skip to main |
skip to sidebar
دونوں بھائی کم و بیش یکساں تعلیم یافتہ تھے۔ دنوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ دونوں کے گھر‘ گاڑیاں‘ سہولیات اور زندگی کے معیار مجموعی طور پر ایک جیسے تھے۔ دونوں کے عزیزو اقارب تقریباً وہی تھے۔ اس تمام ہم آہنگی کے باوجود دونوں کے بچوں میں زمین و آسمان کا فرق نکلا۔ ایک کی بیٹی نے اچھے نمبروں سے ایم اے کیا اور ان دنوں مقابلے کے امتحان میں قسمت آزمائی کا سوچ رہی ہے۔ ایک بیٹے نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور یورپ سے بھی ڈگری لی۔ دوسرا ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسرے بھائی کے بچوں میں سے صرف ایک بیٹی بی اے کر سکی۔ ایک بیٹا میٹرک سے آگے نہیں گیا۔ دوسرا دس جماعتیں بھی پاس نہ کر سکا۔ ایسے بچوں کا روزگار کے لیے پہلا چوائس موبائل فون کی دکان ہوتی ہے یا فوٹو سٹیٹ مشین والا ٹھِیا۔ ایک زمانے میں وڈیو کیسٹ کی دکان بھی اس سطح کے لڑکوں کی پسندیدہ منزل ہوا کرتی تھی۔
وہ کون سا عنصر تھا جو دونوں میں یکساں نہیں تھا۔ اسے کوئی اہمیت دے یا نہ دے‘ لیکن یہی عنصر ہے جو بہت بڑا عامل ہے۔ ایک کی بیوی نیم خواندہ تھی۔ قصباتی پس منظر اس پر مستزاد تھا۔ دوسرے کی بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی اور شہر سے تھی۔ لیکن اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی قصبے سے اور نیم خواندہ نیویارک سے بھی ہوتی تو بچوں کا مستقبل یہی رہتا! قصبے یا شہر سے ہونا اضافی عامل تو ہو سکتا ہے‘ بنیادی عامل نہیں ہو سکتا!
یہ ایک سو ایک فیصد سچا تذکرہ کرنے کی ضرورت آج کے اخبارات پڑھ کر محسوس ہوئی۔ تازہ ترین سروے کی رُو سے پاکستان میں شادی شدہ عورتوں میں سے ستاون فیصد ناخواندہ ہیں۔ مردوں میں یہ تناسب 29فیصد ہے۔ سروے نے اپنا طریق کار تاحال واضح نہیں کیا۔ چھٹی حِس بتاتی ہے کہ اس میں وزیرستان سمیت قبائلی علاقے شامل نہیں۔ غالباً شمالی علاقہ جات بھی سروے سے باہر ہی رہے ہوں گے۔ ایک مکمل اور ہر لحاظ سے درست سروے میں ناخواندہ (شادی شدہ) عورتوں کی تعداد ستر فیصد سے کم نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس پہلو سے بحث کیے بغیر ہم ستاون فیصد ہی درست مان لیتے ہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ یہ ستاون فیصد شادی شدہ عورتیں نیم خواندہ نہیں‘ ناخواندہ ہیں یعنی مکمل طور پر ان پڑھ۔ دوسرے لفظوں میں ستاون فیصد مائیں ان پڑھ ہیں۔
مضمرات خوفناک ہیں۔ غور کیجیے‘ بات کہاں تک جاتی ہے۔ یہ لکھنے والا ایک ناخواندہ عورت کو جانتا ہے جو ایک بہت بڑے شہر میں اچھے خاصے بنگلے میں رہتی تھی۔ اس کا شوہر درمیانی درجے کا افسر تھا۔ اس نے اپنے بچے کو پیدائش کے بعد تین یا چار سال تک شوہر کی آمدنی سے خریدے ہوئے کپڑے نہ پہنائے۔ وہ اسے دوسرے گھروں سے مانگے تانگے کا لباس پہناتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ بچے کی سلامتی کے لیے یہ ٹونا ضروری ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے اس یقین سے متزلزل نہیں کر سکتی تھی۔ ایک اور ناخواندہ بیوی کے میاں نے اپنا کیریئر چار مرلے کے گھر سے شروع کیا تھا۔ زمانے گزر گئے۔ میاں کی آمدنی کی سطح فلک کو چھونے لگی۔ بچے اپنے اپنے بزنس کے مالک ہو گئے لیکن وہ رہائش تبدیل نہیں کرنے دیتی تھی اس لیے کہ اسے یقین تھا یہ ساری ترقی چار مرلے کے اس گھر کی ’’برکت‘‘ سے تھی!
ناخواندہ ماں تعویذ فروش پیروں‘ نجومیوں اور عاملوں کا آسان ترین ہدف ہوتی ہے۔ اس کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو وہ اس کے بازو پر دھاگہ باندھتی ہے۔ بہت تیر مارے تو کسی نیم حکیم یا Materia Medica کا اردو ترجمہ پڑھ لینے والے ہومیوپیتھ کے پاس لے جاتی ہے۔ شوہر منع کرے تو اس کی غیر حاضری میں بابا جی کے پاس دم کروانے جاتی ہے۔ یہ سمجھانا اسے آسان نہیں کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا پانچ دن یا سات دن ضرور دینی ہے۔ بخار ٹوٹتے ہی وہ دوا دینا بند کر دیتی ہے۔ ایک ان پڑھ ماں شاید ہی قائل ہو سکے کہ چھ ماہ کے بچے کو نرم اور پھر بتدریج ٹھوس غذا دینا ضروری ہے۔ اس کا بس چلے تو وہ بچے کو دس پندرہ سال تک فیڈر میں دودھ دیتی رہے۔ اسے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ دودھ سے بھرے فیڈر کو کپڑے میں لپیٹنا ہے تاکہ نظر نہ لگ جائے لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ فیڈر کے اوپر لگی ربڑ کی چوسنی مشکل سے صاف ہوتی ہے۔ یہ اکثر و بیشتر انفیکشن کا باعث بنتی ہے اور جیسے ہی بچہ پیالی یا گلاس سے براہ راست پی سکے‘ فیڈر سے جان چھڑا لینی چاہیے۔
مِنی سوٹا کے چھوٹے سے قصبے راچسٹر میں واقع میو کلینک دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہیں ایک بڑے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ پہلے دو سال میں بچہ جو سیکھتا ہے‘ دیکھتا ہے‘ سنتا ہے اور سمجھتا ہے‘ وہ ساری زندگی اُس کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک ان پڑھ عورت اپنے میاں‘ اپنے رشتہ داروں اور اپنی سہیلیوں سے جو گفتگو کرتی ہے‘ وہ کس قسم کی ہوتی ہوگی! جیسی بھی ہے‘ وہی بچے کے لیے سنگِ میل ہے۔ اس سنگِ میل پر جس منزل کا نام لکھا ہے‘ وہی اس بچے کے بخت کا عنوان ہے! سکول داخل ہونے سے پہلے بچہ ان پڑھ ماں سے کیا پڑھتا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔ پھر جب بچہ سکول جانے لگتا ہے تو وہ بچے کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے نہ اسے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ سکول کے تقاضے کیا ہیں۔ اگر بچہ ہر روز‘ سکول جاتے وقت پیٹ کے درد کی شکایت کرتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتی کہ وہ سکول جانے سے گھبرا رہا ہے۔ اسے پڑھانے والے استاد سے شکایت ہے یا اُسے کوئی ہم جماعت بچہ پریشان کر رہا ہے۔
طالب علم ایسی ماں کو کبھی نہیں سمجھا سکتا کہ وہ اتنا ’’زیادہ‘‘ کیوں پڑھنا چاہتا ہے۔ وہ کہتی ہے تم نے چودہ جماعتیں پڑھ لی ہیں۔ اب نوکری کرو اور میری بھتیجی سے شادی کرو۔ بیٹے کے لیے ماں کو یہ سمجھانا کہ اس نے چارٹرڈ اکائونٹنسی کرنی ہے یا مقابلے کا امتحان دینا ہے یا بیرون ملک سے ایم بی اے کرنا ہے‘ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ جو ماحول بیٹے کو تعلیم کے مراحل طے کرنے میں درکار ہے‘ وہ اسے گھر میں کبھی میسر نہیں آ سکتا۔
ہم اکثر یہ فقرہ سنتے ہیں ’’لڑکی کو اتنا کیوں پڑھا رہے ہیں؟ اس نے کون سا نوکری کرنی ہے؟‘‘۔ گویا تعلیم کا حصول نوکری کرنے یا نہ کرنے سے مشروط ہے۔ تعلیم یافتہ ماں اور ان پڑھ ماں کے گھروں کے ماحول میں ایک اور ہزار کا فرق ہوگا۔ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں‘ فضا‘ ماحول‘ بات چیت کا طریقہ‘ سونے جاگنے کا انداز‘ ہر چیز مختلف ہوگی!
فن لینڈ‘ ناروے اور کچھ دیگر ملکوں میں خواتین کی خواندگی کا تناسب سو فیصد ہے۔ ڈنمارک‘ روس‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ نیوزی لینڈ‘ ہالینڈ وغیرہ میں ننانوے فی صد ہے۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ جو مسلم ریاستیں تاجکستان‘ ترکمانستان‘ قازقستان‘ ازبکستان‘ آذربائیجان روس کے زیرِنگیں رہیں‘ ان میں یہ تناسب ننانوے یا اٹھانوے فیصد ہے۔ ملائیشیا میں 85 فیصد اور ترکی میں 80 فیصد ہے۔ افغانستان میں تیرہ فیصد ہے۔
آیئے! اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ستاون فیصد ناخواندہ مائیں اس ملک کو کس قسم کے شہری دیں گی؟
ریت کے ہر ذرّے کو معلوم ہے اور کہکشائوں کا ہر ستارہ جانتا ہے کہ کون صحیح تھا اور کون غلط ۔ اگر اب بھی کسی کو نہیں معلوم کہ کون غلط تھا اور کون صحیح تو آسمان سے پتھروں کی بارش کا انتظار کرے۔ اس پروردگار کے پاس ، جس نے محمدؐ کے کندھے کو حسینؓ کی سواری بنایا تھا‘ پتھر بھی لاتعداد ہیں اور برسانے پر بھی قادر ہے!
دھوکا دیا کوفیوں نے۔ اپنے منہ پر ایسی کالک ملی کوفیوں نے جو قیامت تک سارے سمندر اور سارے دریا اور سارے چشمے نہیں دھو سکتے۔ وا حسرتا! بچے کھچے کوفی اِس سرزمین پر آن آباد ہوئے جو خدا اور خدا کے رسولؐ کے نام پر وجود میں آئی تھی! کس کس بات کا ماتم کریں۔ حسینؓ کی شہادت کا یا اس تیرہ بختی کا کہ کوفی ہم میں موجود ہیں!
اس ملک کا خواب دیکھنے والے شاعر نے‘ جس نے کہا تھا ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اُس کی حُسین ابتدا ہے اسماعیل
ہاں اسی شاعر نے کہا تھا ع
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
غور طلب بات یہ ہے کہ کوفی اور شامی ہی کیوں کہے؟
کون صحیح تھا اورکون غلط؟ یہ بات کسی ذاکر سے پوچھتے ہیں نہ کسی مولوی سے ، اقبالؔ سے پوچھتے ہیں جو مولوی تھا نہ ذاکر ، دیکھیے ؎
صدقِ خلیل بھی ہے عشق‘ صبرِ حُسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حُنین بھی ہے عشق
پھر کہتے ہیں ؎
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری
لیکن نواسۂ رسولؐ پر جو کچھ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں لکھا ہے‘ ایک ایسا ادب پارہ ہے اور ایسا خراجِ تحسین ہے جس کی مثال دنیا کی کسی زبان کے لٹریچر میں مشکل سے ملے گی۔ ایک مستقل باب باندھا ہے جس کا عنوان رکھا ہے ’’درمعنیٔ حریتِ اسلامیہ و سرِّ حادثۂ کربلا‘‘
نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
ہرکہ پیمان با ہوالموجود بست
گردنش از بندِ ہر معبود رست
جس نے بھی ہوالموجود کے ساتھ عہد باندھا‘ اس کی گردن دوسرے معبودوں کی قید سے رہا ہو گئی۔
پھر عقل اور عشق کے موازنے میں کئی اشعار کہتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد امام عالی مقامؓ کا ذکر یوں آغاز کرتے ہیں ؎
آن شنیدستی کہ ہنگامِ نبرد
عشق با عقلِ ہوس پرور چہ کرد
کیا تم نے سنا ہے کہ جنگ کے موقع پر ہوس پرور عقل کے ساتھ عشق نے کیا سلوک کیا؟
آں امامِ عاشقان پورِ بتول
سروِ آزادی زبستانِ رسول
وہ عاشقوں کا امام، فاطمہ زہراؓ کا فرزند جو رسولِؐ خدا کے باغ میں آزاد سرو کی طرح تھا۔ ؎
بہر آن شہزادۂ خیرُالملل
دوشِ ختم المرسلین نعم الجمل
تمام امتوں میں سے بہترین امت کے اس شہزادے کے لیے ختم المرسلینؐ کے کندھے کیا ہی خوبصورت اونٹ کے مانند تھے!
درمیانِ امت آن کیوان جناب
ہمچو حرف قل ھواللہ در کتاب
امت میں جنابِ حسینؓ کی حیثیت وہی ہے جو قرآن پاک میں سورۂ اخلاص کی ہے۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آمد پدید
موسیٰؑ اور فرعون‘ ــ شبیرؓ اور یزید ــ یہ دونوں قوتیں زندگی سے وجود میں آئی ہیں۔
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت کا تعلق قرآن سے ٹوٹنے لگا اور حریت کے گلے میں زہر ٹپکایا جانے لگا ۔
خاست آن سر جلوۂ خیرالامم
چون سحابِ قبلہ باراں در قدم
تو اُس خیرالامم کا جلوہ یوں ابھرا جیسے کعبہ سے بادل اُٹھے ، ایسا بادل جو بارش سے بھرا ہو۔
بر زمینِ کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
وہ بادل کربلا کی زمین پر برسا اور چلا گیا ، ویرانوں میں جیسے گلِ لالہ اگایا اور رخصت ہو گیا۔
تاقیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
ظلم کا خاتمہ وہ قیامت تک کر گئے ، ان کی خون کی موج نے چمنستان کھِلا دیے۔
مدّعائش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامان سفر
اگر آپ کا مقصد سلطنت کا حصول ہوتا تو اتنی بے سروسامانی کے ساتھ سفر پر نہ روانہ ہوتے۔
تیغِ لا چون از میان بیرون کشید
از رگِ اربابِ باطل خون کشید
جب آپ نے ’’لا‘‘ کی تلوار میان سے باہر کھینچی تو باطل کے ہم نوائوں کی رگوں سے خون نکلنے لگا۔
نقشِ الا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوانِ نجات ما نوشت
ریگستان پر لا الہ الا اللہ کا نقش لکھا۔ یہ نقش کیا تھا؟ ہماری نجات کا عنوان تھا!
