اشاعتیں

فروری, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ایک اور ہزار

                                    دونوں بھائی کم و بیش یکساں تعلیم یافتہ تھے۔ دنوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ دونوں کے گھر‘ گاڑیاں‘ سہولیات اور زندگی کے معیار مجموعی طور پر ایک جیسے تھے۔ دونوں کے عزیزو اقارب تقریباً وہی تھے۔ اس تمام ہم آہنگی کے باوجود دونوں کے بچوں میں زمین و آسمان کا فرق نکلا۔ ایک کی بیٹی نے اچھے نمبروں سے ایم اے کیا اور ان دنوں مقابلے کے امتحان میں قسمت آزمائی کا سوچ رہی ہے۔ ایک بیٹے نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور یورپ سے بھی ڈگری لی۔ دوسرا ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسرے بھائی کے بچوں میں سے صرف ایک بیٹی بی اے کر سکی۔ ایک بیٹا میٹرک سے آگے نہیں گیا۔ دوسرا دس جماعتیں بھی پاس نہ کر سکا۔ ایسے بچوں کا روزگار کے لیے پہلا چوائس موبائل فون کی دکان ہوتی ہے یا فوٹو سٹیٹ مشین والا ٹھِیا۔ ایک زمانے میں وڈیو کیسٹ کی دکان بھی اس سطح کے لڑکوں کی پسندیدہ منزل ہوا کرتی تھی۔  وہ کون سا عنصر تھا جو دونوں میں یکساں نہیں تھا۔ اسے کوئی اہمیت دے یا نہ دے‘...

صحیح اور غلط

                                                         ریت کے ہر ذرّے کو معلوم ہے اور کہکشائوں کا ہر ستارہ جانتا ہے کہ کون صحیح تھا اور کون غلط ۔ اگر اب بھی کسی کو نہیں معلوم کہ کون غلط تھا اور کون صحیح تو آسمان سے پتھروں کی بارش کا انتظار کرے۔ اس پروردگار کے پاس ، جس نے محمدؐ کے کندھے کو حسینؓ کی سواری بنایا تھا‘ پتھر بھی لاتعداد ہیں اور برسانے پر بھی قادر ہے!  دھوکا دیا کوفیوں نے۔ اپنے منہ پر ایسی کالک ملی کوفیوں نے جو قیامت تک سارے سمندر اور سارے دریا اور سارے چشمے نہیں دھو سکتے۔ وا حسرتا! بچے کھچے کوفی اِس سرزمین پر آن آباد ہوئے جو خدا اور خدا کے رسولؐ کے نام پر وجود میں آئی تھی! کس کس بات کا ماتم کریں۔ حسینؓ کی شہادت کا یا اس تیرہ بختی کا کہ کوفی ہم میں موجود ہیں!  اس ملک کا خواب دیکھنے والے شاعر نے‘ جس نے کہا تھا   ؎  غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم  نہایت اُس کی حُسین ابتدا ہے اسماعیل  ہاں اسی ...

راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے

اگر کبھی جنوبی ایشیا اور شرق اوسط کا نقشہ دیکھ لیتے تو شاید جان پاتے کہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور کس سے دشمنی کر رہے ہیں!  اُس پروردگار کی قسم! جس کی قدرتِ کاملہ نے توسیع پسند بھارت اور کمزور شرقِ اوسط کے درمیان یہ رکاوٹ پیدا کی‘ پاکستان کی مسلح افواج نہ ہوتیں تو ایران سے لے کر مصر تک سب ریاستیں بھارت کی اس طرح باج گزار ہوتیں جیسے سکم اور بھوٹان ہیں اور جیسے نیپال ہے!  اللہ کے بندو! کبھی نقشہ دیکھو! یہ پاکستان کی دفاعی پیداوار تھی جس نے سری لنکا کو اپنی تاریخ کی مہیب ترین دہشت گردی سے بچایا۔ ورنہ آج سری لنکا کی حیثیت بھارت کے تامل ناڈو صوبے سے زیادہ نہ ہوتی! یہ پاکستان کی افواجِ قاہرہ ہیں جو سر پر چوٹی رکھنے والے دھوتی پوش ہندوئوں کے عزم کے سامنے خم ٹھونکے کھڑی ہیں۔ آج ایران اگر بھارت سے تعلقات کی پینگ جُھلا کر ہوا میں اُڑتا ہے تو صرف اس لیے کہ وہ بھارت کی جسمانی پہنچ سے دور ہے اور محفوظ۔ روٹی کا نوالہ منہ کے بجائے کان میں ٹھونسنے والے پاگل کو بھی معلوم ہے اور اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج‘ میرے منہ میں خاک‘ مضبوط نہ ہوتیں تو ایران کیا پورا شرقِ اوسط بھارت کے د...

