صرف خربوزے ہیں جن کی از حد تعریف کی جا سکتی ہے! ورنہ دنیا کے اس جنوب مشرقی سرے پر، بحرالکاہل کی پہنائیوں کے اس کنارے، میوہ جات کی کمی تو نہیں!
ابنِ خلقان لکھتا ہے کہ محمد بن قاسم کی کمان میں مہم بھیجنے سے پہلے، حجاج بن یوسف نے کہ ہر کام کو درجۂ کمال پر سر انجام دینے کا عادی تھا، ایک ہراول پارٹی بھیجی تاکہ سندھ کے حالات کا جائزہ لے اور اسے مطلع کرے۔ پارٹی کے ارکان نے زمین، زراعت، آب و ہوا اور باشندوں کی خصوصیات کے بارے میں رپورٹ بھیجی۔ ایک فقرہ یہ تھا کہ کھجور یہاں کی اچھی نہیں! عرب دو چیزوں کے بارے میں ازحد حساس ہیں۔ قرآن پاک(جسے وہ اکثر ’’مصحف‘‘ کہتے ہیں)درست تلفظ میں پڑھا جا رہا ہے یا نہیں، اور کھجوروں کی کوالٹی کیسی ہے؟ اقبال نے ضربِ کلیم میں بہائی مذہب کے سب سے بڑے ستون محمد علی باب پر اسی حوالے سے چوٹ کی ہے ؎
تھی خوب حضورِ علما باب کی تقریر
بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعرابِ سمٰوٰت
اس کی غلطی پر علما تھے متبسّم
بولا تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات!
اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد
محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات
سنا ہے غلام احمد پرویز بھی، ساری قوتِ تحریر کے باوجود قرآن صحیح نہیں پڑھ پاتے تھے۔ پرویز کا ذکر ہوا تو ایک اور دلچسپ واقعہ حافظہ کے بادل سے باہر نکل رہا ہے۔ کسی نے عطاء اللہ شاہ بخاری سے کہا کہ شاہ جی غلام احمد پرویز کیسے غلط ہو سکتے ہیں، درس دیتے ہوئے رو رہے تھے۔ شاہ صاحب سے یہ واقعہ بیان کرنے والے حافظِ قرآن تھے۔ شاہ صاحب نے ایک ثانیے کا تامل بھی نہ کیا اور فرمایا: واہ، اوئے حافظا! تم رونے سے متاثر ہو گئے پھر انہوں نے قرآن کی آیت پڑھی’’ شام کو وہ (یوسفؑ کے بھائی) روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے کہ… بھیڑیا آکر کھا گیا‘‘
بات کھجور کی کوالٹی سے چلی تھی۔ عرب بہت کچھ معاف کر سکتے ہیں لیکن کھجورکی کوالٹی پر سمجھوتہ نہیںکرتے۔ ان سطور کا لکھنے والا اس علاقے میں پلا بڑھا ہے جہاں اس زمانے میں دو ہی عیاشیاں تھیں۔ بکرے کا گوشت، اعلیٰ درجے کا پکا ہوا اور میٹھے خوشبو دار خربوزے، ایسے کہ ایک خربوزہ پوری حویلی کو مہکار سے بھر دیتا تھا۔ اب تو وہاں بہت کچھ آگیا ہے۔ وہ ساری پٹی مونگ پھلی کا پیداواری گڑھ بن چکی ہے۔ مالٹا نہری علاقے کے مالٹے کو مات کرتا ہے اور زرعی سائنس دانوںکی حالیہ تحقیق کی رو سے فتح جنگ اور تلہ گنگ کا پورا علاقہ بادام کی کاشت کے لیے بہترین ثابت ہوا ہے۔ اگر کسی کو نہیں معلوم تو مان لے کہ فروری بادام کا پودا لگانے کا سب سے اچھا وقت ہے۔
اس سے پہلے کہ توسنِ قلم پھر گمراہ کردے، خربوزے کا قضیّہ نمٹاتے چلیں۔ خربوزوں کی کوالٹی پر یہ گنوار بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ یہاں، دنیا کے اس سب سے بڑے جزیر ے میں جو خربوزہ غایت درجہ شیریں ہے، راک میلن کہلاتا ہے۔ تعجب ہے کہ امریکہ میں ہنی ڈیو (Honeydew) پہلے نمبر کا خربوزہ ہے لیکن یہاں راک میلن اس سے کئی فرسنگ آگے ہے۔
خربوزوں کا قصہ اتنا مختصر بھی نہیں۔ فارسی شاعری کے کئی دو اوین ایک طرف اور کلیاتِ شمس تبریز سے رومی کا ایک شعر ان پر بھاری ؎
بادۂ خاص خوردہ ای، نقلِ خلاص خوردہ ای
بوئی شراب می دہد، خربزہ در دہان مکن
’’تو نے کوئی بہت ہی اعلیٰ درجہ کی شراب پی ہے ، منہ کی خوشبو سے صاف پتہ چل رہا ہے، خربوزہ کھانے سے اب کچھ حاصل نہ ہو گا‘‘