یہ اس طویل نظم سے چند منتخب اشعار ہیں۔ اقبال پر پہلے فتوے تو متحدہ ہندوستان میں لگے تھے۔ دیکھیے‘ اب اس مملکت میں جس کا تصور خود اُسی نے پیش کیا تھا‘ اقبال پر کیا گزرتی ہے!
امام ابوحنیفہؒ کو کبھی اشتباہ نہ ہوا کہ عباسی خلفاء صحیح ہیں یا وہ سادات جو وقتاً فوقتاً اُن کے خلاف خروج کرتے رہے۔ جب امام محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو امام جعفر صادقؓ کے شاگردِ رشید امام ابوحنیفہؒ نے اُن کی حمایت کی۔ پھر جب ان کے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ نے خروج کیا تب بھی امام ابوحنیفہؒ نے ان کا ساتھ دیا۔ جب بھی امام ابوحنیفہؒ کو موقع ملتا وہ سادات کی خدمت میں مالی نذرانہ بھی پیش کرتے۔ بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ عباسی خلفاء کے دلوں میں امام ابوحنیفہؒ کے خلاف جو زہر بھرا تھا‘ اُس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ آپ نے چیف جسٹس بننے سے انکار کردیا تھا، عباسی حکمرانوں کے نزدیک ان کا اصل جرم سادات کی حمایت تھی۔
اگر کبھی جنوبی ایشیا اور شرق اوسط کا نقشہ دیکھ لیتے تو شاید جان پاتے کہ کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور کس سے دشمنی کر رہے ہیں!
اُس پروردگار کی قسم! جس کی قدرتِ کاملہ نے توسیع پسند بھارت اور کمزور شرقِ اوسط کے درمیان یہ رکاوٹ پیدا کی‘ پاکستان کی مسلح افواج نہ ہوتیں تو ایران سے لے کر مصر تک سب ریاستیں بھارت کی اس طرح باج گزار ہوتیں جیسے سکم اور بھوٹان ہیں اور جیسے نیپال ہے!
اللہ کے بندو! کبھی نقشہ دیکھو! یہ پاکستان کی دفاعی پیداوار تھی جس نے سری لنکا کو اپنی تاریخ کی مہیب ترین دہشت گردی سے بچایا۔ ورنہ آج سری لنکا کی حیثیت بھارت کے تامل ناڈو صوبے سے زیادہ نہ ہوتی! یہ پاکستان کی افواجِ قاہرہ ہیں جو سر پر چوٹی رکھنے والے دھوتی پوش ہندوئوں کے عزم کے سامنے خم ٹھونکے کھڑی ہیں۔ آج ایران اگر بھارت سے تعلقات کی پینگ جُھلا کر ہوا میں اُڑتا ہے تو صرف اس لیے کہ وہ بھارت کی جسمانی پہنچ سے دور ہے اور محفوظ۔ روٹی کا نوالہ منہ کے بجائے کان میں ٹھونسنے والے پاگل کو بھی معلوم ہے اور اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج‘ میرے منہ میں خاک‘ مضبوط نہ ہوتیں تو ایران کیا پورا شرقِ اوسط بھارت کے دائرہ اثر میں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے سوویت یونین کے زمانے میں پولینڈ اور بالٹک ریاستیں تھیں!
1991ء کے اواخر تھے جب سوویت یونین ٹوٹا اور وسط ایشیا کو نام نہاد آزادی ملی۔ یہ لکھنے والا اُن چند افراد میں تھا جو پہلے پہل وہاں پہنچے۔ پاکستان کی سیاسی حکومت میں وژن تھا نہ ادراک۔ اُس وقت کے وزیراعظم نے جو سفیر بھیجا‘ سفارت کاری سے نابلد تھا۔ ایک وفد بھیجا گیا۔ روایت ہے کہ اس کے سربراہ جون ایلیا کے بقول حالتِ حال میں رہتے تھے۔ حکیم سعید چیختے رہے کہ وسط ایشیا کی آزاد ریاستوں پر توجہ دو۔ کسی نے نہ سنی۔ سمرقند میں چھ سو کمروں کا ہوٹل بنتے دیکھا۔ دل ڈوب گیا کہ تعمیراتی کمپنی بھارتی تھی۔ فلموں سے لے کر جوتوں تک‘ سب کچھ بھارت کا تھا۔ تاشقند یونیورسٹی کا اردو کا شعبہ بھارت کے مکمل قبضے میں تھا۔ یہ کالم نگار واپس آیا تو اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات حاجی اکرم سے ملا اور منت کی کہ پاکستانی ڈراموں کے لیے بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اہمیت دیں‘ حکمت عملی بنائیں اور میدان خالی نہ چھوڑیں۔ لیکن پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی نوکر شاہی کی ترجیحات ہمیشہ ذاتیات سے وابستہ رہی ہیں۔ کچھ ہی ماہ میں ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ بھارت کی بینکاری‘ برآمدات اور سروسز نے قبضہ کر لیا۔ لیکن جو نکتہ اس نوحہ خوانی کے بعد بیان کرنا ہے‘ یہ ہے کہ اگر پاکستان کی افواج بھی اہلِ سیاست اور نوکرشاہی کی طرح ڈھیلی ہوتیں تو ازبکستان‘ تاجکستان اور کرغیزیا میں بھارتی فوجی دندنا رہے ہوتے۔
آج باغی گروہ صاف کہہ رہا ہے کہ ہماری لڑائی پاکستانی فوج سے ہے۔ جنرل ثناء اللہ شہید ہوئے تو جشن منایا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آرمی چیف اور پشاور کے کور کمانڈر بھی ہدف ہیں۔ یہ اہداف تو بھارت کے بھی ہیں۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سب سے بڑا دشمن کل تک تو بھارت تھا۔ آج باغی گروہ ہے۔ دونوں کا ہدف پاکستانی افواج ہیں۔ جو بھارت کا دوست ہے وہ پاکستانی افواج کا دشمن ہے۔ تو جو باغی گروہ کے دوست ہیں اُن کی کیا پوزیشن ہے؟ یقینا وہ بھی پاکستانی افواج کے دشمن ہیں۔
یہ کیسے لوگ ہیں جو اسی تھالی میں چھید کر رہے ہیں جس میں سے کھا رہے ہیں۔ پرورش ان کی پاکستان کر رہا ہے‘ پاکستان کی ہوا‘ پاکستان کی چاندنی‘ پاکستان کا پانی سب کچھ استعمال کر رہے ہیں‘ وہ ساری سہولیات جو پاکستانی ریاست نے بہم
پہنچائی ہیں‘ جہازوں اور ریل سے لے کر بجلی اور فون تک سب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ساتھ دشمن کا دے رہے ہیں۔ کبھی اگر‘ کبھی مگر‘ کبھی تاویلات‘ کبھی مطالبات۔ جیسے سو فیصد ان کے ترجمان ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ انسانوں کو ذبح کرنا ناجائز ہے۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکا دی جائیں تو خاموش رہتے ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے چیتھڑے اڑ جائیں تو چُپ رہتے ہیں لیکن پاکستان کی مسلح افواج پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مذبذبین بین ذالک لا اِلیٰ ھٰؤلاء و لا اِلیٰ ھٰؤلاء۔ درمیان میں ڈانوا ڈول ہیں۔ نہ پورے اِس طرف نہ پورے اُس طرف!
تہجد؟ کیا حجاج بن یوسف تہجد نہیں پڑھتا تھا؟ کیا عبداللہ ابن وہب تہجد نہیں پڑھتا تھا جسے اُس کے ساتھیوں سمیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نہروان میں تہہ تیغ کیا۔ کیا ان کی پیشانیوں پر گٹے نہیں تھے؟
جنت؟ کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فوج پر شدت سے حملہ کرنے والوں نے نعرہ نہیں لگایا تھا کہ ’’ہے کوئی جنت میں جانے والا؟‘‘ اور سب نے چلاّ کر جواب دیا تھا کہ ہم سب جنت میں جانے والے ہیں۔ اور پھر آں جنابؓ کے تیراندازوں نے ان سب کو ڈھیر کردیا۔
حنین کے موقع پر سرورِ کائناتؐ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ ناقص ہاتھوں والے ایک شخص نے کہا ’’اے محمدؐ! انصاف کرو۔ آپؐ نے انصاف نہیں کیا‘‘۔ آپؐ نے دو مرتبہ اس سے اغماض برتا۔ تیسری دفعہ پھر اس نے یہی کہا تو چہرۂ مبارک پر غصے کے آثار نمودار ہوئے۔ فرمایا: میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ مسلمانوں نے اس کا کام تمام کرنا چاہا تو منع فرما دیا۔ پھر فرمایا: اس شخص کی اصل سے ایک قوم نکلے گی جس سے دین اس طرح دور ہو جائے گا جیسے کمان سے تیر دور ہوتا ہے۔ وہ تلاوت کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہی وہ شخص تھا جو نہروان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سپاہ پر حملہ کرنے والوں میں اور قتل ہونے والوں میں شامل تھا!
صف بندی ہو چکی ہے! یہ جنگ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں‘ ضرور ہونی ہے۔ جس نے پاکستانی ریاست کا اور ریاست کا دفاع کرنے والی افواج کا ساتھ دینا ہے‘ وہ ایک طرف ہو جائے‘ جس نے دشمن کا ساتھ دینا ہے‘ اگر مگر نہ کرے اور کھلم کھلا دشمن کا ساتھ دے کہ بقول افتخار عارف ؎
صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے
گھر تو خوبصورت تھا۔ عالی شان‘ پائیں باغ بھی تھا۔ پھولوں سے بھری ہوئی روشیں تھیں‘ شمشاد اور صنوبر کے درخت بھی۔ خواب گاہوں میں مر مر کے فرش تھے اور شاہ بلوط سے بنے فرنیچر کے دیدہ زیب‘ دل آویز آئٹم۔ دالانوں میں عود اور لوبان سلگتا تھا تو لگتا تھا مصر کے قدیم بادشاہوں کے محلات میں بیٹھے ہیں۔
لیکن پھر گھر کے مالک نے ایک عجیب کام کیا۔ اس نے گھر کے نیچے‘ دور گہرائی میں‘ خندق کھودنا شروع کردی۔ جب خندق تیار ہو گئی تو اس نے اس میں بارود بھر دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ خوبصورت مکان بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مالک خود بھی اسی مکان میں رہتا ہے ع
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
مکان نہیں‘ اس کا اپنا گھر تباہی کے دہانے پر ہے۔
یہ کہانی ہے نہ تمثیل۔ یہ اسلام آباد کی صورتِ حال ہے۔ حقیقی صورتِ حال… اور ذمہ دار کون ہے؟ اسلام آباد کے حکام… ترقیاتی ادارہ‘ ضلع اور کمشنری کے افسر!
گاڑیوں کے ازدحام‘ رہنے کے لیے محلاّت‘ غیر ملکی دورے‘ تزک و احتشام‘ ترقیاں‘ بیرونِ ملک تعیناتیاں‘ تنی ہوئی گردنیں‘ ایک ایک فُٹ لمبے پائپ‘ فرنگی سوٹوں کے باہم مقابلے‘ بیگمات کی منعقد کردہ پارٹیاں‘ بزم ہائے نشاط و انبساط‘ لمبی چوڑی خریداریاں‘ ڈرائنگ روموں میں سجے مُلکوں مُلکوں جمع کیے گئے کرسٹل‘ بلور کے جام‘ خشک میوے‘ قسم قسم کے مشروبات اور نااہلی کی حالت دیکھیے سرکار خود اعلان کر رہی ہے کہ اسلام آباد براہ راست القاعدہ‘ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے نشانے پر ہے اور یہ کہ وفاقی دارالحکومت میں تینوں گروپ پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔
یہی وفاقی دارالحکومت اگر رائے ونڈ کی طرح کسی کی ذ اتی جاگیر ہوتا یا کسی سیٹھ کی جائداد ہوتا تو اس میں چڑیا پر نہ مار سکتی لیکن سارا المیہ یہ ہے کہ یہاں عوام رہتے ہیں۔ رہے خواص تو وہ ریڈزون میں ہیں۔
ایک عام سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی بخوبی جانتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں تین علاقے ایسے ہیں جو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناگاہوں کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں پہلا علاقہ بارہ کہو ہے جو ایوانِ وزیراعظم سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ تو دور کی بات ہے‘ اسلام آباد کے چیف کمشنروں نے بھی کبھی اس بارود کے ڈھیر کو نزدیک آ کر نہیں دیکھا۔ بے ہنگم آبادیوں کا ایک جنگل ہے جو مسلسل وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ لاکھوں ’’غیر ملکی‘‘ آباد ہیں اور سالہا سال سے آباد ہیں۔ افغان سرحدوں سے بستیوں کی بستیاں اٹھیں اور یہاں آ کر بس گئیں۔ یہ سب اس طرح محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے
درمیان زبان۔ مری روڈ پر دونوں طرف بیسیوں قریے ہیں جو لاقانونیت کے ماڈل ہیں۔ پھر سملی ڈیم روڈ ہے‘ جس پر کسی قانون‘ کسی ضابطے‘ کسی رُول کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس سے بھی زیادہ عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ دارالحکومت کے عین درمیان میں ایک پورا سیکٹر ترقیاتی ادارے نے قبضے سے مستثنیٰ کر کے کھلا چھوڑ دیا۔ اسے سیکٹر جی بارہ کہتے ہیں۔ مکینوں کی بے حسی اور بزدلی کا یہ عالم ہے کہ اس ’’علاقہ غیر‘‘ کے اردگرد جتنے سیکٹر آباد ہیں‘ بالخصوص جی گیارہ‘ جی تیرہ اور ایف گیارہ۔ ان میں پڑنے والے ڈاکوں‘ وارداتوں اور چوریوں کا سرچشمہ یہی جی بارہ ہے۔ مکین جانتے ہیں لیکن اُف تو کیا‘ چُوں تک کوئی نہیں کرتا ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے کن مگرمچھوں کی خاطر اس سیکٹر کو مستثنیٰ کیا‘ اس کا عقدہ شاید کبھی بھی نہ کھلے۔ یہاں کوئی سیکٹر ہے نہ سب سیکٹر‘ کوئی سٹریٹ ہے نہ گلی۔
جرائم پیشہ افراد کی جنت ہے اور وہ بھی دارالحکومت کے عین وسط میں… یہاں جھونپڑے بھی ہیں اور محلات بھی۔ حویلیاں بھی ہیں اور ڈیرے بھی۔ درجنوں مافیا یہاں پھل پھول کے تناور درخت بن چکے ہیں۔ یوں سمجھیے‘ دہشت گردوں کو پلیٹ میں رکھ کر پناہ گاہیں پیش کی گئی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ ’’جزیرہ‘‘ اتنا ہی محفوظ ہے جتنا افغان سرحد پر واقع علاقہ غیر!!
