یہ انگریزوں کا زمانہ تھا۔ اُن کے افسر‘ اُن کے مجسٹریٹ‘ اُن کے ڈپٹی کمشنر‘ ہمارے افسروں کی طرح صرف افسر نہیں تھے‘ کام کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے۔ صرف ہر ضلع کے گزٹ (GAZETTEER) ہی کو دیکھ لیجیے۔ تاریخ سے لے کر ایک ایک معاشرتی پہلو تک‘ تحقیق کی اور ضلع وار اس تحقیق کو کتابی شکل دی۔ گھوڑوں پر دور دراز علاقوں کا سفر کیا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ اس کی قبر آسام کی دور افتادہ پہاڑیوں میں‘ یا نیپال کی گھاٹی میں‘ یا وانا اور ٹانک کی بے رحم وسعتوں میں یا رنگون کی اجنبی گلیوں میں بننی ہے۔ مگر وہ اپنے ملک کے لیے‘ اپنی ملکہ کے لیے‘ اپنے پرچم کے لیے‘ دیارِ غیر میں مرنے کے لیے تیار ہوتا تھا۔
ایسا ہی ایک ڈپٹی کمشنر تھا۔ گھوڑے پر جا رہا تھا۔ اپنے علاقے کا معائنہ کرنے! راستہ بھول گیا۔ شام پڑ گئی۔ ایک گوٹھ دکھائی دی۔ کسان نے اس کے گھوڑے کو چارہ ڈالا‘ اور مہمان کو چارپائی اور بستر پیش کیا۔ کسان کے پاس بہترین کھانا اُس دن باجرے کی روٹی تھی جو اس کی بیوی نے تنور پر پکائی تھی۔ کھیتوں کھلیانوں میں پلنے والے قارئین کو معلوم ہو گا کہ باجرے کی اور مکی کی بھی‘ جو روٹی تنور میں پکتی ہے سخت ہوتی ہے۔ روٹی کے اوپر کسان کی بیوی نے ساگ رکھا اور صاحب بہادر کو پیش کر دیا۔ انگریز نے ساگ کھا لیا اور روٹی واپس کرتے ہوئے کہا کہ یہ پلیٹ واپس لے لو۔
مگر اب معاملہ الٹ ہے۔ پیزا پیش کیا جاتا ہے تو ’’پلیٹ‘‘ پر پڑا ہوا ’’سالن‘‘ نہیں کھایا جا سکتا۔ باعزت طریقہ یہ ہے کہ اُس کے اُوپر لگائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے‘ ٹماٹر کے قتلے‘ پنیر کی تہیں‘ کھرچ کھرچ کر ہٹا دی جائیں‘ نیچے روٹی رہ جائے گی۔ اُسے چائے کے ساتھ یا سالن کے ساتھ کھا لیں! پیٹ بھر لیں اور عزت بچا لیں!
مصیبت تنہا نہیں آتی۔ اس قوم نے صرف چوہدری فضل الہیٰ جیسے ’’فصیح و بلیغ‘‘ خطیب ہی کو نہیں بھگتا‘ رفیق تارڑ جیسے زعیم جن کی وجہ شہرت ہرگز ہرگز کوئی بریف کیس نہیں تھا۔ آصف علی زرداری جیسے سخت ’’دیانت دار‘‘ اور ممنون حسین جیسے ’’عالم فاضل‘‘ جن کے سامنے رادھا کرشن‘ ذاکر حسین اور عبدالکلام جیسے عالم فاضل، ادیب، سائنس دان بھارتی صدر ہیچ نظر آئیں ہی کو نہیں بھگتا۔
بلکہ پیزا کو بھی بھگت رہی ہے!
برصغیر کے مسلمانوں نے پہلے پلائو کے ساتھ کون سا انصاف کیا کہ اب روٹی کے ساتھ کریں۔ تاشقند سمرقند یا بخارا جا کر پلائو کھائیں تو یوں لگتا ہے بادلوں پر بیٹھ کر پرستان کی سیر کر رہے ہیں۔ یہی پلائو وسط ایشیائی برصغیر میں لائے تو اس کی شکل بگاڑ کر جو چیز پیدا کی‘ اُسے بریانی کا نام دے دیا بالکل اسی طرح جیسے آپ مسلّم گوسفند کے بعد مسور کی دال کھائیں! پھر مغلوں کو بریانی کا ایسا چسکا پڑا کہ پلائو پیچھے رہ گیا۔ اورنگزیب کے احوال میں مذکور ہے کہ اس کا بیٹا (غالباً مراد) جب ایک صوبے کا گورنر تھا‘ اُس کے پاس بریانی پکانے والا باورچی تھا جو اپنے کام کا ماہر تھا۔ اورنگزیب اُسے اپنے ساتھ دارالحکومت لے جانا چاہتا تھا۔ مگر عقل مند شہزادہ طرح دے گیا۔ بہرطور جب بھی اورنگزیب بیٹے کے پاس ملاقات کے لیے یا صوبے کے معائنہ کے لیے جاتا تو فرمائش کرتا کہ بریانی اُسی بدبخت کی پکی ہوئی ہو!
