بُکل ماری‘ پرانے جوتے پہنے‘ عصا پکڑا اور چل پڑا۔
سب سے پہلے افسر کے پاس گیا۔ صاحب ابھی پہنچے نہیں تھے۔ دس بج چکے تھے۔ ماتحت کچھ کام کر رہے تھے‘ کچھ آ جا رہے تھے۔
سائل انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔ وہ بھی انتظار کرنے لگ گیا۔
گیارہ بجے ہل چل ہوئی۔ خدام بھاگنے دوڑنے لگے۔ صاحب تشریف لے آئے تھے۔ عصا اٹھائے اندر چلا گیا۔ ہیئت کذائی دیکھ کر صاحب پہلے ٹھٹکے‘ پھر جلال میں آ گئے۔ گھنٹی پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اُس نے کہا ’’صاحب! میری بات سن لیجیے‘‘۔ نہ جانے ان الفاظ میں کیا تھا کہ صاحب دھیمے پڑ گئے۔ ’’بتائو! تم نے کیا کہنا ہے‘‘۔
’’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ روزے سے ہیں اور روزہ رکھ کر خیانت کرنا روزے کو بے معنی کر دیتا ہے‘‘۔
’’میں نے کون سی خیانت کی ہے بھئی؟‘‘
’’آپ کا سرکار کے ساتھ معاہدہ ہے کہ آپ آٹھ بجے دفتر پہنچیں گے۔ آپ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ گیارہ بجے پہنچنا خیانت ہے۔ سائل آٹھ بجے سے انتظار کر رہے ہیں۔ کوئی آثار نہیں لگتے اب بھی کہ آپ ان کا کام کریں گے۔ ابھی تو آپ نے اخبارات طلب کیے ہیں۔ خدا کا خوف کیجیے۔ یہ رمضان کا مہینہ ہے!‘‘
’’میں نے آپ کی بات سن لی۔ تشریف لے جایئے۔ میں جو کر رہا ہوں‘ درست کر رہا ہوں‘‘۔
’’بات سننے کا شکریہ! ذرا اس پر بھی غور فرما لیجیے گا کہ آپ حکومت سے نوّے ہزار روپے ماہانہ کار کی مد میں وصول کر رہے ہیں اور ساتھ ہی سرکاری کار بھی مع ڈرائیور‘ تصرف میں ہے۔ خدا کا خوف کیجیے یہ رمضان ہے!‘‘
وہ باہر نکل آیا۔ اگلی منزل وزیر کا دفتر تھا۔ انتظار گاہ میں عجیب و غریب لوگ بیٹھے تھے۔ کھڑکھڑاتے ہوئے لباس! مسلح گارڈ۔ جَیل سے اکڑائی ہوئی بھاری مونچھیں۔ اس نے وہ خصوصی ’’اہلیت‘‘ استعمال کی جس کا کسی کو علم نہ تھا اور اندر جا پہنچا۔ وزیر صاحب ایک ملاقاتی سے ہنس ہنس کر کابینہ اجلاس کی کارروائی سنا رہے تھے۔
’’سَر! مجھے عرض کرنا ہے کہ آپ کے سامنے مزید ایک فہرست پڑی ہے۔ اس میں اُن امیدواروں کے نام ہیں جو تحریری امتحان اور انٹرویو میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک اور فہرست دراز میں ہے۔ اس میں اُن نااہل افراد کے نام ہیں جو کامیاب نہیں ہوئے لیکن آپ انہیں تقرری نامے دینے پر مُصر ہیں۔ یہ ظلم ہے۔ خدا کا خوف کیجیے۔ رمضان کا مہینہ ہے‘‘۔
وزیر کو غصہ آیا۔ لیکن سیاست دان کا ہنر یہ ہے کہ وہ اکثر و بیشتر غیظ و غضب پر قابو پا لیتا ہے۔
’’یار! آپ کو بہت سی باتیں نہیں معلوم! سیاسی مجبوریاں ہیں! بات سن لی ہے۔ تشریف لے جایئے‘‘۔
عصا ٹیکتا باہر نکل آیا۔ حُلیہ اور فضا ایسی تھی کہ کوئی اُسے اہمیت تو کیا دیتا‘ دوسری بار دیکھ ہی نہیں رہا تھا اور یہی وہ چاہتا بھی تھا!
