پہاڑوں میں گھرا ہوا یہ شہر نیوزی لینڈ کا سردترین مقام تھا۔درجہ حرارت صفر سے نیچے‘رگوں میں خون منجمد کرنے والی تیز ہوا‘بارش طویل ہوتے ہوتے جھڑی بن جاتی تھی۔ سورج کئی کئی دن روپوش رہتا تھا۔یہ تھی وہ جگہ جہاں رچرڈ رہتا تھا۔ملائشیا کے ایک مسلمان سے اس کی دوستی کا آغاز دفتر میں ہوا ۔دوستی گہری ہوتی گئی ۔گھر میں آنا جانا شروع ہو گیا۔افطار کی دعوت میں رچرڈ کو بھی بلایا گیا۔ایک خاص وقت پر افطار‘پھر نمازباجماعت پھر جس طرح ملائشیا کا دوست اپنے ضعیف والد کا خیال رکھتا تھا ‘ ان سب مشاہدات نے تجسس پیدا کیا۔ جوں جوں وہ مطالعہ کرتا گیا اور اپنے دوست سے رہنمائی لیتا گیا‘روشنی بڑھتی گئی۔پھر وہ دن بھی آیا کہ اس نے اسلام قبول کیا۔مشکل ترین کام شراب نوشی کو خیر باد کہنا تھا۔شراب‘لوگوں کے خیال میں‘شدید سردی کا توڑ تھی۔اس نے چھوڑی تو پھر ہاتھ نہ لگایا۔کبائر کو ترک کیا۔فرائض کی سرانجام دہی اخلاص سے شروع کی۔شعائر کا احترام کرنا سیکھا، حقوق کی ادائیگی میں سرگرم ہو گیا۔زندگی کو تبدیل کر لیا۔
مشکل کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک پاکستانی بھائی نے اعتراض کیا کہ یہ پتلون ،یہ جیکٹ ،غیر اسلامی لباس ہے ۔رچرڈ کے پوچھنے پر پاکستانی بھائی نے بتایا کہ پاکستانیوں کی مسجد کے امام صاحب شلوار قمیض زیب تن کرتے ہیں، وہی پہننا چاہیے۔رچرڈ نے اپنے ملائشین دوست سے ذکر کیا۔اس نے کہا ،ہم اپنے امام صاحب کے پاس جائیں گے جن کا تعلق کوالالمپور سے ہے۔وہ ایک اور لباس پہنے تھے جو پاکستانی لباس سے یکسر مختلف تھا۔رچرڈ کنفیوز ہو گیا۔دو یکسر مختلف لباس۔آخر ان میں کون سا اسلامی تھا؟ایک شام وہ ایک اور مسجد میں گیا ۔ اس کے امام کا تعلق بوسنیا سے تھا۔ان کا لباس بالکل مختلف تھا۔ترکی ٹوپی کے اوپر انہوں نے سفید کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔
ایک ہفتہ رچرڈ پریشان رہا۔سفید فام جب کسی مسئلہ کو ہاتھ لگاتا ہے تو تہہ تک پہنچتا ہے ۔اس نے دس دن کی رخصت لی اور قریب ترین بڑے شہر‘آسٹریلیا کے سڈنی کا رخ کیا۔لکمبا سڈنی کا ایسا محلہ ہے جو قاہرہ یا بیروت لگتا ہے۔عرب امام سے بات ہوئی تو اس نے کہا‘یہ لباس جومیں نے پہنا ہوا ہے‘یہی اسلامی ہے۔پھر وہ بنگالیوں کی مسجد میں گیا ۔اکثر یت نے کھلا لمبا کرتا اور نسبتاً تنگ پاجامہ پہنا ہوا تھا۔مسقط کے مسلمان سر پر رومال باندھتے تھے۔کویت‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات والوں کا لباس اور سر ڈھانکنے کا انداز جدا تھا۔کیرالہ کے مسلمان سفید تہمد اور برما کے مسلمان چار خانے والی لنگی باندھتے تھے۔ایک امام صاحب کا تعلق لکھنو سے تھا۔انگرکھے کے نیچے چوڑی دار پاجامہ پہنے تھے، سر پر سفید دوپلی ٹوپی بہار دکھا رہی تھی۔ترکوں کی مسجد میں نماز پڑھی تو سب نے پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ان کا دعویٰ تھا کہ پتلون اور نکٹائی کا آغاز ترکوں نے کیا تھا۔ہم نے یورپ کی نقل نہیں کی۔ یہ تو یورپ تھا جس نے ترکوں کی نقالی کی۔یہ ترک نہیں تھے جنہوں نے ’’تشبہ بالکفار‘‘کیا ۔یہ تو یورپ کے غیر مسلم تھے جنہوں نے ’’تشبہ بالمسلمین‘‘ کیا ۔غرض رچرڈ جہاں بھی گیا مختلف ہی لباس دیکھا۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اسی کا لباس اسلامی ہے۔
چھٹی کے دو دن رہتے تھے ۔آٹھ دنوں میں کئی مسلمانوں سے دوستی ہو چکی تھی۔یہ کراچی کا ایک پاکستانی مسلمان تھا جس نے اسی شام اسے افطار پر مدعو کیا تھا۔مہمان ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔میزبان نے رچرڈ کو روک لیا ’’آج ہوٹل کے بجائے میرے ہاں قیام کر لو۔‘‘رات ڈھلتی گئی۔ بات سے بات نکلتی رہی،اسے یوں لگا جیسے اس رات قدرت نے یہاں ٹھہرایا تھا۔لباس کا موضوع چھڑا تو میزبان نے وہ بات کی جس سے شرح صدر ہوا۔
’’یہ سارے لباس جو تم نے دیکھے اور جو مختلف علاقوں کے مسلمانوں نے پہن رکھے ہیں ‘یہ سارے اسلامی ہیں،اس لیے کہ اسلام نے کسی خاص لباس کا تعین نہیں کیا ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی خاص غذا اسلامی نہیں ہے اور سارے ماکولات اور مشروبات اسلامی کہے جا سکتے ہیں سوائے ان چیزوں کے جو شریعت نے حرام قرار دی ہیں۔اسلام نے حلال بھی واضح کر دیا اور حرام بھی۔اب مصری اپنے طریقے سے پکاتے ہیں اور بنگالی اپنے انداز میں ۔بالکل اسی طرح اسلام نے ستر کی حدودواضح کر دیں۔مردوں کے لیے بھی اور خواتین کے لیے بھی۔ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ‘مقامی ثقافت کے مطابق کوئی سالباس بھی پہنا جا سکتا ہے۔جس طرح کوئی کھانا اسلامی کھانا نہیں اور تمام حلال کھانے مسلمانوں کے لیے روا ہیں،اسی طرح کسی مخصوص لباس کو اسلامی اور دوسرے کو غیر اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ستر کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے جو لباس بھی پہنا جائے گا‘جائز ہو گا۔‘‘
