طویل قامت علائو الدین کو اس کے پاکستانی دوست اللہ دین کہتے ہیں۔ وہ سوڈانی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے۔ آسٹریلیا آنے سے پہلے مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے ملک کے ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ پھر آسٹریلیا ہجرت کر گیا۔ بیگم بھی سوڈان سے ہے اور نفسیاتی مریضوں کی معالج ہے۔
ایک دعوت تھی جس میں اس سے ملاقات ہوئی۔ اُن دنوں جنوبی سوڈان کی علیحدگی کا مسئلہ پیش منظر پر چھاپا ہوا تھا۔ پوچھا کہ اُس کے خیال میں مسئلے کی جڑ کہاں ہے: ’’تُم سوڈانی ہو اور مسلمان بھی! تُم نے دنیا دیکھی ہے، تُم کیا سمجھتے ہو کہ اِس بدقسمت تقسیم کی تہہ میں کیا ہے؟‘‘
ساڑھے چھ فٹ لمبے علائو الدین نے پاکستانی بریانی کو‘ جو وہ تناول کر رہا تھا‘ غور سے دیکھا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ اس کی آنکھیں پلیٹ پر تھیں مگر دیکھ کہیں اور رہی تھیں! چند لمحوں بعد اس نے عینک کے شیشوں کے پیچھے سے دیکھا۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا: ’’اصل سبب بتائوں یا ایسا جواب دوں جس سے تُم پاکستانی خوش ہوتے ہو‘‘۔
ایک نرم اور ملائم احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستانی یا غیر پاکستانی کا کیا سوال ہے؟ اور سوڈان کے حالات میں پاکستانیوں کے خوش ہونے یا نہ ہونے کا پہلو کہاں سے در آیا؟‘‘
وہ پھر ہنسا۔ یوں تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ مستقل کھیلتی نظر آ رہی تھی مگر اب کے وہ ہنسا: ’’میں مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں میں رہا ہوں اور پاکستانیوں کے بہت قریب! بہت دوستی رہی پاکستانیوں کے ساتھ! پاکستانیوں کے خوش ہونے کے حوالے سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ حضرات جذباتی بہت ہیں۔ عرب ملکوں میں جب پاکستانی‘ اُمت مسلمہ کے ٹھیکیدار کی حیثیت سے بحث کرتے تھے اور جب بحث کا انجام جھگڑے اور پھر ذاتی تعلقات کی کشیدگی پر ہوتا تھا تو ہم عرب اپنے پاکستانی دوستوں پر ہنستے تھے، خاص طور پر فلسطینی اس صورتِ حال سے بہت محظوظ ہوتے تھے‘‘۔
پھر علائو الدین سنجیدہ ہو گیا اور وہ بات بتائی جس پر حیرت نہیں ہوئی اور ہوئی تو اس لیے ہوئی کہ مسلمانوں میں ابھی ایسے افراد موجود ہیں جو سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے ہیں۔ علائو الدین کا جواب تھا کہ جنوبی سوڈان کے غیر مسلم‘ اُس سلوک سے تنگ آ چکے تھے جو مسلمان ایک مدت سے ان کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے ایک واقعہ بیان کیا۔ جزیرہ نمائے عرب کے ایک ہسپتال میں جہاں وہ ایک سینئر ڈاکٹر کے طور پر تعینات تھا‘ ایک شام وہ ڈیوٹی پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اُس کے کمرے میں ایک نوجوان عرب ڈاکٹر نے ایک فلپائنی نرس کو دبوچ رکھا تھا اور وہ اس کے طاقتور ہاتھوں سے نکلنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ علائو الدین کو دیکھ کر اُس نے نرس کو چھوڑ دیا۔ وہ روتے ہوئے کمرے سے بھاگ نکلی۔ علائو الدین نے اپنے ماتحت ڈاکٹر کو لعن طعن کی اور متنبہ کیا کہ اگر ایسا منظر اس نے پھر دیکھا تو وہ اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اس پر ماتحت ڈاکٹر نے جو جواب دیا‘ علائو الدین کے نزدیک وہی اصل سبب تھا جس نے جنوبی سوڈان کو علیحدگی کی طرف دھکیلا: ’’تم ایک غیر مسلم عورت کی خاطر ایک مسلمان کے خلاف کارروائی کرو گے؟‘‘
یہ فقرہ اس کالم نگار نے ایک مصری سے بھی سنا تھا جو پاکستانی دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ کیا پڑھ رہا تھا؟ قرآن اور حدیث! اس نے ایک غیر مسلم خادمہ کو ایک معمولی بات پر پیٹا تھا۔ بات تھانے تک پہنچی تو اس نے تعجب سے کہا: ’’میں مسلمان ہوں اور وہ غیر مسلم! تھانے والے اس کی طرف داری کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
ہم پاکستانی غیر مسلموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں‘ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ منافقت کا یہ عالم ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے غیر مسلموں کے برتن الگ رکھے ہیں مگر ولایتی ملکوں میں جا کر‘ ریستورانوں میں انہی غیر مسلموں کے برتنوں میں انہی کے ہاتھوں کا پکا کھا کر قیمت ڈالروں‘ یورو اور پائونڈ میں ادا کرتے ہیں اور فخر سے ادا کرتے ہیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا واقعہ بہت سوں نے سنا ہو گا۔ ایک دعوت میں وہ مہمان خاص تھے۔ غیر مسلم خاکروب کو اصرار کے ساتھ‘ ساتھ بٹھایا۔ وہ اس عجیب صورتِ حال کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ سید بادشاہ‘ جسے سب جھک کر مل رہے تھے‘ اُسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا چاہتا ہے۔ شاہ صاحب نے پلیٹ سے آلو اٹھایا اور اس کے مُنہ میں ڈالا۔ اس نے دانتوں سے آدھا کاٹا اور کھا لیا۔ شاہ صاحب نے باقی آدھا اپنے مُنہ میں ڈال لیا۔ اُس کا حجاب دور ہوا اور کھانا کھانے لگا۔ روایت ہے کہ اسی شام وہ بیوی کے ساتھ حاضر ہوا اور کلمہ پڑھا۔ اگرچہ شاہ صاحب کا مقصد یہ نہیں تھا۔ وہ تو عملاً مسئلے کی وضاحت کر رہے تھے۔