اگلا مرحلہ مشکل تر تھا۔ رُخ بازار کی طرف تھا۔ ایک بہت بڑا سپر سٹور گاہکوں سے جیسے چھلک رہا تھا۔ کائونٹر پر قطار اندر قطار کئی کیشیئر خریداروں سے نمٹ رہے تھے۔ پورا سٹور‘ جو لمبے چوڑے وسیع و عریض ہال پر مشتمل تھا‘ عبور کر کے عقبی دفتر میں پہنچا۔ مالک کلامِ پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ وہ بیٹھ گیا۔ پندرہ منٹ بعد تاجر نے کتابِ مقدس بند کی اور تسبیح پر کچھ پڑھنے لگا۔ فارغ ہو کر ملاقاتی کی طرف دیکھا۔ تجربہ بھی کیا چیز ہے۔ ایک سیکنڈ سے کم وقت میں جان گیا کہ سائل ہے۔ دراز سے کھڑکھڑاتا ہوا سو کا نیا نوٹ نکالا اور آگے بڑھایا۔
’’نہیں! شیخ صاحب! میں کچھ اور مانگنے آیا ہوں!‘‘
’’بتائو‘‘۔
’’آپ کی اس عظیم الشان دکان میں کچھ آئٹم ایسے ہیں جو جعلی ہیں۔ شیمپو‘ کریمیں‘ ادویات‘ معصوم بچوں کے دودھ کے ڈبے‘ کچھ خوردنی اشیا ملاوٹ والی اور کرم خوردہ ہیں۔ بیسن کے پیکٹ مکئی کے آٹے سے بھرے ہیں۔ کچھ پیکٹوں کی تاریخیں گزر چکی ہیں لیکن آپ کے سیلز مین جانتے بوجھتے ہوئے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ کوئی گاہک اتفاق سے دیکھ لے تو ’’اوہو‘‘ کہہ کر واپس لے لیتے ہیں۔ کسی گاہک کو شَے کا نقص خود نہیں بتاتے۔ رجسٹر دو دو ہیں۔ ایک اصلی اور دوسرا ٹیکس اہلکاروں کو دکھانے کے لیے۔ سٹور کے سامنے تقریباً ایک کنال سرکاری رقبے پر آپ کا قبضہ ہے جو ناجائز ہے۔ تین ریڑھی والوں اور دو کھوکھے والوں سے آپ ماہانہ وصول کر رہے ہیں جو حلال نہیں ہے۔ میری گزارش ہے کہ خدا کا خوف کیجیے۔ رمضان کا مہینہ ہے۔ ان نصف درجن خیانتوں اور چوریوں کے ساتھ روزہ رکھنا‘ احکامِ الٰہی کا مذاق اڑانے والی بات ہے‘‘۔
شیخ صاحب سُن رہے تھے۔ چہرے کا رنگ ایک ثانیے کے لیے متغیر ہوا لیکن پھر قرار پکڑ گیا۔ اب کے دراز کھولی تو پانچ سو کا نوٹ نکلا۔
’’آپ کی ساری باتیں درست ہیں! مگر کاروبار کے اپنے تقاضے ہیں۔ یہاں کون ہے جو یہ سب کچھ نہیں کر رہا۔ یہ بتانے والی بات نہیں ہے مگر آپ کے اطمینان کے لیے کہے دیتا ہوں کہ ہر روز خیرات دے رہا ہوں‘ ختمِ قرآن کی رات مسجد میں مٹھائی ساری کی ساری میں ہی بھیجوں گا۔ تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب کی افطاری بھی روزانہ غریب خانے ہی سے جا رہی ہے۔ مسجد کمیٹی کا سیکرٹری بھی ہوں۔ مولانا مجھ سے بہت خوش ہیں اور خصوصی دعا فرماتے ہیں۔ عید کے فوراً بعد عمرے کا قصد ہے‘‘۔
اگر وہ عام انسان ہوتا تو ذہنی شکست قبول کر کے ٹھکانے کو لوٹ جاتا لیکن معاملہ اور ہی تھا! اب اُس کا رُخ صحافی کی کوٹھی کی طرف تھا۔ بتایا گیا کہ صاحب اخبارات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ پھر کالم لکھیں گے۔ سہ پہر کو ملاقات ہوئی۔ ’’جی فرمایئے‘‘۔