جناب چودھری نثار علی خان کی خدمت میں

گھر تو خوبصورت تھا۔ عالی شان‘ پائیں باغ بھی تھا۔ پھولوں سے بھری ہوئی روشیں تھیں‘ شمشاد اور صنوبر کے درخت بھی۔ خواب گاہوں میں مر مر کے فرش تھے اور شاہ بلوط سے بنے فرنیچر کے دیدہ زیب‘ دل آویز آئٹم۔ دالانوں میں عود اور لوبان سلگتا تھا تو لگتا تھا مصر کے قدیم بادشاہوں کے محلات میں بیٹھے ہیں۔  لیکن پھر گھر کے مالک نے ایک عجیب کام کیا۔ اس نے گھر کے نیچے‘ دور گہرائی میں‘ خندق کھودنا شروع کردی۔ جب خندق تیار ہو گئی تو اس نے اس میں بارود بھر دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ خوبصورت مکان بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مالک خود بھی اسی مکان میں رہتا ہے ع  میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے  مکان نہیں‘ اس کا اپنا گھر تباہی کے دہانے پر ہے۔  یہ کہانی ہے نہ تمثیل۔ یہ اسلام آباد کی صورتِ حال ہے۔ حقیقی صورتِ حال… اور ذمہ دار کون ہے؟ اسلام آباد کے حکام… ترقیاتی ادارہ‘ ضلع اور کمشنری کے افسر!  گاڑیوں کے ازدحام‘ رہنے کے لیے محلاّت‘ غیر ملکی دورے‘ تزک و احتشام‘ ترقیاں‘ بیرونِ ملک تعیناتیاں‘ تنی ہوئی گردنیں‘ ایک ایک فُٹ لمبے پائپ‘ فر...

سُکھ کا سانس

                                                              ایف سی کے 23 جاں باز موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔  ان کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ وہ مادرِ وطن کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں موجود تھے ، پاکستان کی خاطر… اُس پاکستان کی خاطر جو قائداعظم نے بنایا تھا۔  اس سے زیادہ کرب ناک خبر یہ ہے کہ ایف سی کے سربراہ نے اپنے جوانوں کے قتل کے بعد وفاقی حکومت سے راست اقدام کی اجازت مانگ لی ہے۔ وفاقی حکومت کیا جواب دیتی ہے؟ اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ایف سی کے سربراہ کو راست اقدام کا اب کیوں خیال آیا ہے؟  اطلاعات کے مطابق یہ جوان گزشتہ چار سال سے طالبان کی قید میں تھے۔ اگر ان مقتول جوانوں کے پس ماندگان عدالت کے ذریعے پوچھیں کہ چار سال کے طویل عرصہ میں مقتولین کے محکمے نے ان کی رہائی کے لیے کیا کوششیں کیں؟ تو نہیں معلوم‘ ایف سی کے سربراہ کیا جواب دیں گے۔ لیکن کسمپرسی اور بے اعتنائی کی حد ہے کہ تیئس جوانوں کو یوں بھل...

سکوت

                                                                            وطن اور اہلِ وطن کی خوش بختی ہے کہ علمائے کرام کا سایۂ شفقت ہمارے سروں پر قائم ہے۔ ان مقدس ہستیوں کا وجود ایسے ہی ہے جیسے کڑکتی ، چلچلاتی دھوپ میں شیشم کی گھنی ٹھنڈی چھائوں‘ جیسے بے کسی میں سر پر کسی کا ہاتھ‘ جیسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چمکتے ستارے۔۔۔ ہمیں اپنی خوش نصیبی پر ناز کرنا چاہیے ! جہاں بھی ہم بھٹکتے ہیں، یہ بزرگانِ کرام فرشتوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں، ہمارا ہاتھ تھامتے ہیں اور راہِ راست پر لے آتے ہیں۔ ِادھر ہمارے قدم ڈگمگائے، لڑکھڑائے، اُدھر علمائے کرام ہمارا سہارا بن کر سامنے آ گئے۔ ہم اُن کے مضبوط کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو پھر سے مستحکم کر لیتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ کفریہ دن جیسے ہی نزدیک آتا ہے اور ہمارے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ہمارے علمائے کرام فوراً الرٹ ہو ...

