دھوکا دیا کوفیوں نے۔ اپنے منہ پر ایسی کالک ملی کوفیوں نے جو قیامت تک سارے سمندر اور سارے دریا اور سارے چشمے نہیں دھو سکتے۔ وا حسرتا! بچے کھچے کوفی اِس سرزمین پر آن آباد ہوئے جو خدا اور خدا کے رسولؐ کے نام پر وجود میں آئی تھی! کس کس بات کا ماتم کریں۔ حسینؓ کی شہادت کا یا اس تیرہ بختی کا کہ کوفی ہم میں موجود ہیں!
اس ملک کا خواب دیکھنے والے شاعر نے‘ جس نے کہا تھا ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اُس کی حُسین ابتدا ہے اسماعیل
ہاں اسی شاعر نے کہا تھا ع
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
غور طلب بات یہ ہے کہ کوفی اور شامی ہی کیوں کہے؟
کون صحیح تھا اورکون غلط؟ یہ بات کسی ذاکر سے پوچھتے ہیں نہ کسی مولوی سے ، اقبالؔ سے پوچھتے ہیں جو مولوی تھا نہ ذاکر ، دیکھیے ؎
صدقِ خلیل بھی ہے عشق‘ صبرِ حُسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حُنین بھی ہے عشق
پھر کہتے ہیں ؎
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری
لیکن نواسۂ رسولؐ پر جو کچھ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں لکھا ہے‘ ایک ایسا ادب پارہ ہے اور ایسا خراجِ تحسین ہے جس کی مثال دنیا کی کسی زبان کے لٹریچر میں مشکل سے ملے گی۔ ایک مستقل باب باندھا ہے جس کا عنوان رکھا ہے ’’درمعنیٔ حریتِ اسلامیہ و سرِّ حادثۂ کربلا‘‘
نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
ہرکہ پیمان با ہوالموجود بست
گردنش از بندِ ہر معبود رست
جس نے بھی ہوالموجود کے ساتھ عہد باندھا‘ اس کی گردن دوسرے معبودوں کی قید سے رہا ہو گئی۔
پھر عقل اور عشق کے موازنے میں کئی اشعار کہتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد امام عالی مقامؓ کا ذکر یوں آغاز کرتے ہیں ؎
آن شنیدستی کہ ہنگامِ نبرد
عشق با عقلِ ہوس پرور چہ کرد
کیا تم نے سنا ہے کہ جنگ کے موقع پر ہوس پرور عقل کے ساتھ عشق نے کیا سلوک کیا؟
آں امامِ عاشقان پورِ بتول
سروِ آزادی زبستانِ رسول
وہ عاشقوں کا امام، فاطمہ زہراؓ کا فرزند جو رسولِؐ خدا کے باغ میں آزاد سرو کی طرح تھا۔ ؎
بہر آن شہزادۂ خیرُالملل
دوشِ ختم المرسلین نعم الجمل
تمام امتوں میں سے بہترین امت کے اس شہزادے کے لیے ختم المرسلینؐ کے کندھے کیا ہی خوبصورت اونٹ کے مانند تھے!
درمیانِ امت آن کیوان جناب
ہمچو حرف قل ھواللہ در کتاب
امت میں جنابِ حسینؓ کی حیثیت وہی ہے جو قرآن پاک میں سورۂ اخلاص کی ہے۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آمد پدید
موسیٰؑ اور فرعون‘ ــ شبیرؓ اور یزید ــ یہ دونوں قوتیں زندگی سے وجود میں آئی ہیں۔
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
جب خلافت کا تعلق قرآن سے ٹوٹنے لگا اور حریت کے گلے میں زہر ٹپکایا جانے لگا ۔
خاست آن سر جلوۂ خیرالامم
چون سحابِ قبلہ باراں در قدم
تو اُس خیرالامم کا جلوہ یوں ابھرا جیسے کعبہ سے بادل اُٹھے ، ایسا بادل جو بارش سے بھرا ہو۔
بر زمینِ کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
وہ بادل کربلا کی زمین پر برسا اور چلا گیا ، ویرانوں میں جیسے گلِ لالہ اگایا اور رخصت ہو گیا۔
تاقیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد
ظلم کا خاتمہ وہ قیامت تک کر گئے ، ان کی خون کی موج نے چمنستان کھِلا دیے۔
مدّعائش سلطنت بودی اگر
خود نکردی با چنین سامان سفر
اگر آپ کا مقصد سلطنت کا حصول ہوتا تو اتنی بے سروسامانی کے ساتھ سفر پر نہ روانہ ہوتے۔
تیغِ لا چون از میان بیرون کشید
از رگِ اربابِ باطل خون کشید
جب آپ نے ’’لا‘‘ کی تلوار میان سے باہر کھینچی تو باطل کے ہم نوائوں کی رگوں سے خون نکلنے لگا۔
نقشِ الا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوانِ نجات ما نوشت
ریگستان پر لا الہ الا اللہ کا نقش لکھا۔ یہ نقش کیا تھا؟ ہماری نجات کا عنوان تھا!
یہ اس طویل نظم سے چند منتخب اشعار ہیں۔ اقبال پر پہلے فتوے تو متحدہ ہندوستان میں لگے تھے۔ دیکھیے‘ اب اس مملکت میں جس کا تصور خود اُسی نے پیش کیا تھا‘ اقبال پر کیا گزرتی ہے!
امام ابوحنیفہؒ کو کبھی اشتباہ نہ ہوا کہ عباسی خلفاء صحیح ہیں یا وہ سادات جو وقتاً فوقتاً اُن کے خلاف خروج کرتے رہے۔ جب امام محمد بن عبداللہ نے خروج کیا تو امام جعفر صادقؓ کے شاگردِ رشید امام ابوحنیفہؒ نے اُن کی حمایت کی۔ پھر جب ان کے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ نے خروج کیا تب بھی امام ابوحنیفہؒ نے ان کا ساتھ دیا۔ جب بھی امام ابوحنیفہؒ کو موقع ملتا وہ سادات کی خدمت میں مالی نذرانہ بھی پیش کرتے۔ بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ عباسی خلفاء کے دلوں میں امام ابوحنیفہؒ کے خلاف جو زہر بھرا تھا‘ اُس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ آپ نے چیف جسٹس بننے سے انکار کردیا تھا، عباسی حکمرانوں کے نزدیک ان کا اصل جرم سادات کی حمایت تھی۔
No comments:
Post a Comment