تیسرے نمبر پر ترنول کا علاقہ ہے جو فتح جنگ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ بھی ’’غیر ملکیوں‘‘ کی جنت ہے! باغات ہیں اور فارم! اور سب کو معلوم ہے کن کے ہیں! درجنوں دہشت گرد یہاں سے وقتاً فوقتاً گرفتار کیے گئے۔ گویا پانی کے بوکے (ڈول) نکالے گئے مگر مردار جانور کو کنوئیں کے اندر ہی رہنے دیا گیا!
آپ ترقیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ کی ’’مستعدی‘‘ اور ’’احساسِ ذمہ داری‘‘ کا اندازہ لگایئے کہ ترنول کی بغل میں واقع سیکٹر جی چودہ/ ون اور جی چودہ/ ٹُو کے پلاٹ کاغذوں پر بنا کر سرکاری ملازموں کو الاٹ کیے گئے لیکن ان کاغذی پلاٹوں پر وہ گائوں ابھی تک آباد ہیں جو کاغذوں پر اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم سات آٹھ سال سے یہ الاٹمنٹ لیٹر گھروں میں رکھ کر انہیں چاٹ رہے ہیں لیکن غیر قانونی آبادی نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہو رہی‘ اس میں مزید تعمیراتی کام ہو رہا ہے یعنی مزید غیر قانونی مکان اور دکانیں بنتی جا رہی ہیں۔ کئی ریٹائرڈ سرکاری ملازم الاٹمنٹ لیٹروں کو چاٹتے چاٹتے قبرستانوں کو سدھار چکے ہیں۔ ان کے پس ماندگان خس و خاشاک کی طرح گلیوں میں رُل رہے ہیں مگر غیر قانونی آبادیوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
آج اگر سرکار خود اعلان کر رہی ہے کہ وفاقی دارالحکومت القاعدہ‘ لشکر جھنگوی اور طالبان کے براہ راست نشانے پر ہے تو ان گروہوں کو محفوظ پناگاہیں بھی تو اداروں کی ناک تلے ہی مہیا ہوئی ہیں۔ ترقیاتی ادارہ غالباً وزارتِ داخلہ کے ماتحت نہیں‘ لیکن ضلعی انتظامیہ تو وزارت ہی کا حصہ ہے ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیہ
خود مرے گھر کے چراغاں نے دکھایا ہے مجھے
ہم اپنا فرض ادا کرتے ہوئے چودھری نثار علی خان کی خدمت میں ادب کے ساتھ گزارش کرتے ہیں کہ ترقیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر‘ پرائیویٹ اور غیر سرکاری انتظام کے ذریعے (1)بارہ کہو (2)ترنول اور (3)جی بارہ کا تفصیلی دورہ کریں۔ بھیس بدل کر کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ خوبصورت مکان کے نیچے کتنی بڑی خندق ہے جو بارود سے بھری ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ خندق اب پوشیدہ بھی نہیں رہی۔ سب کو نظر آ رہی ہے سوائے اُن کے جنہیں سب سے پہلے نظر آنی چاہیے تھی!
ایف سی کے 23 جاں باز موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔
ان کا قصور کیا تھا؟ یہی کہ وہ مادرِ وطن کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں موجود تھے ، پاکستان کی خاطر… اُس پاکستان کی خاطر جو قائداعظم نے بنایا تھا۔
اس سے زیادہ کرب ناک خبر یہ ہے کہ ایف سی کے سربراہ نے اپنے جوانوں کے قتل کے بعد وفاقی حکومت سے راست اقدام کی اجازت مانگ لی ہے۔ وفاقی حکومت کیا جواب دیتی ہے؟ اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ایف سی کے سربراہ کو راست اقدام کا اب کیوں خیال آیا ہے؟
اطلاعات کے مطابق یہ جوان گزشتہ چار سال سے طالبان کی قید میں تھے۔ اگر ان مقتول جوانوں کے پس ماندگان عدالت کے ذریعے پوچھیں کہ چار سال کے طویل عرصہ میں مقتولین کے محکمے نے ان کی رہائی کے لیے کیا کوششیں کیں؟ تو نہیں معلوم‘ ایف سی کے سربراہ کیا جواب دیں گے۔ لیکن کسمپرسی اور بے اعتنائی کی حد ہے کہ تیئس جوانوں کو یوں بھلا دیا گیا جیسے ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ فیضؔ نے کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا:
کہیں نہیں ہے‘ کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیٔ لبِ خنجر‘ نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ‘ نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
اب خبر آئی ہے کہ ان جوانوں کو افغانستان میں قتل کیا گیا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ قبل مشیرِ امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک دیوار ہو تاکہ اُدھر سے کوئی یہاں آ سکے نہ یہاں سے اُس طرف جا سکے۔ قرآن پاک میں حضرت ذوالقرنین کا ذکر ہے جنہوں نے ایک قوم کو دوسری قوم کے ظلم سے بچانے کے لیے دونوں کے درمیان ایک بند باندھا تھا۔ پہلے لوہے کی چادریں ڈالی گئیں۔ پھر آگ دہکائی گئی یہاں تک کہ آہنی دیوار آگ کی طرح سرخ ہو گئی۔ پھر ذوالقرنین نے کہا: ’’لائو‘ اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا‘‘۔ یہ ایک ایسا بند تھا جس پر چڑھنا ممکن تھا نہ اس میں نقب لگانا!
افغانستان اور پاکستان کی صورتِ حال وہی ہے جس کے بارے میں ایک فارسی شاعر نے کہا تھا ؎
بامن آویزشِ اُو‘ الفتِ موج است و کنار
دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزان از من
یعنی میری اور اس کی باہمی آویزش ایسے ہی ہے جیسے ساحل اور موجِ دریا کا تعلق… ابھی موج ساحل سے گلے ملی‘ شیرو شکر ہوئی‘ گلے شکوے دور ہوئے اور اگلے ہی لمحے موج نے منہ موڑا‘ پشت ساحل کی طرف کی اور ساحل کو حیران پریشان چھوڑ کر یہ جا وہ جا! سچ پوچھا جائے تو پاکستان کی حالت ساحل کی سی ہے اور افغانستان موج کی طرح ہے۔ بے اعتبار‘ ناقابلِ اعتماد‘ کچھ پتہ نہیں‘ کس وقت بغل گیر ہو اور کس وقت تعلقات پر سرد مہری کی مٹی ڈال دے۔
کیا افغانستان کا پڑوس پاکستان کے لیے ہمیشہ دردِ سر رہے گا یا اس کا کوئی علاج ممکن ہے؟ دونوں ملکوں کی تاریخ دیکھی جائے تو مجید امجد کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا!
یورپی طاقتوں کو چھوڑ کر سارے حملہ آور برصغیر میں افغانستان ہی سے وارد ہوئے۔ مغلیہ عہد میں افغانستان سلطنت کے لیے مسلسل دردِ سر بنا رہا۔ کبھی کابل‘ کبھی ہرات اور کبھی قندھار کا مسئلہ درپیش رہا۔ رنجیت سنگھ پنجاب کا بادشاہ بنا تو پشاور اُس کے قبضے میں رہا اور افغانستان کے حکمران اسے واپس لینے پر مصر رہے۔ انگریزوں نے تین جنگیں لڑیں اور ہر جنگ نے ثابت کیا کہ افغانستان اور اس کی سرحدیں غیر معمولی عقل و دانش کا تقاضا کرتی ہیں۔ پاکستان بنا تو اول روز سے افغانستان کا رویہ منفی تھا۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان ایسا اس دلدل میں پھنسا کہ آج تک نکل نہیں پایا اور نہ ہی بظاہر اس بلائے درماں سے چھٹکارا پانے کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔ پاکستان اس وقت جس دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ اُس کے ڈانڈے افغانستان ہی سے ملتے ہیں!
دیوار کی تعمیر تو ممکن نہیں! افغانستان اور پاکستان کی سرحد جغرافیائی حوالے سے ایسی نہیں جہاں دیوار بنائی جا سکے۔ جو قبائل تہذیب کی فصیلوں کو گرا سکتے ہیں وہ لوہے‘ کنکریٹ اور سیسے کی دیوار کو کیا سمجھیں گے! ہاں! ایک حل اس مسئلے کا ممکن ہے اور وہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی یا غیر جانب دار ملکوں کی افواج پاکستان اور افغانستان کے درمیان حائل ہو جائیں۔ کسی کو افغانستان سے پاکستان آنے دیں نہ کسی کو پاکستان سے افغانستان میں گھسنے دیں۔ یہ تجویز بظاہر ناقابلِ عمل لگ سکتی ہے لیکن غور کیا جائے تو اس کے بغیر کوئی حل نہیں! افغانستان کے مشرقی اور جنوبی قبائل ہمیشہ جنگ جُو رہیں گے۔ وہاں تعلیم کا گزر ہو سکتا ہے نہ رویہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ کشت و خون ہی وہاں کا عنوان ہے اور یہی رہے گا ۔ اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ باقی دنیا کا موازنہ مشرقی اور جنوبی افغانستان سے کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان کسی اور ہی دنیا کا حصہ ہے۔
بین الاقوامی فوج کے‘ جو سرحدوں پر پہرہ دے گی ، اخراجات پاکستان ہی کو اٹھانے ہوں گے۔ اگر اس قومی نقصان کا تخمینہ لگایا جائے جو سمگلنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ہو رہا ہے تو بین الاقوامی فوج پر اٹھنے والے اخراجات کچھ بھی نہیں۔ پچاس ساٹھ سالوں سے پاکستان کی قومی پیداوار پر افغانستان پرورش پا رہا ہے۔ آٹا‘ گھی‘ چینی‘ دالیں‘ اناج‘ مصالحے‘ گوشت‘ زندہ مویشی‘ ادویات‘ پارچہ جات‘ جوتے یہاں تک کہ مکان تعمیر کرنے کا سیمنٹ‘ سریا اور اینٹیں تک‘ پاکستان سے جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ سمگلنگ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے‘ جس کا پاکستان کی معیشت کو کچھ فائدہ نہیں! اُس کے بدلے میں افغانستان سے کیا آتا ہے؟ ہیروئن‘ افیون اور اسلحہ! ضربِ کلیم میں اقبال کا ایک قطعہ ہے جس کا عنوان یورپ اور سوریا (شام) ہے۔ اس میں بھی اسی قبیل کے معاملے کو نظم کیا گیا ہے ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
نبی عفت و غم خواری و کم آزاری
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری
’’اقتصادی تاریخ‘‘ ایک باقاعدہ الگ مضمون ہے جو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جاپان‘ امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی کی ’’اکنامک ہسٹری‘‘ ماہرینِ اقتصادیات کو التزام سے پڑھائی جاتی ہے۔ اگر آپ افغانستان کی ’’معاشی تاریخ‘‘ پر غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ کم از کم قریب کے زمانے میں افغانستان نے کبھی کوئی شے نہیں بنائی۔ کوئی مشین‘ کپڑا‘ جوتا‘ جوراب‘ کھلونا… یاد نہیں پڑتا کہ افغانستان کا بنا ہوا‘ کسی بازار میں دیکھا یا خریدا ہو۔
اگر پاکستان کو کبھی کوئی سنجیدہ حکمران ملے اور افغانستان کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے کا عزم کرے تو سرحدوں پر بین الاقوامی فوج تعینات کرنے سے کشت و خون اور دہشت گردی ہی نہیں تھمے گی‘ پاکستان کی معیشت بھی سُکھ کا سانس لے گی!
وطن اور اہلِ وطن کی خوش بختی ہے کہ علمائے کرام کا سایۂ شفقت ہمارے سروں پر قائم ہے۔ ان مقدس ہستیوں کا وجود ایسے ہی ہے جیسے کڑکتی ، چلچلاتی دھوپ میں شیشم کی گھنی ٹھنڈی چھائوں‘ جیسے بے کسی میں سر پر کسی کا ہاتھ‘ جیسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چمکتے ستارے۔۔۔ ہمیں اپنی خوش نصیبی پر ناز کرنا چاہیے !