اُردو کا اعجاز

کیا اس شہر کی عمر دو سو تیس؍ چالیس سال ہے؟ اڑھائی سو سال سے بھی کم؟  سڈنی جس قدر پھیلا ہوا ہے‘ جتنا منظم ہے‘ جتنا خوبصورت ہے‘ جتنا شاداب اور ہرا بھرا ہے‘ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک ہی لفظ ذہن میں ابھرتا ہے۔۔۔ رُول آف لا۔۔۔ قانون کی عملداری!  اڑھائی سو برس سے بھی کم! دو سو تیس چالیس سال پہلے جب اس نیم مجنون‘ دُھن کے پکے‘ کیپٹن کُک نے کھاڑیوں کے بیچ جہاز لنگرانداز کیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ شہر دو صدیوں میں کئی ایسے شہروں کو پیچھے چھوڑ جائے گا جو ہزار ہا سال سے آباد ہیں لیکن قانون اور تنظیم سے محروم! مجرموں سے بھرا ہوا پہلا بحری جہاز جب سڈنی آیا تھا اور آبادی کا آغاز ہوا تھا تو حالت یہ تھی کہ پینے کا پانی اور خوراک لینے کے لیے جہاز کو بمبئی جانا پڑا تھا!  یہی شہر آج دنیا بھر کے دھتکارے ہوئوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ سول وار سے بھاگے ہوئے لبنانی‘ غربت کے ڈسے ہوئے یونانی اور اطالوی‘ صومالی‘ ترک‘ ایرانی‘ پاکستانی‘ بھارتی‘ بنگالی‘ ڈھلتی شام جیسے چہروں والے فجی کے لوگ جو نسلاً برصغیر کے ہیں، لیکن تماشا یہ ہے کہ کسی کو ’’اقلیت‘‘ نہیں کہا جاتا! کمیونٹی کا ...

ایک طاقتور کلاس

ایک طاقتور کلاس ایک زمانہ تھا اس ملک میں دو بڑے طبقے تھے‘ سیاسی اشرافیہ ایک طرف اور عوام دوسری طرف۔ سیاسی اشرافیہ میں جاگیردار بھی شامل تھے‘ سردار بھی‘ صنعت کار بھی اور موروثی سیاست دان بھی۔ یہ لوگ حکومت میں ہوتے تھے یا اپوزیشن میں لیکن جہاں بھی ہوتے تھے قانون سے بالاتر تھے۔ ان کی کرپشن کو کوئی پوچھ سکتا تھا نہ فوجداری جرائم کو‘ اسلحہ ان کے پاس بے شمار تھا‘ سرکاری اہلکار ان کے ذاتی ملازموں کی طرح تھے۔ ان کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ ان کی ڈگریاں جعلی تھیں اور سب کو معلوم تھا لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اسمبلیوں میں نشستیں موروثی چلی آ رہی تھیں۔ حلقے میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔  جسٹس افتخار چودھری نے عدالتی ایکٹوزم شروع کیا تو سیاسی اشرافیہ زیرِ دام آ گیا۔ وہ کچھ ہوا جس کا کبھی کسی نے تصور تک نہ کیا تھا۔ جعلی ڈگریوں والے سرعام رسوا ہوئے۔ اسمبلیوں سے انہیں نکال دیا گیا۔ کرپشن کے مقدمے چلنے شروع ہو گئے۔ ایک وزیر اعظم کو‘ جو اس سیاسی اشرافیہ کا بہت بڑا رکن تھا‘ عدالت نے وزارتِ عظمیٰ سے نکال کر باہر شاہراہ پر پھینک دیا۔ دوسرا وزیر اعظم بھی عدالت میں طلب کر لیا گیا۔ ٹیک...

