ایک زمانہ تھا اس ملک میں دو بڑے طبقے تھے‘ سیاسی اشرافیہ ایک طرف اور عوام دوسری طرف۔ سیاسی اشرافیہ میں جاگیردار بھی شامل تھے‘ سردار بھی‘ صنعت کار بھی اور موروثی سیاست دان بھی۔ یہ لوگ حکومت میں ہوتے تھے یا اپوزیشن میں لیکن جہاں بھی ہوتے تھے قانون سے بالاتر تھے۔ ان کی کرپشن کو کوئی پوچھ سکتا تھا نہ فوجداری جرائم کو‘ اسلحہ ان کے پاس بے شمار تھا‘ سرکاری اہلکار ان کے ذاتی ملازموں کی طرح تھے۔ ان کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ ان کی ڈگریاں جعلی تھیں اور سب کو معلوم تھا لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اسمبلیوں میں نشستیں موروثی چلی آ رہی تھیں۔ حلقے میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔
جسٹس افتخار چودھری نے عدالتی ایکٹوزم شروع کیا تو سیاسی اشرافیہ زیرِ دام آ گیا۔ وہ کچھ ہوا جس کا کبھی کسی نے تصور تک نہ کیا تھا۔ جعلی ڈگریوں والے سرعام رسوا ہوئے۔ اسمبلیوں سے انہیں نکال دیا گیا۔ کرپشن کے مقدمے چلنے شروع ہو گئے۔ ایک وزیر اعظم کو‘ جو اس سیاسی اشرافیہ کا بہت بڑا رکن تھا‘ عدالت نے وزارتِ عظمیٰ سے نکال کر باہر شاہراہ پر پھینک دیا۔ دوسرا وزیر اعظم بھی عدالت میں طلب کر لیا گیا۔ ٹیکس چوری کے معاملات بھی عوام کی نظروں میں آ گئے۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کو بھی عدالتوں میں حاضر ہونا پڑا۔ عدالت نے انہیں باقاعدہ مجرم قرار دیا‘ یوں سیاسی اشرافیہ کے سارے اجزا ایک ایک کر کے قانون کے آگے سرنگوں ہو گئے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاسی اشرافیہ اب بھی طاقت ور ہے لیکن یہ طاقت چند دن کی مہمان ہے۔ جو پراسیس شروع ہوا ہے‘ واپس نہیں پلٹ سکتا۔ اس طبقے کو اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے کہ اب وہ قانون کو پائوں کی جوتی نہیں قرار دے سکتا۔ سیاسی اشرافیہ جوہری طور پر رو بہ زوال ہے۔ جمشید دستی جیسے عام شہریوں نے ان سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔
آج جو طبقہ‘ جو کلاس‘ اس ملک میں سب سے زیادہ طاقت ور ہے‘ وہ مذہبی کلاس ہے۔ یہ سن کر ابتدا میں آپ کو حیرت ہو گی لیکن غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ آج کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس طبقے میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو مذہب کو ذریعہ روزگار بنائے ہوئے ہیں یا مذہب کو سیاست میں اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ مذہب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کلاس کسی ایک نہیں‘ کئی فرقوں پر مشتمل ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے سیاست اور اقتدار میں آگے نکل گئے ہیں اور کچھ ابھی آگے بڑھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
اس طبقے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اس میں شامل افراد مخصوص وضع قطع رکھتے ہیں اور لباس کے حوالے سے بھی پہچانے جا سکتے ہیں۔ اس کی دوسری بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ قانون سے بالاتر ہے۔ اس کے ارکان جو چاہیں کریں‘ انہیں کوئی روک سکتا ہے نہ ٹوک سکتا ہے۔ مذہب ان کے پاس ایسا ہتھیار ہے جسے یہ اپنے دفاع میں کمال چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ اعلان کرتے ہیں کہ ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
دلچسپ لیکن حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقہ‘ مجموعی طور پر‘ شریعت کے احکام کی مطلق پروا نہیں کرتا اور اسلامی تعلیمات کی دل کھول کر خلاف ورزی کرتا ہے۔ آپ اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تو حیرت و استعجاب کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں ہزاروں لاکھوں مدارس عوام کے چندوں پر چل رہے ہیں۔ یہ چندہ عوام کی امانت ہے۔ عوام اس لیے دیتے ہیں کہ مدرسہ کے اخراجات اس سے پورے کیے جائیں گے لیکن اکثر و بیشتر مدارس میں ’’مالکان‘‘ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات بھی اسی سے پورے ہوتے ہیں۔ امانت میں یہ کھلی خیانت ہے لیکن ان کا حساب کتاب جانچنے کی‘ چیک کرنے کی‘ کسی میں ہمت نہیں!