جہاں بھی ہم بھٹکتے ہیں، یہ بزرگانِ کرام فرشتوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں، ہمارا ہاتھ تھامتے ہیں اور راہِ راست پر لے آتے ہیں۔ ِادھر ہمارے قدم ڈگمگائے، لڑکھڑائے، اُدھر علمائے کرام ہمارا سہارا بن کر سامنے آ گئے۔ ہم اُن کے مضبوط کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو پھر سے مستحکم کر لیتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ کفریہ دن جیسے ہی نزدیک آتا ہے اور ہمارے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ہمارے علمائے کرام فوراً الرٹ ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ مغرب میں جتنی بھی بے حیائی اور فحاشی ہے ‘یہ ویلنٹائن ڈے کی وجہ سے ہے ، ورنہ ویلنٹائن ڈے سے پہلے تو پورا مغرب اخلاقی اقدار میں کمر کمر تک بلکہ گلے گلے تک ڈوبا ہوا تھا۔ ہر عورت حجاب میں محجوب تھی‘ ہر مرد کی نگاہیںچلتے میں زمین پر ہوتی تھیں۔ جیسے ہی ویلنٹائن ڈے کا آغاز ہوا، سب کچھ ختم ہو گیا اور مغرب بے شرمی میں غرق ہو گیا۔ یہی حال بسنت کا ہے۔ بسنت کا منانا کفر کے برابر ہے۔ ہمارے بزرگ نہیں چاہتے کہ ہم راہِ راست سے بھٹکیں۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد نعیم نے قوم کو بروقت خبردار کیا اور فرمایا کہ مغرب نے امتِ مسلمہ کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لیے ویلنٹائن ڈے‘ بسنت اور اپریل فول منانے میں مبتلا کر دیا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ مغربی کلچر کو فروغ دینے والے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یہ ملک کو مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔ آپ نے حکومت کو ہدایت فرمائی کہ ویلنٹائن ڈے اور بسنت جیسے غیر اسلامی ‘فحاشی و عریانیت پھیلانے والے پروگراموں پر پابندی عائد کرے۔
حضرت مولانا سید منور حسن نے بھی اس خطرناک موقع پر اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی۔ آپ نے اُن نوجوانوں کو مبارک باد دی جنہوں نے مغربی بے حیائی پر مبنی ویلنٹائن ڈے کے مقابلے میں ’’یوم حیا‘‘ منا کر قومی اقدار کا تحفظ کیا۔
ہمارے علمائے کرام اسی قبیل کے خطروں سے میڈیا کے ذریعے با خبر رہتے ہیں۔ اُن کی نظر یں میڈیا پر ہوتی ہیں اور ہاتھ قوم کی نبض پر؛ چنانچہ جو حرکات شریعت کے خلاف ہوتی ہیں ان پر فی الفور گرفت کرتے ہیں اور جو مذہبی نقطہ نظر سے مضر نہیں ان پر سکوت اختیار فرماتے ہیں۔ اب مہینہ ڈیڑھ پہلے جو کچھ مظفر گڑھ میں ہوا، اُسی کو لے لیجیے۔ مظفر گڑھ سے 80میل کے فاصلے پر احسان پور کا قصبہ ہے۔ اس کی قریبی بستی میں پنچایت نے ایک ’’مقدمے‘‘ کا فیصلہ کیا۔’’مقدمہ‘‘ یہ تھا کہ مجید نامی ایک شخص نے پنچایت کے آگے فریاد کی کہ اجمل نامی شخص کے اس کی بیوی کے ساتھ ناروا تعلقات ہیں۔ پنچایت نے فیصلہ کیا کہ اجمل سے اس بے عزتی کا بدلہ لیا جائے ؛ چنانچہ حکم دیا گیا کہ اجمل اپنی بہن کو پیش کرے۔ چالیس سالہ بہن پیش کی گئی۔ پنچایت نے دس منٹ غور کرنے کے بعد رولنگ دی کہ متاثرہ پارٹی خاتون سے ’’بدلہ‘‘ لے۔ خاتون سے ’’بدلہ‘‘ لے لیا گیا۔ دونوں فریق مطمئن تھے کہ جھگڑا ’’پرامن‘‘ طریقے سے اختتام پذیر ہو گیا‘ لیکن میڈیا کو معلوم ہو گیا اور آناً فاناً ’’انصاف‘‘ کی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک اور بیرون ملک میں پھیل گئی۔ اس پر کچھ لوگوں نے ’’صفائیاں‘‘ پیش کیں‘ جن میں پولیس بھی شامل تھی کہ ’’بدلہ‘‘ لیا گیا تاہم ’’پوری طرح‘‘ نہیں لیا گیا۔ چالیس سالہ بہن کو فقط برہنہ کیا گیا اوراسے تھپڑ مارے گئے۔ جو کچھ بھی ہوا اس پر بہر طور سب ’’متفق ‘‘ تھے کہ عورت کو برہنہ ضرور کیا گیا ‘کمرے میں بھی لے جایا گیا ‘لیکن انتقام ’’پورا‘‘ نہ لیا گیا۔
یہ خبر سارے قومی اخبارات میں شائع ہوئی۔ سارے ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر ہوئی‘ یہاں تک کہ مشرق وسطی سے نکلنے والے روزنامہ خلیج ٹائمز میں بھی تفصیل سے شائع ہوئی۔ وہاں سے بین الاقوامی میڈیا میں بھی چلی گئی۔ ظاہر ہے کہ ہمارے با خبر علمائے کرام کو بھی واقعہ کی خبر پہنچی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی‘ ملتان‘لاہور ‘اسلام آباداور پشاورسے شائع ہونے والے تمام اخبارات پر خبر چھپے اور بزرگان عظام کو معلوم نہ ہو۔ تاہم نکتہ یہ ہے کہ اگر اس میں شریعت کی خلاف ورزی ہوتی اور اگر یہ ظلم ہوتا تو ہمارے علمائے کرام کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ جو واجب الاحترام مقدس ہستیاں ڈرون حملوں کا سن کر سراپا احتجاج بن جاتی ہیں‘ جو ویلنٹائن کی وحشتوں اور بسنت کی زرد مستیوں سے پوری طرح باخبر رہتی ہیں وہ اتنے بڑے واقعہ سے کیسے لاتعلق رہ سکتی تھیں۔ یقیناً مظفر گڑھ میں جو کچھ ہوا اس میں علماء کے نزدیک کوئی قباحت نہیں تھی! اس سے منطقی طور پر یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایسی پنچایتوں کا جال پورے ملک میں بلکہ پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا جائے تاکہ عوام کو انصاف ملنے میں صرف دس منٹ لگیں اور شریعت کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔ اس طرح اگر کوئی بدبخت یہ کہتا ہے کہ کاروکاری ‘ ونی یا سوارہ کی رسوم خلاف شریعت ہیں تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے اس لیے کہ کیا اس نے کسی عالم دین سے کبھی سنا ہے کہ یہ ٹھنڈی میٹھی رسمیں جن سے پہنچایتیں عوام کو فیض یاب کرتی ہیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں؟
بعینہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنا اور غیر مسلموں کو یہ وارننگ دینا کہ مسلمان ہو جائو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جائو… شریعت کے عین مطابق ہے۔ اگر اس میں شریعت کی خدانخواستہ خلاف ورزی ہوتی ہے تو علمائے کرام جو ہر غلطی پر گرفت فرماتے ہیں ‘کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ ایک اندازے کے مطابق مسلمان ملکوں میں دس کروڑ سے زیادہ غیر مسلم رہ رہے ہیں‘ اگر یہ سارے جان بچانے کے لیے اسلام قبول کرلیں تو اندازہ لگائیے ہم مسلمانوں کی آبادی میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا اور دنیا پر ہمارا کتنا رعب پڑے گا!
کیا اس شہر کی عمر دو سو تیس؍ چالیس سال ہے؟ اڑھائی سو سال سے بھی کم؟
سڈنی جس قدر پھیلا ہوا ہے‘ جتنا منظم ہے‘ جتنا خوبصورت ہے‘ جتنا شاداب اور ہرا بھرا ہے‘ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک ہی لفظ ذہن میں ابھرتا ہے۔۔۔ رُول آف لا۔۔۔ قانون کی عملداری!
اڑھائی سو برس سے بھی کم! دو سو تیس چالیس سال پہلے جب اس نیم مجنون‘ دُھن کے پکے‘ کیپٹن کُک نے کھاڑیوں کے بیچ جہاز لنگرانداز کیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ شہر دو صدیوں میں کئی ایسے شہروں کو پیچھے چھوڑ جائے گا جو ہزار ہا سال سے آباد ہیں لیکن قانون اور تنظیم سے محروم! مجرموں سے بھرا ہوا پہلا بحری جہاز جب سڈنی آیا تھا اور آبادی کا آغاز ہوا تھا تو حالت یہ تھی کہ پینے کا پانی اور خوراک لینے کے لیے جہاز کو بمبئی جانا پڑا تھا!
یہی شہر آج دنیا بھر کے دھتکارے ہوئوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ سول وار سے بھاگے ہوئے لبنانی‘ غربت کے ڈسے ہوئے یونانی اور اطالوی‘ صومالی‘ ترک‘ ایرانی‘ پاکستانی‘ بھارتی‘ بنگالی‘ ڈھلتی شام جیسے چہروں والے فجی کے لوگ جو نسلاً برصغیر کے ہیں، لیکن تماشا یہ ہے کہ کسی کو ’’اقلیت‘‘ نہیں کہا جاتا! کمیونٹی کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ بھی کمیونٹی کے اپنے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
اور اصل باشندے؟ ایبوریجنی (Aborgines) ، ان کے لیے ساری ہمدردیاں ہیں لیکن دنیا میں اصول ایک ہی جیتتا چلا آیا ہے۔۔۔ ٹیکنالوجی! اگر ان کے پاس ٹیکنالوجی ہوتی تو وہ بحری جہازوں سے اترنے والے برطانویوں کو مار بھگاتے ، مگر بندوقوں کا مقابلہ تیر اور نیزے کیسے کرتے۔ پھر آسٹریلیا کے گوروں نے بھی حد کردی ، ان کے بچے اٹھانا شروع کردیے۔ چوری شدہ نسلوں (Stolen Generations) کی کہانی طویل ہے اور دردناک بھی۔ ماضی قریب میں آسٹریلوی حکومت نے باضابطہ معذرت بھی کی ہے!
سڈنی اس وقت ابرآلود ہے ، ہوا ٹھنڈی ہے‘ فضا میں سبزے کی خوشبو ہے ، گرما ہے لیکن کیا ہی کیف افزا موسمِ گرما ہے! پسینہ ہے نہ ہوا میں نمی۔ سڈنی کے احباب کئی دنوں سے یاد کر رہے تھے۔ اس لکھنے والے کے تازہ ترین شعری مجموعے ’’کئی موسم گزر گئے مجھ پر‘‘ کے حوالے سے ایک شام کا اہتمام کرنا چاہتے تھے۔ اس تقریب کے روحِ رواں شاعر اور نثرنگار ارشد سعید تھے جو عنفوانِ شباب میں سڈنی آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے نائب صدر‘ بلا کے متحرک‘ منتظم اور دیارِ غیر میں اہل وطن کو جوڑ جوڑ کر اکٹھا رکھنے والے۔ پھر عباس گیلانی تھے، خوبصورت فارسی بولتے ہیں۔ فارسی زبان و ادب کی آموزش کرتے کرتے بحرالکاہل کے کنارے آ پہنچے اور یہیں آباد ہو گئے۔ اردو سوسائٹی کی صدارت ان کے توانا کندھوں پر ہے ، ذہنی پختگی اور بلا کی قوتِ برداشت جس سے بکھرے دانوں کو ایک مالا میں پرو دیتے ہیں۔ اشرف شاد شاعر ہیں۔ افسانہ نگار بھی اور ناول نویس بھی۔ امریکہ سے لے کر شرقِ اوسط اور برونائی تک ہر گھاٹ کا پانی پیا۔ بقول شاعر ؎
تمتمع ز ہر گوشہ ای یافتم
ز ہر حرمنی خوشہ ای یافتم
اور اب سڈنی میں قرار پکڑ گئے ہیں! ڈاکٹر کوثر جمال اردو کا ایک اور ستون ہیں۔ پی ایچ ڈی چین میں کی ، چینی زبان میں کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں ، زبانوں کی مستند ترجمان اور مترجم‘ شاعرہ‘ زندگی کے اسرار و رموز پر گفتگو کرتی ہیں تو سحر طاری کر دیتی ہیں۔ ڈاکٹر شبیر حیدر کا تعلق توطبی مسیحائی سے ہے لیکن ضمیر جعفری کے برادر زادہ ہیں؛ چنانچہ ادب و شعر سے کیسے کنارہ کش ہو سکتے ہیں۔ شاعری سنا رہے تھے تو ضمیر جعفری یاد آ رہے تھے۔ لہجے میں انہی کی کھنک اور نرمی تھی۔ ضمیر جعفری ان کے ہاں کئی کئی مہینے قیام کرتے تھے۔
ظفر اسلام پنجابی اور اردو کا خوبصورت کلام کہتا ہے۔ ادبی پروگراموں کے ساتھ ساتھ موسیقی اور دوسرے ثقافتی شعبے بھی سنبھالے ہوئے ہے۔
یہ ایک خوبصورت شام تھی۔ باہر ڈھلتے‘ لمبے ہوتے سائے اور اہلِ سڈنی کی دیدہ زیب چہل پہل تھی اور اندر ہال میں اردو کی بستی آباد تھی۔ کئی گھنٹوں پر مشتمل پروگرام کے دوران سامعین جم کر بیٹھے رہے‘ سنتے رہے اور داد دیتے رہے۔
اردو کے بھی کیا کیا اعجاز ہیں! سوچ رہا تھا کہ دنیا کے اس آخری کنارے‘ بحرالکاہل کے ساحلوں پر‘ جہاں سے آگے کم ہی آبادیاں ہیں‘ اردو کی بستی کتنی آباد ہے‘ ہری بھری ‘ شاداب اور پُررونق ہے۔ یہ سب تارکینٍِ وطن کا فیض ہے۔ آسٹریلیا کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی ’’کوالٹی‘‘ اعلیٰ درجے کی ہے! تقریباً تمام پاکستانی پرتھ سے لے کر ایڈی لیڈ تک اور میلبورن سے لے کر سڈنی اور برزبن تک سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پی ایچ ڈی‘ پروفیسر اور آئی ٹی کے ماہرین۔ ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی تو حیرت ہوئی‘ ایک قدم بھارت میں دوسرا امریکہ میں‘ پورے پورے ریجن کا انچارج ، پاکستان کے لیے سرمایۂ افتخار۔ یہ الگ بات کہ وطن واپس جائے تو سفارشیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا ہانپ جائے اور بیگ اٹھا کر پھر جہاز میں بیٹھ جائے!
