Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, February 08, 2013

اے اہل کشمیر



یہ جو ہم پانچ فروری کو ہر سال یومِ کشمیر مناتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے۔ ہم تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ کوہالہ، منگلا اور جانے کہاں کہاں انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بناتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔ جلوس نکالتے ہیں، بین الاقوامی اداروں کو یادداشتیں پیش کرتے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کو مسئلے کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں اور بھارت کو پیغام دیتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر پاکستان کا ہے اور یہ کہ ہم جلد یا بدیر، کشمیر لے کر رہیں گے۔ یہ سب کچھ جو ہم پانچ فروری کو کرتے ہیںعلامتی سرگرمیاں ہیں۔ یہ دن اس عہدِ وفا کی علامت ہے جس کی ہم تجدید کرتے ہیں، اپنے ساتھ اور اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ!

تاہم اصل تیاری جو ہم کر رہے ہیں اُس کا دنیا اور اہلِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم ملک کے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جب کشمیر پاکستان میں شامل ہو تو ہم فخر کے ساتھ اہلِ کشمیر کو ان کا نیا وطن پیش کر سکیں۔ ہم اکثر و بیشتر اس المناک حقیقت کا رونا روتے ہیں کہ بھارتی ملازمتوں میں بھارتی مسلمانوں کا حصّہ برائے نام ہے۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور ان کی آبادی کے مقابلے میں نوکریوں کی تعداد کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم پاکستان میں میرٹ کا بول بالا کر رہے ہیں۔ کل جب کشمیر کے نوجوان غلامی کی زنجیریں کاٹ کر اس وطن کو گلے لگائیں گے تو یہ دیکھ کر پھولے نہیں سمائیں گے کہ ان کے نئے ملک میں سفارش کی ضرورت ہے نہ کوئی انہیں ان کے حق سے محروم رکھ سکتا ہے۔

بیرون ملک تعیناتیوں ہی کو لے لیجیے، یہ سب مکمل ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ اصل میرٹ تک پہنچنے کے لیے پارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوں میں بیرون ملک پوسٹیں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ یوں تو ماشاء اللہ جب سے یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، بیرون ملک تعیناتیاں صرف اور صرف ’’میرٹ‘‘ پر ہو رہی ہیں؛ تاہم موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں ماضی کی شفافیت کو مات کر دیا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ کشمیری بھائی آئیں تو بھارتی ناانصافیوں سے نجات پانے پر سجدۂ شکر ادا کریں۔ حکومت نے بیرونِ ملک تعینات چالیس سے زیادہ کمرشل کونسلروں کو اچانک واپس بلا لیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ آسامیاں وفاداروں میں تقسیم کی جائیں گی۔ ان آسامیوں کو پُر کرنے کے لیے امتحان لیا گیا تھا۔ یہ امتحان لاہور کی ایک بین الاقوامی شہرت کی حامل یونیورسٹی نے منعقد کیا۔ پہلے یونیورسٹی کو بتایا گیا کہ ساٹھ فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو کامیاب قرار دیا جائے لیکن اس معیار سے میرٹ کا حق نہیں ادا ہو رہا تھا۔ میرٹ کا بول بالا کرنے کے لیے اور قابل ترین امیدواروں کو موقع دینے کے لیے معیار ساٹھ فیصد سے کم کرکے چالیس فیصد کر دیا گیا یعنی چالیس فیصد نمبر حاصل کرنے والے بھی تعیناتی کے اہل ہوں گے! سونے پر سہاگہ یہ کہ یونیورسٹی کو حکومت کی طرف سے ہدایت دی گئی کہ کامیاب امیدواروں کے نمبر صیغۂ راز میں رکھے جائیں حالانکہ اس سے پہلے اسی قسم کے امتحانات کے نمبر بتا دیے جاتے تھے۔ یہ نمبر صرف وزیرِ تجارت کے علم میں ہیں جو انٹرویو بورڈ کے صدر ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ وزیرِ تجارت ٹیکس ریٹرن ہی نہیں فائل کرتے۔

میرٹ کی اس کہانی کا دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب اخباری نمائندے نے وزارتِ تجارت کے ترجمان افسر سے پوچھا کہ کیا کمرشل کونسلروں کے انتخاب میں سیاسی اثر و رسوخ کا عمل دخل بھی ہو رہا ہے؟ افسر کا جواب لاجواب تھا۔ آپ نے فرمایا… ’’سلیکشن کمیٹی کے صدر وزیرِ تجارت ہیں جو سیاست دان ہیں۔ سیاست کوئی بُری چیز نہیں…‘‘۔ تعجب ہے کہ اس تاریخی جواب پر ابھی تک وزارت کے ترجمان کو کوئی تمغہکوئی انعام نہیں دیا گیا۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پارٹی کے بڑوں میں سخت کھینچا تانی ہو رہی ہے کہ کس بڑے کو کتنی تعیناتیاں ’’الاٹ‘‘ ہوں گی!

ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمان نوجوانوں کو مبارک دیتے ہیں کہ جس پاکستان سے الحاق کے لیے وہ اپنی جانوں کا نذرانہ دے ہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں اس پر خالص میرٹ کی حکمرانی ہے۔

فخر کے اسباب اور بھی ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی ترقی نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں سے ان کی ٹیکس چوری کے بارے میں کُھل کر دو ٹوک بات کی جائے۔ کمیٹی کے سربراہ سر میلکام برُوس نے بین الاقوامی ترقی کی برطانوی وزیر جسٹین گریننگ سے کہا ہے کہ تم پاکستانی سیاستدانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیوں نہیں کہتیں کہ ’’میں برطانیہ میں ٹیکس ادا کرتی ہوں کیا تم پاکستان میں ٹیکس دے رہے ہو…‘‘؟ کمیٹی کے سربراہ کو جب

معلوم ہوا کہ پاکستان کے ستّر فیصد عوامی نمائندے ٹیکس نہیں دیتے تو ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وزیر بین الاقوامی ترقی نے یقین دلایا کہ وہ اپنے دورۂ پاکستان میں یہ مسئلہ اٹھائیں گی۔ اس پر کمیٹی کے سربراہ نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا کہہم توقع کرتے ہیں کہ یہ دورہ اس حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ کمیٹی کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکومت مدد چاہتی ہے۔ ’’یہ لوگ ہمارے ٹیکس کھا رہے ہیں لیکن خود ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ بنکوں میں ان کے اربوں پائونڈ پڑے ہیں اور پیسہ آئی ایم ایف سے مانگتے پھر رہے ہیں…‘‘ کمیٹی کی ایک اور رکن (فیانا ڈونل) نے اپنے گزشتہ دورۂ پاکستان کے حوالے سے کہا… ’’میں نے عام پاکستانیوں کو یہ کہتے سنا کہ ہم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ حکومت اس قدر بدعنوان ہے کہ اس سے کسی اچھے کام کی توقع ہی نہیں۔ ہم یہی رقم کسی خیراتی ادارے کو دینا پسند کریں گے…‘‘

انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بنانے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا یا نہیں؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن یہ امر یقینی ہے کہ پاکستان سے الحاق کے بعد کشمیری نوجوان اُن ناانصافیوں کو بھول جائیں گے جو بدبخت بھارتی ہندو اُن سے روا رکھے ہوئے ہیں!

پاکستان ایک باغ ہے۔ سرسبز و شاداب باغ۔ پُرامن باغ۔ جس میں ہر طرف میرٹ کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ اے اہلِ کشمیر! خوش آمدید! ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔

 

 

1 comment:

افتخار اجمل بھوپال said...

بات تو آپ نے پتے کی کہی ہے ۔ ہمارے لوگوں نے اپنا حال ایسا بنا لیا ہے کہ کسی دوسرے کو ہمارے ساتھ بغلگیر ہوتے ہوئے ہچکچاہٹ ہو ۔ کبھی روٹی کپڑا مکان کو ووٹ دیا جاتا ہے کبھی کسی اور وعدے کو ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1970ء کے انتخابات سے پہلے ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے مودودی صاحب نے کہا تھا کہ اُن کی جماعت اللہ کا قانون نافذ کرنے کی کوشش کرے گی ۔ اس کے نتیجہ میں صرف 5 نشستیں ملی تھیں اور وہ بھی کراچی میں ۔ اب کراچی بھی سیکولر لوگوں کا بن چکا ہے ۔ جو قوم مالک حقیقی کو ہی بھلا دے وہ فلاح کیسے پا سکتی ہے
ہاں ہماری قوم سے نعرے لگوا لیں ۔ جلوس نکلوا لیں ۔ توڑ پھوڑ کروا لیں ۔ ان کاموں کی ماہر ہے ۔ جو اس سب میں شامل نہیں ہوتے یا تو بہت مالدار ہیں اور ھدائتکار کا کام کرتے ہیں یا لمبی تان کے سوتے ہیں اور میرے جیسے کو بیوقوف یا پاگل کا لقب دیتے ہیں

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com