اس کالم نگار کو پیزا پسند نہیں خدا کا شکر ہے دیگر عادات بھی اچھی ہیں! پلائو پر بریانی کو ترجیح دینے والوں میں دونوں بیٹیاں شامل ہیں۔ اب پیزا کے معاملے میں نئی صف بندی ہوئی تو ماں بھی بچوں کی ہم نوا نکلی۔ ایک طرف یکہ و تنہا پیزا کا یہ مخالف اور دوسری طرف پورا کنبہ بلکہ سارا خاندان قبیلہ!
پیزا؟ کون سا پیزا؟ اور کیوں؟ اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! پہلے ہی تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ تم ناعاقبت اندیشوں نے مکھڈی حلوے اور زردے کے بجائے ولایتی سویٹ ڈشوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب روٹی کے اوپر ٹماٹر اور پیزا چسپاں کر کے روٹی کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ہماری روایات روٹی کے ضمن میں اتنی بھرپور ہیں‘ اس قدر امیرانہ شاہانہ اور تازگی بخش ہیں کہ پیزا کی کیا حیثیت! کیا آلو بھرے پراٹھے کا یا مولیوں والے پراٹھے کا یا پالک یا گوبھی والے پراٹھے کا کوئی جواب ہے؟ گھروں سے تم نے تنور ختم کیے اور پیزا کھانا شروع کر دیا۔ ہماری خواتین آٹا گوندھتے وقت‘ اس میں پیاز چھوٹے چھوٹے کاٹ کر ڈالتی تھیں۔ اسے پیاز والی روٹی کہتے تھے۔ تنور سے اترتی تھی تو اس پر انگلیوں سے گڑھے بنائے جاتے تھے۔ پھر مکھن کا بڑا سا پیڑا رکھا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پیزا کی حیثیت وہی ہے جو اقبال اور فیض کے مقابلے میں امام دین گجراتی کی ہو! کیا پیزا کھانے میں کام و دہن کی وہ لذت میسر ہے جو مکی کی روٹی‘ مکھن ساگ اور لسی میں ہے؟ روٹی ہی کھانی ہے تو اچار کے ساتھ پراٹھا کھائو‘ ساتھ دہی بھرا چمچ منہ میں ڈالو!
پیزا کی پیدائش نیپلز کی ہے۔ نیپلز شہر کو اطالوی میں ناپولی کہتے ہیں۔ یہ کالم نگار ایک بار سات ماہ نیپلز میں رہا مگر خدا کا شکر ہے پیزا کو اُس وقت بھی دل نہ دیا۔ پسندیدہ خوراک اپنی وہاں مچھلی‘ سپے گتی (SPAGHETTI)‘ مکرانی اور روٹی تھی۔ روٹی کو اطالوی پانے کہتے ہیں۔ جناب سرتاج عزیز اُن دنوں روم میں تھے۔ آپ ہی نے بتایا تھا کہ پیزا خریدتے وقت اگر کہنا ہو کہ پورک والا پیزا نہیں درکار تو اطالوی میں یہ ہدایت دینے کے لیے کہنا ہو گا سینسو میالے یعنی SENSO MIALE اٹلی میں پیزا مارگریٹا بہت مشہور ہے۔ یہاں بھی اب چل پڑا ہے۔مارگریٹا اصل میں اس ملکہ کا نام تھا جو 1889ء میں ، یا اس کے لگ بھگ، سرکاری دورے پر نیپلزآئی۔ بلکہ تین قسم کے پیزا پیش کیے گئے۔ ان میں سے ایک جو ملکہ نے پسند کیا، اطالوی پرچم کے رنگ کا تھا۔ اس کی سطح پر تین رنگ نمایاں تھے۔ سرخ (یہ ٹماٹر کا رنگ تھا) سبز (یہ تلسی کے بیج تھے) اور سفید( یہ پنیر تھا جسے موزاریلا کہتے ہیں) ۔ اس کے بعد اس پیزا کا نام پیزا مارگریٹا پڑ گیا۔ تاہم اس کی وجہ تسمیہ صرف یہی نہیں، اور روایات بھی ہیں، پھر جب اطالوی امریکہ پہنچے ، تو پیزا بھی وہاں پہنچ گیا۔ عالمی جنگوں کے بعد جو امریکی، اٹلی رہ کر آئے تھے، انہوں نے واپس امریکہ پہنچ کر پیزا کی دکانیں ڈھونڈیں اور یوں طلب میں اضافہ ہوا۔ پھرپیزا کے حوالے سے فاسٹ فوڈ میدان میں آئے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک دن میں امریکی آبادی کا تیرہ فیصد حصہ پیزا خوری کا ارتکاب کر رہا ہے۔