اعلیٰ تعلیم کا فائدہ آسٹریلیا کے تارکین وطن کو یہ ہوا کہ وہ اس مضحکہ خیز صورت حال کے قریب تک نہ پھٹکے جو بریڈفورڈ‘ گلاسگو‘ مانچسٹر اور ہسپانیہ کے تارکینِ وطن کو چنگل میں جکڑے ہوئے ہے ، جہاں پورے پورے ٹیلی ویژن چینل جادو ٹونے کے ’’استیصال‘‘ پر مامور ہیں۔ دوپٹوں کی لمبائیاں ناپی جاتی ہیں۔ ساس اور بہو کو قابو کرنے کے ’’نسخے‘‘ بتائے جاتے ہیں۔ کیسا المیہ ہے کہ جزائر برطانیہ میں پاکستانی تارکین وطن کی تیسری چوتھی نسل بھی ٹھیلے لگا رہی ہے اور جادو ٹونے کے خوف میں مقید ہے۔ بھارتی اس سارے عرصہ میں صحافت‘ قانون اور دیگر شعبوں پر چھا گئے ہیں۔ پاکستانی بھی زینے پر چڑھ کر اوپر پہنچے ہیں لیکن خال خال۔
اور اب آخر میں ایک غزل… جو اس لکھنے والے نے تقریب میں دیگر غزلوں اور نظموں کے علاوہ سنائی:
نے عقل کی وادی سے نہ تقدیر سے پہنچا
اس اوج پہ میں اسم کی تاثیر سے پہنچا
تارِ رگِ جاں اور چھنک کاسۂ سر کی
بخشش کے لیے راہِ مزامیر سے پہنچا
ماں! کھول دے جنت کے دریچے کہ دمِ مرگ
فرزند عجب حسرتِ دلگیر سے پہنچا
پہرا تھا کڑا شہر کے دروازوں پہ جس وقت
پیغام عدو کو مرے اک تیر سے پہنچا
شہتوت کا رس تھا‘ نہ غزالوں کے پرے تھے
اس بار بھی میں جشن میں تاخیر سے پہنچا
ایک طاقتور کلاس
ایک زمانہ تھا اس ملک میں دو بڑے طبقے تھے‘ سیاسی اشرافیہ ایک طرف اور عوام دوسری طرف۔ سیاسی اشرافیہ میں جاگیردار بھی شامل تھے‘ سردار بھی‘ صنعت کار بھی اور موروثی سیاست دان بھی۔ یہ لوگ حکومت میں ہوتے تھے یا اپوزیشن میں لیکن جہاں بھی ہوتے تھے قانون سے بالاتر تھے۔ ان کی کرپشن کو کوئی پوچھ سکتا تھا نہ فوجداری جرائم کو‘ اسلحہ ان کے پاس بے شمار تھا‘ سرکاری اہلکار ان کے ذاتی ملازموں کی طرح تھے۔ ان کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ ان کی ڈگریاں جعلی تھیں اور سب کو معلوم تھا لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اسمبلیوں میں نشستیں موروثی چلی آ رہی تھیں۔ حلقے میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔
جسٹس افتخار چودھری نے عدالتی ایکٹوزم شروع کیا تو سیاسی اشرافیہ زیرِ دام آ گیا۔ وہ کچھ ہوا جس کا کبھی کسی نے تصور تک نہ کیا تھا۔ جعلی ڈگریوں والے سرعام رسوا ہوئے۔ اسمبلیوں سے انہیں نکال دیا گیا۔ کرپشن کے مقدمے چلنے شروع ہو گئے۔ ایک وزیر اعظم کو‘ جو اس سیاسی اشرافیہ کا بہت بڑا رکن تھا‘ عدالت نے وزارتِ عظمیٰ سے نکال کر باہر شاہراہ پر پھینک دیا۔ دوسرا وزیر اعظم بھی عدالت میں طلب کر لیا گیا۔ ٹیکس چوری کے معاملات بھی عوام کی نظروں میں آ گئے۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کو بھی عدالتوں میں حاضر ہونا پڑا۔ عدالت نے انہیں باقاعدہ مجرم قرار دیا‘ یوں سیاسی اشرافیہ کے سارے اجزا ایک ایک کر کے قانون کے آگے سرنگوں ہو گئے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاسی اشرافیہ اب بھی طاقت ور ہے لیکن یہ طاقت چند دن کی مہمان ہے۔ جو پراسیس شروع ہوا ہے‘ واپس نہیں پلٹ سکتا۔ اس طبقے کو اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے کہ اب وہ قانون کو پائوں کی جوتی نہیں قرار دے سکتا۔ سیاسی اشرافیہ جوہری طور پر رو بہ زوال ہے۔ جمشید دستی جیسے عام شہریوں نے ان سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔
آج جو طبقہ‘ جو کلاس‘ اس ملک میں سب سے زیادہ طاقت ور ہے‘ وہ مذہبی کلاس ہے۔ یہ سن کر ابتدا میں آپ کو حیرت ہو گی لیکن غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ آج کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس طبقے میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو مذہب کو ذریعہ روزگار بنائے ہوئے ہیں یا مذہب کو سیاست میں اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ مذہب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کلاس کسی ایک نہیں‘ کئی فرقوں پر مشتمل ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے سیاست اور اقتدار میں آگے نکل گئے ہیں اور کچھ ابھی آگے بڑھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس طبقے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس میں شامل افراد مخصوص وضع قطع رکھتے ہیں اور لباس کے حوالے سے بھی پہچانے جا سکتے ہیں۔ اس کی دوسری بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ قانون سے بالاتر ہے۔ اس کے ارکان جو چاہیں کریں‘ انہیں کوئی روک سکتا ہے نہ ٹوک سکتا ہے۔ مذہب ان کے پاس ایسا ہتھیار ہے جسے یہ اپنے دفاع میں کمال چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ اعلان کرتے ہیں کہ ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
دلچسپ لیکن حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقہ‘ مجموعی طور پر‘ شریعت کے احکام کی مطلق پروا نہیں کرتا اور اسلامی تعلیمات کی دل کھول کر خلاف ورزی کرتا ہے۔ آپ اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تو حیرت و استعجاب کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں ہزاروں لاکھوں مدارس عوام کے چندوں پر چل رہے ہیں۔ یہ چندہ عوام کی امانت ہے۔ عوام اس لیے دیتے ہیں کہ مدرسہ کے اخراجات اس سے پورے کیے جائیں گے لیکن اکثر و بیشتر مدارس میں ’’مالکان‘‘ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی اسی سے پورے ہوتے ہیں۔ امانت میں یہ کھلی خیانت ہے لیکن ان کا حساب کتاب جانچنے کی‘ چیک کرنے کی‘ کسی میں ہمت نہیں!
ہم سب جانتے ہیں کہ شریعت میں کسی جگہ پر ناجائز قبضہ کر کے مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ راتوں رات سرکاری زمین پر قبضہ کر کے اُسے مدرسہ میں شامل کرنے کی بات تو سب کو معلوم ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راتوں رات سرکاری زمینوں پر مسجدیں بنا دی جاتی ہیں۔ مسجد بن جانے کے بعد سرکاری ادارے بے بس ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گندے نالے کے اوپر بھی مسجد بنائی گئی جس کی بدبو‘ مسجد کے اندر نمازیوں تک آتی ہے۔ آقائے دو جہاںؐ اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ پیاز اور لہسن کھا کر بھی مسجد میں آنا ناپسند فرمایا ہے۔
اس طبقے میں عدل و انصاف کی پامالی عام ہے۔ یہ ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں صرف اس لیے کہ جرم کرنے والا ان کی کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک کالم نگار نے کچھ عرصہ پہلے لکھا… ’’چند سال پہلے جب میں نے مولانافضل الرحمان کے متعلق فوجی اور سرکاری زمینوں کے سلسلے میں مرحوم قاضی حسین احمد صاحب سے بات کی تو وہ مجھ سے خفا ہوئے کہ میں کسی اسلامی سیاسی جماعت کے رہنما کے خلاف کیوں خبر لکھ رہا ہوں‘‘۔
روزنامہ جنگ چھ جنوری 2014
حالانکہ عصبیت کی بنا پر مجرم کی طرف داری کرنا خلافِ
شریعت ہے!
شریعت میں کسی پر غلط الزام لگانا یا بہتان باندھنا منع ہے
لیکن یہ طاقتور طبقہ اپنے مفاد کے لیے افترا پردازی سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ایک مشہور و معروف دینی ماہنامہ کے رئیس التحریر‘ جو عالمِ دین ہیں‘ ستمبر 2011ء کے پرچے میں لکھتے ہیں:
’’راقم الحروف تحریک کے ایک اور راہ نما کے ساتھ اے سی… سے ملا کہ وہ (جلسے میں لائوڈ سپیکر کی) اجازت دے دیں۔ انہوں نے حالات کی خرابی کے عنوان سے ٹال مٹول کرنا چاہی۔ میرے ساتھ جانے والے دوست نے اچانک اُن سے کہہ دیا کہ آپ… تو نہیں ہیں؟ اے سی کچھ گھبرا سا گیا اور یہ کہہ کر منظوری کے دستخط کر دیے کہ مولوی صاحب! اتنا بڑا الزام مجھ پر نہ لگائیں اور جائیں جا کر جلسہ کریں۔ اے سی کے دفتر سے نکلے تو مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کہا‘ اس کے بغیر وہ اجازت نہ دیتا… بعد میں یہ بات آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئی کہ ہم بسا اوقات اپنا کام نکلوانے کے لیے
یا کوئی غصہ نکالنے کے لیے بھی کسی اچھے بھلے مسلمان کو…… کہنے سے گریز نہیں کرتے‘‘۔
اس کے بعد مدیر نے ایک فقرہ لکھا ہے‘ جو ہمارے اس کالم کے پورے تھیسس کو درست ثابت کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں…
’’اس کے بعد تحریکی زندگی میں بہت سے مراحل ایسے آئے کہ اچھے خاصے بزرگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرنا پڑا‘‘۔
اس طبقے کے افراد نے تعلیمی اداروں کے ہوسٹلوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں۔ بغیر قیمت ادا کیے کینٹینوں سے کھانا پینا عام ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے استاد کا بہت بڑا مقام ہے لیکن یہاں اساتذہ کی جسمانی ’’خدمت‘‘ روزمرہ کا معمول ہے۔
اس طبقہ کے رہنمائوں نے ٹی وی کو ناجائز قرار دیا۔ ہزاروں لاکھوں افراد نے گھروں میں ٹی وی رکھنے سے انکار کیا۔ خاندانوں میں جھگڑے ہوئے۔ بے شمار مثالیں ہیں کہ طلاق تک نوبت پہنچی۔ لیکن اگر شوبزنس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس طاقتور طبقے میں شامل ہو جائے اور شوبزنس کو چھوڑنے پر رضامند نہ ہو تو ٹی وی جائز ہو جاتا ہے۔ دین پڑھانے کا معاوضہ لینا چاہے تو اس کی بھی صورت نکل آتی ہے۔ سنا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ معاوضے کو معاوضہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ٹی وی چینل کی طرف سے ’’قرض‘‘ ہوتا ہے جو بعد میں ’’معاف‘‘ کر دیا جاتا ہے! (اگر ایسے افراد ٹی وی پر درس دینے کا معاوضہ نہیں لیتے تو انہیں اس بارے میں وضاحت کر کے عوام کے شبہات دور کرنے چاہئیں!)
اس طاقتور طبقے کو چیلنج کرنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہے۔ یہ قانون سے ماورا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ سر جھکا کر جینا سیکھیں اور گزارا کریں۔
یہ دو مریضوں کی کہانی ہے جو اپنے اپنے گھروں میں صاحبِ فراش ہیں۔ ایک ہی ڈاکٹر دونوں کا علاج کر رہا ہے۔ دونوں کو یکساں ہدایات دی گئی ہیں۔ صبح اور شا م ہلکی ورزش‘ ہر روز آدھ گھنٹہ سیر‘ کھانے میں چکنائی‘ چینی اور تلی ہوئی اشیا سے پرہیز‘ وقت پر سونا اور وقت پر جاگنا اور کچھ دیگر ہدایات۔
پہلے مریض (الف) کے گھر میں سخت جھگڑا بپا ہے۔ گھر کے کچھ افراد نے ان ہدایات کا چارٹ مریض کے کمرے کی دیوار پر لٹکا دیا ہے۔ اسی گھر کے دوسرے افراد ہدایات کا یہ چارٹ دیوار پر لگانے کے سخت مخالف ہیں۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ وہ مریض کے کمرے میں جمع ہو جاتے ہیں اور بحث کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بحث لڑائی کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ پہلا فریق مصر ہے کہ چارٹ دیوار پر لگانا مریض کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے پاس اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لیے کئی دلائل ہیں جو وہ شدومد سے دیتا ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ دیوار پر لگانا غلط حرکت ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک فریق کی توجہ بھی اس امر پر نہیں کہ مریض کا کیا حال ہے؟ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ مریض ورزش کر رہا ہے نہ سیر‘ وقت پر سوتا ہے نہ جاگتا ہے۔ ہر وہ شے کھا رہا ہے جس سے ڈاکٹر نے منع کیا تھا۔ حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ بغیر سہارے کے چلنا دوبھر ہو رہا ہے۔ غشی کے دورے اکثر پڑنے لگے ہیں۔ مگر گھر کے افراد مریض کی طرف دیکھتے تک نہیں۔ وہ مسلسل اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ ڈاکٹر کی ہدایات چارٹ کی شکل میں دیوار پر نصب کرنی چاہئیں یا نہیں!
