Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, July 23, 2014

ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق…


بس ساری رات چلتی رہی۔ ڈرائیور کبھی موسیقی لگاتا اور کبھی کچھ مذہبی شاعری۔ سونا مشکل تھا۔ دو دفعہ بس رکی۔ مسافروں کو عام اور ڈرائیور کو الگ کمرے میں خاص چائے دی گئی۔ صبح آٹھ بجے جب وہ دارالحکومت کے بڑے بس سٹاپ پر اترا تو اس کا انجر پنجر ہلا ہوا تھا۔ دس بجے انٹرویو تھا، لیکن جب وہ وزارت کے دفتر سے باہر نکلا تو دو بج رہے تھے۔ رات بھر کا سفر ، صبح کے بعد دوڑ دھوپ، دو اڑھائی گھنٹے ویٹنگ روم میں وہ انتظار جس کی تعریف اشد من القتل کی گئی ہے۔ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ اس دن درجہ حرارت چالیس سے ذرا ہی کم تھا۔ ٹیکسی لی اور سب سے بڑے بازار پہنچا۔ وہ پہلی بار اس شہر میں آیا تھا لیکن کامن سینس اسے کہہ رہا تھا کہ جس شہر میں ساری دنیا کے ملکوں کے سفارت خانے ہیں، بین الاقوامی کمپنیاں ہیں، وفاق کی بیسیوں وزارتیں ہیں، ان گنت محکمے ہیں، وہاں ہر روز لاکھ نہیں تو ہزاروں مسافر یقینا آتے ہوں گے۔ انہیں اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھیں۔ یہ اجازت کسی دنیاوی قانون یا ریاستی آئین نے نہیں دی۔ یہ اسی طاقت نے اپنے کلام میں مرحمت کی جس نے روزہ فرض کیا ہے۔ وہ پورے بازار میں ،بازار کے اندر کی گلیوں میں پھر پچھواڑے ، ہر جگہ پھرا، لیکن اسے کوئی ٹوٹا پھوٹا گیا گزرا ریستوران بھی کھلا نہ ملا جہاں وہ دو چپاتیاں ، ایک پلیٹ دال اور ایک پیالی چائے حاصل کرسکتا۔ ایک ہوٹل نظر پڑا، رات تو گزارنا تھی۔ کمرہ لے کر سب سے پہلے اس نے کھانے کا پوچھا لیکن ریسیپشن پر بیٹھے شخص نے ایک ادائے بے نیازی سے بتایا کہ رمضان میں ہوٹل کا کچن دن کو بند رہتا ہے۔
’’مگر آپ کا تو کاروبار ہی مسافروں کی وجہ سے چل رہا ہے اور مسافروں کوروزے کی رخصت ہے۔‘‘
ریسیپشن والے نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور ایک اور گاہک کے ساتھ مصروف ہوگیا۔ہمت جواب دے چکی تھی۔ اس قدر کہ اب وہ کسی بیکری کی تلاش میں مزید خوار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے گرم پانی پیا اور بستر پر دراز ہوگیا۔ ’’افطاری‘‘ کے لیے ہوٹل کے ریستوران میں پہنچا تو اس کے قدم ، بلا مبالغہ ، لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ روزہ داروں کے ساتھ سائرن بجنے کا انتظار کرنے لگا۔
لیکن اس شخص کی حالت تو اور بھی ابتر تھی جو اپنا ایکسرے اٹھائے ہسپتال کے وسیع و عریض برآمدوں میں پھررہا تھا۔ رپورٹ بتا رہی تھی کہ شوگر کنٹرول نہ ہونے سے گردے ڈھلنا شروع ہوگئے ہیں ۔ یہ اس کا تیسرا چکر تھا لیکن ماہر امراض گردہ صاحب ’’ میٹنگ‘‘ میں تھے۔ رمضان سے پہلے آتا تو بتایا جاتا کہ ڈاکٹر صاحب چائے پینے گئے ہیں۔ رمضان میں یہی کام ، یعنی مریضوں کو ذلیل کرنے والا، میٹنگ پر جاکر کیا جارہا تھا۔ امتلا کا دورہ پڑا اور وہ ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ڈاکٹر چار گھنٹے انتظار کرائے گا۔ بیوی کو کہہ کر آیا تھا کہ کھانے کے وقت تک آجائے گا لیکن ابھی تو مزید انتظار کرنا تھا۔ شوگر کے مریض کو وقت پر کھانا نہ ملے تو جو نتیجہ نکلتا ہے وہ شوگر کا مریض ہی جانتا ہے۔ دوسرے محض اندازہ کرسکتے ہیں اور اندازہ ، اندازہ ہوتا ہے۔ اس نے ہسپتال کے ایک ملازم سے پوچھا کہ کینٹین کہاں ہے ؟
’’ بھائی میاں ! کینٹین بند ہے۔ رمضان ہے‘‘
’’ لیکن میری طبیعت بگڑ رہی ہے۔ کھانا نہ ملا تو میں بے ہوش ہوسکتا ہوں۔‘‘
ہسپتال کے ملازم نے کندھے اچکائے اور اس طرف چل دیا جہاں اسے جانا تھا۔
پائوں گھسیٹتا ایک کھوکھے تک پہنچا۔ بسکٹ کا ڈبہ لیا لیکن یہ میٹھے بسکٹ تھے۔ اس نے نمکین بسکٹوں کا پوچھا۔ کھوکھے والے نے کہا کہ نمکین بسکٹ نہیں ہیں۔ اس نے پانی کی بوتل خریدی، واپس ڈاکٹر کے کمرے تک جاتے ہوئے امتلا کا ایک اور دورہ پڑا۔ قدم لڑکھڑائے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔
لیکن ان میاں بیوی کی حال تو کئی درجے زیادہ قابل رحم تھی جو محلے میں کریانہ سٹور کے سامنے والی گلی کے آخری گھر میں رہتے تھے۔ میاں اسّی کے لگ بھگ کا تھا اور عورت کچھ کم۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو ٹریفک کے حادثے میں مدتوں پہلے جاں بحق ہوگیا تھا۔ پنشن اتنی ہی تھی کہ بس قوت لایموت والا گزارا مشکل سے ہو رہا تھا۔ ملازم رکھنا بس سے باہر تھا۔ دور کی ایک رشتہ دار عورت آٹھ دس دن بعد آکر گھر کی چھوٹی موٹی صفائی کردیتی تھی۔ بڑے میاں گرتے پڑتے ،اٹھتے بیٹھتے ساتھ والی گلی کے ریستوران تک جاتے اور دوپہر اور شام کا کھانا لے آتے ۔ ریستوران کیا تھا بس دال روٹی والا تنور ہی تھا۔ مالک کا بڑے میاں سے انس بھی تھا۔ کام کرنے والا لڑکا صبح اور پھر عصر کے وقت چائے کے دو مگ بڑے میاں کوگھر دینے آجاتا۔ دونوں ڈبے سے رس نکالتے اور ’’ ناشتہ ‘‘کرلیتے۔ رمضان شروع ہوا تو زندگی اذیت کا ایسا درخت بن گئی جس کے کانٹوں بھرے سائے میں ان کے لیے کرب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ریستوران بند ہوگیا۔ بڑے میاں کے لیے بازار سے سودا لانا اور بڑھیا کے لیے کھانا پکانا ایک جانکاہ عمل تھا۔ ریاست کا وجود ہی نہ تھا۔ حکومت کو خبر نہ تھی کہ ساری زندگی تنخواہ سے ٹیکس کٹوانے والا قانون پسند شہری اب حکومت کا محتاج تھا۔ بابا رینگتا رینگتا سبزی والی دکان پر پہنچتا۔ واپسی پر دروازوں کے سامنے بنے چبوتروں پر سستاتا، لاٹھی پٹکتا، گھنٹوں بعد گھر پہنچتا۔ پھر بڑھیا کی آزمائش شروع ہوجاتی۔ بسترسے اٹھنا، آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، سبزی کاٹنا، پھر برتن دھونا… شام تک بے حال ہوجاتی۔ بے سدھ ہوکر بستر پر گر پڑتی۔ بابا اس کی کمر سہلاتا پنڈلیاں دباتا اور پھر خود بستر پر گر پڑتا۔ صبح تک بے جان لاشوں کی طرح دونوں پڑے رہتے۔
سنا ہے کہ اس دیار میں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب رمضان میں ریستوران کھلے رہتے تھے۔ دروازوں پر پردے ڈال دیے جاتے۔ مسافر، بیمار، بوڑھے پیٹ کی آگ بجھالیتے۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ وعدہ خلافی کا ارتکاب نہیں کرتے تھے۔ حرام نہیں کھاتے تھے۔ اکا دکا کوئی کھاتا تو چھپتا پھرتا۔ غذا میں ملاوٹ کم تھی۔ جعلی دوائوں کا رواج نہ تھا۔ ماپ تول پورا ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کا سابق وزیراعظم (چودھری محمد علی) بیرون ملک علاج کے لیے اٹھارہ (یا غالباً اٹھائیس )ہزارروپے ریاست سے ادھار لیتا اور پھر قسطوں میں ایک ایک پائی واپس کرتا۔ جب سرکاری ملازم، سرکاری گاڑیاں پرائیویٹ کام کے لیے استعمال کرتے تو فی میل کرائے کی رقم خزانے میں جمع کراتے۔ جب قانون کسی کام کی اجازت نہ دیتا تو بڑے سے بڑا حکمران بھی اس قانون میں ترمیم نہیں کرسکتا تھا۔ تب دعائیں قبول ہوتی تھیں۔
پھر ایک ایسا شخص اس ملک پر حکمران بنا جس کا فہمِ دین اس شخص کے فہمِ دین سے زیادہ نہ تھا جسے نیم خواندہ ملا کہا جاتا ہے۔ رمضان میں ریستوران بند ہوگئے۔ مسافر، بیمار اور بوڑھے ایڑیاں رگڑنے لگے۔ جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنے والے مشٹنڈوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ ایک دوسرے کے گھروں میں دوپہر کو ڈٹ کر کھانے کھاتے ہیں۔ ہاں یہ ہوا کہ اوپر سے نیک نظر آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ ساتھ ہی ملاوٹ کا کاروبار عروج پر ہے۔ معصوم بچوں کا دودھ اور لائف سیونگ دوائیں جعلی ہیں۔ حرام کھانے والے دندناتے پھررہے ہیں اور معزز کہلواتے ہیں۔ سرکاری خزانہ شیر مادر ہے۔ اب دعائیں نہیں قبول ہوتیں۔ رئوف امیر مرحوم نے کہا تھا ؎
شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے
ایک پتہ بھی ہلتا نہیں ہے مگر
یہ سنا ہے کہ پہلے کسی شخص نے
صرف کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی
نوجوان فقیر علی زریون نے اس لیے ماتم کیا ہے ؎
ہم اپنے عہد کے وہ مطمئن منافق ہیں
جو اپنے آپ کو ترتیب سے گنوا رہے ہیں
ہوائے عصر! کوئی تعزیت تو کر ہم سے
ہم اپنے ملک میں ہجرت کا دکھ اٹھا رہے ہیں
دُکھا ہوا ہوں میں اُن سب سے جو علی زریون

خدا کے نام پہ خلق خدا مٹا رہے ہیں

1 comment:

Anonymous said...

so true

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com