’’سر! میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قلم مقدس ہے اور امانت۔ لاکھوں پڑھنے والے آپ پر اعتماد کرتے ہیں؛ تاہم آپ اُس سیاسی جماعت کی مسلسل طرف داری کرتے ہیں جس کے ساتھ آپ کی اغراض وابستہ ہیں۔ یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ خدا کا خوف کیجیے اور وہ بات لکھیے جو قرینِ انصاف ہو‘ غیر جانب دار ہو اور کسی غرض‘ رعایت‘ تعصب سے پاک ہو‘‘۔
صحافی نے سرد مہری سے کہا کہ جماعت کی نماز رہ جائے گی۔ آپ کی بات سُن لی ہے۔ میں مسجد جا رہا ہوں۔ اور اُسے پورچ میں کھڑا چھوڑ کر‘ سوراخوں والی ٹوپی اوڑھے‘ تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔
آخری منزل دانش ور کا سرکاری دفتر تھا‘ میز پر قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ پڑا تھا۔ ایک طرف درجن بھر تفاسیر الماری میں رکھی تھیں‘ خوش اخلاقی سے بھرے ہوئے نورانی چہرے کے ساتھ دانش ور اُٹھ کر ملا۔ ’’فرمایئے‘‘۔
’’جناب! صرف اتنی استدعا ہے کہ آپ کی تحریر میں اکثر حوالے جعلی ہوتے ہیں۔ آپ کسی مورّخ یا کسی مصنف کو کوٹ کرتے ہیں تو کتاب کا نام دیتے ہیں نہ صفحہ نمبر۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے یہ آپ کی اختراع ہوتی ہے۔ خدا کا خوف کیجیے‘ رمضان کا مہینہ ہے۔ روزہ رکھ کر جعل سازی کرنا احکامِ الٰہی سے بغاوت کے مترادف ہے‘‘۔
دانش ور ہنسا۔ اس اثنا میں‘ دائیں طرف بیٹھے ہوئے ملاقاتی کو دانش ور نے ایک سوقیانہ لطیفہ بھی سنایا اور پھر خود ہی قہقہہ بھی لگایا۔ خوش اخلاقی بدستور قائم تھی۔ کیا تقدس تھا چہرے پر!
’’آپ بجا فرماتے ہیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ مذہب سے محبت کرنے والا طبقہ میرا گرویدہ ہے۔ وہ میرے کالموں کو آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ انہیں مطمئن کرنے کے لیے اور اپنے قارئین کی تعداد کو برقرار رکھنے کے لیے ہر حیلہ آزمانا پڑتا ہے۔ پچانوے فی صد پڑھنے والے اس چکر ہی میں نہیں پڑتے کہ حوالہ اصلی ہے یا خودساختہ۔ وہ عش عش کرتے ہیں اور خاکسار کو مجاہد کے لقب سے نوازتے ہیں۔ رہے آپ جیسے پانچ فی صد تو ان کی آواز نقارخانے میں کون سنے گا۔ آپ نے رمضان کا ذکر کیا ہے تو میرے بھائی! دانشورانہ ’’اونچ نیچ‘‘ کا روزے سے کوئی تعلق نہیں!‘‘
وہ باہر نکلا۔ مشن مکمل ہو چکا تھا۔ بکل اتار کر ایک طرف پھینکی۔ پھٹے ہوئے جوتے اُتارے‘ عصا زمین پر رکھا۔ پَر نکالے جو ایک افق سے دوسرے افق تک چھا گئے۔ چشم زدن میں ایک آسمان ختم ہوتا تھا تو دوسرا شروع ہو جاتا تھا۔ اُس نے اوپر سے دیکھا۔ آبادیاں نشان زدہ ہو چکی تھیں ؎
اور اب اسے ایک غیب کا ہاتھ انڈیل دے گا
کہ ظلم کی انتہا سے بستی چھلک رہی ہے
No comments:
Post a Comment