دیوانِ حافظ سے ایک فال

یہ دو مریضوں کی کہانی ہے جو اپنے اپنے گھروں میں صاحبِ فراش ہیں۔ ایک ہی ڈاکٹر دونوں کا علاج کر رہا ہے۔ دونوں کو یکساں ہدایات دی گئی ہیں۔ صبح اور شا م ہلکی ورزش‘ ہر روز آدھ گھنٹہ سیر‘ کھانے میں چکنائی‘ چینی اور تلی ہوئی اشیا سے پرہیز‘ وقت پر سونا اور وقت پر جاگنا اور کچھ دیگر ہدایات۔  پہلے مریض (الف) کے گھر میں سخت جھگڑا بپا ہے۔ گھر کے کچھ افراد نے ان ہدایات کا چارٹ مریض کے کمرے کی دیوار پر لٹکا دیا ہے۔ اسی گھر کے دوسرے افراد ہدایات کا یہ چارٹ دیوار پر لگانے کے سخت مخالف ہیں۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ وہ مریض کے کمرے میں جمع ہو جاتے ہیں اور بحث کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بحث لڑائی کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ پہلا فریق مصر ہے کہ چارٹ دیوار پر لگانا مریض کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے پاس اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لیے کئی دلائل ہیں جو وہ شدومد سے دیتا ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ دیوار پر لگانا غلط حرکت ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک فریق کی توجہ بھی اس امر پر نہیں کہ مریض کا کیا حال ہے؟ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ مریض ورزش کر رہا ہے نہ سیر‘ وقت پر سوتا ہے نہ جاگتا ہے۔...

ایک ہی چارئہ کار

تصویر

ظاہر کی آنکھ

پاکستانی خاتون صحافی نے اروند کِجری وال کی بھد اُڑائی۔ قصور خاتون صحافی کا نہیں! اس تزک و احتشام کا ہے جو پاکستان کے حکمرانوں کا خاصہ ہے۔ جسے خاتون دیکھتی آئی ہیں۔  وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایک سوٹ دوسری بار نہیں پہنتے تھے۔ اس میں مبالغہ بھی ہو تو حقیقت بہرطور یہ ہے کہ ٹرکوں کے ٹرک اور کارٹنوں کے کارٹن ملبوسات سے بھرے باہر سے آتے تھے اور ان کے ڈیفنس لاہور والے محل میں اتارے جاتے تھے۔ خلیج کے اخبار نے پوری کہانی چھاپی تھی۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ غریب کسان کو خوبصورت کٹورا ملا تو پانی پی پی کر جان دے دی۔ گیلانی صاحب پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ گھر کا نان و نفقہ چلانے کے لیے ہاتھ کی گھڑی فروخت کردی تھی!  مشرف صاحب کے بارے میں بھی یہی کچھ پریس میں آیا۔ کبھی تردید نہ ہوئی۔ چین گئے تو گرم ’’انڈر گارمنٹس‘‘ خریدنے کے لیے کسی ہم سفر سے ادھار لیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کنالی کے سوٹ پہننے لگے جو شروع ہی ڈیڑھ لاکھ روپے سے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید سے لے کر مشاہد حسین تک… جو بھی وزارت کا قلم دان سنبھالتا ہے‘ خوش لباس ہو جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا دوسرا گھر دبئی میں ہوتا تھا۔ اب پہلا گھر دبئ...

گوما کا رشید

2012ء کے آخر میں ‘جب برف پڑنا نہیں شروع ہوئی تھی‘ ایک بار پھر سکردو گیا۔ عنفوانِ شباب تھا جب سول سروس میں آنے کے بعد شمالی علاقہ جات سے رومانس کا آغاز ہوا۔ کئی بار جانا پڑا۔وہ بھی بائی روڈ۔ تھاکوٹ سے ہٹن‘ ہٹن سے جگلوٹ‘کریم آباد‘سُست اور خنجراب ۔چاندنی رات میں کئی بار خپلو کا نظارہ نصیب ہوتاجب پہاڑوں پر جمی برف‘ اور دریا میں چلتے پانی دونوں‘ روپہلی شعائوں سے گلے ملتے ہیں اور وقت تھم جاتا ہے۔ پھر ایک بار جب آدھی رات اِس طرف تھی اور آدھی اُس طرف ‘شاہراہ قراقرم کا جانے کون سا حصّہ تھا‘ اندھیری رات تھی‘ ایک طرف سربفلک پہاڑ تھے‘دوسری طرف سینکڑوں فٹ گہرا دریا‘ میں تھا اور ڈرائیور‘ آگے سلائیڈ تھی یعنی پہاڑ کا ایک حصّہ کٹ کر گرنے سے شاہراہ بند تھی‘ اچانک خیال آیا کہ کیا پاگل پن ہے‘ہر کچھ ماہ کے بعد اِس امتحان گاہ سے گزرنا‘ پھر دوسرے عوامل بھی ایسے تبدیل ہوئے کہ شمالی علاقوں میں جانا موقوف ہو گیا۔ 2012ء کے اواخر میں صاحبزادے جا رہے تھے‘ضِدکی کہ ابّو امّی ساتھ جائیں بہت سمجھایاکہ ہوائی جہاز سے جانے کا مطلب یہ ہے کہ واپسی بالکل غیر یقینی ہو‘لیکن جوانی‘فوٹو گرافی کی دُھن اور سیاحت کا شوق ...