دوسرے مریض (ب) کے گھر والے ساری توجہ مریض پر دے رہے ہیں۔ کمرے کی دیوار پر کوئی چارٹ نہیں لگایا گیا نہ ہی اس کے بارے میں جھگڑا ہوا ہے۔ گھر کے سارے افراد نے مریض کی نگہداشت سنبھالی ہوئی ہے۔ کوئی صبح ورزش کرواتا ہے کوئی شام کو اور کسی کی ڈیوٹی سیر پر لے جانے کی ہے۔ کھانا مکمل پرہیزی ہے۔ مریض اب روبصحت ہے اور صورت حال نارمل ہوتی جا رہی ہے۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پہلا مریض (الف) پاکستان ہے۔ یہاں یہ جھگڑا زوروں پر ہے کہ آئین شریعت کے مطابق ہے یا نہیں۔ ایک فریق آئین کو درست سمجھ رہا ہے‘ دوسرا غلط‘ آئین کا ایک حصہ قراردادِ مقاصد ہے۔ اس پر بھی جھگڑا ہے۔ قراردادِ مقاصد 1949ء میں منظور کی گئی۔ بعد میں اسے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ وہ چارٹ ہے جو مریض کے کمرے میں دیوار پر لٹکایا گیا۔ کچھ لوگ اس کے حق میں تھے کچھ آج بھی مخالف ہیں۔ مریض یعنی پاکستانی عوام کس حال میں ہیں۔ آیئے‘ دیکھتے ہیں۔
قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے کہ مملکت حکمرانی کے اختیارات عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد کے باوجود ملک کی تاریخ کا بیشتر حصہ فوجی آمریت کے سائے میں گزرا۔ ایوب خان ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے طویل عرصہ اور یحییٰ خان نے بھی کچھ عرصہ‘ اس شق کی دھجیاں اڑائیں۔
قراردادِ مقاصد کی رو سے جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ رواداری‘ برداشت اور سماجی عدل کے اصولوں کو‘ اسلام کی تشریح کے مطابق‘ ملحوظ رکھا جانا تھا۔ عمل کے لحاظ سے اس شق کا تصور بھی پاکستان میں ناممکن ہے۔ مساوات اور سماجی عدل؟ یہ محض دیوانے کا خواب ہے۔ حکمران شاہراہوں سے گزرتے ہیں تو راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ حاملہ عورتیں سڑکوں پر بچے جنم دیتی ہیں۔ مریض ایمبولینسوں میں مر جاتے ہیں۔ طلبہ کمرۂ امتحان تک اور مسافر ہوائی اڈوں پر نہیں پہنچ پاتے۔ آصف زرداری کے محل کی وجہ سے شاہراہوں پر دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ پنجاب کے شاہی خاندان کی حفاظت پر ہزاروں سرکاری اہلکار مامور ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی میں اس بات پر پولیس کو ذلیل کیا گیا کہ ایک رکن کے ذاتی محافظ‘ جو بڑی تعداد میں تھے‘ اسمبلی کے احاطے میں داخل نہ ہونے دیے گئے۔ سرکاری ملازموں کی تعیناتیاں‘ کیا ملک کے اندر اور کیا بیرونِ ملک‘ تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر طے ہوتی ہیں۔ جن بڑے لوگوں پر کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں‘ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔ جن جرنیلوں نے ڈنکے کی چوٹ اعتراف کیا کہ انہوں نے سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں‘ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود آزاد پھر رہے ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ ان پر مقدمے چلائے۔ ’’عدل‘‘ کا یہ عالم ہے کہ پورا ملک ڈاکوئوں‘ اغوا کاروں اور بھتہ گیروں کی دسترس میں ہے۔ حکمرانوں نے عملی طور پر‘ عوام کی حفاظت سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔
قراردادِ مقاصد کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جانا تھا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو ’’اسلامی تعلیمات‘‘ کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ عہد شکنی اور خیانت میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ لوگ عام زندگی میں وعدہ پورا کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتے۔ آپ سے ایک شخص وعدہ (یا معاہدہ) کرتا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے پاس آئے گا یا فلاں چیز پہنچا دے گا۔ نوے فی صد لوگ اس کی پاسداری نہیں کریں گے۔ کوچہ و بازار میں بسوں اور ٹرینوں میں ہر شخص عورتوں کو گھور رہا ہوتا ہے۔ تاجروں کی اکثریت بظاہر متشرع ہے لیکن ملاوٹ‘ ٹیکس چوری اور جعلی ادویات عام ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ شے بیچتے وقت نقص بتانے کا کوئی تصور نہیں۔ خریدا ہوا مال واپس ہوتا ہے نہ تبدیل جو سراسر غنڈہ گردی ہے۔ پچانوے فی صد تاجروں نے دکانوں اور کارخانوں کے سا تھ زمینوں پر تجاوزات کی شکل میں ڈاکہ مارا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کی آمدنیاں حرام پر مشتمل ہیں لیکن اس ڈاکہ زنی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔
قراردادِ مقاصد کی رو سے اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اپنے کلچر و ثقافت کی ترویج کی آزادی ہونی تھی۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ غیر مسلم یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ پارسیوں اور عیسائیوں کی بڑی تعداد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں پاکستان چھوڑ گئی۔ ان کی عبادت گاہوں پر حملے عام ہیں اور برملا کہا جاتا ہے کہ یہ حملے شریعت کے مطابق ہیں۔ سندھ میں ہندوئوں اور خیبرپختونخوا میں سکھوں کے اغوا اور قتل کی خبریں آئے دن قومی پریس میں شائع ہوتی ہیں۔ حال ہی میں کچھ غیر مسلم خاندانوں نے بیرونِ ملک سے واپس آنے سے انکار کردیا ہے۔
قراردادِ مقاصد میں عوام کے بنیادی حقوق کی گارنٹی کا اور آزاد عدلیہ کا بھی ذکر ہے ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
دوسری طرف جن مغربی ملکوں میں کروڑوں مسلمان ہجرت کر کے جا بسے ہیں‘ مسلسل جا رہے ہیں اور جانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں‘ وہاں کسی آئین پر جھگڑا ہے نہ کسی قراردادِ مقاصد پر۔ لیکن سماجی عدل صاف نظر آتا ہے۔ خاکروب اور اسمبلی کا رکن ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ وزرائے اعظم ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں یا سائیکلوں پر سوار ہو کر دفتروں میں آتے ہیں۔ ملاوٹ‘ جعلی ادویات‘ ٹیکس چوری اور نقص والی اشیا بغیر بتائے فروخت کرنے کا تصور تک ناپید ہے۔ ہزاروں مولوی صاحبان ان ملکوں میں جا کر آباد ہونے کے لیے تیار ہیں اور لاکھوں ان ملکوں کی مساجد میں آزادی سے مذہبی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں گھر ان ملکوں میں چار دیواری اور گیٹ کے بغیر ہیں اور محفوظ ہیں۔
یہ سب وہاں کیوں ہے اور ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ دیوانِ حافظ سے فال نکالی تو جواب دلچسپ ملا ؎
مباحثی کہ در آن مجلسِ جنوں می رفت
ورائی مدرسہ و قال و قیلِ مسئلہ بود
یہ بات مدرسہ اور اہلِ مدرسہ کی سمجھ سے باہر ہے!
پاکستانی خاتون صحافی نے اروند کِجری وال کی بھد اُڑائی۔ قصور خاتون صحافی کا نہیں! اس تزک و احتشام کا ہے جو پاکستان کے حکمرانوں کا خاصہ ہے۔ جسے خاتون دیکھتی آئی ہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایک سوٹ دوسری بار نہیں پہنتے تھے۔ اس میں مبالغہ بھی ہو تو حقیقت بہرطور یہ ہے کہ ٹرکوں کے ٹرک اور کارٹنوں کے کارٹن ملبوسات سے بھرے باہر سے آتے تھے اور ان کے ڈیفنس لاہور والے محل میں اتارے جاتے تھے۔ خلیج کے اخبار نے پوری کہانی چھاپی تھی۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ غریب کسان کو خوبصورت کٹورا ملا تو پانی پی پی کر جان دے دی۔ گیلانی صاحب پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ گھر کا نان و نفقہ چلانے کے لیے ہاتھ کی گھڑی فروخت کردی تھی!
مشرف صاحب کے بارے میں بھی یہی کچھ پریس میں آیا۔ کبھی تردید نہ ہوئی۔ چین گئے تو گرم ’’انڈر گارمنٹس‘‘ خریدنے کے لیے کسی ہم سفر سے ادھار لیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کنالی کے سوٹ پہننے لگے جو شروع ہی ڈیڑھ لاکھ روپے سے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید سے لے کر مشاہد حسین تک… جو بھی وزارت کا قلم دان سنبھالتا ہے‘ خوش لباس ہو جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا دوسرا گھر دبئی میں ہوتا تھا۔ اب پہلا گھر دبئی‘ جدہ یا لندن ہوتا ہے۔ یہ لطیفہ نہیں واقعہ ہے کہ ایک پاکستانی افسر ٹریننگ کے لیے امریکہ گیا۔ روز سوٹ بدل بدل کر کلاس میں جاتا تھا۔ بالآخر ادارے میں کسی ذمہ دار فرد نے سمجھایا کہ میاں یہاں تم کسی کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے میٹنگ اٹینڈ کرنے نہیں آتے۔ باقی ہم درس جس طرح ربڑ کے جوتے اور جین کی پتلون پہنتے ہیں‘ ایسا ہی کرو۔
اور تو اور تعلیمی اداروں میں بھی سوٹ کی قیمت اور کار کی لمبائی لائق یا نالائق بناتی ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ فنانشل ٹائمز لندن نے متحدہ پاکستان کے زمانے میں پاکستان نمبر نکالا تو تقریباً سارے مضامین مشرقی پاکستان کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کے لکھے ہوئے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی نے مشرقی پاکستان کا مقدمہ لڑا اور چھ نکات لے کر اُٹھی۔ مغربی پاکستان کی یونیورسٹیاں کہاں تھیں؟ قدیم ترین یونیورسٹی میں طلبہ زیادہ وقت نہر کے کنارے گزارتے تھے۔ امارت جتاتے تھے یا معاشقہ لڑاتے تھے۔ اب تو خیر‘ یوں بھی جس گروہ کے پنجے میں ہے‘ وہ گروہ اسے جنوبی ایشیا کا بے کار ترین تعلیمی ادارہ بنا چکا ہے!
پاکستانی خواتین کسی اجلاس میں شریک ہونے کے لیے ایک بار دہلی گئیں تو ایک عینی شاہد بلکہ شاہدہ‘ بتا رہی تھیں کہ وہ دن میں تین بار ملبوسات بدلتی تھیں اور بھارتی مندوبین دیکھ دیکھ حیران ہوتی تھیں!
اس پس منظر میں اروند کِجری وال کا ٹھٹھا اڑانا ہرگز باعثِ تعجب نہیں ع
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست!
فرماتی ہیں ’’یقین نہیں آتا کہ بیرونی دنیا کے بارے میں اس کی معلومات اس قدر کم ہیں! اس کی قسمت اچھی تھی کہ کسی نے نیٹو افواج کے انخلا کے متعلق کچھ نہ پوچھا‘‘۔
اس کے بعد فخر سے کہتی ہیں کہ اُن کے سارے عہدِ صحافت کے دوران ہر پاکستانی سیاست دان نہ صرف یہ کہ اڑوس پڑوس سے واقف تھا بلکہ جو کچھ دنیا بھر میں ہو رہا تھا‘ اس کے متعلق بھی جانتا تھا! اس پر بہترین تبصرہ اخبار کے ایک قاری نے موصوفہ کا مضمون پڑھ کر کیا۔ دیکھیے اور سر دھنیے۔ گھڑوں پانی پڑتا ہے۔
’’بالکل درست! پاکستانی سیاست دان سمارٹ ہیں۔ خوش لباس ہیں۔ حاضر جواب ہیں۔ گفتگو کے ماہر ہیں اور بھارتیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ صاحبِ علم اور کئی اور لحاظ سے بہتر ہیں۔ بس ذرا یہ دیکھ لیجیے کہ وہ وہ پاکستان کو کس مقام پر لے آئے ہیں‘‘!
راجہ پرویز اشرف‘ یوسف رضا گیلانی‘ مصطفی جتوئی مرحوم‘ بلخ شیر مزاری‘ بین الاقوامی سیاست پر کس نوعیت کی گفتگو کر سکتے تھے‘ ہم سب جانتے ہیں۔ یہ فہرست خاصی طویل ہے لیکن اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھانے سے کیا حاصل!