میزبان نے اپنی مختصر لائبریری سے ایک کتاب نکالی۔یہ ’’معارف الحدیث‘‘تھی برصغیر کے نامور عالم دین مولانا منظور نعمانی نے ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے جو تحریر فرمایا‘میزبان نے پڑھ کر سنایا اور ساتھ ساتھ ترجمہ کرتا گیا۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لباس کے بارے میں ان حدود و احکام کی پابندی کے ساتھ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا۔آپ تہمد باندھتے تھے۔چادر اوڑھتے تھے ۔کرتا پہنتے تھے۔ عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے اور یہ کپڑے اکثر و بیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش و نگار بنے ہوتے تھے ۔اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نما یمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے ۔جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ زبانی ارشادات و ہدایات کے علاوہ آپ نے امت کو اپنے طرز عمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جا سکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود و احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی و قومی پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحاب صلاح و تقویٰ نے بھی، جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا ،یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استعمال فرماتے تھے۔دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقاکے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔اسی طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے اس لیے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کاپابندی نہیں کیا ہے۔ہاں‘ایسے اصولی احکام دیے گئے ہیں جن کی ہر زمانے میں ہر جگہ بسہولت پابندی کی جا سکتی ہے۔’’(معارف الحدیث حصہ ششم صفحہ424)‘‘
یہ تشریح مولانا منظور نعمانی نے جن احادیث کے ضمن میں کی ان احادیث کے موضوعات یہ تھے ’’عورتوں کے لیے زیادہ باریک لباس کی ممانعت ‘لباس میں تفاخر اور نمائش کی ممانعت ۔مردوں کے لیے ریشم اور سونے کی اور شوخ سرخ رنگ کی ممانعت‘مردوں کو زنانہ اور عورتوں کو مردانہ لباس کی ممانعت‘‘
پھر میزبان نے ایک اور حدیث سنائی۔حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔’’حضرت اسما سے روایت ہے انہوں نے طیلسان کا بنا ہوا ایک کسروانی جبہ نکال کر دکھایا۔اس کا گریبان ریشمی دیباج سے بنوایا گیا تھا اور دونوں چاکوں کے کناروں پر بھی دیباج لگا ہوا تھا۔حضرت اسما نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ مبارک ہے ۔ یہ میری بہن عائشہ صدیقہ کے پاس تھا جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے لے لیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ اور اب ہم اس کو مریضوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔‘‘
رچرڈ کو نیوزی لینڈ واپس جاتے ہوئے اطمینان قلب اور شرح صدر تھا۔اسلام نے اسے کسی خاص لباس کے لیے پابند نہیں کیا تھا۔اسے ستر کی حدود اور وقار کا خیال رکھنا تھا۔اس کی بیوی کو پردے کے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی مرضی کے لباس کی آزادی تھی۔
رچرڈ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جس دن اس کا جہاز نیوزی لینڈ کی طرف پرواز کر رہا تھا اسی دن‘ہزاروں میل دور‘امریکی شہر سینٹ لوئی میں پاکستانی ڈرائیور نے ڈرائیوروں کے لیے مخصوص وردی کو پہننے سے انکار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کے خلاف مقدمہ دائرکر دیا تھا۔اس کا اصرار تھا کہ شلوار قمیص اور سوراخوں والی کپڑے کی ٹوپی میرے مذہب کا حصہ ہے ۔اس کی دلیل یہ تھی کہ ڈیوٹی اوقات میں یہ لباس نہ پہننے سے وہ اپنے مذہب کی حدود سے خارج ہو جائے گا۔اس نے میڈیا کو بتایا
"Should i stay with my religion or should i leave it ? I am determined to stay with my religion.
No comments:
Post a Comment