خربوزوں کی وہ مہک اب داستانِ پارینہ ہو چکی ہے جو شراب کی بُو بھی منہ سے زائل کر دیتی تھی۔ پاک و ہند میں پیدا ہونے والے خربوزے سے، افغانستان کا خربوزہ دس گنا زیادہ شیریں ہے اور وسط ایشیا کا خربوزہ، افغانستان کے خربوزے سے دس گنا مزید شیریں تر ہے۔ آگرہ میں بابر کابل کا خربوزہ کاٹتا جاتا اور آنسو بہاتا جاتا۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اب جب طیارے، آن کی آن میں سب کچھ کہیں سے کہیں لا سکتے ہیں، وسط ایشیا اور پاکستان کے درمیان تجارت… اگر تجارت نامی کوئی چڑیا ہے تو پھلوں سے مکمل عاری ہے لیکن اس وقت، جب اونٹ اور گھوڑے نقل و حمل کا واحد ذریعہ تھے، دلّی کے بازار وسط ایشیا کے پھلوں سے چھلک چھلک پڑتے تھے، شاہ جہان اور پھر اورنگ زیب کا ہم رکاب، فرانس کا ڈاکٹر برنیئر اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ دہلی کے بازار ایران، بلخ، بخارا اور سمر قند کے پھلوں سے بھرے رہتے تھے۔ بادام، پستہ، اخروٹ، کشمش اور خوبانی کا بطور خاص ذکر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اعلیٰ نسل کا انگور، سفید بھی اور سیاہ بھی، انہی ملکوں سے سوتی کپڑے میں لپٹا ہوا آتا تھا۔ کئی اقسام کی ناشپاتیاں اور سیب منگوائے جاتے تھے، لیکن خربوزوں کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ کابل اور وسط ایشیا کے خربوزے مہنگے تھے۔ یعنی ڈیڑھ کرائون میں ایک خربوزہ۔ کرائون سے مراد یہاں شاید اشرفی ہے اور خربوزہ بڑے سائز کا ہوتا تھا جسے ہم سردا یا گرما کہتے ہیں۔ مقامی خربوزوں کو وہ کم تر لکھتا ہے۔ آموں کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں دو ماہ آم وافر تھا اور بہترین قسم وہ تھی جو گوا، گولکنڈہ اور بنگال سے آتی تھی۔ ’’ میں نے کوئی شیرینی لذیذ تر نہیں دیکھی‘‘۔ اس کا بیان ہے!
ڈھاکہ کے آم تو اس فقیر نے بھی بہت کھائے ہیں۔ ایک روپے میں چھ آتے تھے اور ذائقے میں آسمانی پھل لگتے تھے۔ اپنے رب کی کون کون سی نعمتیں جھٹلائو گے!
حیرت تو مکہ اور مدینہ کی بے آب و گیاہ گھاٹیوں میں دنیا بھر کے میوہ جات کی فراوانی دیکھ کر ہوتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا(بوادٍ غیرِ ذی زرعٍ)جس طرح قبول ہوتی نظر آتی ہے، انسان گنگ رہ جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ سے لے کر کیلی فورنیا تک۔ ہر ولایت، ہر اقلیم۔ ہر سرزمین کے پھل… ہر موسم اور سال کے ہر مہینے میں! تاہم مدینہ منورہ میں کھجور کا بازار اتنا بڑا نہیں جتنا ذہن توقع کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس مملکت میں کھجور کی سب سے بڑی منڈی کسی اور شہر میں ہو۔ اس وقت دنیابھر کے بازاروں میں جو کھجور وافر مل رہی ہے وہ کیلی فورنیا کی ہے۔ سائز میں خاصی بڑی، شیریں اور نرم۔ تیونس بھی اپنی سی کوشش کر رہا ہے۔
دوست تقاضا کرتے ہیں کہ غیر سیاسی کالم بھی لکھا کرو کہ بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ جب تک طالبان اپنے مذاکرات کاروں کے نام واضح نہیں کرتے اور بہت سے معاملات پر پردہ پڑا ہوا ہے، آپ حضرات پھلوں سے لطف اندوز ہوں اور اگر میسر نہیں تو محض ذکر ہی سے دل بہلائیے، جیسا کہ غالب نے کیا تھا ؎
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ میوہ ہائے تازہ و شیریں کہ واہ واہ
وہ بادہ ہائے ناب و گوارا کہ ہائے ہائے
No comments:
Post a Comment