حاشا وکلاّ‘ اس تحریر سے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ بھارتی سیاست دان مثالی ہیں۔ تعمیم یہاں والوں کے بارے میں ہو سکتی ہے نہ وہاں کے حوالے سے۔ لیکن یہ ہمارا قومی شعار بن گیا ہے کہ ہم صرف ظاہر دیکھتے ہیں‘ عکس پر مرتے ہیں۔ اصل چھوڑ دیتے ہیں ؎
غنیم نے مجھے ظاہر کی آنکھ سے دیکھا
نظر نہ آئے اُسے اسپ اور سپاہ مری
یہ عکس ہے جو نظر آ رہا ہے اصل نہیں
کہ شب سفید ہے اور روشنی سیاہ مری
یہی رویہ مذہب کے حوالے سے بھی ہم میں سرایت کر چکا ہے۔ اچھا مسلمان ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ دروغ گوئی‘ وعدہ خلافی اور اکلِ حرام سے اجتناب کیا جائے۔ صلہ رحمی کی جائے اور صبح سے شام تک کوئی کام ایسا نہ کیا جائے جس پر پکڑ ہو۔ اچھا مسلمان ہونے کا یہ مطلب ہے کہ خاص قسم کا لباس ہو‘ مخصوص وضع قطع ہو‘ اور دور سے معلوم ہو جائے کہ حضرت تشریف لا رہے ہیں‘ یہی اندازِ فکر زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ لباس کیسا تھا؟ گاڑی کا سائز کیا تھا؟ انگریزی بولنے کا لہجہ کیسا تھا؟ کھانے میں کتنی ڈشیں تھیں؟ کوٹھی کتنی بڑی تھی؟ ملازم کتنے تھے؟ چھٹیاں کہاں گزاری جاتی ہیں؟ کلب کی ممبر شپ ہے یا نہیں؟ حکمرانوں میں سے کس کس نے ولیمے میں شرکت کی؟ سعدی کا واقعہ ہمارے ہی سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہے۔ عمائدین میں سے کسی نے دعوت پر بلایا۔ عام لباس میں چلے گئے اور وہ بھی پیدل۔ محل کے دروازے پر دربان نے روک لیا۔ واپس گھر گئے۔ لباسِ فاخرہ زیبِ تن کیا۔ سواری پر براجمان ہو کر گئے۔ استقبال کیا گیا۔ کھانا شروع ہوا تو
قمیض کی آستین شوربے میں ڈبوتے تھے۔ حاضرین نے تعجب کیا تو فرمایا‘ اسی کی دعوت ہے۔ میری تو پزیرائی ہی نہیں ہوئی تھی۔
اللہ کے بندو! یہ نہ دیکھو کہ کِجری وال مفلر کس طرح لپیٹتا ہے اور انگریزی بولتا ہے یا نہیں! اس پر رشک کرو کہ اس نے چند ہفتوں ہی میں بہت سے وعدے پورے کر دکھائے۔ ایک خاص حد کے اندر اندر بجلی خرچ کرنے والوں کو پچاس فی صد سبسڈی دے دی گئی ہے۔ پانی کے ٹینکر مافیا کو قانون کے پنجے میں جکڑ دیا گیا ہے۔ بجلی کے جو میٹر تیز چل رہے تھے‘ ان کی جانچ پڑتال غیر جانبدار پارٹی سے کرائی جا رہی ہے۔ ہر گھر کو چھ سو لیٹر کے لگ بھگ پانی مفت سپلائی کیا جانے لگا ہے۔ ہماری پوری تاریخ اس رفتار اور اس قبیل کی ظفریابی سے محروم ہے۔
اروند کِجری وال کو اُس کے پس منظر نے بے پناہ فائدہ پہنچایا ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی امیر کبیر گھرانے سے نہیں ہے۔ محلے کی پیداوار ہے۔ دوسرا یہ کہ مقابلے کا امتحان دے کر سول سروس میں آیا اور انکم ٹیکس کے محکمے میں کئی سال کام کر کے دکانداروں‘ تاجروں‘ سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کے حالات کا بخوبی مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔
محل رائے ونڈ کا ہو‘ لاڑکانے کا یا بنی گالہ کا‘ محل ہی ہوتا ہے۔ محلات کے رہنے والوں کو گلی کوچوں میں زندگی گزارنے والوں کا کیا علم! گونگے کی باتیں گونگے کی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ حافظ شیرازی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا ؎
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین ھائل
کجا دانند حالِ ما سبک سارانِ ساحل ہا
2012ء کے آخر میں ‘جب برف پڑنا نہیں شروع ہوئی تھی‘ ایک بار پھر سکردو گیا۔
عنفوانِ شباب تھا جب سول سروس میں آنے کے بعد شمالی علاقہ جات سے رومانس کا آغاز ہوا۔ کئی بار جانا پڑا۔وہ بھی بائی روڈ۔ تھاکوٹ سے ہٹن‘ ہٹن سے جگلوٹ‘کریم آباد‘سُست اور خنجراب ۔چاندنی رات میں کئی بار خپلو کا نظارہ نصیب ہوتاجب پہاڑوں پر جمی برف‘ اور دریا میں چلتے پانی دونوں‘ روپہلی شعائوں سے گلے ملتے ہیں اور وقت تھم جاتا ہے۔ پھر ایک بار جب آدھی رات اِس طرف تھی اور آدھی اُس طرف ‘شاہراہ قراقرم کا جانے کون سا حصّہ تھا‘ اندھیری رات تھی‘ ایک طرف سربفلک پہاڑ تھے‘دوسری طرف سینکڑوں فٹ گہرا دریا‘ میں تھا اور ڈرائیور‘ آگے سلائیڈ تھی یعنی پہاڑ کا ایک حصّہ کٹ کر گرنے سے شاہراہ بند تھی‘ اچانک خیال آیا کہ کیا پاگل پن ہے‘ہر کچھ ماہ کے بعد اِس امتحان گاہ سے گزرنا‘ پھر دوسرے عوامل بھی ایسے تبدیل ہوئے کہ شمالی علاقوں میں جانا موقوف ہو گیا۔
2012ء کے اواخر میں صاحبزادے جا رہے تھے‘ضِدکی کہ ابّو امّی ساتھ جائیں بہت سمجھایاکہ ہوائی جہاز سے جانے کا مطلب یہ ہے کہ واپسی بالکل غیر یقینی ہو‘لیکن جوانی‘فوٹو گرافی کی دُھن اور سیاحت کا شوق سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ پھر وہی ہوا۔واپسی کا مقررہ دن گزر گیا اور جہاز کا پتہ تھا نہ نشستوں کی بکنگ یقینی تھی۔سکردو کا پی آئی اے کا دفتر‘ بدانتظامی کا بدترین نمونہ ہے۔ یا د ہے کہ تب تفصیلی کالم بھی بلتستان کے عوام کی حالتِ زار پر لکھّے جو ظاہر ہے نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ نہ کر سکے‘ ایئر پورٹ جاتے‘بے نیلِ مرام واپس آتے‘ پریشانی اور ٹینشن۔ لیکن بچّے خوش کہ چلیں اس جنت میں ایک دن اور مل گیا۔ آخر کار یارِ دیرینہ ایئر مارشل فرحت نے جو اُن دنوں فضائیہ کے وائس چیف تھے‘ ’’جنگی‘‘ بنیادوں پر ’’انخلا‘‘ کروایا۔
یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب رشید سے ملاقات ہوئی۔ اُس کے گائوں کا نام گوما تھا‘ دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ بستی کارگل کے راستے میں ہے اور یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ پہاڑوں پر بستی ہے یا بادلوں پر۔ رشید پاکستان کی بری فوج کا سپاہی ہے۔ اُن دنوں اس کی تعیناتی سیاچن کے اردگرد تھی جہاں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بستر پر لیٹنا مشکل تھا اور سانس لینے کے لیے اُٹھ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ہوائیں چلتی تھیں تو خیمے کیا‘ کمروں کی چھتیں تک اُڑ جاتی تھیں۔رگوں کا خون کیا‘ہڈیوں کے اندر گودا بھی منجمد ہو جاتا تھا۔’’فراسٹ بائٹ‘‘یعنی برف کی بیماری جسم کے کسی بھی حصّے کو متاثر کر سکتی تھی۔
مادرِ وطن کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر جینے والے رشید کا تعلق نوربخشی فرقے سے تھا۔یہ ایک چھوٹا سا فرقہ ہے جس کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم اور ایک محدود علاقے میں ہے۔یہ رشید تھا جس نے اس لکھنے والے کو پاکستان اور پاکستانیت کامفہوم سمجھایا!اُس نے کوئی لیکچر نہیں دیا۔ اُس نے تو اس قبیل کے کسی موضوع پر گفتگو تک نہیں کی۔پاکستانیت کا مفہوم تو اُس وقت معلوم ہوا جب وہ اپنی سرفروشی اور جاں نثاری کی داستان رہا تھا ۔ میرا تو نور بخشی فرقے سے کوئی تعلق نہیںنہ ان کے عقائد سے اتفاق ہے لیکن رشید‘ میرا عقیدہ معلوم کیے بغیر‘ میرے اور میرے خاندان کی‘ میرے گائوں کی‘میرے شہر کی‘میرے اقربا اور احبا کی زندگیاں محفوظ کرنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے پھرتا ہے۔گرمی کی سلگتی راتیں مورچوں میں گزارتا ہے۔ خون جما دینے والے برفانی طوفانوں کا سامنا ہزاروں فٹ اونچی چوٹیوں پر کرتا ہے۔ سینے پر گولیاں کھاتا ہے۔ اپنے بیوی بچوں کو اُس نے خد ا کے سپرد کیا ہوا ہے۔
پاکستانیت کا جوہر کیا ہے ؟پاکستان کی اصل کیا ہے؟یہ جوہر‘یہ اصل‘ یہ ہے کہ پاکستان کسی ایک فرقے کے لیے بنا نہ اس پر کوئی ایک فرقہ اپنی مرضی مسلّط کر سکتا ہے! ستاروں اور درختوں کے پتوں کی صحیح تعداد جاننے والے پروردگار کی قسم!یہ ملک سارے فرقوں ‘سارے مذہبوں‘سارے عقیدوں‘ ساری زبانوں‘ ساری نسلوں اور سارے علاقوں کا مشترکہ وطن ہے۔ اگر کوئی ایک فرقہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان پر اُس کی مرضی مسلّط ہو۔اُس کا پسندیدہ کلچر لوگوں کی گردنوں سے باندھا جائے اور جسے وہ شریعت سمجھتا ہے‘ اُس کی پیروی کی جائے تو وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہے۔وہ پاکستان کی جڑ کو کاٹنا چاہتا ہے اور جو اس کا ساتھ دیتے ہیں وہ بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔
آج جو گروہ ملک پر اپنی پسند مسلّط کرنا چاہتا ہے‘ وہ خود ایک
اقلیتی گروہ ہے۔ اُس کے نزدیک ہر وہ گروہ‘ ہر وہ طبقہ‘ ہر وہ فرقہ‘جو اس سے اختلاف کرتا ہے‘ کافر ہے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ فرقہ خود دو گروہوں میں منقسم ہے۔ایک مسئلے پر اس گروہ میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ یُو ٹیوب پر دونوں طرف کے علماء کے بیانات سنیں تو انسان حیرت سے گنگ رہ جاتا ہے۔ کفر‘ لعنت‘ نکاح فسخ ہو جانا۔ یہ سب کچھ اس فیاضی سے ایک دوسرے کو عطا کیا جاتا ہے کہ سننے والا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اگر ہر فرقے کو کافر مان لیا جائے تو آخر میں کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ دو سانپ ایک میدان میں ایک دوسرے کو کھا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے کو کھا لیا اور دوسرا پہلے کو ہڑپ کر گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ میدان صاف تھا!
اگر کوئی چاہتا ہے کہ دوسرا اُس کے خیالات سے اتفاق کرے تو اس کا طریقِ کار آسمان سے اتری ہوئی کتاب میں بتا دیا گیا ہے۔ اپنے رب کے راستے کی دعوت حکمت اور لطیف تلقین سے دو اور بحث احسن طریقے سے کرو۔کہیں فرمایا دین میں کوئی جبر نہیں۔لیکن مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں نادر شاہی تلوار لے کر قتلِ عام شروع کر دوں اُن لوگوں کا جو مذہبی معاملات میں مجھ سے اختلاف کرتے ہیں۔
ان سطور کا لکھنے والا اپنے عقائد میں پتھر کی طرح سخت ہے۔ پامسٹ یا ستارہ شناس سے مستقبل کا حال پوچھنا تک روا نہیں جانتا۔ ماننا تو بعد کی بات ہے۔اس کا ایمان ہے کہ نفع اور نقصان صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔فاروق اعظمؓ نے فرمایا تھا جوتے کا تسمہ بھی پیدا کرنے والے سے مانگو۔عقیدے پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن اس ملک میں بیس کروڑ انسان رہتے ہیں جو خدا کی مخلوق ہیں۔ ان میں لاکھوں نہیں‘کروڑوں انسان ایسے ہیں جو مجھ سے اختلاف کرتے ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں۔تو کیا وہ سب گردن زدنی ہیں؟جس شخص نے اپنی صحت کو گروی رکھ کر یہ ملک بنایا‘ اُس نے اِس ملک کی پہلی کابینہ میں غیر مسلموں کو وزارتیں دے کر وہی مرتبہ دیا تھا جو مسلمان وزیروں کا تھا۔
آمنہ کے لال ؐ چاہتے تو ہجرت کرنے کے بجائے اپنے جاں نثاروں کو مکہ میں گوریلا جنگ کا حکم فرما دیتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو مشرکین مکہ کی زندگی اجیرن ہو جاتی اور وہ ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے لیکن کیا جبر سے عقیدہ تبدیل کرنا درست ہوتا؟ میثاق مدینہ کی رو سے یہودیوں کے وہی حقوق تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ اگر وہ بدعہدی نہ کرتے تو وہیں رہتے اور نکالے نہ جاتے۔ بدر‘ احد اور خندق دفاعی جنگیں تھیں ۔ ایک بار بھی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ مخالف شہر پر چڑھائی نہیں کی!جس صحابیؓ نے ایک کلمہ گو کو اس خیال سے قتل کیا کہ اس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا‘ فرمایا کیا تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟کیا اصول وضع فرمایا اپنے نام لیوائوں کے لیے ! ایک ایسی ہستی نے جو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہو‘ایسا ہی اصول وضع فرمانا تھا! آج حالی کا یہ مصرع خاص و عام کو معلوم ہے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔ لیکن غور کیا جائے تو اسی لقب میں امت کے لیے پورا اسلوب ِ زندگی پنہاں ہے!
یہ ملک سب کا ہے۔ جس دن وجود میں آیا تھا‘سب کا تھا۔ آج بھی سب کا ہے۔ کل بھی سب کا ہو گا۔
صرف خربوزے ہیں جن کی از حد تعریف کی جا سکتی ہے! ورنہ دنیا کے اس جنوب مشرقی سرے پر، بحرالکاہل کی پہنائیوں کے اس کنارے، میوہ جات کی کمی تو نہیں!
ابنِ خلقان لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم کی کمان میں مہم بھیجنے سے پہلے، حجاج بن یوسف نے کہ ہر کام کو درجۂ کمال پر سر انجام دینے کا عادی تھا، ایک ہراول پارٹی بھیجی تاکہ سندھ کے حالات کا جائزہ لے اور اسے مطلع کرے۔ پارٹی کے ارکان نے زمین، زراعت، آب و ہوا اور باشندوں کی خصوصیات کے بارے میں رپورٹ بھیجی۔ ایک فقرہ یہ تھا کہ کھجور یہاں کی اچھی نہیں! عرب دو چیزوں کے بارے میں ازحد حساس ہیں۔ قرآن پاک(جسے وہ اکثر ’’مصحف‘‘ کہتے ہیں)درست تلفظ میں پڑھا جا رہا ہے یا نہیں، اور کھجوروں کی کوالٹی کیسی ہے؟ اقبال نے ضربِ کلیم میں بہائی مذہب کے سب سے بڑے ستون محمد علی باب پر اسی حوالے سے چوٹ کی ہے ؎
تھی خوب حضورِ علما باب کی تقریر
بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعرابِ سمٰوٰت
اس کی غلطی پر علما تھے متبسّم
بولا تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات!
اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد
محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات
سنا ہے غلام احمد پرویز بھی، ساری قوتِ تحریر کے باوجود قرآن صحیح نہیں پڑھ پاتے تھے۔ پرویز کا ذکر ہوا تو ایک اور دلچسپ واقعہ حافظہ کے بادل سے باہر نکل رہا ہے۔ کسی نے عطاء اللہ شاہ بخاری سے کہا کہ شاہ جی غلام احمد پرویز کیسے غلط ہو سکتے ہیں، درس دیتے ہوئے رو رہے تھے۔ شاہ صاحب سے یہ واقعہ بیان کرنے والے حافظِ قرآن تھے۔ شاہ صاحب نے ایک ثانیے کا تامل بھی نہ کیا اور فرمایا: واہ، اوئے حافظا! تم رونے سے متاثر ہو گئے پھر انہوں نے قرآن کی آیت پڑھی’’ شام کو وہ (یوسفؑ کے بھائی) روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے کہ… بھیڑیا آکر کھا گیا‘‘
بات کھجور کی کوالٹی سے چلی تھی۔ عرب بہت کچھ معاف کر سکتے ہیں لیکن کھجورکی کوالٹی پر سمجھوتہ نہیںکرتے۔ ان سطور کا لکھنے والا اس علاقے میں پلا بڑھا ہے جہاں اس زمانے میں دو ہی عیاشیاں تھیں۔ بکرے کا گوشت، اعلیٰ درجے کا پکا ہوا اور میٹھے خوشبو دار خربوزے، ایسے کہ ایک خربوزہ پوری حویلی کو مہکار سے بھر دیتا تھا۔ اب تو وہاں بہت کچھ آگیا ہے۔ وہ ساری پٹی مونگ پھلی کا پیداواری گڑھ بن چکی ہے۔ مالٹا نہری علاقے کے مالٹے کو مات کرتا ہے اور زرعی سائنس دانوںکی حالیہ تحقیق کی رو سے فتح جنگ اور تلہ گنگ کا پورا علاقہ بادام کی کاشت کے لیے بہترین ثابت ہوا ہے۔ اگر کسی کو نہیں معلوم تو مان لے کہ فروری بادام کا پودا لگانے کا سب سے اچھا وقت ہے۔
اس سے پہلے کہ توسنِ قلم پھر گمراہ کردے، خربوزے کا قضیّہ نمٹاتے چلیں۔ خربوزوں کی کوالٹی پر یہ گنوار بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ یہاں، دنیا کے اس سب سے بڑے جزیر ے میں جو خربوزہ غایت درجہ شیریں ہے، راک میلن کہلاتا ہے۔ تعجب ہے کہ امریکہ میں ہنی ڈیو (Honeydew) پہلے نمبر کا خربوزہ ہے لیکن یہاں راک میلن اس سے کئی فرسنگ آگے ہے۔
خربوزوں کا قصہ اتنا مختصر بھی نہیں۔ فارسی شاعری کے کئی دو اوین ایک طرف اور کلیاتِ شمس تبریز سے رومی کا ایک شعر ان پر بھاری ؎
بادۂ خاص خوردہ ای، نقلِ خلاص خوردہ ای
بوئی شراب می دہد، خربزہ در دہان مکن
’’تو نے کوئی بہت ہی اعلیٰ درجہ کی شراب پی ہے ، منہ کی خوشبو سے صاف پتہ چل رہا ہے، خربوزہ کھانے سے اب کچھ حاصل نہ ہو گا‘‘
خربوزوں کی وہ مہک اب داستانِ پارینہ ہو چکی ہے جو شراب کی بُو بھی منہ سے زائل کر دیتی تھی۔ پاک و ہند میں پیدا ہونے والے خربوزے سے، افغانستان کا خربوزہ دس گنا زیادہ شیریں ہے اور وسط ایشیا کا خربوزہ، افغانستان کے خربوزے سے دس گنا مزید شیریں تر ہے۔ آگرہ میں بابر کابل کا خربوزہ کاٹتا جاتا اور آنسو بہاتا جاتا۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اب جب طیارے، آن کی آن میں سب کچھ کہیں سے کہیں لا سکتے ہیں، وسط ایشیا اور پاکستان کے درمیان تجارت… اگر تجارت نامی کوئی چڑیا ہے تو پھلوں سے مکمل عاری ہے لیکن اس وقت، جب اونٹ اور گھوڑے نقل و حمل کا واحد ذریعہ تھے، دلّی کے بازار وسط ایشیا کے پھلوں سے چھلک چھلک پڑتے تھے، شاہ جہان اور پھر اورنگ زیب کا ہم رکاب، فرانس کا ڈاکٹر برنیئر اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ دہلی کے بازار ایران، بلخ، بخارا اور سمر قند کے پھلوں سے بھرے رہتے تھے۔ بادام، پستہ، اخروٹ، کشمش اور خوبانی کا بطور خاص ذکر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اعلیٰ نسل کا انگور، سفید بھی اور سیاہ بھی، انہی ملکوں سے سوتی کپڑے میں لپٹا ہوا آتا تھا۔ کئی اقسام کی ناشپاتیاں اور سیب منگوائے جاتے تھے، لیکن خربوزوں کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ کابل اور وسط ایشیا کے خربوزے مہنگے تھے۔ یعنی ڈیڑھ کرائون میں ایک خربوزہ۔ کرائون سے مراد یہاں شاید اشرفی ہے اور خربوزہ بڑے سائز کا ہوتا تھا جسے ہم سردا یا گرما کہتے ہیں۔ مقامی خربوزوں کو وہ کم تر لکھتا ہے۔ آموں کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں دو ماہ آم وافر تھا اور بہترین قسم وہ تھی جو گوا، گولکنڈہ اور بنگال سے آتی تھی۔ ’’ میں نے کوئی شیرینی لذیذ تر نہیں دیکھی‘‘۔ اس کا بیان ہے!
ڈھاکہ کے آم تو اس فقیر نے بھی بہت کھائے ہیں۔ ایک روپے میں چھ آتے تھے اور ذائقے میں آسمانی پھل لگتے تھے۔ اپنے رب کی کون کون سی نعمتیں جھٹلائو گے!
حیرت تو مکہ اور مدینہ کی بے آب و گیاہ گھاٹیوں میں دنیا بھر کے میوہ جات کی فراوانی دیکھ کر ہوتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا(بوادٍ غیرِ ذی زرعٍ)جس طرح قبول ہوتی نظر آتی ہے، انسان گنگ رہ جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ سے لے کر کیلی فورنیا تک۔ ہر ولایت، ہر اقلیم۔ ہر سرزمین کے پھل… ہر موسم اور سال کے ہر مہینے میں! تاہم مدینہ منورہ میں کھجور کا بازار اتنا بڑا نہیں جتنا ذہن توقع کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس مملکت میں کھجور کی سب سے بڑی منڈی کسی اور شہر میں ہو۔ اس وقت دنیابھر کے بازاروں میں جو کھجور وافر مل رہی ہے وہ کیلی فورنیا کی ہے۔ سائز میں خاصی بڑی، شیریں اور نرم۔ تیونس بھی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔
دوست تقاضا کرتے ہیں کہ غیر سیاسی کالم بھی لکھا کرو کہ بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ جب تک طالبان اپنے مذاکرات کاروں کے نام واضح نہیں کرتے اور بہت سے معاملات پر پردہ پڑا ہوا ہے، آپ حضرات پھلوں سے لطف اندوز ہوں اور اگر میسر نہیں تو محض ذکر ہی سے دل بہلائیے، جیسا کہ غالب نے کیا تھا ؎
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ میوہ ہائے تازہ و شیریں کہ واہ واہ
وہ بادہ ہائے ناب و گوارا کہ ہائے ہائے
دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے اور دو کشتیوں میں سفر کرنے والا منزل پر نہیں‘ پانی کی تہہ میں پہنچتا ہے ؛ تاہم اس حقیقت کا ادراک تحریکِ انصاف کو نہیں تھا۔ آج ان کے لیڈر کا نام ان اصحاب کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے قائداعظم کو قائداعظم کہنا تو درکنار‘ اُن کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ جس ملک کو آج انہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے‘ اس ملک کے بانی کا نام لینا گوارا نہیں! اور تحریکِ انصاف ان کے ساتھ‘ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ ترکوں پر جب جدیدیت کا بھوت سوار تھا اور وہ مسلمان کہلوانے سے گریز کرتے تھے تو عقل مند انہیں سمجھایا کرتے تھے کہ تم جو چاہو کرلو‘ تمہیں مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ تحریکِ انصاف کے لیڈر بظاہر اپنے آپ کو عسکریت پسند نہ کہیں‘ سو بار نہ کہیں‘ عسکریت پسندوں نے انہیں اپنا حصہ سمجھا ہے اور ڈنکے کی چوٹ اعلان بھی کیا ہے۔
فتح محمد گدھے پر ریت لاد کر بیچا کرتا تھا۔ اس کے باقی تین بھائی پڑھے لکھے امیر کبیر تھے۔ اس کا ان کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں تھا۔ سوشل لائف اس کی اور تھی‘ اُن کی اور تھی ، لیکن جب کبھی بھائیوں کا شمار ہوتا تو پھتّے (فتح محمد) کا نام امیر کبیر بھائیوں کے ساتھ ہی لیا جاتا اس لیے کہ اس سے مفر نہیں تھا۔ یہ تو ریکارڈ کی بات تھی ، آج جب مغربی سرحد سے ہم نفسوں ، ہم نوائوں کی فہرست سامنے آئی تو اس میں تحریکِ انصاف کے معزز‘ مقبولِ عام لیڈر کا نام کیسے نہ شامل ہوتا اور کیوں نہ ایسا ہوتا، ریسرچ کر کے دیکھ لیجیے‘ خان صاحب دہشت گردی کی مذمت کرتے آئے ہیں‘ دہشت گردوں کا نام کبھی نہیں لیا۔
تو کیا بساط الٹ چکی ہے؟ کیا قائداعظم کا پاکستان اُس طبقے کے سپرد ہونے والا ہے جس کے نزدیک قائداعظم قائد ہیں نہ اعظم! فہرست دیکھ لیجیے‘ دو اصحاب ان جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ڈٹ کر کی تھی۔ آج تک انہوں نے اپنے کیے پر ندامت کا اظہار نہیں کیا حالانکہ فائدہ اٹھانے والوں میں سرِفہرست ہیں۔ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے آج تک‘ چھیاسٹھ برس گزرنے کے باوجود… پاکستان بننے اور بنانے کے ’’گناہ‘‘ کو معاف نہیں کیا۔ ڈیڑھ ماہ پہلے وہاں ایک عالمی کانفرنس ہوئی، اس میں پاکستان سے تیس رکنی وفد گیا ، لیکن یہ وفد انہی علماء پر مشتمل تھا جو اس ’’گناہ‘‘ میں شریک نہیں تھے۔ اس حقیقت میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ اس وقت دینی علوم میں مفتی رفیع عثمانی اور ان کے بھائی جسٹس تقی عثمانی کا مقام بلند ترین ہے۔ تصنیف و تالیف میں‘ اسلامی احکام کی ترویج میں‘ مضامین کے تنوع میں‘ ان حضرات کی خدمات نمایاں ترین ہیں لیکن چونکہ ان کے والد محترم مفتی محمد شفیع مرحوم تحریکِ پاکستان کے سپاہی تھے اس لیے سارے علم و فضل کے باوجود دارالعلوم دیوبند اس خانوادے کو اپنے ہاں آنے کی دعوت نہیں دے سکتا۔ یہ مفتی محمد شفیع ہی تھے جنہوں نے 1944ء میں تدریس سے استعفیٰ دیا اور رات دن تحریکِ پاکستان کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ جن حضرات کو اس حالیہ کانفرنس میں بھارت کے اس مدرسہ نے دعوت دی‘ ان میں سے اکثر کا علم و فضل ’’واضح‘‘ ہے۔ یہ بظاہر ایک سیاسی جماعت ہے جس کو دعوت دی گئی۔
مفتی رفیع عثمانی صاحب کا یہ جرم بھی تو ’’ناقابلِ معافی‘‘ ہے کہ انہوں نے جمہوریت کو کفر قرار دینے والوں کے ساتھ اتفاق نہ کیا۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے جب ایک وڈیو کا شہرہ ملک کے طول و عرض میں تھا، جس کی رُو سے جمہوریت کو کفر اور دجالی نظام کا تسلسل قرار دیتے ہوئے عوام کو ووٹ ڈالنے سے منع کیا گیا تھا اور مسلح جدوجہد کی ترغیب دی گئی تھی تو مفتی محمد رفیع نے وضاحت کی کہ ووٹ شرعی اعتبار سے اہم فریضہ ہے اور یہ کہ قرآن و حدیث کی رُو سے ووٹ کی تین شرعی حیثیتیں ہیں۔ پہلی شہادت‘ دوسری سفارش اور تیسری وکالت۔ ان تینوں حیثیتوں کو سامنے رکھ کر عوام امیدوار کے بارے میں ہر ممکن حد تک تحقیق کریں اور امانت دار، باصلاحیت اور محب وطن امیدواروں کو ووٹ دیں۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ بددیانت اور نااہل کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت‘ بری سفارش اور ناجائز وکالت کے مترادف ہے اور یہ تینوں بدترین گناہ ہیں۔ ووٹ ڈالنے سے روکنے والے یا عوام کو ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور کرنے والے قومی مجرم ہیں۔
مفتی صاحب کی اس تقریر یا وضاحت کے بعد ان کے خلاف ایک غوغا برپا ہوا، یہاں تک کہ بات بات پر علما کے احترام کی تلقین کرنے والے حضرات نے مفتی صاحب اور ا ن کے عالم و فاضل بھائی کے خلاف نازیبا الفاظ تک استعمال کیے۔
تاریخ ایک سفاک کھیل ہے۔ یہ کھیل اپنے قوانین رکھتا ہے۔ اس کا پہلا اور بڑا قانون یہ ہے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور بساط الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ جب اورنگ زیب عالم گیر دہلی اور آگرے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا تھا تو داراشکوہ افغانستان جاتے ہوئے پکڑا جا رہا تھا اور پابہ زنجیر مغل دارالحکومت کی طرف بھیجا جا رہا تھا۔ شیر شاہ سوری اصلاحات کے نفاذ سے برصغیر کی شکل اور تاریخ دونوں تبدیل کر رہا تھا ؛ عین اس وقت ہمایوں‘ ایرانی بادشاہ طہماسپ کا ایسا مہمان تھا جسے طہماسپ عقائد تبدیل کرنے کی تلقین کرتا رہتا تھا اور چاہتا تھا کہ ہمایوں سر پر وہی ٹوپی پہنا کرے جو اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ایران
میں پہنتے تھے۔ آج جب میاں نوازشریف اور تحریک طالبان پاکستان دونوں اپنی اپنی سعی کر رہے ہیں کہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچیں تو یہ جنگ شروع کرنے والے جنرل پرویز مشرف ایک سرکاری ہسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقید ہیں۔ یہ کمرہ جتنا بھی وی وی آئی پی ہو‘ ہے تو ایک کمرہ۔ ہفتوں سے اس کمرے میں محبوس‘ جنرل پرویز مشرف کہیں نہیں جا سکتے۔ چند کلو میٹر کے فاصلے پر‘ ان کا عالی شان فارم ہے جس کے اندر ایک ایسی رہائش گاہ ہے جس میں جدید معیارِ زندگی کی ہر شے موجود ہے اور کروڑوں پاکستانی جس کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں‘ جاگتے میں نہیں دیکھ سکتے‘ لیکن جنرل صاحب اس کی آسائش سے محروم ہیں ، ان کے پاس روپوں‘ ڈالروں‘ پائونڈوں‘ درہموں اور دیناروں کی کمی نہیں‘ جہاز کی فرسٹ کلاس سیٹ تو کیا‘ وہ پورا جہاز بحرِ اوقیانوس کے اس کنارے یا اُس کنارے کے لیے چارٹر کرا سکتے ہیں لیکن تاریخ سفاک ہے۔ وہ چاہے تو ارب پتی پرویز مشرف کو ایک کمرے میں بند کردے‘ چاہے تو اس نوازشریف کو جس کے ہاتھ کھردری رسی سے جہاز کی نشست کے ساتھ باندھ دیے گئے تھے‘ اُس ایوانِ وزیراعظم میں بٹھا دے جو ہسپتال کے چھوٹے سے کمرے سے چند ہی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور چاہے تو افغان سرحد سے اٹھنے والے اور چند سالوں میں ہر طرف چھا جانے والے خاک نشین طالبان کو ایٹمی طاقت کی مالک ریاست کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا کردے ع
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
powered by
worldwanders.com