وہ میوہ ہائے تازہ و شیریں کہ واہ واہ

صرف خربوزے ہیں جن کی از حد تعریف کی جا سکتی ہے! ورنہ دنیا کے اس جنوب مشرقی سرے پر، بحرالکاہل کی پہنائیوں کے اس کنارے، میوہ جات کی کمی تو نہیں! ابنِ خلقان لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم کی کمان میں مہم بھیجنے سے پہلے، حجاج بن یوسف نے کہ ہر کام کو درجۂ کمال پر سر انجام دینے کا عادی تھا، ایک ہراول پارٹی بھیجی تاکہ سندھ کے حالات کا جائزہ لے اور اسے مطلع کرے۔ پارٹی کے ارکان نے زمین، زراعت، آب و ہوا اور باشندوں کی خصوصیات کے بارے میں رپورٹ بھیجی۔ ایک فقرہ یہ تھا کہ کھجور یہاں کی اچھی نہیں! عرب دو چیزوں کے بارے میں ازحد حساس ہیں۔ قرآن پاک(جسے وہ اکثر ’’مصحف‘‘ کہتے ہیں)درست تلفظ میں پڑھا جا رہا ہے یا نہیں، اور کھجوروں کی کوالٹی کیسی ہے؟ اقبال نے ضربِ کلیم میں بہائی مذہب کے سب سے بڑے ستون محمد علی باب پر اسی حوالے سے چوٹ کی ہے    ؎ تھی خوب حضورِ علما باب کی تقریر بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعرابِ سمٰوٰت اس کی غلطی پر علما تھے متبسّم بولا تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات! اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات سنا ہے غلام احمد پرویز بھی، ساری قوتِ تحریر کے با...

حذر اے چیرہ دستاں!

دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے اور دو کشتیوں میں سفر کرنے والا منزل پر نہیں‘ پانی کی تہہ میں پہنچتا ہے ؛ تاہم اس حقیقت کا ادراک تحریکِ انصاف کو نہیں تھا۔ آج ان کے لیڈر کا نام ان اصحاب کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے قائداعظم کو قائداعظم کہنا تو درکنار‘ اُن کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ جس ملک کو آج انہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے‘ اس ملک کے بانی کا نام لینا گوارا نہیں! اور تحریکِ انصاف ان کے ساتھ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ ترکوں پر جب جدیدیت کا بھوت سوار تھا اور وہ مسلمان کہلوانے سے گریز کرتے تھے تو عقل مند انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ تم جو چاہو کرلو‘ تمہیں مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ تحریکِ انصاف کے لیڈر بظاہر اپنے آپ کو عسکریت پسند نہ کہیں‘ سو بار نہ کہیں‘ عسکریت پسندوں نے انہیں اپنا حصہ سمجھا ہے اور ڈنکے کی چوٹ اعلان بھی کیا ہے۔  فتح محمد گدھے پر ریت لاد کر بیچا کرتا تھا۔ اس کے باقی تین بھائی پڑھے لکھے امیر کبیر تھے۔ اس کا ان کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں تھا۔ سوشل لائف اس کی اور تھی‘ اُن کی اور تھی ، لیکن جب کبھی بھائیوں کا شمار ہوتا تو پھتّے (فتح محمد) کا نام امیر کبیر بھائیوں کے ساتھ ہی ل...