مگر شاہ صاحب کا یہ انفرادی فعل اور ایسے بہت سے اللہ والوں کے یہ اعمال مسلمانوں کے مجموعی طرز عمل میں کوئی تغیر نہ لا سکے! ٹرمپ کی کامیابی پر مسلمانوں کو جس طرح امریکہ میں اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے اور جس طرح ’’شیر آیا شیر آیا‘‘ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں‘ اس پر حیرت بھی ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ جو سلوک مسلمان ملکوں میں غیر مسلموں کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے‘ وہ اگر ٹرمپ اور اس کے ہمنوا کریں تو کیا ناروا ہو گا؟ ضرب کلیم میں علامہ اقبال نے ایک باب ’’سیاسیات مشرق و مغرب‘‘ باندھا ہے‘ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ہر طالب علم کو یہ باب پڑھنا چاہیے۔ اس میں ایک نظم کا عنوان ہے ’’مسولینی۔۔۔۔اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے‘‘
آج اقبالؔ حیات ہوتے تو ٹرمپ کے حوالے سے اسی مضمون کی نظم لکھتے:
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم
بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو بُرا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! تو چھلنی میں چھاج
میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تُم
تُم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟
تُم نے لُوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تُم نے لوٹی کشتِ دہقاں، تُم نے لوٹے تخت و تاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تُم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
ویسے خدا لگتی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے ترقی یافتہ جمہوری ملکوں سے خوب خوب فائدے اٹھائے۔ اپنے ملکوں میں غیر مسلموں کے عبادت خانوں کو نذر آتش کرنے والے ان مسلمانوں کو نیوزی لینڈ سے لے کر کینیڈا اور امریکہ کے ویسٹ کوسٹ تک مسجدیں بنانے اور آباد کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ جن مذہبی اور تبلیغی گروہوں پر مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں میں پابندی لگی ہوئی ہے‘ وہ ’’کافر‘‘ ملکوں میں کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ کالم نگار ایک صاحب کو جانتا ہے جو ایک امریکی ریاست میں اسلامی سنٹر چلا رہے تھے۔ جب بھی پاکستان آتے‘ مدارس سے فارغ شدہ علما ان کے آگے پیچھے پھرتے اور التجائیں کرتے کہ کسی طرح انہیں امریکہ بلا لیں۔ ایسے ایسے مدارس امریکہ کے قلب میں قائم ہیں جہاں طلبہ شلوار قمیض کے علاوہ اور کوئی لباس ہی نہیں پہن سکتے۔ نام کیا لیے جائیں ؎
افسوس! بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
کچھ حضرات نے تو ایک ایک لخت جگر مستقلاً اِن کافرانہ ملکوں میں مقیم کیا ہوا ہے۔ ڈالروں کے انبار وہاں سے چندہ کر کے لائے جاتے ہیں۔ ایک معروف حضرت صاحب اکثر و بیشتر امریکی حکومت کے وہاں مہمان ہوتے ہیں!
ظالم ٹرمپ نے اگر مسلمانوں کو امریکہ سے چلتا کر بھی دیا تو پریشانی کی کیا بات ہے؟ آخر ایک نہ ایک دن تو ان بے وقوف گوروں کو عقل آنی ہی ہے‘ ایک دن تو انہوں نے کہنا ہی ہے کہ بھائی صاحب پاندان اٹھائو اور چلتے بنو، بہت ہو چکی! پورے عالم اسلام کا اس پر اجماع ہے اور یہ واحد مسئلہ ہے جس پر اُمت مسلمہ متفق ہے کہ امریکہ مسلمانوں کا دشمن ہے اور یہودیوں کا ہمنوا! تو اس سے اچھی بات کیا ہو گی اگر ٹرمپ کے طفیل اِس دشمن ملک سے مسلمان اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اُس پر تین حرف بھیجیں اور اپنا ایمان بچا کر وہاں سے نکل آئیں۔ آخر مشرق وسطیٰ کے کھرب پتی برادر مسلمان ممالک کس دن کام آئیں گے؟ بحیرۂ قلزم سے لے کر شط العرب تک پھیلی ہوئی‘ تیل کی دولت سے مالا مال ریاستیں‘ جن کی آبادی قلیل اور رقبے وسیع ہیں‘ اِن مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے کے لیے تیار ہیں اور بالکل وہی سہولتیں‘ وہی شہریت‘ ووٹ دینے کا وہی حق‘ جائیدادیں خرید کر اپنے نام کرنے کے وہی حقوق دیں گی جو کافر‘ یہودی نواز امریکیوں نے دے رکھے ہیں!!
ایک نصیحت ٹرمپ کے لیے بھی کہ چھوٹے بھائی! مقدس ملکوں میں جو ’’کفیل سسٹم‘‘ رائج ہے‘ کچھ عرصہ کے لیے امریکہ میں بھی رائج کر دو!!
No comments:
Post a Comment