یہ واقعہ کئی سال پہلے دارالحکومت میں پیش آیا۔ موسلادھار بارش ہوئی۔ جل تھل ایک ہو گیا۔ گلیاں نالوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ان گلیوں میں سے ایک سٹریٹ میں ایک بہت بڑے سرکاری افسر کا گھر تھا۔ سٹریٹ میں جگہ نہ رہی تو پانی نے اِدھر اُدھر کا رُخ کیا اور بڑے سرکاری افسر کے تہہ خانے میں جمع ہونے لگا۔ بیسمنٹ میں کئی کمرے تھے۔ خوابگاہیں بھی اور کتب خانہ بھی۔ بسترو بالیں پانی میں ڈوب گئے۔ کتابیں تیرنے لگیں۔ محکمے سے اہلکار بھاگے بھاگے گئے۔ جو ہو سکا‘ کیا۔ نقصان بہت زیادہ ہوا تھا۔ ترقیاں ادارے کے پلاننگ اور انجینئرنگ شعبے کی غلطیاں بھی تھیں جن کی وجہ سے پانی گھروں میں گھسا تھا۔ ترقیاتی ادارے کا ایک درمیانی درجے کا افسر پیش کیا گیا۔ صاحب نے اُسے گھر کا حالِ زار دکھایا۔ اس نے آگے سے کوئی ایسا عذرِ لنگ پیش کیا کہ صاحب کو جو پہلے ہی ذہنی اذیت میں تھا‘ طیش آ گیا۔ اس نے ہاتھ اٹھایا کہ ایک کڑاکے کا تھپڑ افسرِ مذکور کو رسید کرے لیکن اس کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک دانش مند ماتحت نے اٹھا ہوا بازو پکڑ لیا: ’’نہیں! سر! نہیں! ہاتھ نہیں اٹھانا۔ یہ آپ کے شایانِ شان نہیں! اور پھر اس سے ہمارا کیس بگڑ جائے گا۔ ادارے کی غلطی پس منظر میں چلی جائے گی۔ آپ کا تھپڑ مسئلہ بن جائے گا‘‘۔
کاش! کوئی ایسا دانش مند ماتحت‘ کوئی ایسا عقل مند ساتھی عمران خان کو بھی میسر آتا ،جو ان کے بار بار اٹھتے ہاتھ کوپکڑ کر بتاتا کہ حضور! جس سطح کے لیڈر آپ بننا چاہتے ہیں‘ اُس سطح کے لیڈر یوں نہیں کیا کرتے۔ انہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے‘ بہت مواقع پر چشم پوشی سے کام لینا ہوتا ہے۔ کبھی انہیں خاموشی کو زیور کی طرح پہننا پڑتا ہے۔ کبھی ع
ز جاہل گریزندہ چون تیر باش
زریں اصول کو سامنے رکھ کر اِدھر اُدھر کے مناظر کو دیکھے بغیر گزر جانا ہوتا ہے‘ کبھی قرآنی ہدایت و اذا مرّوا باللغو مرّوا کراما‘ پر عمل پیرا ہو کر متانت و وقار کے ساتھ چلتے رہنا ہوتا ہے۔ کبھی و اذا سمعوا اللغو اعرضوا عنہ کے مطابق اغماض کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔ کسی نے ہاتھ نہ پکڑا۔ برات میں جیسے کوئی عمر رسیدہ شخص شامل ہی نہ ہو‘ جیسے گرگ ہائے باراں دیدہ تو گروہ میں بہت ہوں‘ سرد و گرم چشیدہ ہی کوئی نہ ہو! ایک دوست کے لیے رشتہ مانگنے کچھ نوجوان دوسرے گائوں کو جا رہے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا تم سارے لڑکے بالے ہو‘ کسی معمر شخص کو‘ کسی چِٹ داڑھیے کو بھی ساتھ لیتے جائو۔ سفر میں واقعات پیش آتے ہیں اور مہمات میں امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے نصیحت پر عمل کیا اور گائوں کے ایک بوڑھے سیانے کو ساتھ لے لیا۔ منزل پر پہنچے اور لڑکی والوں سے مدعا بیان کیا تو انہوں نے ایک عجیب شرط لگائی۔ پندرہ بھُنے ہوئے بکرے کھا دکھائو تو رشتہ منظور ہے۔ نوجوان تھے ہی پندرہ بیس ،شش و پنج میں پڑ گئے۔ بڑے میاں کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرایا اور کہا… ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تم جوابی شرط رکھو کہ منظور ہے بشرطیکہ بکرے ایک ساتھ نہ دسترخوان پر رکھے جائیں۔ تازہ بھنا ہوا ایک وقت میں ایک بکرا لایا جائے۔ ہم سب اسے کھائیں گے۔ جب کھا چکیں تو تب دوسرا پیش کیا جائے‘‘۔ یہ وہی اصول تھا کہ گرم چپاتی ایک ایک کر کے آئے تو زیادہ کھائی جاتی ہیں۔ نوجوان شرط جیت گئے۔
جس سطح کی سیاست عمران خان کا مطمحِ نظر تھی‘ اس کے تقاضوں کو انہوں نے درخورِ اعتنا ہی نہ گردانا۔ کبھی ایم کیو ایم پر چڑھائی کی۔ لندن پہنچے‘ سارا ہنگامہ باسی کڑھی کا ابال ثابت ہوا۔ گجرات کے چودھریوں پر بھی تیراندازی کی لیکن کوئی تیر ہدف پر نہ لگا۔ اب ایک میڈیا گروپ کے سربراہ کا نام لے لے کر جلسہ ہائے عام میں اعلانات کیے کہ میں چھوڑوں گا نہیں! پھر اپنے ہاتھ سے پھانسیاں دینے کا عزم کیا۔ پھر ارسلان افتخار سے سینگ پھنسا لیے۔ بالآخر گھوڑے نے بم کو لات مار دی۔ لگتا ہے ارسلان افتخار 365 ویں گُر کے ساتھ اکھاڑے میں اترے ہیں۔ کیلی فورنیا کی عدالت کا فیصلہ انہوں نے ڈنڈے پر لٹکایا ہے اور ڈنڈے کو جھنڈا بنا لیا ہے۔
اس سارے بکھیڑے میں کچھ اور معاملات بھی آشکار ہوگئے ۔ جسٹس افتخار چودھری جب عدلیہ میں مسند پر بیٹھے ہوئے تھے اس وقت بھی صاحبزادے کا ڈاکٹری کے شعبے سے ایف آئی اے میں لایا جانا باعثِ عزت نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے وقت ان کے نمبر 639 تھے جب کہ 750 سے کم نمبر لینے والوں کا داخلہ ممکن ہی نہ تھا! پھر جو کچھ ارسلان افتخار کے حوالے سے عدالت عالیہ میں ہوا‘ زبانوں کو مزید لمبا ہونے کا خوب خوب موقع ملا۔ تاریخ سے ایک ہی سبق سیکھا گیا ہے کہ کوئی سبق نہ سیکھا جائے۔ سبق سیکھا ہوتا تو بلوچستان کے بہت بڑے منصب پر صاحبزادے کو تعینات نہ کرایا جاتا‘ یا ہونے نہ دیتے یا پھر اعصاب اس قدر فولادی تھے کہ ’’جو ہوگا دیکھا جائے گا‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا اور بچے کو مسند پر بٹھا دیا کہ رام بھلی کرے گا! پسر پروری کی اس ملک میں یوں بھی روایت مضبوط ہے اور دیرینہ بھی۔اس حوالے سے بہت سے لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ،حکما ء نے پسر پروری کو اقربا پروری کی بدترین قسم قرار دیا ہے۔ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا اور بات ہے لیکن یہ کہنا کہ سفارش کی بنیاد پر‘ قواعد و ضوابط کی دھجیاں اُڑا کر بیٹے کو فائدہ نہیں پہنچائوں گا‘ اور بات ہے۔ یہی تو اصل اسلام ہے اور یہی مشکل ہے۔ نعیم صدیقی کا شعر ہے ؎
یہ لا الٰہ خوانیاں جائے نماز پر!!
سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے
دانش کے جن ذخیروں کو آج ہم نے پسِ پشت ڈالا ہوا ہے ان میں ’’ضربِ کلیم‘‘ نمایاں ہے۔ اس میں ایک باب اقبال نے تعلیم و تربیت کے عنوان سے باندھا ہے۔ اس کے آخر میں جاوید کو خطاب کر کے تین غزل نما نظمیں کہی ہیں۔ اس کالم نگار کا بس چلتا تو یہ تین زر پارے ہر سطح کے طلبہ کے لیے لازمی قرار دیتا! فرماتے ہیں کہ شہرت و عزت باپ کی وجہ سے نہیں ملا کرتی۔ خود کچھ کرنا پڑتا ہے تب قدرت ودیعت کرتی ہے۔
غیرت ہے طریقتِ حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی تمامی
اے جانِ پدر نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرو کی غلامی
اللہ کی دین ہے جسے دے
میراث نہیں بلند نامی!
اپنے نورِ نظر سے کیا خوب
فرماتے ہیں حضرتِ نظامی
جائی کہ بزرگ بایدت بُود
فرزندیٔ من نداردت سُود!
نظامی گنجوی نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ میاں! جہاں تمہیں بڑا بننا ہوگا وہاں میری فرزندی کام نہیں آئے گی!
لیکن کوئی جسٹس ہو یا حکمران یا جرنیل‘ اقبال اور نظامی جیسے فقیروں سے کیا تعلق۔ احمد جاوید یاد آ گیا ؎
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
اور یہ کہنا تو بہت ہی دشوار ہے ؎
دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر
میری دعا سلام نہیں اس ذلیل سے
خدا جب عقل پر پردہ ڈال دے تو انسان ایسی ہی کھوکھلی اور اُتھلی باتیں کرنے لگتا ہے جیسی توجیہات وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے اپنے ہم پیشہ بھائی ڈاکٹر ارسلان افتخار کی متنازع تعیناتی کے جواز میں پیش کیں۔
’’یہ تعیناتی سابق چیف جسٹس کی اُن خدمات کی وجہ سے کی گئی جو انہوں نے بلوچ عوام کے لیے سرانجام دیں‘‘۔
اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی لیں کہ خدمات سرانجام دیں تو کیا ان خدمات کا صلہ میرٹ کا قتل کر کے دیا جائے گا؟ یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ صوبے بھر میں ارسلان ہی اہل ترین ہیں؟ پھر ایک اور مضحکہ خیز اور وزن میں ازحد ہلکی بات کہ ’’جسٹس صاحب کا تعلق بلوچستان سے قائم رکھنے کے لیے ان کے صاحبزادے کو لگایا ہے‘‘۔ چلیے اس تعیناتی سے ایک ضمنی فائدہ یہ تو ہوا کہ وزیراعلیٰ صاحب کی ذہنی سطح معلوم ہو گئی! یوں ہی تو نگاہِ انتخاب اُن پر نہیں پڑی!
استعفیٰ دیا نہیں‘ لیا گیا ہے۔ ارسلان افتخار اس وقت طیش میں ہیں۔ غیظ و غضب ان پر طاری ہے ؎
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
ان کے لیے پندِ سود مند یہ ہے کہ قومی جرائم اور بیت المال میں خیانت اور بات ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ خاندانی لوگوں کو معلوم ہو جائیں تو پردہ پوشی کرتے ہیں‘ اچھالتے نہیں! کچھ معاملات بندے اور اس کے پروردگار کے درمیان ہوتے ہیں۔ توبہ کی توفیق کسی کو بھی ہو سکتی ہے اور کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ یوں بھی کون ہے جو پارسائی کا دعویٰ کرے ؎
نہ روزنوں سے کسی نے دیکھا نہ ہم ہی مانے
وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے
No comments:
Post a Comment