امریکی جب کاروبار کرتے ہیں تو اسے آسمان تک لے جاتے ہیں۔ پیزا بیچنے والے فاسٹ فوڈ، امریکہ سے باہر اپنی دکانیں قائم کرنے لگے تو پوری دنیا پرچھا گئے۔ پاکستانی جیسے ملکوں کے سادہ دل اور سادہ لوح لوگ فاسٹ فوڈ کے ان مرکزوں پر ٹوٹ پڑے۔ جوکھانا امریکہ میں مزدور اور نچلے درجے کے ملازم کھاتے تھے، یہاں امارت فیشن اور شان و شوکت کی علامت بن گیا۔ اب یہ کروڑوں کا کاروبار ہے۔ اس میں بہت بڑا عامل رات کو جاگنے کا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ترقی یافتہ ملکوں سے کچھ سیکھا تو برا ہی سیکھا۔ ان کے کلچر، ان کے کاروبار، ان کے طرز تعلیم اوران کے طرز حکومت میں جوحسنات تھیں ان سے مکمل پرہیز کیا اور جو سیئات تھیں، ان کی تقلید کی۔ ہفتے کے پانچ دن کیا امریکی اور کیا آسٹریلوی اور کیا یورپی، سرشام کھانا کھا لیتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ پھر صبح سویرے اٹھتے ہیں اور آٹھ بجے اپنے دفتروں، کارخانوں، کالجوں، سکولوں کمپنیوں، کارپوریشنوں میں موجود ہوتے ہیں! ان سارے ملکوں میں دکانیں صبح نو بجے کھل جاتی ہیں اور پانچ یا چھ بجے بند ہو جاتی ہیں۔ ہمارے تاجروں کو حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ دکانیں شام کو جلدی بند کرو مگر وہ ہٹ دھرمی سے انکار کر رہے ہیں اور توانائی کے ضیاع کے مرتکب ہو کرملک دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
شہروں اور قصبوں میں رات دیر تک جاگنا عام ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر میں کسی دفتر میں چلے جائیں۔ دس بجے سے پہلے کم ہی اہلکار ملیں گے۔ دکانیں تو دن کے ایک بجے کھل رہی ہیں۔ رات کو جاگنے کے لیے کچھ کھانا بھی پڑتا ہے۔ اس کلچر نے ’’پیزا ڈیلیوری‘‘ (Pizza Delivery) کے کاروبار کو جنم دیا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رات گیارہ بارہ بجے فون پر آرڈر کرتے ہیں۔ پیزا ہائوس میں میدے کی کچی روٹی پر چند ٹماٹر چسپاں کیے جاتے ہیں۔ گوشت کے تین ٹکڑے نصب کیے جاتے ہیں۔ ایک آدھ زیتون یا مشروم! اوپر سے پنیر کا سفوف چھڑکا۔ لیجیے، پیزا تیار ہے۔ ڈیلیوری والا نوجوان اسے لے کر پہنچ جاتا ہے۔ گھنٹی دیتا ہے۔ نوجوان بہن، بھائی یا میاں بیوی جورات کو الوئوںکی طرح جاگ رہے ہوتے ہیں، دواڑھائی ہزار روپے دے کراس مذاق کو اندر لے آتے ہیں۔ ساتھ کوئی کولا، سامنے لیپ ٹاپ۔ اسی حالت میں پو پھٹتی ہے۔ کہاںکی نماز کون سا وضو، ادھر اذان ہوئی، ادھر نیند نے آدبوچا۔ اب ماں باپ الٹے بھی لٹک جائیں، ان پیزا خوروں نے سہ پہر تین سے پہلے نہیں بیدار ہونا!
گلی گلی محلے محلے پیزا ہائوس کھل گئے ہیں۔ کوالٹی چیک کرنے والا کوئی نہیں۔ کروڑوں کاکاروبار ہے۔ کچھ نفع بیرون ملک Mother Countries میں جا رہا ہے، باقی مقامی تاجروں کی جیب میں! منہ ٹیڑھا کرکے پوچھتے ہیں۔ Base(کنارہ) پتلا رکھنا ہے یا موٹا؟ آرڈر دینے والا دیسی انگریز یا جعلی میم اینگلو انڈین لہجے میں جواب دیتی ہے۔
کیا کبھی کسی نے بیسنی یا مکئی کی روٹی یا آلو بھرے پراٹھے پکاتے وقت پوچھا تھا کہ Base کیا رکھنی ہے؟ پیزا کی بیس تو بتا دی ۔یہ کسی کو فکرنہیں کہ قوم کی اپنی Base کوئی نہیں!
کسی اگلے کالم میں برگر کا پوسٹمارٹم کرنا ہے۔ انتظار فرمائیے۔
No comments:
Post a Comment