ہم سب جانتے ہیں کہ شریعت میں کسی جگہ پر ناجائز قبضہ کر کے مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ راتوں رات سرکاری زمین پر قبضہ کر کے اُسے مدرسہ میں شامل کرنے کی بات تو سب کو معلوم ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راتوں رات سرکاری زمینوں پر مسجدیں بنا دی جاتی ہیں۔ مسجد بن جانے کے بعد سرکاری ادارے بے بس ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گندے نالے کے اوپر بھی مسجد بنائی گئی جس کی بدبو‘ مسجد کے اندر نمازیوں تک آتی ہے۔ آقائے دو جہاںؐ اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ پیاز اور لہسن کھا کر بھی مسجد میں آنا ناپسند فرمایا ہے۔
اس طبقے میں عدل و انصاف کی پامالی عام ہے۔ یہ ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں صرف اس لیے کہ جرم کرنے والا ان کی کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک کالم نگار نے کچھ عرصہ پہلے لکھا… ’’چند سال پہلے جب میں نے مولانافضل الرحمان کے متعلق فوجی اور سرکاری زمینوں کے سلسلے میں مرحوم قاضی حسین احمد صاحب سے بات کی تو وہ مجھ سے خفا ہوئے کہ میں کسی اسلامی سیاسی جماعت کے رہنما کے خلاف کیوں خبر لکھ رہا ہوں‘‘۔
روزنامہ جنگ چھ جنوری 2014
حالانکہ عصبیت کی بنا پر مجرم کی طرف داری کرنا خلافِ
شریعت ہے!
شریعت میں کسی پر غلط الزام لگانا یا بہتان باندھنا منع ہے
لیکن یہ طاقتور طبقہ اپنے مفاد کے لیے افترا پردازی سے بھی گریز نہیں کرتا۔ ایک مشہور و معروف دینی ماہنامہ کے رئیس التحریر‘ جو عالمِ دین ہیں‘ ستمبر 2011ء کے پرچے میں لکھتے ہیں:
’’راقم الحروف تحریک کے ایک اور راہ نما کے ساتھ اے سی… سے ملا کہ وہ (جلسے میں لائوڈ سپیکر کی) اجازت دے دیں۔ انہوں نے حالات کی خرابی کے عنوان سے ٹال مٹول کرنا چاہی۔ میرے ساتھ جانے والے دوست نے اچانک اُن سے کہہ دیا کہ آپ… تو نہیں ہیں؟ اے سی کچھ گھبرا سا گیا اور یہ کہہ کر منظوری کے دستخط کر دیے کہ مولوی صاحب! اتنا بڑا الزام مجھ پر نہ لگائیں اور جائیں جا کر جلسہ کریں۔ اے سی کے دفتر سے نکلے تو مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کہا‘ اس کے بغیر وہ اجازت نہ دیتا… بعد میں یہ بات آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئی کہ ہم بسا اوقات اپنا کام نکلوانے کے لیے
یا کوئی غصہ نکالنے کے لیے بھی کسی اچھے بھلے مسلمان کو…… کہنے سے گریز نہیں کرتے‘‘۔
اس کے بعد مدیر نے ایک فقرہ لکھا ہے‘ جو ہمارے اس کالم کے پورے تھیسس کو درست ثابت کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں…
’’اس کے بعد تحریکی زندگی میں بہت سے مراحل ایسے آئے کہ اچھے خاصے بزرگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرنا پڑا‘‘۔
اس طبقے کے افراد نے تعلیمی اداروں کے ہوسٹلوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں۔ بغیر قیمت ادا کیے کینٹینوں سے کھانا پینا عام ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے استاد کا بہت بڑا مقام ہے لیکن یہاں اساتذہ کی جسمانی ’’خدمت‘‘ روزمرہ کا معمول ہے۔
اس طبقہ کے رہنمائوں نے ٹی وی کو ناجائز قرار دیا۔ ہزاروں لاکھوں افراد نے گھروں میں ٹی وی رکھنے سے انکار کیا۔ خاندانوں میں جھگڑے ہوئے۔ بے شمار مثالیں ہیں کہ طلاق تک نوبت پہنچی۔ لیکن اگر شوبزنس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس طاقتور طبقے میں شامل ہو جائے اور شوبزنس کو چھوڑنے پر رضامند نہ ہو تو ٹی وی جائز ہو جاتا ہے۔ دین پڑھانے کا معاوضہ لینا چاہے تو اس کی بھی صورت نکل آتی ہے۔ سنا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ معاوضے کو معاوضہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ٹی وی چینل کی طرف سے ’’قرض‘‘ ہوتا ہے جو بعد میں ’’معاف‘‘ کر دیا جاتا ہے! (اگر ایسے افراد ٹی وی پر درس دینے کا معاوضہ نہیں لیتے تو انہیں اس بارے میں وضاحت کر کے عوام کے شبہات دور کرنے چاہئیں!)
اس طاقتور طبقے کو چیلنج کرنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہے۔ یہ قانون سے ماورا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ سر جھکا کر جینا سیکھیں اور گزارا کریں۔
No comments:
Post a Comment