ء میں برٹش لائبریری کو دے دیے۔ برٹش لائبریری نے جب مشہور کتاب ’’محبت نامے… رومانس کے دو ہزار سال‘‘ چھاپی تو آسکر وائلڈ، چارلس ڈکنز اور دیگر مشاہیر کے خطوط کے ساتھ شیرلیٹ کے خطوط بھی اس میں شامل کیے۔
دسترخوان سے گرے ریزوں کی بات ہو رہی تھی۔ شیرلیٹ نے ہیگر کو لکھا، ’’موسیو! غریب انسان کو زندہ رہنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں درکار! امیر کے دسترخوان سے گرے ہوئے چند ریزے ہی کافی ہیں! مگر یہ ریزے بھی نہ ملیں تو موت واقع ہو جائے گی!‘‘
گھر میں علم کے دریا موجزن تھے مگر دسترخوان کے گرے ریزوں کے علاوہ کچھ نہ حاصل کیا۔ گاؤں میں تین حویلیاں تھیں۔ ایک بڑی، دو چھوٹی، تینوں کتابوں سے بھری تھیں۔ فارسی سے تعلیم کا آغاز ہوتا تھا۔ جو کتابیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں، وہ بھی پڑھ ڈالیں۔ کچھ ایسی تھیں جو چُھپ کر پڑھیں! سرگزشت حاجی بابا اصفہانی کا بوسیدہ نسخہ‘ جو تہران کا مطبوعہ تھا! مقامات حمیدی 1936ء کے چھپے ہوئے! انشائے عجیب 1888ء کا نسخہ! منشی کانتا پرشاد کی انشائے بے نقاط، پوری کتاب میں کوئی لفظ نقطے والا نہ تھا۔ نواب قاسم علی خان بہادر قیام جنگ کے درباری سکالر محمد فائق کی انشائے فائق۔ نواب لطف اللہ خان اور نواب کوکلتاش کے فرامین پر مشتمل انشائے مادھورام! ادب عالیہ کا سحر انگیز نمونہ!
تاہم بچپن میں جو ’’توارد‘‘ سب سے زیادہ ہانٹ کرتا تھا وہ اُن تین مثنویوں کا تھا‘ جو ایک ہی بحر میں لکھی گئیں۔ اور تینوں کے پہلے شعر کا دوسرا مصرع بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مشتمل تھا۔ وزن کو اعتبار میں رکھنے کے لیے بسم اللہ کے اللہ پر یہاں تشدید نہیں پڑھی جاتی! اس مقابلے کا آغاز نظامی نے کیا تھا۔ اس نے ’’مخزنِ اسرار‘‘ لکھی۔ ابتدا یوں کی: ؎
ہست کلید درِ گنجِ حکیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یعنی پروردگار کے خزانوں کی کلید بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ سو سال گزر گئے۔ ہندوستان سے امیر خسرو اُٹھے اور ایرانیوں کو حیران کرکے رکھ دیا۔ نظامی کے جواب میں مطلع الانوار لکھی۔ اس فقیر کے پاس جو آبائی نسخہ مطلع الانوار کا موجود ہے‘ وہ 1885ء کا مطبوعہ ہے اور ’’کیسری داس سیٹھ سپرنٹنڈنٹ‘‘ کے اہتمام سے چھپا ہے۔ مشکلات کی تشریح کے لیے حاشیہ مولانا ابوالحسن نے لکھا ہے۔ خسرو نے مطلع الانوار کا آغاز یوں کیا ؎
خطبۂ قدس است بملک قدیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ڈیڑھ سو برس مزید گزرے۔ عبدالرحمن جامی آئے۔ انہوں نے دونوں کے جواب میں تحفہ الاحرار تصنیف کی۔ وہی موضوع، وہی بحر۔ ویسا ہی مطلع۔ ؎
ہست صلائی سرِ خوانِ کریم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سخی کے دسترخوان پر آوازے لگائے جا رہے ہیں اور وہ آوازہ کیا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔
فارسی کا ذوق تھا۔ فارسی ادب نے، خاص طور پر شاعری نے جکڑ لیا۔ آج تک رہائی نہیں ہوئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے ایم اے کا فائنل امتحان تھا۔ دوسرے دن پرائس تھیوری کا پرچہ تھا۔ شام ڈھلے، بستر پر لیٹا، دیوار کی طرف منہ کیے، فیضی کی غزلیات سامنے رکھے، گنگنا رہا تھا۔ دوستوں کا ریلا کمرے میں در آیا۔ اظہارِ افسوس کیا کہ… ’’موصوف آخری لمحات میں بھی فارسی شاعری پڑھ رہے تھے‘‘۔
عربی کی طرف میلان اتنا نہ تھا۔ والد مرحوم کو اس کا قلق تو نہیں کہنا چاہیے، احساس شدید تھا۔ وہ ان چند گنے چنے اساتذہ میں شمار ہوتے تھے جو جاہلی شاعری پڑھنا جانتے تھے۔ صفحوں کے صفحے… حماسہ‘ متنبی اور سبع معلقات کے اُن کی یادداشت پر کھدے تھے۔ سی ایس ایس کرنے کے بعد خاصی سینئر پوزیشن پر آ چکا تھا۔ دفتری مکروہات کے ساتھ ماشاء اللہ کنبے کی ذمہ داری بھی تھی۔ ایک دن تاسف سے فرمانے لگے، ’’بڑے افسر بن گئے۔ شاعری کی کتاب چھپ گئی، مگر جہالت بدستور موجود ہے، عربی ادب سے محروم ہو!‘‘ عرض کیا، ’’ابا جی! اب کیا ہو سکتا ہے، کارِ دنیا میں چھاتی تک دھنسا ہوں‘‘۔ فرمایا، یار اور کچھ نہیں، تو کم از کم… کم از کم، عربی میں ایم اے ہی کر لو!‘‘۔ تعمیل کے لیے کمربستہ ہو گیا۔ ایک ماہ کی چھٹی میں نے لی، ایک ماہ کی چھٹی انہوں نے لی۔ دونوں کمرے میں بند ہو گئے۔ مہینے بعد امتحان ہوا۔ زبانی امتحان ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صاحب نے اورنٹیل کالج میں لیا، نتیجہ آیا۔ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔ بھاگتا ہوا گیا اور خوشی سے خبر سنائی۔ سن کر جیسے ان پر سکتہ طاری اہو گیا۔ چند ثانیے خاموش رہے! بالکل خاموشی۔ پھر فرمایا، ’’تونڈی فرسٹ ڈویژن آئی اے؟ پنجاب یونیورسٹی توں مینڈا اعتماد اُٹھ گیا‘‘۔ تمہیں تو کچھ آتا ہی نہیں! پھر فرمایا… اب کاغذات پر تمہارے نام کے ساتھ ایم اے عربی لکھا جائے گا۔ اب کچھ پڑھ بھی لو! کسی وقت کوئی کچھ پوچھ بیٹھتا ہے!‘‘
ریزے! دستر خوان سے گرے ہوئے ریزے! اور کچھ بھی نہیں!
دامن خالی ہاتھ بھی خالی دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرِ گریزاں عمرِ گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو
اب احساسِ زیاں کاٹنے کو آتا ہے۔ کاش مقامات حماسہ اور مثنوی سبقا سبقاً پڑھ لیتا! گھر کے صحن میں دریا تھا! صاف شفاف نیلگوں پانیوں والا آسمانی دریا! وائے بدبختی! ہونٹ تر تک نہ کیے؎
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا
اب کبھی کبھی شام کو پروفیسر معظم طاہر منہاس کے ساتھ بیٹھک ہوتی ہے۔ بیس بائیس سال عربوں کو مشرق وسطیٰ میں انگریزی ادب پڑھایا‘ اڑسٹھ برس میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور اب قانون کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ جج صاحبان ان کی انگریزی سن کر پہلے ششدر ہوتے ہیں پھر گھائل! پھر وہی احساسِ زیاں غالب آ رہا ہے! کیوں نہ پروفیسر صاحب کے سامنے دو زانو بیٹھ کر شیکسپیئر بالاستیعاب پڑھوں؟ پروفیسر صاحب کبھی کبھی کسی انگریزی معاصر میں کالم لکھتے ہیں۔ موتی ٹانکنے کا کیا فن ہے جو شانِ کریمی نے انہیں فیاضی سے عطا کیا ہے!
کاغذ کا دامن تنگ ہو رہا ہے۔ اسلم کولسری مرحوم کو یاد کرنا تھا، وہ حیات نہیں مگر صحبت باقی۔
No comments:
Post a Comment